Episode 2

2.5K 138 6
                                    

وہ نہیں جانتی تھی کہ ثُمامہ نے کیا کہہ کر گھر والوں کو راضی کیا تھا لیکن اس دن کے بعد سے گھر میں کسی نے بھی اسکے رشتے سے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ اس بات سے مطمئن تھی۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ فون کی آواز پر چونکی۔ سکرین پر احمد کالنگ لکھا آرہا تھا۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اپنی ساری سوچوں کو جھٹکتی کال اٹینڈ کرکے بالکونی میں آگئی۔
"کیا کر رہی ہو پریٹی لیڈی؟"فون اٹھاتے ہی اس کے کانوں میں احمد کی شرارتی سی آواز گونجی۔
"آپ کو یاد کر رہی ہوں ینگ مین۔"وہ بھی شرارتاً بولی
"ہائے اللہ جی میں کہیں خوشی سے مر ہی نا جاؤں۔"شرارت ہنوز برقرار تھی۔
"بڑے ڈھیٹ ہیں آپ جناب ایسے نہیں مرینگے"وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"ہاہاہا بڑی حاضر جواب ہو"وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا
"سب چھوڑیں ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں رات کو اس وقت کال کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی آپ کو؟"
وہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔
"وہ، مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی منال۔"اب وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
"کیا بات کرنی ہے آپ کو احمد؟"اس کے لہجے کی سنجیدگی بھانپ کر وہ پریشان ہوگئی۔
"وہ منال میں آپ کے گھر اپنی مام کو بھیجنا چاہتا تھا"اس نے جھجک کر بات شروع کی۔
"کیوں؟ "منال بے ساختہ ہی پوچھ بیٹھی۔
"منال میں آپ کے اور اپنے رشتے کے سلسلے میں مام کو آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں"اب کہ احمد نے بغیر کسی جھجک کے کھل کر بات کی۔
"جی"؟منال حیرت سے بولی
"ہاں جی! دیکھو منال میں گھما پھرا کر بات کرنے کا عادی نہیں ہوں تم بس مجھے اچھی لگتی ہو اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ "وہ آہستگی سے بولا
"تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟"اب کہ احمد نے منال کہ رائے مانگی۔
"لیکن احمد میری پڑھائی؟ سٹڈیز کمپلیٹ کرنے سے پہلے میں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑھنا چاہتی۔"وہ جھجکتے ہوئے بولی
"سٹڈیز کی ٹینشن نا لو تم میں ہوں نا۔ اچھے سے پڑھائی کروا دوں گا۔"وہ شرارت سے بولا تو منال نے مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔
ڈاکٹر احمد سے منال کی ملاقات میڈیکل کالج میں ہوئی تھی۔  احمد منال سے سینیر تھا۔ منال ایم بی بی ایس کے لاسٹ ایئر میں تھی جبکہ احمد اپنی ہاؤس جاب کمپلیٹ کرکہ اسپیشلائزیشن کے لیے امریکہ جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
منال میں اور احمد میں کافی گہری دوستی ہوچکی تھی اور اسکی بڑی وجہ احمد کا شرارتی مزاج تھا جو ہر ایک کو اس سے بات کرنے پر مجبور کرتا تھا۔
