ولیمہ

56 12 3
                                    

آج دوپہر کو ولیمہ تھا اور شام کو زرخاب اور لیلی' کی فلائیٹ تھی وہ دونوں امریکا شفٹ ہو رہے تھے۔ صبح جلدی اٹھ کر پلوشے آپی لیلی' کو پارلر لے گئیں تھیں انہوں نے خود بھی تیار ہونا تھا اور انہیں جنید پلوشے آپی کے شوہر نے پک کرنا تھا۔ گھر میں بھی سب تیار ہو رہے تھے۔
"کیا ہوا ہے صوفی ادھر کیوں آ گئی میک اپ بھی نہیں کیا۔" وردہ صوفیہ کو ڈھونڈتی ٹیرس پر آئی تو وہ اسے وہیں بیٹھی نظر آئی۔
"زرخاب بھائی چلے جائیں گے میں ان کو مس کروں گی" صوفیہ نے روہانسے لہجے میں کہا جو ٹیرس پر آتے زرخاب نے سن لیا تھا۔
"ارے میری پیاری بہن میں آتا جاتا رہوں گا یا تمہیں بلا لیا کروں گا۔" زرخاب نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا وردہ یہ منظر مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔صوفیہ بھی زرخاب کے ساتھ لگی آنسو بہا رہی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں؟" اچانک ہی زاشا کی آواز پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"تمہیں شرم نہیں آتی بھائی ہیں وہ تمہارے اور تم ان کے گلے لگے کھڑی ہو ارے اتنی ہی محبت جاگ رہی ہے تو خود کر لیتی شادی ان سے." زاشا نے زہر خند لہجے میں صوفیہ کو مخاطب کیا وہ تو جیسے سکتے میں ہی آگئی تھی۔
"زاشا! جب کچھ پتا نہ ہو توزبان کو بند رکھا کرو۔"زرخاب نے سختی سے زاشا کو ٹوکا۔ وردہ نے حیرت میں ڈوبی صوفیہ کو اپنے ساتھ لگایا۔ جس نے پنک میکسی پہنی ہوئی تھی بال سٹریٹ کر رکھے تھے بس میک اپ کرنا باقی تھا۔شور کی آواز سن کر مینا بیگم،شانزے بیگم،شگفتہ بیگم،نائلہ بیگم اور غازی بھی ٹیرس پر آگئے تھے۔
"کیا ہوا ہے اتنا شور کس لیے مچایا ہوا ہے۔" غازی نے حیرت سے ان چاروں کی دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"آؤ غازی آؤ دیکھو اپنی لاڈلی صوفیہ کے لچھن تمہارے بھائی جس کا آج ولیمہ ہے اس کے گلے لگی ٹسوے بہا رہی ہے۔" زاشا نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ غازی کو دیکھ کر کہا۔
"ہاں تو اس میں شور مچانے والی کونسی بات ہے۔" نائلہ بیگم نے حیرت کو قابو کرت ہوئے جواب دیا ۔
"مامی جان آپ پوچھ رہی ہیں کہ شور کیوں مچا رہی ہوں۔ اس بدکردار لڑکی نے آپ کے دونوں بہٹوں کو پھنسایا ہوا ہے۔" زاشا نے ترحم سے نائلہ بیگم کو دیکھ کر کہا۔
"بس زاشا اب میں ایک لفظ اور نہیں سنوں گی تم میری بیٹی ہو اس کامطلب یہ نہیں تمھاری ہر فضول بات مان لی جائے گی مجھے صوفی پر تم سے زیادہ بھروسہ ہے اب اپنی زبان بند کرو اور چلو نیچے۔"شانزے بیگم نے غصے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور نیچے لے گئیں ان کے پیچھے ہی صوفیہ اپنے آنسو پوہنچتی کمرے میں بھاگی باقی سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"

صوفی دروازہ کھولو سب ہال پہنچ گئے ہیں ہمیں بھی جانا ہے۔" صوفیہ اس وقت کی کمرے میں گھسی باہر نہیں آئی تھی۔اب وردہ اور غازی اس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ایک دم دروازہ کھلا اور صوفی کا دھلا دھلایا چہرہ سامنے آیا جس پر میں اپ کے نام پر صرف لپسٹک لگائی تھی۔ غازی نے تاصف سے اس کی روئی روئی آنکھوں کو دیکھا ارو باہر کی طرف چل دیا وہ دونوں بھی خاموشی سے آ کر گاڑی میں بیٹھ گئیں خلاف عادت صوفیہ نے فرنٹ سیٹ کے بجائے بیک سیٹ کو ترجیح دی یہ بات غازی کو چبھی تھی لیکن وہ ابھی کچھ بھی کہنے کا سننے کا وقت نہیں تھا اس لیے اس نے خاموشی سے گاڑی ہال کے راستے پر ڈال دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"

اسلام علیکم لیلی' بھابھی۔" صوفیہ نے سٹیج پر آ کر بھابھی کو سلام کیا جبکہ زرخاب کو فل اگنور کیا۔
"وعلیکم اسلام کیسی ہو چندا؟" انہوں نے پیار سے پچکارتے ہوئے پوچھا۔
"بلکل ٹھیک۔" صوفیہ نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ دور کھڑے عمغازی سے اس کی مسکراہٹ چھپ نہ سکی لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا وہ اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی۔
"اپنے سرخاب کے پر سے نہیں پوچھو گی؟" زرخاب نے اس کی توجہ اپنی طرف کرائی۔جسے صوفیہ اگنور کرتی سٹیج سے اتر کر ایک کونے کی طرف چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"

زاشا تم نے آج جو ہرکت کی ہے نہ میرا تم سے بات کرنے کا دل نہیں کر رہا تم میری ہی بہن پر اتنا بڑا الزام کیسے لگا سکتی ہو۔" نرمین کو جب سے پتا لگا تھا وہ غصے سے بھری پڑی تھی۔
"اس وقت وہ لوگ جس پوزیشن میں تھی کوئی بھی ہوتا یہی سوچتا۔" زاشا نے کندھے اچکا کر کہا۔
"کوئی بھی ہوتا یہ نہ سوچتا زاشا میڈم کیوں کے اسے ہر کوئی اچھے سے جانتا ہے یہ تمہارے اندر کا حسد ہے جو یوں باہر نکلا ہے۔" غازی نے گزرتے ہوئے ان کی بات سنی تو اسی طرف آ گیا۔
"ٹھیک کہ رہا ہے غازی اور اب مجھے تم سے دوستی نہیں رکھنی راستہ ناپو اپنا۔" نرمین اسے غصے سے کہتی وہاں سے چلی گئی غازی بھی اس پر ترحم بھری نگاہ ڈال کر چلا گیا پیچھے سے وہ غصے سے صوفیہ کو برا بھلا کہ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں۔۔Onde histórias criam vida. Descubra agora