" جی بولیں آپ نے بلایا تھا "
فارب نے ریسٹورینٹ میں شہلا کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
شہلا کافی بدلی بدلی لگ رہی تھی اس کا حلایا اس بات کی گواہی دے رہا تھا۔
" فارب میں نے تمھاری باتوں کے بارے میں سوچا تم ہر طرح سے صحیح تھے میں غلط تھی میں اب اور اس شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی طلاق نہیں لے رہی لیکن اب سب چھوڑ کر جارہی ہوں باہر لیکن اس سے پہلے میں تمھیں کچھ دینے آئی ہوں ہوسکتا ہے تمھارے کچھ کام آئے مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا اللّٰہ حافظ اور ہاں تمھارا بہت بہت شکریہ مجھے صحیح راستے کی پہچان کروانے کا"
اس نے مسکرا کر کہا اور چل دی فارب نے وہ فائیل اٹھائی اور جب کھولا تو وہ دھنگ رہ گیا۔
____________
" میں تو بس سیدھی سیدھی اتر رہی تھی ایک دم پاؤں مڑا اور گر گئی ہائے اللّٰہ اتنا درد ہوا مت پوچھیں وہ تو فارب گزر رھا تھا تو اس نے مجھے سہرا دے کر اٹھایا تھا اور مجھے تو چلتے ہوئے بھی لگ رہا تھا میری ہڈی تو گئی لیکن آپ کو کیسے پتہ ہوگا موچ آنے کا درد کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔"
شایان اس کی عیادت کو ایا ہوا تھا اور جس انداز سے فارب نے گرنے کا بتایا تھا آتے ساتھ ہی ایک صحیح کا مکا بھی جڑا گیا تھا اس کے اب وہ اور فارب بیٹھے افراح سے پورے واقعے کی روادار سن رہے تھے ۔
آخری بات پر تو شایان کی آنکھیں پوری کھیلیں تھیں
( ہیں ؟ کیا ؟۔۔۔۔۔ ہاں بھئی واقعی مجھے کیسے پتہ ہوگا)
صحیح تو کہہ رہی تھی ایک آرمی والے کو کیا پتہ موچ آنے کا درد کیا ہوتا ہے۔
" اللّٰہ دشمن کو بھی ایسی چوٹ سے بچائے ۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں اس کو کہا ہوا ہے شاید میرے گرنے کا کچھ زیادہ ہی صدمہ لگ گیا ہے بےچارے کو جب سے جو کہہ رہی ہوں منہ بند کر کے سنے جارہا ہے"
وہ تو ساری دنیا سے بے نیاز اپنی ہی کہے جارہی تھی شایان نےسر جھکائے بیٹھے فارب کو ایک نظر دیکھا تھا اس کو باہر اپنے اور فارب کی بات یاد آئی
" یہ تو کیا کر رہا ہے ؟"
فارب جو اپنے کانوں میں روئی ٹھوس رہا تھا شایان کی بات پر چونکا تھا
" چاہیے تجھے بھی؟"
الٹا سوال آیا تھا
" نہیں مجھے کیوں چاہئے ہوگی تو پاگل ہوگیا ہے کیا ".
شایان کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا
" ابھی پتا چل جائے گا آؤ اندر چلتے ہیں "
اور اب یہ حال تھا کہ افراح نے اپنے گرنے کا ہی قصہ گھما پھیرا کر پانچویں دفعہ بتایا تھا ۔
لیکن مقابل بھی شایان تھا اس کو افراح کے ایک ایک انداز سے عشق تھا ہر بات ایسا سن رہا تھا جیسے پتا ہی ابھی چلی ہو۔
فارب نے شایان کو دیکھ نفی میں سر ہلایا تھا لیکن اس کا دل بہت خوش تھا وہ افراح کے لئے ایسا ہی شخص چاہتا تھا جو اس کی باولی بہن کو سر آنکھوں پر بیٹھائے۔
" ارے کیا ہوا میری بہن کو"
فرھاد پریشان سا اندر داخل ہوا تھا
فارب نے نامحسوس انداز میں اپنے کانوں سے روئی نکالی تھی۔
" فرھاد۔۔۔۔۔میں تو بس سیدھی سیدھی اتر رہی تھی ایک دم پاؤں مڑا اور گر گئی ہائے اللّٰہ اتنا درد ہوا مت پوچھو وہ تو فارب گزر رھا تھا تو اس نے مجھے سہرا دے کر اٹھایا تھا اور مجھے تو چلتے ہوئے بھی لگ رہا تھا میری ہڈی تو گئی ۔۔۔۔"