منال نے احمد کے متعلق کبھی اس انداز میں نہیں سوچا تھا اور نہ ہی احمد نے کبھی ایسی کوئی بات کی تھی لیکن آج احمد کی بات سن کر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویک اینڈ ختم ہوچکا تھا اور آج وہ واپس جارہا تھا۔  مسز زبیر مسلسل اسے ہمشیہ کی طرح اپنا خیال رکھنے کی نصیحتیں کررہی تھیں۔
"مام بس بھی کردیں مجھے آپکی نصیحتیں الٹی بھی یاد ہوگئی ہیں"وہ انہیں مسلسل بولتا دیکھ کر شرارت سے بولا
"لیکن پھر بھی تم نے ان پہ عمل نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔"وہ خفگی سے بولیں
"میری پیاری اماں جان آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ۔ ہمارا تو دل و جان اپنے وطن کے لیے ہی ہے۔ جب شہید ہونے کی خواہش ہے دل میں تو خیال رکھ کہ کیا کرنا ہے؟ ہمیں تو بس وطن کا خیال رکھنا ہے۔ "
وہ جزب سے بولا تو انہوں نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
"چلو بکواس بند کرو اور پیکنگ کرو اپنی لیٹ ہوجاؤگے۔"وہ بولیں تو ثُمامہ بس مسکرا کر رہ گیا اور پھر سے پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔
"مجھے سمجھ نہیں آرہا آخر تم نے منال کے لیے انکار کیوں کردیا ثُمامہ۔ میں نے تم سے پوچھ کر ہی رشتے کی بات کی تھی فاخرہ سے لیکن تم نے انکار کرکہ ہمیں کتنا شرمندہ کروا دیا ہے تمہیں احساس نہیں ہے۔"اب کی بار وہ سنجیدگی سے بولیں تو ثُمامہ پیکنگ چھوڑ کر ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
"مام انکل عثمان کی دیتھ کے بعد جس طرح کی منال کی زہنی کیفیت ہوگئی ہے آپ کو کیا لگتا ہے کیا وہ مجھ سے رشتہ جوڑ کر خوش رہ پاتی؟"
وہ جانتا تھا کہ انکار کے بعد اسے بہت سے سوالوں کے جوابات دینا ہوں گے اس لیے اس نے خود کو پہلے سے ہی تیار کر رکھا تھا۔
"لیکن یہ اتنی بڑی وجہ تو نہیں ہے کہ تم نے انکار ہی کردیا۔ اسے سمجھایا بھی تو جاسکتا تھا نا۔"
وہ اداسی سے بولیں
"مام آپ بھول جائیں اس بات کو اب۔ بس وہ میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی تھی اس لیے میں نے پہلے ہی انکار کردیا۔"وہ قطیعت سے بولا
"کیسے بھول جاؤں ثُمامہ؟ یہ بات تمہیں پہلے سوچنی چاہیے تھی جب میں نے تم سے پوچھا تھا۔ اب تم جانتے بھی نہیں ہو کہ تمہارے ڈیڈ تم سے کتنے خفا ہیں۔"وہ خفگی سے بولیں
"آپ پریشان مت ہوں میں انہیں منا لوں گا"وہ مسکراتے ہوئے بولا اور اپنا بیگ اٹھا کر باہر جانے کے لیے قدم بڑھائے۔
"اب خدا حافظ تو کردیں۔۔ کیا پتا واپس ہی نہ آؤں۔"وہ انہیں ناراض دیکھ کر شرارت سے بولا
"بس فضول باتیں کروا لیا کرو تم سے"وہ خفگی سے بولیں اور اٹھ کر اس کا ماتھا چوما۔
"خیال رکھنا اپنا۔"اور وہ مسکراتا ہوا بیگ اٹھائے لان میں آگیا جہاں کرنل زبیر بیٹھے تھے۔ وہ کل سے اس سے سخت خفا تھے۔ انہوں نے انکار کو لے کر کوئی بعض پرست نہیں کی تھی لیکن خاموش رہ کر اپنی خفگی کا اظہار ضرور کر رہے تھے۔
"میں جا رہا ہوں بابا۔"اس نے پیچھے سے انہیں آواز دی لیکن وہ بغیر اس کی طرف دیکھے یونہی رخ موڑے بیٹھے رہے۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا ان کے سامنے آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ان کا ہاتھ تھام لیا۔
