Episode 6

1.9K 157 11
                                    


"یہ میرے بچے ہیں ثُمامہ۔ آپ ان کے کچھ نہیں لگتے اس لیے برائے مہربانی ان کے ننھے ذہنوں میں خرافات مت ڈالیں۔"وہ نہایت سختی سے بولی ۔ ثُمامہ ایک پل کو گنگ رہ گیا پھر اس کے تاثرات سرد ہوئے۔
"تو پھر میں کون ہوں ہاں؟ نہ میں آپ کا کچھ لگتا ہوں نا ان بچوں کا کچھ لگتا ہوں تو پھر میں کیا ہوں؟"ثمامہ نے غصے سے سوال کیا
"آپ میرے لیے ایک زبردستی کے رشتے کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔"وہ تلخی سے بولی
"آپ اچھی طرح جانتے تھے میں کن کن حالات سے گزری ہوں۔ آپ کو اچھی طرح معلوم تھی میری ذہنی حالت۔ آپ کو پتا تھا میں کبھی نارمل نہیں ہوسکوں گی۔ پتا تھا آپ کو کہ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی لیکن نہیں۔ آپ نے میری ایک نہیں سنی۔ آپ نے صرف اپنی مرضی کی میں کیا چاہتی تھی کسی نے نہیں پوچھا۔ اس رشتے سے میرے پر کیا اثر پڑے گا کسی نے نہیں سوچا۔ سب کے لیے میں ایک بوجھ بن گئی تھی جسے سب نے اپنے سر سے اتار کر آپ کے گلے ڈال دیا۔ کیا بیوہ ہونا اتنا بڑا جرم تھا کہ میری مرضی ہی ختم ہوگئی؟ مجھ سے جینے کا حق ہی چھین لیا گیا۔ اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں تھا پھر سزا مجھے کیوں ملی؟"
وہ غصے سے بولتی آخر میں بے اختیار ہوگئی اور ہچکیوں سے رونے لگی۔ اسے اس وقت خود معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا بول رہی ہے۔ اتنے دنوں کا جو غبار اس کے دل میں تھا آج وہ سب نکل رہا تھا۔
"دیکھیں منال یہ جو کچھ بھی ہوا یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں ان میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اور جہاں تک رہی آپ کہ اور میرے رشتے کی بات یہ بھی تقدیر کے ہی فیصلا تھا۔ اگر آپ کا اور میرا ساتھ لکھا گیا ہے تو یقین کریں ہمیں کوئی الگ نہیں کرسکتا۔ منال میری گزارش ہے آپ سے کہ اگر اب یہ رشتہ قائم ہو ہی گیا ہے تو پلیز اسے نبھانے کہ کوشش کریں۔"منال کہ آنسو دیکھ کر اسکا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
"اور جہاں تک بچوں کی بات ہے منال تو میں ان سے دور نہیں ہوسکتا۔ آپ مجھے خود کہ قریب بے شک نہ آنے دیں لیکن ان بچوں سے دور مت کریں۔ ہمارے رشتے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہیں میں انہیں نظرانداز نہیں کرسکتا۔ "وہ حنان کو اپنے ساتھ لگائے التجائی انداز میں بولا تو منال نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموش ہوگئی۔ اس کے پاس دینے کو کوئی جواب نہیں تھا۔
وہ جو منال سے اور بھی بہت کچھ کہنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اپنے اور اس کے دشتے کے درمیان الجھنیں سلجھانا چاہتا تھا اس کی بے رخی دیکھ کر خاموش ہوگیا تھا اور بغیر کچھ کہے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ منال بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔
واپسی کا سفر خاموشی میں ہی گزرا تھا دونوں میں سے کوئی ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنی اپنی خاموشی کی مار دے رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمامہ کی واپسی میں بس ایک ہی دن رہ گیا تھا جبکہ وہ بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا لیکن منال کے رویے کی وجہ سے وہ جھجک رہا تھا۔
