Part 9

1.5K 42 18
                                    


تابندہ کا موڈ اس قدر خراب تھا کہ اگر کوئی اسکے سامنے آتا تو وہ شاید اس غریب کا سر پھاڑ دیتی۔ اسی کے غصے کے عالم میں اس نے پرس سے گاڑی کی چابی نکال کر کی ہول میں لگانی ہی چاہی تھی کہ پیچھے سے ایک رعب دار آواز ابھری تھی۔
" کیز مجھے دو !"
اس نے تعجب سے زرا سا مڑ کر دیکھا ، باسط اس کی پشت پہ ہاتھ پھیلاۓ شان بےنیازی سے کھڑا تھا ۔ اس کا دل چاہا کہ یہیں اس باسط کا فٹ بال بنا کر کھیلے مگر۔۔ خیر جانے دیں۔
وہ پوری طرح اس کی طرف گھومی اطمینان سے بولی
" اوہو !! پاکستان میں ترقی !!"
وہ مسکرائی تو باسط نے اسے ناسمجھی سے دیکھا مگر پھر بولی
" اب سکوں کے بجاۓ فقیر گاڑی کی چابیاں مانگتے ہیں واؤ !"
خالص تمسخرانہ انداز۔ باسط اس سے ایسی کسی بات کی توقع نہ رکھتا تھا ۔ گھور کے اسکو ایسے دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہو پھر نہایت حیرت اور تعجب سے اپنے سینے پر انگلی جما کر وہ بولا تھا۔
" میں یعنی ایک حسین نوجوان ، ایک ملٹری مین تمہیں فقیر لگ رہا ہوں۔۔؟ "
سینے پر انگلی ابھی تک دھری تھی اور اس طرح بات کرتے ہوۓ وہ واقعی ایک حسین نوجوان دکھتا تھا۔ تابی اسے کچھ لمحے اسی طرح دیکھتی رہی
" ہاں لگ رہے ہو ایک نمبر کے فقیر جب ہاتھ پھیلا کر کھڑے تھے اس طرح ، تب ہی تو کہہ رہی ہوں "
باسط نے فٹافٹ ہاتھ جینز کی جیب میں گھساۓ اور پھر سے چابی کا مطالبہ کیا ۔
" میں کیوں دوں اپنی کار تمہیں ؟؟"
تابی نے تنک کر اس سے پوچھا تھا۔
" آج میں تمہیں یونی ڈراپ کرو نگا "
وہ مسکراتے ہوۓ بولا تھا جس پر تابی کا فلک شگاف قہقہہ گونجنے لگا تھا۔ وہ ہنستی رہی ، ہنستی رہی یہاں تک کہ باسط نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اس کے ہاتھ سے چابی اچک لی ، تابی جو اسکا مزاق اُڑانے کا ارادہ رکھتی تھی خود ہی مذاق بن گئی کیونکہ باسط نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس پر اچھالی تھی اور وہ غصے اور بے عزتی کے احساس سے لال پیلی ہو گئی ۔ وہ جھپٹی مگر وہ باسط سے کہاں جیت سکتی تھی ۔
" میری کار ہے مجھے میری کیز واپس کرو "
وہ احتجاجً چلائی تھی۔ جواب میں باسط نے آنکھوں پر سن گلاسس لگاۓ اور اسے نرمی سے گھسیٹ کر فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا ۔ وہ مزاحمت کرتی رہ گئ تھی مگر جیت نہ سکی تھی۔ پورے راستے اسکا منہ غبارے کی طرح پھولا رہا۔ کم از کم باسط کو تو یہی لگ رہا تھا۔ اس نے اس سے بات کرنا چاہی مگر اس نے اسے منہ نہ لگایا وہ گاہے بگاہے اس سے مخاطب کر لیتا مگر جواب میں ایک لمبی خاموشی اور اگنورنس ہی ملتی اس نے میوزک پلیئر آن کر دیا جس میں سارے سلو سونگز چل رہے تھے تابندہ ٹہری پاپ راک گانوں کی شوقین اس نے اچانک ہی جھٹ سے آگے بڑھ کر اسے بند کر دیا ۔ باسط نے اسے دیکھا
" یہ کیا تھا ؟"
" میری مرضی میری گاڑی ہے "
وہ شانِ بےنیازی سے اترا کر بولی تھی۔ اگلے ہی لمحے اسکی اچھی والی عزت افزائی ہوگئ تھی۔
" ہاں تمھاری ہی ہے لیکن یہ نہ بھولو کے سب سے پہلے یہ میری تھی وہ تو میں نے تم پر ترس کھا کر اسلام آباد پوسٹینگ سے پہلے تمہیں دے دی تھی۔"
باسط کو یک پنچ پڑا تھا لیکن اس پہ اثر نہ ہوا
" بےشرم نہ ہو تو "
تابی زچ ہو کر بڑبڑائی تھی۔ وہ مسکراتا رہا پھر کچھ لمحے بعد وہ پھر بول پڑا ، موضوع کل والی بات تھی۔
" میں تمہیں اچھا نہیں لگتا کیا ؟"
وہ مسکراہت دبا کر سوال کر رہا تھا
" نہایت زہر لگتے ہو تم مجھے! "
وہ چڑ کر بولی
" تو کھا کر مر جاؤ ناں "
وہ مذاق اڑاتے ہوۓ بولا ، تابی بھناتے ہوۓ اس کی طرف پوری طرح گھوم گئ
" تم ہو ہی نہایت بدتمیز اور جاہل !!"
وہ زور سے ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔
" چپ کرو!!! "
وہ زور سے چلائی اور کھڑکی کی طرف منہ کرکے گھوم گئ تبھی وہ پوچھنے لگا۔
" تمہیں میرا سیگریٹ پینا بُرا لگتا ہے ناں ؟"
وہ اسکی طرف مُڑی
" تم میری طرف سے جہنم میں جاؤ ! سیگریٹ پیو یا زہر ، مجھے خاک پرواہ نہیں !"
وہ ناک چڑھا کر غصہ میں کہنے کے بعد سامنے دیکھنے لگی۔
" توبہ کرو ، میں کیوں جہنم میں جانے لگا ؟ میں تو سیدھا جنت میں جاؤں گا ، فوجی جو ہوں !"
