وہ مزے لے لے کر ناشتہ کرنے میں مصروف تھی تب ہی آ چانک ٹیبل پر پڑا فائقہ کا فون بج اُٹھا ۔ وہ نظر انداز کر کے ناشتے میں مگن رہی لیکن فون بھی کسی ڈھیٹ کی طرح بجتا ہی رہا۔ اس نے جھنجھلا کر فائقہ کو آواز ری مگر وہ چھت پر کپڑے سکھانے کے غرض سے گئ ہوئی تھیں اس لئے کوئی جواب نا آیا بلا آخر فون اُسے ہی اُٹھانا پڑا۔ بھرے ہوۓ منہ کے ساتھ اس نے فون کان سے لگایا "ہیلو ، تائی مصروف ہیں کل رابطہ کرئیں " اس نے فون اُٹھاتے ہی اگلے کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر کہا تھا ۔ " تم تو نہیں ہو نا مصروف ۔۔؟ " کچھ سیکنڈ بعد باسط کی آواز
اُبھری تھی ۔ وہ ایک لمحے کو چونکی ، نوالہ چباتا منہ رکا "اوہ باسط لنگور! " یہ بات دل میں سوچ کر وہ مصروف سے انداز میں بولی تھی
" نہیں میں ناشتہ کر رہی ہوں ۔" اب وہ ایک اور نوالہ لینے لگی تھی جبکہ فون کان اور کندھوں کے بیچ دبا تھا۔ " تمہاری بے ٹائم کھانے کی عادت ختم نہیں ہوئی؟ موٹی ! " غالباً باسط کو اتنی لا پرواہی بری لگی تھی تب ہی اس نے اسے موٹی کہہ کر بدلہ لیا تھا مگر تابی تپ گئ ۔ " مجھے ناشتہ کرنے دو بندر! " وہ تنک کر بولی اور کھٹاک سے فون بند کر دیا ۔ اگلے نوالے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ فون ایک بار پھر بج اُٹھا ۔ وہ کھاتی رہی ، فون بجتا رہا آخری نوالہ لے کر اس نے اب کی بار فون دوبارہ اُٹھایا تھا " کیا ہے ؟ " وہی لٹھ مار انداز۔ "ماما کو فون دو" اب کی بار باسط نے اسے منہ نہ لگایا ۔ " تائی جان چھت پر ہیں آدھے گھنٹے بعد فون کرنا ،چلو بھاگو " اس نے ناک پر سے مکھی اُڑائی جس پر وہ بُھنا گیا ۔ "تم اتنی فضول کیوں ہو بھئ ! پاؤں سلامت ہیں ناں تو جاؤ چھت پہ فون دو ماما کو " فُل فوجی والا حکمیہ انداز " کیوں؟ " تابی اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلی " تابندہ مجھے یہاں اور بھی کام ہیں فارغ نہیں بیٹھا کہ تم اتنے مزے سے سوال کر رہی ہو پلیز دماغ خراب کیے بنا فون ماما کو دو۔ " وہ واقعی سیریس ہو گیا تھا مگر۔۔۔۔ "پہلے معافی مانگو " تابی کے مطالبے پر باسط کو آگ لگ گئی ۔ "میرے پاس اعلیٰ اقسام کی گنز ہیں تابندہ! " اب کے اسکا انداز خطرناک تھا ۔ " تو۔۔۔۔؟ " وہ خاک نہ سمجھی تھی۔ "تو یہ کہ تمہارا قتل میرے ہی ہاتھوں ہوگا " بڑے اطمینان سے باسط نے کہا تھا جبکہ طیش میں آکر وہ شروع ہو چکی تھی " اچھا! مطلب مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ دیکھو مسڑ ، فوجی ہوگے تم اپنے یونٹ میں اس لیے اپنی گنز کی دھمکی مجھے نہ دو ویسے بھی گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے، سمجھ تو گئے ہو گے نہ؟ " وہ اسکا دل جلا رہی تھی اور چاہتی تھی کہ مزید اُسے جلاۓ۔ وہ اس کے کسی کٹیلے جملے کی منتظر تھی لیکن چند ثانیۓ بعد باسط کی آواز اُبھری تھی۔ "آج تم مجھسے بچو گی نہیں ، ماما کو بتا دینا کہ میں آج ہی آ رہا ہوں گھر" ساتھ ہی ٹھک سے فون بند ہوا تھا تابی ہکا بلا فون ہاتھ میں لئے بیٹھی رہ گئ۔ وہ سمجھی تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح اسے خوب تنگ کرے گی اور وہ ہمیشہ کی طرح بھول جاۓ گا کیونکہ اس کے آنے کے چانس بہت کم سے بھی کم ہوتے تھے اسکی ڈیوٹی کافی سخت تھی کیونکہ ایک کیپٹن کی زمہ داری بہت بڑی ہوتی ہے لیکن اب وہ آرہا تھا اور اب اسکی خیر نہیں تھی مطلب خلّاس! اور تو اور کتنی بڑی دھمکی دی تھی اس نے۔ "ہاۓ اللہ کیا کروں اب " وہ گھبراہٹ کے مارے پانی پینا بھول گئ ۔ وہ سوچ سوچ کر آدھی ہوئی جا رہی تھی تب ہی فائقہ سیڑھیوں سے نیچے اتریں گرمی کی شدت سے انکا کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔ کرسی کھینچ کر وہ زرا سستانے کو تابی کے برابر میں بیٹھیں "تابی بچے پانی تو پلانا زرا " تابی چونکی "وہ ۔ ۔ ۔ تائی جان ۔ ۔ ۔! " فائقہ متوجہ ہوئیں اسکا پریشان چہرہ دیکھ کر وہ تشویش میں مبتلا ہو گئیں " کیا ہوا بیٹا ؟ " وہ سوالیہ انداز میں دیکھنے لگیں تب ہی وہ ہلکے سے بولی "وہ تائی جان باسط کا فون آیا تھا کہہ رہا تھا کہ آج وہ آرہا ہے "**********************************
Asalam-o-Alikum everyone! Sorry for updating late but here u go read and enjoy and do vote if u like. Comment what was your favorite part.And yeah sorry for short update, I promise the nest one will be long enough. I will try my best to update by Saturday or Sunday (Insha Allah). Thanks to Javeria Irfan for writing this amazing story. Enjoy and stay blessed.
Ruqaya here 😊
YOU ARE READING
Mohabbat Tum He Se Hai
FantasyThis novel/short story is written by a writer Javeria Irfan. I am just writing it here so all of u can also read this amazing story. I am posting it same as it is written by her. And according to the website where I read it "all the copy rights belo...