کچھ سوچتے ہوئے وہ ان کے گھر کی طرف بڑھا ۔
دروازہ ناک کرنے پر مسز عثمان باہر آئیں تھیں اور اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں تھیں۔ کافی دیر وہ ان سے باتیں کرتا رہا پھر انہوں نے ملازمہ سے منال کو بلانے کا کہا تو وہ شرمندہ ہوگیا۔
"میں بچوں سے ملنے آیا تھا آنٹی۔"وہ آہستگی سے بولا
"ہاں ضرور بیٹا ایسا کرو تم اوپر ہی چلے جاؤ۔ منال اور بچے وہیں پر ہیں۔"ان کے کہنے پر وہ اوپر آگیا۔ منال کے کمرے کا اسے معلوم تھا۔ دروازے پر دستک دے کر اجازت ملنے پر وہ اندر داخل ہوا۔
منال جو کہ حنان کو اپنی ٹانگوں پر بٹھائے اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی جبکہ فیضان ساتھ ہی بیٹھا کھلونوں سے کھیلنے میں مصروف تھا ثُمامہ کہ کنکھارنے پر سب ہی اسکی طرف متوجہ ہوئے۔ منال ثُمامہ کو دیکھ کر حیران ہوتی ہوئی تیزی سے سیدھی ہوکر بیٹھی جبکہ فیضان فوراََ سے ثُمامہ کو دیکھ کر بیڈ سے اترا اور اس کے پاس آگیا ۔ ثُمامہ نے جھک کر اسے اٹھایا اور اپنے ساتھ لگا لیا۔
"میں کل واپس جارہا ہوں اس لیے بچوں سے ملنے آیا تھا۔"منال کی نظروں میں الجھن دیکھ کر وہ اپنی آمد کی وجہ بتاتے ہوئے بولا ۔ منال جواب میں کچھ نہیں بولی
کچھ دیر خاموشی رہی دونوں کہ درمیان ثُمامہ بچوں کے ساتھ مصروف ہوگیا جبکہ منال انہیں ایک دوسرے میں گم دیکھنے لگی۔
"کچھ لیں گے ؟"کچھ دیر بعد منال کو احساس ہوا کہ اسے کچھ چائے پانی کا پوچھنا چاہیے اس لیے پوچھ بیٹھی۔
"چائے پلا دیں گی اگر آپ تو مہربانی ہوگی۔"
منال کے پوچھنے پر ایک لمحے کو ثُمامہ چونکا لیکن پھر مسکراتے ہوئے بولا تو منال اثبات میں سر ہلاتی چائے بنانے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ تینوں کارپٹ پر بیٹھے تھے۔ ثُمامہ ان کے ساتھ کھیل بھی رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسی دن کی طرح انہیں بابا کہنا بھی سیکھا رہا تھا۔
"بولو بابا۔۔۔"وہ ہر تھوڑی دیر بعد انہیں یہی کہتا
"با۔۔با۔۔۔"وہ دونوں ایک ساتھ اس کی پیروی کرتے اور پھر وہ تینوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑتے۔ وہ تینوں ساتھ ایک مکمل باپ بیٹوں والا منظر پیش کر رہے تھے۔ بے اختیار ہی منال کو احمد کا خیال آیا اگر وہ اس جگہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا نا؟ یہ جگہ ثُمامہ کی تو نہیں تھی یہ تو احمد کی جگہ تھی لیکن پھر قسمت نے ایسا کیوں کیا؟
اس کی آنکھوں میں بہت سے آنسو جمع ہوگئے جنہیں وہ پیچھے دکھیلتی اندر داخل ہوئی اور آہستگی سے بولی
"چائے"اس کی آواز پر ثُمامہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
وہ چائے رکھ کر واپس جانے لگی تھی کہ ثُمامہ نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے روک لیا۔
"آپ بھی یہیں بیٹھ جائیں ہمارے ساتھ۔"
"مجھے بچوں کے لیے چپس بنانی ہیں ۔"
وہ سنجیدگی سے کہتی اپنی کلائی چھڑواتی وہاں سے چلی گئی۔ ثُمامہ اس کے رویے پر اسے تاسف سے دیکھتا رہ گیا۔
کچھ دیر بعد وہ منال سے اجازت لے کر دونوں بچوں کو قریبی پارک میں لے گیا۔ وہاں کافی دیر دونوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد وہ گھر واپس آیا تو منال چپس بنا چکی تھی۔ ثُمامہ نے خود دونوں بچوں کو اپنے ہاتھوں سے چپس کھلائی اور پھر موبائل لے کر دونوں بچوں کو اپنے اوپر چڑھا کر وہ وہیں صوفے پر نیم دراز ہوگیا اور انہیں ویڈیوز دیکھانے لگا جس پر وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس دیتے۔
