اگلی صبح وہ تیار ہوکر کچن میں آیا تو منال ناشتہ بنا رہی تھی ۔۔۔ وہ فریج سے اپنے لیے کچھ نکالنے لگا جب منال کی آواز نے اس کہ ہاتھ روکے۔۔
"آپ کیا لیں گے ناشتے میں؟ "منال کے پوچھنے پر ثُمامہ کو خوشگوار حیرت ہوئی۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی باتوں کا منال پر اتنا جلدی اثر ہوگا۔۔
"آپ جو بھی بنا دیں میں کھا لوں گا۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولا تو منال نے اس کے آگے ناشتہ بنا کر رکھا۔۔ بڑے دنوں بعد ثُمامہ کو احساس ہوا کہ وہ شادی شدہ ہو چکا ہے ورنہ اب تک تو زندگی عجیب سی ہی گزر رہی تھی۔۔
"بچے کہاں ہیں۔۔؟ "منال اپنا ناشتہ بنا رہی تھی جب ثُمامہ نے بچوں کے متلعق پوچھا۔۔
"سو رہے ہیں۔۔ "وہ مختصر سا جواب دے کر خاموش ہوگئی۔۔
"میں مل لوں ان سے؟ "وہ اجازت طلب کرتا ہوا بولا تو منال نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔ پہلے تو وہ کبھی اس سے نہیں پوچھتا تھا ہمیشہ زبردستی ہی کرتا تھا۔۔ اس کا حیران ہونا تو بنتا تھا۔۔
"یہ کوئی پوچھنے والی بات تو نہیں ہے۔۔ "وہ آہستہ سے بولی
"پھر بھی میں نے پوچھنا ضروری سمجھا۔۔"وہ سنجیدگی سے بولا تو منال شرمندہ ہوگئی وہ جانتی تھی کہ وہ اسے پچھلی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایسا بول رہا ہے۔۔
"دیکھیں ثمامہ اپ پلیز میری پچھلی باتوں کا برا مت منائیں۔۔ اپ کو پتا ہے میں کن حالات سے گزری ہوں اور میرے لیے اس رشتے کو نبھانا کتنا مشکل ہے۔۔۔ "وہ کچھ شرمندگی سے بولی
"میرا مقصد اپ کو شرمندہ کرنا نہیں ہے میں بس اپ کو یہی بات ایک بار پھر باور کروانا چاہتا تھا کہ وہ میرے بھی بچے ہیں ۔۔ " وہ نرمی سے بولا
"میں جا رہا ہو۔۔۔ اپنا اور بچوں کا خیال رکھئے گا۔۔۔"نرمی سے کہتا وہ چلا گیا جبکہ منال نے پہلی بار اسے مسکراتے ہوئے رخصت کیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شام میں واپس گھر آیا تو آج خلاف معمول بچے بھی لیونگ مین بیٹھ کر کھیل رہے تھے جبکہ منال بھئ بجاے کمرے میں بیٹھے رہنے کے ان کہ ساتھ ہی بیٹھی تھی۔۔
ثمامہ کنکھارتا ہوا اندر داخل ہوا تو منال فورا سیدھی ہوئی اور اسے سلام کیا۔۔
"چائے لاؤں اپ کہ لیے؟"منال کے پوچھنے پر ثمامہ کو خوشگوار حیرت ہوئی
"اپ بنائیں چائے میں چینج کر کہ آتا ہوں۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ چائے بنانے چلی گئی۔
وہ ٹراوزر اور ٹی شرٹ پہن کر باہر آیا تو منال چائے ٹیبل پر رکھ رہی تھی۔۔۔ چائے پینے کے بعد ثمامہ بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔۔
منال غور سے ان تینوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔ دونوں بچے بلاکس کے ساتھ کھیل رہے تھے جبکہ ثمامہ بھی ان کہ ساتھ نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ منال نے جتنی بچوں کو ثمامہ سے دور رکھنے کی کوشش کئ تھی اب تک وہ اتنا ہی اس سے قریب ہوتے چلے جا رہے تھے۔۔ وہ چاہ کر بھی بچوں کو ثمامہ سے دور نہیں کرسکتی تھی کیونکہ انہیں ایک باپ کی ضرورت تھی اور منال کو ایک سہارے کی اور ثمامہ سے بہتر سہارا منال اور اس کہ بچوں کے لیے ثمامہ سے بہتر اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔۔
