EPISODE 16

168 24 5
                                    

" یہ جو تمھاری سرگرمیاں ہیں نہ ان کو بند کر دو پورے پورے دن تم گھر سے باہر ہی رہتی ہو ہوش ہے تمھیں کوئی پورا گھر تم نے سروینٹس پر چھوڑا ہوا ہے "
اس کو پہر باہر جانے کے لئے تیار ہوتا دیکھ جہانگیر کا خون کھولا تھا ۔
" تمھیں کیا میں مڈل کلاس عورت لگتی ہوں جو گھر پر بیٹھ کر گھر داری کروں ؟ "
شہلا تنک کر بولی تھی
" سب سے پہلے تو تم اپنی اس زبان کو قابو میں کرو ورنہ کاٹ کر پھینکنے میں مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی"
وہ غصے میں بھنتا چلتا اس کے بلکل سامنے کھڑا ہوا تھا
اس کا لہجہ اس کی بات کی پختگی بیان کر رہا تھا ۔
" اچھا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں اپنا ٹائم مینج کرنے کی کوشش کرونگی"
اس کا غصہ دیکھ شہلا کی جان نکلی تھی۔
"کوشش نہیں مجھے میری بات پر عمل چاھیے ورنہ تم سے بہتر کون جانتا ہے میں زبان کا کتنا پکا ہوں"
لہجہ برف کے جیسا ٹھنڈا ٹھار تھا۔
اس کے ماتھے پر شہادت کی انگلی سے ٹھوک کر وہ باہر جاچکا تھا ۔
شہلا غصے سے مٹھیاں بھیج کر رھ گئی۔
اب جب سوچ لیا تھا کہ اس بندے کو کھنگال کر ہی چھوڑے گی تو برداشت تو سر فہرست تھا نہ!!!!
____________

آج ہفتہ تھا فارب نے پہر سب کو جمع کرنے کا سوچا تفریح کے لئے ۔
سب کو میسج کردیا گیا کہ بیچ لگژری پر ہلا بول دیں ۔
اور خاص طور پر جہانزیب کو بھی بلایا گیا تھا ۔
شایان اپنے کسی دوست کی طرف  سے ڈاریکٹ وہیں پہچا تھا اس لئے سب سے پہلے وہ آگیا تھا
سامنے سے آتی افراح کو دیکھ کر اس کو لگا سب ٹہر گیا ہو
بلیک جینز پر وائٹ موتیوں والا ٹوپ اور بلیک جیکٹ پہنی ہوئی تھی سر پر سفید رنگ کا ہی اسکارف باندھا ہوا تھا اس سفید اسکارف کے ہالے میں گلابی رنگت دمک رہی تھی چہرہ کسی بھی قسم کے میک اپ سے پاک تھا صرف لبوں پر ہلکی پنک گلاس تھی ۔
وہ تو سادگی میں ہی اس کی دھڑکنوں کو منتشر کر دینے کا ہنر رکھتی تھی۔
(بس بیٹا نظروں کو قابو کر پیچھے بھائی بھی ہے )
پیچھے سے آتے فرھاد پر جو نظر پڑی ایک دم اس کی نظروں نے اس پاس لگی ٹیبلیں ایسی گن ڈالی جیسے یہی تو یہاں آنے کا مقصد تھا ۔
"اسلام و علیکم... بھئ آپ تو بڑے وقت کے پابند نکلے ویسے آپ کو انتظار کرنا پڑا سوری یہ فارب ہے نہ پتہ نہیں کون سے حسن سنوار رہا تھا اپنے  "
اور یہ۔۔۔۔۔۔اپنا سارا کیا دھرا فارب پر لے ڈالا شکر ہے بےچارے نے سنا نہیں تھا ورنہ ایک جنگ تو یہی شروع ہوتی۔
(تیری دید کے محظ خیالات ہی اتنے مسحور لگے
کہ تیرے انتظار میں گزرے لمحات بھی باعثِ سرور لگے)
شگفتہ ناز
" واعلیکم السلام کوئی بات نہیں ویسے بھی مجھے آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی ہے"
مسکراتے ہوئے کہا گیا تھا۔
فرھاد کے بغلگیر ہوتے فارب کا پوچھا تھا
" اپنی اس اولاد کو ساتھ نہیں لائے"
"ہاں لائے ہیں ۔۔۔۔۔"
بے ساختہ فرھاد کے منہ سے نکلا تھا وہیں افراح اور شایان دل کھول کر ہنسے تھے ۔
وہ بھی سر پر ھاتھ مارتا مسکرا دیا
"وہ گاڑی پارک کر رہا ہے ویسے رھ کہاں گیا ابھی پوچھتا ہوں"
اس کو فکر ہوئی تھی واقعی ابھی تک تو آجانا چاہیے تھا ۔
فون نکال کر فارب کو کال ملائی تھی شایان کے کہنے پر فون کو اسپیکر پر کر دیا گیا
" فارب کہاں ہو ؟ "
" جانی یہاں مست لڑائی ہو رہی ہے"
فون سے فارب کی جوش سے لبریز آواز ابھری تھی
ان کو پتہ تھا ایسا ہی کوئی آڑھا ٹیڑھا جواب ملنا ہے
" فارب دو منٹ میں واپس آجا"
فرھاد نے حکم دیا تھا
" یار رک تو آرہا ہوں کیا پتہ اس پتلے والے کو میری ضرورت پڑ جائے ".
وہ تو ایسے ہی بےقابو ہوجاتا تھا پھدے فساد دیکھ کر
شایان اور افراح مستقل مسکرا رہے تھے ۔
" تو رک ابھی آکر بتاتا ہوں تجھے "
" ہاں ہاں آجا تیری بھی ضرورت پڑ سکتی ہے "
ڈھیٹ پنا تو اس شخص پر آکر ختم تھا۔
فرھاد نے کال کاٹی اور ان دونوں سے بولا
" میں زرا اس کدھے کو لے کر آتا ہوں " 
یہ کہتا وہ پارکنگ کی طرف چل دیا
شایان اور افراح واک کرتے کرتے برج کی طرف بڑھے تھے  نیچے موجود سمندر کی لہروں کی آوازیں عجیب سا سکون پہچا رہی تھیں۔
"اور بتاؤ پڑھائی کیسی جارہی ہے ؟"
شایان نے گفتگو کا آغاز کیا تھا
" جی۔۔۔۔۔ بلکل صحیح جارہی ہے آپ بتائیں بھابھی کیسی ہیں "
( ہیں کون بھابھی ؟ کیسی بھابھی؟ او اچھا اپنے آپ کو کہہ رہی ہے)
" بلکل ٹھیک ہے میری آنکھون میں نظر نہیں آتی کیا؟"
افراح جو نیچے سمندر کو گھور رہی تھی اپنی گھنی پلکوں کو اٹھا کر شایان کی آنکھوں میں دیکھا تھا
وہ سمجھ نہیں پائی تھی ایسا کیا تھا اس کی آنکھوں میں جو اس کو نظر جھکانے پر مجبور کر گیا
لیکن اگلے پل ہی وہ جو بولی شایان بہت دلکش مسکرایا تھا
" دیکھیں لڑکی تو مجھے نظر نہیں آئی لیکن کچھ ہے آپ کی آنکھوں میں پتہ نہیں کیا لیکن ہے کچھ "
وہ صافی گوئی سے بولی تھی۔
( ایک وقت آئے کا افراح جب تمہیں اس میں اپنا آپ نظر آئے گا )

"کچھ کھٹی کچھ میٹھی ہے یہ داستاں" (Completed ✅)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن