Part 10

2.8K 60 37
                                    


تابی نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا اور صلہ کو گھسیٹتے ہوۓ اسی کی گاڑی کے پاس جا کر چھپ سی گئی صلہ جو اسکےاچانک حملے پر حیران تھی اپنی گاڑی کے پاس رکتے ہوئے پوچھا
" بہن؟ کیا کوئی چور ڈاکو پیچھے لگ گیا ہے؟ یہ کیا کر رہیں تھیں تم؟؟ "
صلہ کو خاک سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ کر کیا رہی ہے۔
" ابھی تم اپنا منہ بند رکھو اور گاڑی اسٹارٹ کرو میں پہلے یہ دیکھوں کہ اس نے ہمیں کہیں دیکھ  تو نہیں لیا "
صلہ کے کچھ  پلّے نہ پڑا البتہ وہ کار اسٹارٹ کرنے لگی تھی۔ ادھر وہ اسکو ہدایت دے کر پلٹی  ہی تھی کہ بری طرح کسی سے ٹکرا گئ ۔ اسکا سر گھومنے لگا اور دن میں آس پاس ستارے منڈلانے لگے
" ہاۓ صلہ باہر نکلو اس کو پیٹو جس نے مجھے دن میں تارے دیکھا دیۓ ، مجھے ہوش میں آنے دو میں تمیں نہیں چھوڑوںگی !! "
اس کا شور سن کر صلہ باہر نکلی اور حیرت سے منظر دیکھا۔ باسط سینے پر بازو لپیٹے اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا اور وہ اندھوں کی طرح کھڑی ہو کر ناک پر دونوں ہاتھ رکھے آنکھیں میچے اس پہ چلاّ رہی تھی ۔
" میں تمہاری بھی اسی طرح ناک توڑ دونگی جس طرح تم نے میری بھی ناک توڑنے کی کوشش کی ہے میں تمہیں ۔۔۔۔۔"
صلہ نے اسکو جھنجھوڑا
" تابی آنکھیں تو کھول دو "
یقیناً وہ باسط کو پہچان گئ تھی ورنہ اگر باسط کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اسکو اپنا بھاری بھر کم بیگ مار مار کر زخمی تو کر ہی دیتی۔ یہ کام اس نے تابی سے ہی سیکھا تھا۔ تابی نے اسکے یاد دیلانے پر آنکھیں کھولیں اور پھر وہ اپنی آنکھیں بند نہ کر سکی۔
" تم مجھے پاگل سمجھتی ہو کیا ؟ "
خشک لیجے میں وہ اس سے پوچھ رہا تھا اور ادھر تابندہ کی سٹی گم ہو گئ تھی۔
" سمجھنے والی کیا بات ہے! "
یہ بات وہ اس کے منہ پہ بھی کہہ سکتی تھی مگر ابھی اس وقت وہ بہت غصے میں معلوم ہوتا تھا سو وہ بس اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
" کیوں کیا ہوگیا ؟ "
" میں پچھلے آدھے گھنٹے سے اس سڑی گرمی میں تمہارے انتظار میں کھڑا ہوں اور تم مجھے چکمہ دے کر بھاگ رہی تھی؟ "
نہایت سنجیدگی سے ہر لفظ چبا چبا کر ادا کیا گیا تھا۔ صلہ تو ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہوگئ جبکہ تابندہ نے اسکی یہ حرکت نوٹ کرنے کے بعد اسکو دل ہی دل میں کوسنے دیے اور باسط کو دیکھا جو ابھی بھی سنجیدگی سے اسے گھور رہا تھا لگتا تھا کہ غصہ ضبط کر رہا ہے۔ گرمی سے اسکا برا حال تھا ماتھے پر ننھے ننھے قطرے چمک رہے تھے۔ تابی نے جھٹ سے ہاتھ میں پکڑا رومال اس کے ماتھے سے لگا کر اسے صاف کرنا شروع کر دیا وہ شاکڈ رہ گیا۔ اس کے لیے وہ بلکل تیار نہیں تھا نہ ہی کوئی ایسی توقع تھی اسے، وہ ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تابی نے اپنا کام جاری رکھا۔
" کیا کر رہی ہو تابندہ یہ روڈ ہے "
وہ صلہ سے نظریں چراتے ہوئے بولا کیونکہ وہ یہ سب دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
" تو کیا ہوا میں بھی تو تمہاری ہیلپ کر رہی ہوں ناں سوری میں ادھر آگئی تھی میں نے تمہیں دیکھا ہی نہیں تھا "
وہ مصروف سی اسے صفائی دے رہی تھی جبکہ اسکے اتنا اچھا ہونے پہ باسط نے شکّی نظروں سے اسے دیکھا تھا تبھی اس کی نظر اسکی سرخ ناک پر ٹہر گئی ، بےاختیارمسکرانے لگا۔ تابی کو لگا کہ مکھن لگ گیا یعنی وہ بچ گئی وہ بھی مسکرا دی
" اتنا کیوں مسکرا رہے ہو ہاں؟ "
اس نے بر سبیل تذکرہ پوچھا تھا
" وہ ایکچولی ، تمھاری ناک بہت فنی لگ رہی ہے لائیک جوکر کی ناک "
اس پہ باسط کے ساتھ ساتھ صلہ نے بھی قہقہہ لگایا تھا اور تابی کو بات سمجھ۔ آگئی تو اس نے اچھائی کا چولا اتار پھینکا
" جہنم میں جاؤ تم دونوں "
وہ رومال وہیں پھینک کر اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ گئی۔ صلہ اسکو آوازیں دیتی رہ گئی۔ باسط نے اسے دیکھا
" فکر نہ کرو کچھ کھانے کو سامنے آئے گا تو سارا غصہ اڑن چھو ہو جائے گا ویسے تم سے سلام دعا نہیں ہوئی۔۔۔ میں باسط ریحان زیدی ، تابندہ کا کزن "
ہر جگہ وہ اپنا رینک نہیں بتایا کرتا تھا اسی لیے وہ مسکرایا
" میں صلہ علی ، تابی کی ون اینڈ اونلی بیسٹ فرینڈ "
" بہت خوشی ہوئی مل کے یار لیکن تابندہ کے ساتھ کیسے رہ لیتی ہو "
وہ جھکتے ہوۓ سرگوشی میں بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ اس سے معزرت کر کے گاڑی میں آ بیٹھا۔ اسکا منہ ابھی بھی سوجا ہوا تھا وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا
" کونسا فلیور کھاؤ گی آئسکریم میں؟ "
" چاکلیٹ "
جواب ناراض لہجے میں آیا تھا مگر آیا ضرور تھا۔ وہ بےاختیار مسکرایا اور گاڑی آئسکریم پارلر کی طرف موڑ دی۔

Mohabbat Tum He Se HaiWhere stories live. Discover now