مصنوعی ناراضگی سے کہتے ہوۓ آخر میں اس نے شرارت سے کہا تھا اور وہ " ہونہہ " کہہ کر ، سر جھٹک کر باہر دیکھنے لگی۔
یونی کے سامنے گاڑی رُکتے ہی وہ لپک کر اُتری تھی کہ اسے باسط نے پکارا اس نے اگنور کر دیا اور آگے بڑھنے لگی ۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ کچھ کمی ہے۔۔
"میرا بیگ ! اوہ نو یار !"
وہ آنکھیں بند کر کے وہیں ٹہر گئ۔۔ اسے اپنی جلد بازی اور اوور ہونے پر غصہ آرہا تھا۔ وہ اپنا بیگ گاڑی میں ہی چھوڑ آئی تھی اور باسط کے آواز دینے پر بھی نہیں رکی تھی۔ اب دوبارہ باسط کے پاس جانا اور پھر سے وہ اسکو کچھ نہ کچھ کہے گا۔ اسی کوفت سے اس نے آنکھیں میچ لی تھیں۔ بیگ لینا بھی ضروری تھا لیکن اس کے ہاتھوں پھر سے عزت افزائی کروانا قابلِ قبول نہیں تھا۔ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھی کہ پیچھے سے کسی نے اسکے کندھے پر ٹھونک بجائی۔ وہ تو ہل کر رہ گئ تھی۔
" یا اللہ !"
وہ اچھل کر مُڑی ، باسط اسکا پرس ہاتھ میں پکڑے طنزیہ مسکرا رہا تھا۔ وہ ابھی تک اس جھٹکے سے نہ نکلی تھی چیخ کر بولی
" ہاتھ ہے یا ہتھوڑا !!"
" اسے میں کامپلیمینٹ (compliment) سمجھوں ؟"
ملین ڈالر اسمائیل چہرے پر سجا کر پوچھا گیا۔ وہ جھنجلا گئ۔
" اب جا بھی چکو "
اس نے اپنا پرس جھپٹا اور ہاتھ کے اشارے سے اسکو جانے کو کہا
" پھر آونگا ، تم کو لینے "
تابی نے آس پاس دیکھا ساری آتی جاتی لڑکیوں کی نظریں باسط پر جمی تھیں۔ اس نے پھر باسط کو دیکھا
" باسط بہت ہوا ، اپنی شکل گم کرو چلو شاباش "
وہ اصل میں گھبرا گئ تھی کہ سب اس کو اسطرح کیوں دیکھ رہے ہیں لیکن باسط گِلو کی طرح چپک گیا تھا۔ باسط نے ایک ابرو اوپر کو اُٹھایا اور نچلا ہونٹ دبا کر اسے دیکھا۔ ایسا کرنے سے اسکا ڈمپل مذید گہرا ہوگیا اور وہاں کی لڑکیاں گرنے کے قریب قریب ہوگئیں مگر وہ ان میں سے کسی کو نہیں دیکھ رہا تھا۔
" سچی۔ جاؤں ؟"
نہیت معصومیت سے پوچھا گیا تھا جس پہ تابی کو تاؤ آگیا اور اسنے اسے آخرکار سب سے نظر بچا کر دھکا دے ہی دیا۔
" اب دفا ہو جاؤ "
اس پہ نہ ہی دھکے کا اثر ہوا نہ ہی اس کی بات کا۔ وہ کھڑا مسکراتا رہا بلا
آخر وہ تنگ آکر خود ہی پلٹ آئی
" پاگل ، سائیکو کہیں کا پتہ نہیں اسکو کیپٹن کس نے بنا دیا آرمی میں۔ کسی دن اسکا کوئی بوس ملا تو ضرور پوچھوںکی کہ۔۔۔"
وہ اپنے میں مگن " بک بک " کرتی جا رہی تھی کہ اسے پیچھے سے لاریب کی آواز آئی جو اسی کو پکارتے ہوئے بھاگی بھاگی آ رہی تھی۔ بھاگنے سے اسکے شولڑر کٹ براؤن بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور اسکی رنگت گلابی ہونے لگی تھی۔ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ وہ اس تک پہنچی
" ہاۓ "
" ہیلو لاریب "
" یار کیسی ہو تم تابندہ ؟ "
" میں ؟ میں ٹھیک ہوں بلکل تم کو کیا ہوا ہے ؟ "
تابندہ واقعی حیران تھی کہ آج اس نک چڑھی کو کیا کام پڑ گیا ہے وہ اسکی صرف کلاس فیلو تھی دوست نہیں جھبی وہ حیران ہوئی جا رہی تھی۔
" ہاں یار میں بھی ٹھیک ہوں بس سوچا تم سے تھوری باتیں کر لوں ایسے ہی بور ہو رہی تھی۔ "
وہ مسکرائی تو تانبدہ نے اچھا کو بہت لمبا کر کے ادا کیا۔
" اچھا یہ بتاؤ ابھی میں نے تمہیں باہر دیکھا "
وہ تھورا رکی
" وہ جو تمہارے ساتھ لڑکا تمہیں چھوڑنے۔۔۔۔ "
" ڈرائیور تھا میرا !"
لاریب کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اس کو سب سمجھ آگئ تھی کہ وہ کس سلسلی میں اتنی میٹھی بن کے اس سے بات کر رہی تھی تبھی اس نے اس کی بات کاٹ کر ڈرائیور پر زور دیا تھا۔ ساتھ ساتھ اسے باسط پر غصہ بھی آیا تھا کیا ضرورت تھی اتنا ہیرو بن کر آنے کی !
" نو وے "
اسکی ڈرائیور والی بات پہ لاریب کا منہ کھل گیا تھا۔
" تم لوگ ڈرائیور بھی اتنے خوبصورت رکھتے ہو ؟؟ "
تابندہ کو اتنی بری ہنسی آئی لیکن وہ سنبھل کر بولی
" ہاں حسن پرست ہوں ، ہر چیز حسین ہے "
اگر ابھی باسط اسکو سن لیتا تو اسکو کچا چبا جاتا کیونکہ اس نے میجر باسط ریحان زیدی کو ایک ڈرائیور بنا دیا تھا لاریب نامراد واپس پلٹی اور اس کے بعد تابندہ ہنس ہنس کہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔

