EPISODE 13

155 23 8
                                    

رات کے دس بج چکے تھے لیکن گھر جانے کا کسی کا کوئی دور دور تک کوئی ارادہ نہیں تھا
سارے کے سارے جم کر ہی بیٹھ گئے تھے محمل دوائیوں کے زیر اثر سو چکی تھی ۔
کیف صاحب اور آمنہ بیگم ثلاثہ کی خراب طبیعت کے باعث جاچکے تھے اور اب ویزیٹنگ ٹائم بھی ختم ہوچکا تھا ۔
وہاں صرف ایک کو مریض کے ساتھ رکنے کی اجازت تھی تو بلاآخر یہ طے پایا کہ فارب فرھاد کے ساتھ اور حمزہ محمل کے ساتھ رک جاتے ہیں اور دونوں اس وقت سو بھی رہے تھے تو زیادہ دیر رکنے کا کوئی جواز بھی نہ تھا۔
اس لئے گھر کی خواتین کو بھی بہلا پھسلا کر بھیج دیا گیا ۔
"فارب ، حمزہ کچھ بھی ہو کسی بھی چیز کی بھی ضرورت ہو تو بس ایک کال کر دینا "
شایان فارب اور حمزہ کو مخاطب کرتا بولا تھا
" ہاں حمزہ اپنا اور اس کا خیال رکھنا ورنہ اس منہوس کو نہ کچھ کھانے کا ہوش رہے گا نہ پینے کا بس فرھاد کے سرہانے بیٹھ کر اس کو تکتا رہے گا"
زاویار کی بات پر سب مسکرائے تھے  آغا جان اور افراح اس کی گاڑی میں تھے اور آغا جان کی دوائی کا بھی ٹائم ہورہا تھا۔وہ ان کو اللّٰہ حافظ کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا
" حمزہ کو تو آنٹی نے کھلا دیا تھا لیکن تو سالا بہت ڈھیٹ ہے میں تجھے کھلائے بغیر تو نہیں جانے والا "
حمزہ محمل کے وارڈ کی طرف بڑھ گیا اور شایان فارب کو گھسیٹ کر کینٹین کی طرف لے گیا۔
______________

" کیا تمھارے ہزبینڈ سے زیادہ ہینڈسم ہے وہ؟"
سلک کی ساڑھی میں ملبوس میک آپ سے لدی ایک عورت کی طرف سے سوال آیا تھا آنکھوں میں بے یقینی تھی
" تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتیں کتنا حسین ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک ہوتی ہے ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہے وہ کسی کو بھی پل میں دیوانہ بنا سکتا ہے ۔۔۔۔اس کو پتہ بھی نہیں چلتا وہ چلتے پھرتے کتنے لوگوں کو اپنے اعتراف کے بیگانہ ہونے پر مجبور کردیتا ہے "
وہ اس کی شخصیت بیان کرتی کھو گئی تھی
" لیکن جیزی تو کافی ہینڈسم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا "
وہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں تھی۔
" تو مت مانو مجھے تمھیں یقین دیلا کر کیا کرنا ہے "
وہ بال جھٹکتی ایک ادا سے بولی تھی ۔
" لیکن جو بھی ہے تمھیں ایک دفعہ سوچنا چاہیے جیزی کے پاس بےتحاشہ دولت ہے"
وہ پہر حیرانی سے بولی تھی جس جہانگیر سلطان پر وہ ایک عرصے سے فدا تھی اس کی بیوی اس کو چھوڑ کر کسی اور پر لٹو ہوچکی تھی حیران ہونا تو بنتا تھا ۔
" مرزا انڈسٹریز کا نام سنا ہے ؟"
وہ بھی شاید آج اس کو یقین دیلا کر ہی چھوڑنے والی تھی۔
"ہاں کس نے نہیں سنا ویسے سننے میں تو یہ بھی آیا ہے بڑے ہینڈسم ہینڈسم لڑکے ہیں اور ہاں کیا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔فارب ہاں ! اس کے حسن کے چرچے تو کافی پھیلاے ہوئے ہیں اب ایسا کیا ہے اس میں جو جہانگیر میں نہیں ہے ؟ لیکن کبھی ملنے یا دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا"
اس کا  قہقہہ سارے ماحول میں گونجا تھا
"پہلی بات تو یہ کہ میں اسی فارب حیات مرزا کی بات کر رہی ہوں دوسری یہ اگر تم اس کو دیکھ لیتی تو جہانگیر کہیں بہت پیچھے رہ جاتا فارب وہ ساحر ہے جس کے سحر میں لوگ خود بہ جود قید ہو جاتے ہیں"
اس نے لیپ ٹاپ کی اسکرین اس کے سامنے کی تھی ۔
"آہ مائے گڈنیس ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔یہ تو واقعی بہت ہینڈسم ہے یاررررررررر"
اس کی نظریں ستائش آمیز تھیں ۔
وہ بھرپور مسکراتی بولی
"ایسے ہی تو نہیں شہلا بیگ کا دل آگیا اس پر اب تم دیکھنا بس ایک دفعہ میرے سارے مطلب پورے ہوجائیں جہانگیر سے۔۔۔۔۔ پہر فارب حیات مرزا میرا"
غرور تو اس کے ہر انداز سے چھلکتا تھا
" تو تمھیں ایسا کیوں لگا یہ ہینڈسم تم سے شادی کر لے گا دنیا کی باقی لڑکیاں مر گئی ہیں کیا؟"
وہ جل کر بولی تھی ۔
یہ بات ہی اس سے حزم نہیں ہورہی تھی پہلی شاندار جہانگیر اور اب تو حد ہی ہوگئی تھی برنس کی دنیا کا حسین مرد قابو کرنے کے چکروں میں تھی ۔
"مان جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ مچھے لوگوں کو قابو کرنا آتا ہے "
اس نے مشروب کا گلاس اپنے لبوں سے لگایا تھا جبکے وہ عورت ابھی تک اسکرین سے نظر نہیں ہٹا پائی تھی
بےچارگی بھول رہی تھی ۔۔۔۔۔لیکن نہ نہ بھولتی تو تب جب وہ اس بلا کو جاتی فارب کو قابو کرنا آسان تھا کیا؟
لیکن وقت نے ابھی کس کس سے کیسے امتحان لینے تھے کیسی کو کوئی اندازہ نہ تھا

"کچھ کھٹی کچھ میٹھی ہے یہ داستاں" (Completed ✅)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora