Part 4

1.3K 30 10
                                    


" ہاں میں مانتی ہوں بیٹا لیکن اُسکے پاس پوری بھری پری فیملی ہے لیکن یہاں صرف ہم دو بوڑھیاں ہیں اوپر سے تم بھی چلی جاؤ گی تو سارا کام کیسے ہو گا ؟ ویسے بھی باسط آرہا ہے سو صرف ایک سے ڈیڈھ گھنٹے تک ! "
نغمہ کی بات میں دم تھا جس پہ فائقہ نے بھی سر ہلایا تھا ۔ اوپر سے نغمہ کا خالصتہً تنبیہ انداز مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ مری ہوئی آواز میں  " جی " کہہ کر باہر نکل آئی ۔ اسکا موڈ بہت خراب ہوگیا تھا۔ اپنی اتنی اچھی دوست۔ کو بیمار کر کے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا تھا ۔  بےدلی سے گاڑی کا  دروازہ کھول کر وہ بیٹھ گئی۔
" کیا مصیبت ہے یار "
وہ بری طرح چڑی ہوئی تھی ۔ کتنی ہی دیر تک وہ  گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھی رہی پھر اچانک ہی اسے خیال آیا کہ کہیں وہ ابھی ہی آ گیا تو۔۔۔؟ تو کہیں اسے گلا دبا کر نہ مار دے اور اسکی لاش ڈگی میں ہی چھپا دی تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی آخر پورے دو سال کا بدلہ تھا کم از کم اسے تو یہی اُمید تھی ۔ اسنے جھرجھری لے کر گاڑی اسٹارٹ کی اور صلہ کے گھر کی طرف بھاگ گئی مگر وہ جانتی نہ تھی کہ سب محنت  بے کار تھی ہا ہا ہا ۔۔۔۔!

                                                                                ※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※

اسکا کم مکمل ہو ہی گیا تھا اور کراچی کے لیے نکلنے میں ابھی ایک گھنٹہ بچا تھا مگر وہ ابھی بھی یونٹ میں بیٹھا تھا ، اس کی آنکھیں اس قدر حسین تھیں کہ اس کے یونٹ کے دوسرے ساتھی اکثر و پیشتر اس کی تعریفیں کرتے رہتے تھے ۔ وہ اپنے کام کے وقت بلکل الگ انداز میں ہوتا تھا ۔ اس قدر جان توڑ محنت سے ہی تو گذشتہ یومِ آزادی پر اس کو کیپٹن سے میجر کا رینک ملا تھا لیکن یہ بات اس نے اب تک گھر میں کسی کو نہ بتائی تھی ۔ گھر والے سمجھتے تھے کہ وہ محض ابھی تک کیپٹن ہی ہے خاص کر تابندہ اسکو چٹکیوں میں اُڑایا کرتی تھی ۔ اسے یاد تھا جس دن کیپٹن رینک لگنے پر اسنے گھر کال کی تھی تو فون تابندہ نے ہی ریسیو کیا تھا ۔ وہ بہت خوش تھا ۔ اسنے سب سے پہلے تابندہ کو ہی بتایا تھا مگر یہ کیا۔۔۔! تابندہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی تھی ۔ وہ حیرت ذدہ رہ گیا تھا ۔
" کس بات پہ اتنی ہنسی آ رہی ہے؟"
اسکے نان اسٹاپ ہنسنے پر آخر وہ تپ گیا تھا۔
" میں سوچ رہی تھی۔۔۔ کہ تمہاری شکل لیفٹیننٹ بننے کی نہیں اور تمہیں کیپٹن بنا دیا "
ہنسی کے درمیان وہ بمشکل بول پائی تھی اور ایک بار پھر وہ زور و شور سے ہنسنے میں مصروف تھی ۔
" تمہیں تو میں آ کر بتاؤنگا لڑکی۔۔!"
باسط جل کر بولا تھا جس پہ وہ ایک بار پھر ہنسی تھی ۔
" پہلے آ تو جاؤ ہاہاہا!"
یقیناً وہ اسکے اسلام آباد میں ہونے پر چوٹ کر رہی تھی کیونکہ اسکی پوسٹنگ ادھر ہوئی تھی ۔ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا لہذا اس نے دل برداشتہ ہو کر فون بند کر دیا تھا ۔ وہ یہی سوچ کر دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا تب ہی اسکا دوست کیپٹن یاسر اندر داخل ہوا اسے ایک نظر دیکھا پھر مسکرا دیا
" کیا سوچ کر مسکرایا جا رہا ہے میرے یار ۔۔! "
آواز پر وہ یکدم چونکا پھر اسے دیکھ کر زور مسکرا دیا اس طرح اس کے گال پر ڈیمپل نمودار ہوا
" کچھ نہیں یار بس گھر جا رہا ہوں تو وہیں کا سوچ رہا تھا ۔"
اب وہ پیپر ویٹ ہاتھ میں گھوما رہا تھا جبکہ یاسر اب کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکا تھا ۔
"اوہو ! گھر کا سوچ رہا تھا یا جو وہاں رہتی ہے اسکا ۔۔؟ "
معنی خیزی سے یاسر نے پوچھا جس پہ اس نے اسے گھور کے دیکھا جبکہ یاسر اب قہقہے لگا رہا تھا ۔
"بکواس بند کر "
یہ کہہ کر وہ خود بھی مسکرا رہا تھا ۔
"اچھا یہ بتا کہ وہ ابھی بھی لڑتی ہے یا سدھر گئی ۔۔؟"
یاسر اسکا بہترین دوست تھا تبھی وہ اسکے بارے میں سب جانتا تھا ۔
" مت پوچھ بھائی ! جیسی چھوڑ کر آیا تھا ابھی بھی ویسی ہی ہے اور مجھے وہ ویسی لڑتی جھگڑتی ہی اچھی لگتی ہے ۔ "
یہ کہہ کر دونوں نے ایک ساتھ قہقہے لگاۓ ۔
" اچھا آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے میں اب نکلتا ہوں فلائٹ مس نہ ہو جاۓ ۔ "
کچھ دیر یاسر سے باتیں کرنے کے بعد وہ سب سے مل کر تیار ہو کر ائیرپورٹ پہنچا تھا ۔ وہاں موجود آتے جاتے لوگوں میں سے ہزاروں لڑکیوں نے مڑ مڑ کر اسے دیکھا تھا لیکن وہ خود میں مگن چل رہا تھا ۔
" اف اتنا ڈیشینگ ۔۔!" وہیں پہ موجود دو لڑکیوں نے اسے دیکھ کر کہا تھا ۔