※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※

یونی میں صلہ کو اس نے الف سے یے تک ساری کہانی سنائی اور صلہ کا ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا
" او مائی گاڈ تابی تم دو بار اس کے ہاتھوں ٹھنڈے یخ پانی سے نہا گئیں ؟! "
اس کی ہنسی کسی طدح رکنے میں نہیں آرہی تھی۔ وہ تو بھلا ہوا تابی کے بھاری بھاری ہاتھوں کا جس سے ایک کرارا جھانپڑ کھا کر صلہ سیدھی ہو کر بیٹھی
" کیا ہے یار اتنا مارتی ہو تم مجھے ، میری صحت دیکھو اور اپنی صحت دیکھو "
وہ اپنا بازو سہلاتے ہوۓ خفگی سے بولی تھی۔ اس وقت وہ یونی میں فارغ بیٹھی تھیں اسکے بعد چھٹی ہو جانی تھی۔ حسبِ عادت تابی چپس کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑے اس میں سے چپس نکالتی جاتی اور کچر کچر چباتی بھی جاتی تھی۔
" تو تم میری دوست ہو یا اس باسط پاگل کی ؟ ہمیشہ اسکی سائیڑ لیتی ہو "
وہ نارضگی سے بولی تھی ساتھ ساتھ منہ بھی چلتا جا رہا تھا۔
" اس کی اتنی تعریفیں سنی ہیں تو مبھے نہیں لگتا کہ مجھے فضول میں بغض رکھنا چاہیے اِف یو نو واٹ آئی مین ہی ہی ہی "
وہ آنکھ دبا کر شیطانی انداز میں ہنسی تھی۔ تابندہ نے اسکو ایک اور تھپڑ مارا لیکن وہ نشانہ چونک گیا کیونکہ اس بار صلہ ہوشیار بیٹھی تھی۔
" چلو چھٹی ہوگئی گھر چلیں۔۔"
وہ دونوں ایک ساتھ چلتی ہوئی باہر آئیں باہر نکلتے ہی تابی کی پہلی نظر باسط پہ پڑی جو دھوپ میں گاڑی سے ٹیک لگاۓ اسکا انتظارُکر رہا تھا لیکن اتنی بھیڑ میں وہ اسے ڈھونڈ نہیں سکا تھا۔

※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※

Aslam o Alikum everyone!
I hope this is a long one! 😉 but next upload weekend pr aye gha! Thanks to mam Javeria Irfan for writing this beautiful story! Do vote and comment your favorite part or dialogue. Peace out ✌️
Ruqaya here 😊😊

Mohabbat Tum He Se HaiDonde viven las historias. Descúbrelo ahora