"میں جانتا ہوں بابا میں نے آپ کا مان توڑا ہے اور آپ کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ بابا پلیز مجھے معاف کردیں۔"وہ التجا کرتے ہوئے بولا
"تم نے ہمیں بہت دکھی کردیا ہے ثمامہ۔ تمہیں زرا احساس نہیں ہے کہ ہم بھابھی کے سامنے کس قدر شرمندہ ہیں۔"وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے بولے
"میں جانتا ہوں بابا لیکن آپ اپنے بیٹے پر یقین رکھیں نا۔ کوئی نا کوئی تو ایسی وجہ ہوگی جس نے مجھے انکار پر مجبور کیا ہے۔"وہ آہستہ سے بولا
"تو پھر بتاؤ مجھے وجہ۔ بتاؤ کیوں انکار کیا تم نے؟"اب کہ انہوں نے غصے سے پوچھا
"وجہ میں بتا چکا ہوں بابا۔"وہ نظریں چرا کر بولا
"یہ بچکانہ وجوہات تم کسی اور کے سامنے پیش کرنا ثُمامہ۔ میں تمہارا باپ ہوں تم سے زیادہ تم کو جانتا ہوں۔ تم ساری دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہو مجھے نہیں۔"وہ غصے سے بولے
"آئم سوری بابا۔"وہ سر جھکاتے ہوئے بولا
"یہ سوری تب ہی ایکسیپٹ ہوگی جب تم سچ بتاؤ گے۔"
"میں آپ کو سچ نہیں بتا سکتا بابا جان لیکن بس اتنا کہوں گا کہ آپ اپنے بیٹے پر بھروسہ رکھیں۔ "
وہ ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے بولا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں چلتا ہوں بابا۔"وہ یہ کہہ کر گیٹ کی طرف چل دیا لیکن آج پہلے کی طرح زبیر صاحب نے نا اٹھ کر اسے گلے لگایا تھا نہ ہی اس کی پیٹھ تھپکی تھی اور نہ ہی اسے یہ کہا تھا کہ "اپنے وطن کے لیے اپنا خیال رکھنا کیونکہ تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا ہے"
وہ اداسی سے اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال ٹیرس پر کھڑی نیچے دونوں باپ بیٹے میں ہونے والی ساری کاروائی دیکھ چکی تھی۔ اور یہ سب دیکھ کر اسے ماحول میں کشیدگی کا باخوبی اندازہ ہوچکا تھا۔ اسے اس وقت دکھ بھی بہت ہورہا تھا۔ ثُمامہ نے صرف اس کے لیے سارے گھر والوں کی ناراضگی مول لی تھی۔ وہ چاہتا تو سب کو سچ بتا کر بھی انکار کرسکتا تھا لیکن اسنے ساری بات اپنے اوپر لے کر منال پر ایک آنچ بھی نہیں آنے دی تھی۔  منال نے کچھ سوچتے ہوئے موبائل نکالا اور ثُمامہ کا نمبر ڈائل کیا۔
"السلام علیکم"دھیمے لہجے میں سلام کیا گیا۔
"وعلیکم السلام"وہ ابھی گھر سے نکلا ہی تھا کہ منال کی کال دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی"وہ تمہید باندھتے ہوئے بولی
"جی بولیں اب کیا کہنا ہے آپ کو۔"وہ نہایت سنجیدگی سے بولا۔ ایک تو پہلے ہی بابا کی رویے سے دلبرداشتہ تھا اوپر سے اسے ایک اور بات کرنی یاد آگئی تھی اب۔
"اصل میں مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا آپ نے میری مدد کی میں اس کے لیے بہت مشکور ہوں آپ کی۔ وہ آہستہ سے بولی
"اور کچھ؟"وہ پھر سنجیدگی سے بولا
"اور ساتھ ہی مجھے معذرت بھی کرنی تھی آپ سے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میری وجہ سے سب آپ سے خفا ہوجائیں گے۔ میں شرمندہ ہوں کہ میری وجہ سے آپ کو پریشانی کا سامنہ کرنا پڑا۔"
"اب خوش ہیں آپ؟"اس کی بات کو نظر انداز کرکہ ثُمامہ نے سوال کیا۔