اور حرف با حرف فارب نے ہلکی آواز میں افراح کے ساتھ دہرایا تھا۔
شایان نے مسکراہٹ دباتے اس کو گردن سے پکڑا تھا ۔
"سالے تو باہر چل تجھے بتاتا ہوں "
" چلو کوئی بات نہیں انشاء اللہ جلد ٹھیک ہوجاوگی"
وہ لاڈ سے فرھاد کے کندھے پر سر رکھی بیٹھی تھی اور فرھاد اس کو تسلی دے رہا تھا ۔
"چلو بھئی مجھے زرا کام ہے میں چلتا ہوں انشاللہ پہر ملاقات ہوگی اور افراح گھبرانا نہیں بلکل بھی بکواس کر رہا ہے یہ انشاء اللہ جلد ٹھیک ہو جاؤ گی تم ۔ خیال رکھنا اپنا ( میرے لئے)۔۔۔ اللّٰہ حافظ "
شایان نے مسکراتے نرم آواز میں اس کو تسلی دی تھی۔
وہ بھی محظ مسکرا کر سر ہلا گئی ۔
' سالے کے آتے ہی سالا غائب ہورہا ہے '
فارب کی نظروں میں کہی گئی بات پڑھتے شایان نے مسکراہٹ دبائی اور کمرے سے نکلا تھا۔
اب فارب اٹھا اور فرھاد کی دوسری طرف بیٹھا تھا
" ہاں جراف کی گردن ٹھیک ہوجاوگی تم کیا ہوا اگر تمھاری ایک ٹانگ کٹ جائے گی تو فکر ہی مت کرو تمھارا بھائی ابھی ذندہ ہے اپنی ایک ٹانگ تم کو دے دے گا تم سے بڑھ کر ہے کیا۔۔۔کیوں فرھاد "
اب جس کی ٹانگ کا سوال تھا اس کی رضامندی بھی تو ضروری تھی ایسی لئے ساتھ بیٹھے فرھاد کو بھی مخاطب کیا گیا تھا۔
"فرھاد سمجھالو اس کو"
وہ فرھاد کو دیکھتی روہانسی ہوکر بولی
" کوئی نہیں میری بہن پر میری دونوں ٹانگیں قربان"
چھیڑا تو اس نے افراح کو تھا لیکن فارب کے کان کھڑے ہوئے تھے اس سے پہلے وہ کچھ بولتی فارب نے اعتجاج کیا
" فرھاد میں بتا رہا ہوں ابھی اپنے ھاتھ تڑوا کر آ جاؤنگا "
بس جیلیسی کا کیڑا کاٹا تھا۔
" میری جان تم پر دونوں ھاتھ قربان ".
فرھاد بھی کچھ زیادہ ہی موڈ میں تھا۔
"سالے کچھ پرزے نئی والی جان کے لئے بھی بچالے"
فارب فرھاد کے کان کے پاس بڑبڑایا تھا
اور یہاں فرھاد کا قہقہہ بےساختہ تھا
" یہ کون سے راز و نیاز ہورہے ہیں جو مجھے نہیں بتائے جارہے"
افراح نے شکی نگاہوں سے دونوں کو گھورا تھا
" تم اپنی ٹانگ پر فوکس کرو چڑیل "
"ابھی بتاتی ہوں فارب تمھیں صبح سے بہن کو ڈرائے جارہا ہے "
سویرا بیگم سوپ کا باؤل افراح کے سامنے رکھتی فارب سے بولیں تھیں
" موم میں کیا کروں اگر میری بہن میری باتوں میں آسانی سے آجاتی ہے تو "
وہ کندھے آچکا گیا
" اب تم نظر آؤ اس کے آس پاس بھی تمہیں اچھی طرح سے بتاؤنگا"
مسکراہٹ دباتے سکندر اور شہریار صاحب بھی اندر داخل ہوئے تھے۔
اور ایسے کرتے کرتے آغا جان سویرا بیگم اور زاویار سب اندر آتے صوفے اور بیڈ پر برجمان ہوئے تھے۔
" دیکھ رہے ہو فارب کتنے لوگ میرے ساتھ ہیں "
افراح اترا کر بولی تھی۔
سب کے چہروں پر مسکراہٹ کھلی تھی۔
" میرے ساتھ فرھاد ہے اب بولو"
اور سارا گھر واقف تھا اس کا یہی جواب ہونا ہے
" جی نہیں فرھاد میرے ساتھ ہے "
اور اب لڑائی شروع ہوئی تھی اور یہ لمبی چلنی تھی فرھاد نے سائڈ ڈروز سے روئی نکال کر اپنے کانوں میں ٹھوسی تھی ۔
سارے گھر والے ان کی اس نوک جھوک کو انجوائے کر رہے تھے ۔
_________

YOU ARE READING
"کچھ کھٹی کچھ میٹھی ہے یہ داستاں" (Completed ✅)
Humorیہ کہانی ہے زندگی بھرپور جینے والوں کی۔ یہ تحریر محبت کے رنگوں سے لبریز ہے۔ کیسے اپنوں کو جان سے بڑھ کر چاھا جاتا ہے۔ کہیں یہ ناول آپ کو ہسائے گا تو کہیں تجسس میں ڈال دے گا یہ کہانی ہے فارب حیات مرزا اور اس کے کزنز کی SEASON 2 ........ COMING SOON