منال حیرانی سے ثُمامہ کہ فرینک انداز کو دیکھ رہی تھی۔ اسے آئے ساڑھے تین گھنٹے ہوچکے تھے لیکن اس کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے اس کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہ ہو۔
دوسری طرف ثُمامہ کو بھی گزرتے وقت کا احساس تھا لیکن دونوں بچوں کو چھوڑ کر جانے کا اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔
جب ایک گھنٹہ مزید سرک گیا تو منال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔
"ثُمامہ ان کے سونے کا ٹائم ہو گیا ہے اب۔"انداز صاف ایسا تھا کہ اب آپ چلے جائیں یہاں سے۔
"میں ان کو اپنے ساتھ لے جاؤں؟ مطلب آج یہ میرے ساتھ سوجائیں؟"ثمامہ امید سے بولا
"دماغ ٹھیک ہے آپ کا؟ آپ کیسے ان کو سلا سکتے ہیں ؟ ویسے بھی انہیں میرے بغیر رہنے کی عادت نہیں ہے۔"اس کی بات پر وہ سنحیدگی سے بولی
"تو پھر آپ بھی ساتھ ہی آجائیں۔"بے اختیار ہی ثُمامہ کہ منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے اقر احساس اسے تب ہوا جب منال نے اسے گھوری سے نوازا۔
"آپ سے میں ہزار دفعہ کہہ چکی ہوں میرے ساتھ فضول گوئی مت کیا کریں۔"وہ غصے سے بولیں
"کوئی بات نہیں ایک ہفتے بعد تو آپ مے میرے ساتھ ہی آنا ہے۔"وہ ڈھٹائی سے بولا
"اچھا دونوں کو نہیں تو کسی ایک کو تو جانے دیں میرے ساتھ "وہ پھر سے بولا
"ہر گز نہیں۔"جواب پھر نفی میں آیا۔
"جانے دو منال اگر وہ لے جانا چاہتا ہے۔ بچے ایک بار سو جائیں تو رات میں نہیں جاگتے اور اگر جاگ بھی گئے تو ثُمامہ انہیں کونسا کہیں دور لے جارہا ہے ساتھ والا ہی تو گھر ہے واپس لے آئے گا۔"
مسز عثمان جو اندر آتے ہوئے ثُمامہ کی بات سن چکی تھیں منال کو ٹوکتے ہوئے بولیں۔
ان کی بات مانتے ہوئے منال کو ناچار ہی حنان کو ثُمامہ کے ساتھ بھیجنا پڑا جبکہ وہ دلی طور پر بالکل راضی نہیں تھی۔ وہ دونوں بچوں سے کبھی ایک گھنٹے کے لیے بھی جدا نہیں ہوئی تھی یہ تو پھر ایک رات کی بات تھی۔ لیکن پھر ثُمامہ کی ضد اور امی کہ کہنے پر اسے ماننا ہی پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حنان کو بھیج تو چکی تھی لیکن کسی طور پر بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔ حنان کو گئے دو گھنٹے گزر چکے تھے رات بھی اب گہری ہورہی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کہیں حنان رو نہ رہا ہو اسے یاد نہ کررہا ہو اس طرح کی کئی سوچیں اس کے ذہن میں گردش کررہی تھیں۔
کافی دفعہ اس نے سوچا کہ ایک بار جاکر دیکھ آئے پھر خود ہی اپنا خیال مسترد کردیا ۔ جب سے ان کا نکاح ہوا تھا وہ ایک بار بھی وہاں نہیں گئی تھی اور  ثُمامہ کی موجودگی میں جانا بھی نہیں چاہتی تھی۔
آخر کار اس نے ہمت کر کہ ثُمامہ کا نمبر ڈائل کیا۔
دوسری طرف ثُمامہ اور حنان مزے سے ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو چکے تھے۔ ثُمامہ نیچے زمین پہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے سو رہا تھا جبکہ حنان اس کے سینے پہ سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔ دونوں ہی گہری نیند میں تھے لیکن سیل فون کی مسلسل بجتی بیل نے ثُمامہ کو اٹھنے پر مجبور کردیا۔ مندی مندی آنکھوں سے اس نے کال ریسیو کی بغیر نمبر دیکھے۔
