صبح غازی اور صوفیہ ٹیرس پر کھڑے کسی کا انتظار کر رہے تھے گھر میں شادی کے ہنگاموں کی وجہ سے انہیں اپنے الٹے سیدھے پلینز بنانے کا ٹائم آسانی سے مل جاتا تھا۔ ابھی بھی وہ کھڑے کوئی نیا منصوبہ بنا رہے تھے جب انہیں نرمین کے چیخنے کی آواز آئی۔
"ارے زاشا تم آگئی بتایا بھی نہیں۔" نرمین کی آواز پر ان دونوں نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر زاشا ان کی پھوپھو کی بیٹی کھڑی تھی لمبا قد،کھڑی مغرور ناک میں چمکتی لونگ ، صاف رنگ، کندھوں تک سٹیپ کٹ بال اس کے خوبصورت ہونے کی علامت تھے۔ اور اسے اپنی اس خوبصورتی کا ادراک بھی تھا۔
"لو آگئی تمھاری اکلوتی کزن" غازی نے ناک سکوڑ کر کہا۔
"ہاں اور وہ جیسے تمہاری تو کچھ نہیں لگتی نا؟ " صوفیہ نے بھی تیوریاں چڑھا کر کہا۔
"چلو اب شام کو بارات ہے اور ابھی تک تم لوگوں کے جوتے نہ لے ہوئے ۔"غازی نے نیچے چلنے کا اشارہ کیا جہاں نرمین اور زاشا باتیں کر رہی تھیں۔
"ہاں بھئی کزن چلیں؟" صوفیہ نے زاشا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔ غازی سر نفی میں ہلاتا کار نکالنے چلا گیا۔
"تم ہاتھ رکھے بغیر بھی بات کر سکتی ہو" زاشا نے اسکا ہاتھ کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
"ہاں ٹھیک ہے چلو اب۔" صوفیہ نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔
................................
"نائلہ غازی کیتھے آ گڈی وی نہیں کھڑی؟" انجم صاحب نے نائلہ سے پوچھا۔
"کڑیاں نوں لے کے گیا وا جوتیاں لینیاں سی" نائلہ بیگم نے بتایا ۔
"فیر ہن میرے نال ہوٹل دے انتظام کون دیکھن جاؤ گا۔"
"میں لے جاتا ہوں تایا ابو میں ویسے بھی باہر جا رہا تھا۔" عاصم نے پیشکش کی ۔
"ہاں ٹھیک ہے لے چلو ۔ تم چکو میں آیا۔" یہ کہ کر انجم صاحب اندر سے کچھ اٹھانے چلے گئے۔
..............................