ثُمامہ کا لہجہ کسی بھی طنز سے عاری تھا لیکن منال کو یہی محسوس ہوا جیسے وہ اس پر طنز کررہا ہو۔ تھوڑی دیر پہلے والی ساری شرمندگی ہوا ہوگئی اور وہ پھر سے اپنی خود ساختہ سوچوں کے زیر اثر ہوگئی۔
"جی میں بہت خوش ہوں۔ اب کم سے کم مجھے اپنی خوشیوں کی ضمانت تو مل گئی ہے۔ اب مجھے اتنا تو یقین ہے نا کہ میں اپنی ماں کی طرح جوانی میں بیوہ نہیں ہوجاؤں گی ۔ میرے بچے میری طرح یتیم نہیں ہوں گے اپنے باپ کی محبت کے لیے دن رات تڑپیں گے تو نہیں۔ "اس ذکر پر ہمیشہ اس کے لہجے میں تلخی ہوجاتی۔اب بھی وہ تلخ ہوچکی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بات کو کہاں سے کہاں لے گئی تھی۔
"زندگی بڑی بے اعتبار چیز ہے مس منال اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ پھر بھی میری دعا ہے آپ کے ساتھ آپ ہمیشہ اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن رہیں۔ اگر آپ میرے ساتھ خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھیں تو کوئی بات نہیں۔"یہ کہہ کر اس نے کال بند کردی۔
وہ منال کی زہنی کیفیت سے آگاہ تھا لیکن وہ اتنی بے وقوف ہوگی اور ایسی سوچ رکھتی ہوگی اس بات کا اسے اندازہ نہیں تھا۔
تمام سوچوں کو جھٹکتے ہوئے لب بھینچ کر وہ ڈرائیونگ میں مصروف ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈور بیل کی آواز پر اس کی دھڑکن کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔  منال نے آخری دفعہ قد آور آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ سفید رنگ کی چکن کاری کی قمیض کے ساتھ لائٹ پرپل دوپٹہ گلے میں ڈالے سٹیپ میں کٹے کالے سیاہ بال کندھے پر پھیلائے وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ ہلکے سے میک اپ میں اسکا روشن چہرہ مزید کھل رہا تھا۔ آنکھوں میں آج انوکھی چمک تھی۔
وہ اپنے جائزے سے مطمئن ہوکر نیچے آگئی جہاں احمد کی امی اور دونوں بہنیں بیٹھیں تھیں۔
وہ سلام دعا کرتی وہیں ان کے پاس بیٹھ گئی تو احمد کی امی نے بات شروع کی۔
"مسز عثمان مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے"احمد کی امی نے تمہید باندھی۔
"جی کہیں"مسز عثمان بولیں
"میں اپنے بیٹے احمد کے لیے آپ کی بیٹی منال کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں منال بڑی پیاری بچی ہے ہم اسے اپنی بیٹی بنانا چاہتے ہیں"
انہوں نے محبت سے منال کو دیکھتے ہوئے کہا
"میں مشورہ کرکہ کوئی جواب دوں گی آپ لوگوں کو"مسز عثمان خوش اخلاقی سے بولیں
"ہمیں انتظار رہے گا آپ کے جواب کا"وہ خوشی سے کہتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ثُمامہ کو گئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ اور آج احمد نے منال کے لیے رشتہ بھیج دیا تھا۔ مسز عثمان ثُمامہ کہ انکار پر جتنی دلبرداشتہ ہوئیں تھیں اب احمد کا رشتہ آنے پر مطمئن ہوگئیں تھیں۔ احمد اچھا لڑکا تھا اس سے وہ پہلے بھی کئی بار ملاقات کرچکی تھی۔ ہاں ان کی دلی خواہش ضرور تھی کہ منال ان کی نظروں کے سامنے ہی رہے۔ لیکن پھر بھی وہ اس رشتے سے خوش تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

MUNTAZIR (COMPLETE)Where stories live. Discover now