اسے شادی سے پہلے یہی خوف رہتا تھا کہ ثمامہ اس کہ بچوں کو قبول نہیں کرے گا اب تک کا بچوں کے ساتھ ثمامہ کا رویہ اسے دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں لگتا تھا لیکن اب اسے واقعی ثمامہ پر اعتبار آنے لگا تھا۔۔ اب اسے یقین ہورہا تھا کہ جو باتیں ثمامہ نے کہی تھیں وہ محض دعوے نہیں تھے بلکہ وہ ان پر پورا بھی اتر رہا تھا۔ ثمامہ نے اپنے کہے کے مطابق واقعئ اس کہ بچوں کو اپنی ہی اولاد مانا تھا۔۔
"اپ کا دل چاہ رہا ہے تو اپ بھی ہمارے ساتھ نیچے آ جائیں لیکن یوں گھور گھور کر نظر تو نا لگائیں ہم باپ بیٹوں کو۔۔"منال کی نظریں مسلسل خود پر محسوس کرتے ہوئے وہ بولا تو منال اپنی چوری پکڑی جانے پر شرمندہ ہوگئی ۔
"میں کسی کو نہیں گھور رہی تھی۔۔ کھانے کا ٹائم ہورہا ہے اپ لوگ آ جائیں کچن میں میں کھانا لگاتی ہوں۔۔"وہ اپنی شرمندگی چھپاتی ہوئی یہ کہہ کر کچن میں چلی گئی جبکہ ثمامہ مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی سونے کے لیے بیڈ پر لیٹا ہی تھا جب اس کہ کمرے کا دروازہ کھلا ۔۔ اسے نظر انداز کرکہ منال حنان کو اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی اور اسے ثمامہ کہ پاس لٹا کر چلی گئی۔۔ پھر دوبارہ آئی اور اب کی بار فیضان کو حنان کے ساتھ لٹایا اور خود بھی وہیں بیڈ پر لیٹ گئی تو ثمامہ کی حیرت کی انتہا نا رہی۔۔ اس نے باقاعدہ گردن موڑ کر منال کو دیکھا۔۔
"ہر چیز اپنے مقام پر ہی اچھی لگتی ہے۔۔ "منال ثمامہ کی حیرت بھانپ گئی تھی اس لیے اسے اسی کہ الفاظ لوٹاتے ہوئے بولی اور کروٹ لے کر لیٹ گئی جبکہ ثمامہ کتنی
ہی دیر حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اس کی أنکھ کھلی اس نے دوسری طرف کروٹ لی تو ایک مسکراہٹ اس کہ چہرے پر در آئی۔۔ حنان اس کی بازو پر سویا ہوا تھا جبکہ فیضان منال کی بازو پر سویا ہوا تھا۔۔ ثُمامہ آہستگی سے اٹھا حنان کا سر تکیے پر رکھا اور اس کہ ماتھے پر بوسا دیا۔۔ یہی عمل اس نے فیضان کے ساتھ دہرایا۔۔ پھر منال کی طرف بڑھا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کہ ہاتھ پر بوسا دیا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔
وہ واپس آیا تو سب ہنوز اسی طرح سو رہے تھے۔
"ربیت البیت۔۔۔ اٹھ جائیں اب۔۔ "وہ منال کے بال بگاڑتے ہوئے بولا تو وہ آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھی۔۔
"گھر کو بھی آپ نے آرمی بیس بنایا ہوا ہے۔۔ ٹائم پر سو جاؤ ٹائم پر اٹھ جاؤ۔۔ "وہ بیڈ سے اٹھتی چڑتے ہوئے بولی
"پورے آٹھ بجے اٹھایا ہے آپ کو یہ جلدی لگ رہا ہے؟
وہ جتاتے ہوئے بولا
"آٹھ بجے ہیں بارہ نہیں بجے جو ایسے کہہ رہے ہیں۔۔
وہ اکتاتے ہوئے بولی
"آپ دوسرے کمرے میں زیادہ اچھی لگتی تھیں۔۔ "
وہ کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے بولا تو منال نے اسے گھور کر دیکھا اور باہر چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے امی کہ گھر جانا ہے۔۔ دو ماہ ہوگئے ہیں ان سے ملے ہوئے۔۔ "وہ ناشتہ کر رہا تھا جب منال اس کہ سامنے بیٹھتے ہوئے بولی
"میں چھٹی کی بات کروں گا۔۔ جب ملیں گی تو چلیں گے ملنے سب سے۔۔ "