※※※※※※※※※※※※※※※※※※※

صلہ کے ساتھ آئسکریم میں بیٹھی وہ اپنا دوسرا کپ ختم کرنے لگی تھی جبکہ صلہ بے چاری نے پہلا کپ ہی بمشکل آدھا کھایا تھا ۔ کھانے میں مگن تابندہ کو اسنے ایک نظر دیکھا ۔
" کتنا ڈر ہے نہ تجھے اسکا ! "
تابی نے سر اٹھایا اور بات سمجھ کر سر ہلایا
" ہاں یار وہ توہے کیونکہ وہ اگر ایک بار کچھ بول دے تو لازمی کر رہتا ہے "
وہ کھاتی جاتی اور بتاتی جاتی تھی تب ہی صلہ نے اب کی بار واضح بات کی تھی
" اتنا ڈر ہے تجھے اسکا مگر تیرا دوسرا اسکوپ بھی ختم ہو چکا ہے ، ویسے صحیح تو کہتا ہے وہ ۔۔ "
وہ ہلکا سا مسکرائی
" کیا کہتا ہے وہ ۔۔؟ "
تابندہ کا دھیان ادھر نہ تھا وہ دوسرا فلیور کھانے کا سوچ رہی تھی تب ہی بے دھیانی میں پوچھ لیا ۔
" موٹی !! "
صلہ نے کہہ کر ایک قہقہہ لگایا جبکہ وہ آگے کو جھکی اور صلہ کو ایک زوردار دھپ رسید کی ، اب کی بار صلہ کراہی ۔
" تجھے ٹائیفائڈ کروا کے ، اتنے کشت اٹھا کے میں اس جنگلی بھینسے سے بھاگنے چلی تھی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا "
نہایت غمزدہ انداز میں اسنے صلہ کو کہہ سنایا اور آئسکریم کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا جبکہ دوسری طرف صلہ کا دماغ بھک سے اُڑ گیا ۔ اس نے ہاتھ روک کر بڑے ہی زہریلے انداز میں اپنی عزیز از جان سہیلی کو گھورا مگر اسے کہاں پرواہ تھی اسنے فون پر کیمرہ آن کیا اور ایک سیلفی لے ڈالی وہ کھانے پینے کی اس قدر شوقین تھی کہ اس کے فون میں صرف اسکی کھانے کے ساتھ ہی تصویر ہوا کرتی تھی مشکل سے کبھی کھانے کی جگہ صلہ ہوتی تھی ۔ ادھر صلہ کا غم و غصے سے برا حال تھا ۔
" تابی! "
صلہ اب کچھ سوچ کر سکون سے بولی تھی۔
" ہوں "
اسکی نظریں فون پر تھیں ۔
"تم بہت گھٹیا ہو ، اللہ کرے تیرا کزن تجھے اپنی ۹ ایم ایم سے اُڑا دے آمین ! "
اسنے اسکے ساتھ ایک لمبا سا آمین بھی کہا تھا ۔
             
                                                              ※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
Aslam  o Alikum everyone!
Sorry for updating late but here u go. Do vote and comment . Thanks to Javeria Irfan for writing this amazing story. Aur Jin logon ko he ikhtelaf hai ke mien iss epi mien Tabi aur Basit ki mulaqat nhi kerwai toh plz app log thora hosla rakhien next epi IA Sunday ko  aye ghi . ( I mean app logon ka monday aur mera sunday)
Sorry time difference ki waja sy thira mushkil ho jata hai next epi ka day batana 😉😉😉  Enjoy and peace out ✌️
Ruqaya here ☺️☺️

Mohabbat Tum He Se HaiWhere stories live. Discover now