"ثُمامہ حنان ٹھیک ہے؟ رو تو نہیں رہا؟ تنگ کررہا ہوگا آپ کو؟ آپ ایسا کریں اسے واپس دے جائیں۔"
کال اٹھاتے ہی اسے منال کی آواز سنائی دی گئی جو کہ روانی میں بولے جارہی تھی۔
"آپ نے مجھ سے کونسا بدلہ لیا ہے؟"منال کے سارے سوالوں کو نظرانداز کر کہ اس نے اپنا سوال کیا۔
"کیا مطلب؟"منال اس کے بے تکے سے سوال پر حیران ہوئی۔
"مطلب میری نیند خراب کرکہ کیا خوشی ملی ہے آپ کو ہاں؟ میں نے کیا جرم کیا تھا جس کی سزا میں آپ نے میری اتنی پیاری نیند خراب کردی۔ "
وہ اچھا خاصا چڑ کر بولا

"کیا فضول بول رہے ہیں؟ میں نے صرف حنان کا پوچھنے کے لیے کال کی تھی آپ کو "
ثُمامہ کی عجیب و غریب باتوں سے منال جھنجلا گئی۔
"سو رہا ہے یار حنان اب مجھے بھی سونے دیں آپ برائے مہربانی "نیند سے بوجھل آواز میں کہتے اس نے کال بند کردی جبکہ منال اس کے انداز پر جل بھن کر رہ گئی۔ یعنی کہ حد ہی ہوگئی ایک تو اس کا بیٹا اپنے پاس رکھا ہوا ہے دوسرا نخرے بھی کتنے دکھا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کال بند کرتے ہی وہ دوبارہ نیند کی وادی میں گم ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھ پھر کسی آواز سے کھلی لیکن اب کی بار یہ آواز سیل فون کی نہیں تھی بلکہ حنان کے رونے کی آواز تھی جو کہ اب اس کے اوپر سے اتر کہ ساتھ بیٹھ کر رونے میں مصروف تھا اور ساتھ ماما ماما کی رٹ بھی لگا رہا تھا۔
حنان کو روتا دیکھ کر ثُمامہ تیزی سے اٹھا اور حنان کو گود میں اٹھائے چپ کروانے لگا لیکن وہ کسی صورت اس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ چیختے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کرتا اور پھر رونے لگ جاتا۔
کافی دیر کی کوشش کے بعد بھی جب حنان چپ نہیں ہوا تو ثُمامہ کو ناچار منال کو کال کرکہ باہر آنے کا کہنا پڑا اور خود بھی حنان کو اٹھائے لان میں آگیا۔
منال کو تو پہلے ہی بے چینی ہورہی تھی اور نیند بھی نہیں آرہی تھی اوپر سے ثُمامہ کی کال آئی تو وہ بھاگتی ہوئی لان میں آگئی اور ثُمامہ کہ پاس پہنچی جو کہ حنان کو اٹھائے اسی کی طرف آرہا تھا۔
"میرا بچا کیوں رو رہا تھا؟"جلدی سے ثُمامہ کی گود سے منال نے حنان کو پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لگائے تھپکی دینے لگی ۔
ماں کا لمس محسوس کرتے ہی اس کے رونے میں کمی آئی اور وہ فوراََ اس سے لپٹ گیا۔ منال اسے لیے لان میں ٹہلنے لگی اور آہستہ آہستہ سے تھپکی دینے لگی جبکہ ثُمامہ وہیں چیئر پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔ آسمان پر اب ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی دور کہیں فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی۔
ثُمامہ کو پتا ہی نہ چلا کب وہیں بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی۔
حنان بھی منال کی گود میں سوچکا تھا منال ا ندر جانے کی غرض سے مڑی تو ثُمامہ کو کرسی پر سوتا دیکھ کر بے اختیار ہی اس کہ چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ بلیک ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے بکھرے بالوں کے ساتھ دونوں بازو اپنے گرد لپیٹے وہ آرام سے سویا ہوا تھا۔ منال کو اس کی حالت پر بے تحاشہ ہنسی آئی جسے دباتی ہوئی وہ حنان کو لٹانے اندر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

MUNTAZIR (COMPLETE)Where stories live. Discover now