LAST EPISODE PART "1"

178 27 17
                                    

چٹخ"
آیک آواز گونجی تھی ،،، لیکن یہ کیا فاطمہ کا ھاتھ تو اٹھا ہی نہیں تھا تو کون تھا جس نے خالد کے چاروں تبک روشن کئے تھے؟
" اماں"
فاطمہ نے حیرت سے افشان بیگم کو دیکھا تھا۔
خالد سکتے کی حالت میں اپنے گال پر ھاتھ رکھے کھڑا تھا۔
" خبردار ،،،، خبردار جو میری بیٹی کو چھونے کی کوشش بھی کی تو ابھی تو صرف تھپڑ مارا ہے اگلی بار وہ حال کرونگی کہ چھونا تو دور کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر دیکھو گے بھی نہیں "
افشان بیگم نے انگلی اٹھا کر غصے میں خالد کو تنبیہ کی تھی۔
" باپ ، بھائی نہیں ہیں اس کے تو کیا ہوا ماں تو ہے نہ ۔۔۔۔۔تم جیسے گھٹیا مرد ، مردوں کے نام پر دھبہ ہیں انہیں حرکتوں کی وجہ سے اچھے اور نیک مردوں کا نام بھی خراب ہورہا ہے وہ بھی پس رہے ہیں اب کہاں ہیں تمھاری ماں جو تمھاری شرافت کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتی "
افشان بیگم کافی دھیمے مزاج کی خاتون تھیں لیکن جب بات بیٹی کی عزت پر آجائے تو انہیں ماؤں کو شائستگی اور دھیمے مزاج کو پیچھے چھوڑ کر ایک شیرنی کا روپ دھاڑنا پڑتا ہے گو کہ اب خالد اور اس سے بدتر کردار کے مردوں کو یوں ہی بیچ چوراہے پر ان کی اوقات یاد نہ دیلائی جائے تو یہ عزتوں کے لوٹیرے بھیڑیا کا روپ دھاڑ کر ہر گھر سے ایک عزت کا جنازہ نکال رہے ہوں اور انہی جنازوں میں کئی کی روحیں پرواز کرجاتی ہے تو کئی کا حال ، مستقبل خاک ہوجاتا ہے۔۔۔۔
خیر بات کافی طویل ہوگئی آئیے کہانی کی طرف لوٹتے ہیں !
"خالہ ! تم نے مجھ پر ھاتھ اٹھایا ۔۔۔۔۔۔ خالد پنسار پر ۔۔۔۔۔۔ ہمت کو تو داد دینی پڑے گی ویسے بیٹی غنڈی بنی گھومتی ہے اور آج تو ۔۔۔۔۔۔۔".
خالد کمینگی پر اترا تھا ۔۔
سارا محلہ جمع تھا اور ایسے موقعوں پر باتیں بنانے والوں کے لئے تو گویا اسٹار پلس بنا کیبل کے لگ چکا ہوتا ہے ایک تو بھئی مفت!!!!! اور دوسرا مزے آرہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اب بھئی کوئی کیوں اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے یا مسلہ حل کروائے ،،، مسلہ حل ہوگیا تو مزے کا کیا ہوگا۔۔۔۔۔اب سارے پیسے ہی تو اس مزے کے ہیں!
" ایک لفظ اور کہا نہ خالد تو تمھاری زبان کاٹ کر تمھارے ھاتھ میں رکھ دونگی سمجھے اب اگر تم میرے گھر کے آس پاس بھی دیکھے تو میں پہر ثابت کرونگی ایک لڑکی جب تم جیسوں کے آگے بنا ڈرے کھڑی ہوجائے تو کیا کیا ہوسکتا ہے "
فاطمہ کی آنکھیں دھکتے ہوئے انگاروں کو مات دے رہی تھیں ، وہ ایسی ہی تھی یا یہ جملا تو بنا ہی اس کے لئے تھا ،، اس نے ڈرنا کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
لوگ کھڑے ہوکر طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔
خالد غصے سے کھول رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کیا کر گزرے ایک غصیلی نگاہ ڈال کر وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گیا ۔۔۔۔۔
فاطمہ نے گھوری سے سامنے کھڑے تماشبین کو نوازا تھا۔
سب نے اپنے اپنے راستے ناپے ،
افشان بیگم نے اس کو دیکھا اس نے افشان بیگم کو دیکھا دونوں کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی ۔
باپ بھائی جب ساتھ نہ ہوں تو اکثر و بیشتر کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں بظاہر مضبوط دیکھنے والی اس لڑکی کے اندر کوئی دھاڑے مار مار کر رو رہا ہوتا ہے ۔
اس نے افشان بیگم کا ھاتھ پکڑا اور گھر کی طرف چلتی جانا تو چاھتی نہیں تھی ، خالد کو دیکھانا چاھتی تھی کہ میں تمھاری تعبےدار نہیں ہوں لیکن اس وقت اس کی ماں دکھی تھی اس کے آنکھوں میں آنسو تھے اور فاطمہ اپنی ماں کی خوشی اور سکون کے لئے ساری دنیا کے آگے ہار مان سکتی تھی
اور یوں وہ بھلے سارے جہاں سے ہار کر اپنی ماں کے لئے جیت جایا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔
___________

"کچھ کھٹی کچھ میٹھی ہے یہ داستاں" (Completed ✅)Where stories live. Discover now