رات کے اس پہر سب گہری نیند میں تھے لیکن اگر ہم تابندہ کے کمرے میں جائیں تو وہاں ایسا کچھ نہ تھا بلکہ وہ اپنے بستر پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی ہزار کوشش کے بعد بھی جب اسے نیند نہ آئی تو وہ غصے سے اٹھ بیٹھی اور ٹیرس پہ بیٹھنے کے لیے باہر نکل آئی ۔ اکثر رات میں جب اسے نیند نہ آتی تھی تو وہ اسی طرح ٹیرس پر ٹھنڈی ہوا کھانے کو آجاتی تھی۔ اس نے جیسے ہی ٹیرس پر قدم رکھا اسکو شدید کھانسی کا دورہ پڑا تھا ۔ وہ سیگریٹ کا دھواں تھا جس نے اسے کھانسنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے فوراً ناک پر اپنے سکارف کا کونہ رکھا اور ادھر اس سیگریٹ پینے والے کو تلاش کرنا چاہا ۔ اگلے ہی لمحے اسکی ہلکی سی چیخ نکلی تھی کیونکہ مدھم روشنی میں اسکو باسط کونے میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھا بیٹھا نظر آہا تھا ۔ وہ اسے اس طرح غیر متوقہ طور پر بیٹھے دیکھ کر ڈر گئی تھی لیکن اب اس کی نظر باسط کی انگلیوں پر گئی ۔ وہاں ننھا سا شعلہ دبا ہوا تھا اور وہ اسے ہی غور سے دیکھ رہا تھا ۔ تابی نے دہل کر دل پہ ہاتھ رکھا ۔
" ہائے اللہ!! "
بڑے ہی دل دہلا دینے والے انداز میں دہائی دی گئی تھی ۔ باسط نے دلچسپی سے اسکے تاثرات ملاحظہ کیے غالباً اس نے باسط کو سیگریٹ پیتے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا اور وہ شاکڈ ہو گئی تھی کیونکہ اس سے پہلے باسط کو یہ عادت نہیں تھی ۔ اچانک ہی اس کے اندر غصے کی ایک شدید لہر اُٹھی اور وہ تیر کی طرح اُڑتے ہوئے اس کے سر پہنچی تھی ۔ اس کی انگلیوں میں دبا سیگریٹ اسنے نکال کر ٹیرس سے باہر سڑک پر پھینک دیا اور اسے ایسے دیکھنے لگی جیسے ابھی اسکو کچا چبا جائے گی ۔ باسط پہلے تو اسکی اس حرکت پر حیران رہ گیا پھر ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑا ہوا اس کے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک بگڑ چکے تھے۔
" یہ کیا حرکت کی تم نے ؟"
وہ غرایا
" اور یہ کیا حرکت کر رہے تھے تم ہاں !؟ "
جواب کے بجائےسوال ہی آیا تھا۔
" اتنی کاکی کیوں بن رہی ہو دِکھ نہیں رہا سیگریٹ پی رہا تھا ! "
لہجہ بےزار تھا اس پہ تابی نے اسے گھورا باسط نے کوئی نوٹس نہ لیا تھا۔
" باسط !! "
وہ چلّائی
"کیا ہے؟ "
وہ بھی چلّایا
" سیگریٹ کیوں پی رہے تھے ؟ "
پھر وہی سوال !
" ایسے ہی ! اچھا لگتا ہے ، انفیکٹ تم بھی ٹرائی کرو بڑا مزہ آئے گا "
یہ کہتے ساتھ اس نے ڈنہل کا ڈبا جیب سے نکال کر اسکی طرف بڑھایا جسے تابی نے ہاتھ مار کر نیچے گرا دیا تھا ۔ وہ بلکل بھی سیریس نہیں تھا نہ ہی کسی بات کا جواب سہی طرح سے دے رہا تھا ۔
" باسط ! جواب دو مجھے "
اس نے ایک بار پھر اپنی سی کوشش کی تھی مگر وہ ریلنگ سے لٹک کر باہر دیکھتا رہا ۔ تابی کا دل چاہا اس کو اُپر سے نیچے دھّکا دے دے مگر یہ اس کے بس سے باہر تھا سو اس کو ایک ترکیب سوجی
" میں تائی جان کو بتا دوں گی کہ آپکا لڑکا بگڑ گیا ہے ! "
اپنی طرف سے تو اس نے باسط کے لیے بہت ڈرا دینے والی ترکیب نکالی تھی مگر اس بات پر باسط نے گردن موڑ کر اسکو ایسے دیکھا جیسے کوئی نارمل انسان رحم کھا کر کسی دیوانے کو دیکھتا ہے پھر اسنے دوبارہ سے ایک سیگریٹ جلا کر اسی کے سامنے کش لگایا ۔ تابی کے تو سر پہ لگی تلوؤں پہ بجھی ۔
" باسط شرم کرو۔۔۔۔ بند کرو اسے مجھے اس سے الرجی ہے ! "
وہ بُری طرح کھانستے ہوۓ اسکے بازو پہ تھپڑوں کی بارش کر رہی تھی مگر وہ ڈھیٹ ابن ڈھیٹ اس کی کسی طرح سن ہی نہیں رہا تھا بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسکو اپنے عین سامنے کیا اور دھویں کا مر غولہ اس کے منہ پر چھوڑ دیا ۔ تابی کی آنکھیں لال ہو گئیں اور کھانس کھانس کر وہ مرنے کے قریب ہوگئی تو اسنے وہ شعلہ بجھا کر باہر پھینک دیا ۔ ابھی تک وہ اس کا ہاتھ پکڑے ہوا تھا ۔ تابی کو کھانسنے سے فرست ہوتی تو وہ ہاتھ چھڑواتی نہ ۔۔۔! باسط نے اب کی بار اسکا چہرہ دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا ۔ وہ تو سمجھا تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح ڈرامہ کر رہی ہے مگر یہاں تو صورتحال سنگین ہوگئی تھی ۔
" تابندہ!! "
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※Aslam o alikum everyone!
Mujey pata hai choti hai but plz bear with me , mien bohat busy thi. Lakin wednesday ko meri holiday aa rahi hai toh app logon ko sunday sy pehle next update mil jaye ghi IA . As always thankx to ma'am Javeria Irfan for writing this story. Stay blessed and happy! Peace out ✌️
Ruqaya here 😊😊
YOU ARE READING
Mohabbat Tum He Se Hai
FantasyThis novel/short story is written by a writer Javeria Irfan. I am just writing it here so all of u can also read this amazing story. I am posting it same as it is written by her. And according to the website where I read it "all the copy rights belo...