"آپ کو پتا نہیں کب چھٹیاں ملیں گی تب تک میں یہاں بیٹھی رہوں؟ "وہ ناراضی سے بولی
"پہلے تو امی کا فون نہیں اٹھاتی تھیں اب اچانک سے اتنی یاد آگئی۔۔ "
"پہلے ناراض تھی ان سے اب نہیں ہوں۔۔ "
"ملنا تو مجھے بھی ہے ابو سے۔۔ میں بھی ان سے ناراض تھا اب نہیں ہوں۔۔ "وہ منال کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے پھر میں بچوں کو لے کر چلی جاتی ہوں جب آپ کو چھٹی ملے آپ آ جائیے گا۔۔ "
وہ اسے اپنا پلین بتاتی ہوئی بولی
"بالکل نہیں اکیلے تو میں نہیں جانے دوں گا آپ کو۔۔
وہ انکار کرتے ہوئے بولا
"کیا مسئلہ ہے اکیلے جانے میں؟ میرے بچے بھی تو ساتھ ہیں۔۔ "
"اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ہیں آپ ایسے آسانی سے کیسے جانے دوں؟ "وہ پھر ذومعنی لہجے میں بولا تو منال نے اسے گھورا۔۔
"آپ نہیں جانے دیں گے؟ "اس نے آخری بار پوچھا
"نہیں۔۔ "ثمامہ کا جواب وہی تھا۔۔
"دیر ہو رہی ہے دس بجے ڈیوٹی شروع ہونی ہے آپ کی۔۔ "وہ ناراضگی سے کہتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ ثمامہ اس کی ناراضگی بھانپ چکا تھا لیکن فلحال اسے واقعی دیر ہورہی تھی۔۔ اسے منانے کا ارادہ ترک کر کہ وہ اپنی کیپ پہنتا ہوا چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فری ٹائم ملنے پر اس نے دو تین بار منال کو فون کیا جس میں سے اس نے بس ایک بار کال ریسیو کی اور وہ بھی مختصر سی بات کر کہ بند کردی۔۔ ثُمامہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ چھوٹی سے بات پر اتنا ناراض ہوگی۔۔
شام میں گھر جاتے ہوئے ثُمامہ کی نظر سگنل پر کھڑے گجرے والے کی طرف پڑی تو اس نے گلاب کہ پھول والے دو گجرے لے لیے۔۔
جب وہ گھر آیا تو منال کا موڈ ہنوز آف تھا۔۔ آج نا اس نے مسکراتے ہوئے سلام کیا تھا نہ ہی چائے کا پوچھا تھا۔۔۔ ثُمامہ اسے نظر انداز کرتا ہوا بچوں کی طرف بڑھا جو اسے دیکھتے ہی بابا بابا کرتے اس کی ٹانگوں سے لپٹ رہے تھے۔۔۔
وہ کچھ دیر ان کہ ساتھ کھیلتا رہا۔۔ پھر کپڑے چینج کرنے کی غرض سے کمرے میں چلا گیا۔۔ جب وہ باہر واپس آیا تو منال کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔۔۔ ثُمامہ کچن کے دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور اسے دیکھتا رہا۔۔
"کچھ چاہیے؟ "منال کسی چیز کے لیے پلٹی تو ثُمامہ کو وہاں کھڑا دیکھ کر چونکتے ہوئے بولی
"ہاں اپنی بیوی چاہیے۔۔ مل نہیں رہی۔۔ "وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
"مصروف ہے ابھی۔۔ "وہ مختصر جواب دیتے ہوئے بولی
"جب فارغ ہوتی ہے مجھے تب بھی لفٹ نہیں کرواتی۔۔ "وہ منہ بناتے ہوئے بولا
"آپ کو کوئی کام نہیں ہے جو بلاوجہ یہاں کھڑے ہیں؟ "اس نے اکتاہٹ سے پوچھا
"خدا کو مانو۔۔ نو گھنٹے کی ڈیوٹی کر کہ آیا ہوں اب کون سا کام کروں۔۔ "
"جو بھی کرنا ہے کریں لیکن مجھے تنگ نا کریں۔۔ "
"کسی اور کو تنگ کروں گا تو تمہیں اچھا نہیں لگے گا۔۔۔ "وہ پھر شرارت سے بولا تو منال نے اسے نہایت غصے سے دیکھا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
"اچھا یار اتنی چھوٹی سی بات کو لے کر کیوں ناراض ہو رہی ہیں آپ۔۔ "کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولا
"یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے۔۔ "وہ ناراضگی سے بولی
"اچھا اس موضوع پر ہم پھر کبھی بات کریں گے فلحال میں آپ کے لیے کچھ لایا ہوں۔۔ "وہ اس کہ قریب آکر اپنے دونوں ہاتھ آگے کرتا ہوا بولا تو ان میں گجرے تھے۔۔
پھر اس نے دونوں گجرے منال کے ہاتھوں میں پہنائے اور اس کہ ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
"کبھی میرے بھی سج سنور جایا کریں۔۔ "وہ ایسے انداز میں بولا تھا کہ بے اختیار ہی منال کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔
"یار میں لے جاؤں گا آپ کو کچھ دنوں تک اس میں رونے والی کیا بات ہے۔؟ "منال کے آنسو دیکھ کر وہ یہی سمجھا کہ وہ اب تک اسی بات کو دل سے لگائے بیٹھی ہے لیکن منال اسے کیا بتاتی کہ آج اسے بہت دنوں بعد پھر سے کسی کی یاد آئی تھی۔۔۔ آج ثُمامہ کے انداز میں منال کو کسی اور کی جھلک یاد آئی تھی لیکن اب وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ وہ اس کا ماضی تھا لیکن ثُمامہ اب اس کا حال اور مستقبل تھا۔۔ اب اسے ثُمامہ کے ساتھ زندگی گزارنی تھی اگر اب بھی وہ اسے سوچتی تو یہ ثُمامہ کے ساتھ بے وفائی ہوتی۔۔
آنسوؤں کے ساتھ ساتھ ہی وہ مسکرا بھی دی۔۔
"میں اس لیے نہیں رو رہی۔۔ "وہ آنسوؤں اور مسکراہٹ کے درمیان بولی
"پھر ناراضگی ختم؟ "وہ پرجوش انداز میں بولا تو منال نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔۔ آنکھیں ہنوز بھیگی ہوئی تھیں۔۔
"ہر وقت آنسو ضائع نا کیا کریں۔۔ آپ کو روتے دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ "وہ اس کہ آنسو انگلی کی پوروں سے صاف کرتا ہوا بولا اور کچن سے باہر نکل گیا جبکہ وہ اپنی کلائیوں میں موجود گجرے دیکھ کر مسکرا کر رہ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن ایسے ہی گزر رہے تھے۔۔ ثُمامہ اور منال میں اب کافی حد تک بے تکلفی ہوچکی تھی اب وہ اپنی ہر بات بلا جھجک ثُمامہ سے کہہ دیا کرتی تھی۔۔ وہ اپنی ہر بات اس سے منواتی تھی اور وہ بھی اس کی ہر خواہش پوری کرتا تھا۔۔
"گڈ نیوز ہے آپ کے لیے۔۔ "گھر آتے ہی وہ مسکراتے ہوئے بولا
"اچھا وہ کیا؟ "منال نے تجسس سے پوچھا
"وہ یہ کہ مجھے ایک ہفتے کی چھٹیاں مل گئی ہیں اور ہم ابھی اسی وقت اسلام آباد کے کیے نکل رہے ہیں۔۔۔ "وہ جوش سے بولا
"یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے لیکن ہم ابھی نہیں صبح نکل رہے ہیں کیونکہ ابھی موسم بہت خراب ہے۔۔ "
"ہم ابھی نکل رہے ہیں۔۔ آپ کو اپنے فوجی پر بھروسا ہونا چاہیے کہ ہم سرحدوں کی حفاطت کرنے والے سپاہی ہیں۔۔ موسم کے تیوروں سے نہیں ڈرتے۔۔
وہ اسے آنکھ مارتے ہوئے بولا
"مجھے اپنے فوجی پر بھروسا ہے لیکن اپنے آپ پر نہیں ہے۔۔ میں اتنی جلدی پیکنگ نہیں کرسکتی اس لیے ہم صبح ہی جائیں گے۔۔ "
"اس معاملے میں بھی آپ کو اپنے فوجی پر بھروسا ہونا چاہیے۔۔ آپ چلیں اندر میں آپ کی مدد کرواتا ہوں لیکن ہم آج اور ابھی نکل رہے ہیں۔۔۔ "وہ دوبارہ اپنی بات دہراتے ہوئے بولا تو منال اپنا سر پکڑ کر رہ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی اب وہ ضد پر اڑ گیا ہے تو پوری کر کہ رہے گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