رات کو پہنچتے ہی وہ سب سفر کی تھکان کی وجہ سے سو چکے تھے۔
صبح ثُمامہ کی آنکھ کسی کے رونے کی آواز سے کھلی ۔ یہ سب اس کے لیے بالکل نیا تھا اس نے اٹھ کر دیکھا تو بیڈ سے زرا فاصلے پر پڑے کوٹ میں سے حنان کے رونے کی آواز آرہی تھی اور کچھ ہی دیر میں آواز مزید تیز ہوگئی تھی کیونکہ حنان کہ رونے سے فیضان بھی اٹھ چکا تھا اور اپنا بھر پور حصہ ڈال رہا تھا۔ ثُمامہ کی نظر اپنے بائیں طرف گئی تو بستر خالی تھا منال وہاں موجود نہیں تھی اس نے سامنے دیکھا تو وہ بجائے بیڈ پر سونے کے سامنے ٹو سیٹر صوفے پر سو رہی تھی۔ ایک غصے کی لہر ثُمامہ کے اندر دوڑی جسے وہ بڑی مشکل سے دبا گیا۔ اتنی دیر میں منال بھی دونوں کی آواز سے اٹھ چکی تھی اور اک لمحے میں کھڑی ہوکر ان کے پاس پہنچی تھی۔ ایک ہاتھ سے حنان کو اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے وہ فیضان کو اٹھانے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس سے پہلے ہی ثُمامہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ایک طرف کیا اور فیضان کو اٹھا لیا۔
"سکت سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے۔"وہ سنجیدگی سے بولا
"اپنا بوجھ انسان کو اکیلے ہی اٹھانا پڑتا ہے کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔"وہ اپنی دھن میں بولی
"کبھی کسی کو موقع تو دیں کر دیکھیں کیا پتا وہ آپ کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہو؟"وہ نجانے کیا جتانا چاہتا تھا ۔اس کی کوئی بھی بات منال کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اس لیے اس نے جواب میں بات ہی بدل دی۔
"آپ پلیز مجھے کچن وغیرہ دکھا دیں اور بتا دیں کہ چیزیں کہاں رکھنی ہیں ساری۔"
"مجھے تھوڑی دیر میں ڈیوٹی کے لیے نکلنا ہے باقی سارا گھر ہی آپ کا ہے جہاں چاہے سامان رکھیں اور باقی گروسری کا سب سامان کچن میں موجود ہے۔"
وہ یہ کہہ کر اپنا یونیفارم نکال کر تیار ہونے چلا گیا جبکہ فیضان جوکہ اس کی گود میں ایک بار پھر سو چکا تھا اسے جاتے ہوئے وہ کاٹ میں لٹا گیا۔
منال نے حنان کو بھی سلا دیا اور کچن میں آگئی ۔ کچن چھوٹا سا تھا مگر فلی فرنشڈ تھا۔ کروکری سے لے کر گروسری تک ضرورت کی کر چیز وہاں پر موجود تھی۔ اس نے سب سے پہلے بچوں کے فیڈر بنائے پھر اپنا ناشتہ بنایا لیکن یوں اکیلے اپنا ناشتہ بنا کر کھانا اسے عجیب لگ رہا تھا لیکن ثُمامہ کہ بارے میں بھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ ناشتے میں کیا لے گا لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے فریش جوس اور فرائد ایگ بنا کر اس کے لیے بھی رکھ دیا۔ ابھی وہ اپنا ناشتہ شروع کر ہی رہی تھی کہ ثُمامہ بھی یونیفارم پہنے نک سک سے تیار وہاں پر آگیا۔
"السلام علیکم۔۔"اس نے منال کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے سلام کیا تو منال نے زرا حیرت سے جواب دیا۔ مطلب وہ کافی دیر پہلے کے اٹھے ہوئے تھے تو اب سلام کرنے کی سمجھ اسے نہیں آئی۔
"اصل میں صبح تو ہماری ذرہ عجیب سی ہی ہوئی تھی اس لیے میں نے سوچا اس وقت سلام نہیں کیا تھا تو اب کردوں۔"اس کے چہرے پر الجھن دیکھتے ہوئے بولا تو منال اس کی عجیب سی منطق پر اپنی مسکراہٹ دبا کر رہ گئی۔
"آپ اتنی غیر معمولی باتوں کا خیال کیوں رکھتے ہیں؟"کچھ دیر کی خاموشی کہ بعد منال نے سوال کیا۔
"منال یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو بظاہر ہمیں غیر معمولی سی لگ رہی ہوتی ہیں یہ بعض اوقات زندگی کو معمول پر لانے کے لیے بہت ضروری ہوتی ہیں۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے سے طریقے ہوتے ہیں جن سے ہم اپنے ساتھ رہنے والوں پر ظاہر کرستکے ہیں کہ وہ ہمارے لیے اہم ہیں ضروری ہیں۔ ہم ان کا خیال رکھتے ہیں ان کی قدر کرتے ہیں۔ یہ غیر معمولی سی چیزیں چند بے مول سے جملے رشتوں کی قدر و اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ "وہ سنجیدگی سے بولا تو منال اس کی باتوں پر حیران رہ گئی۔ اتنا لاپرواہ نظر آنے والا شخص اس قدر گہری سوچ رکھتا ہوگا اسے زرا برابر بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔
"میں چلتا ہوں آپ اپنا اور بچوں کا خیال رکھیے گا۔"ناشتہ ختم کرکہ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"دروازہ کسی کو بھی بغیر پوچھے مت کھولیے گا اور کوئی بھی پریشانی ہو تو بلا جھجک مجھے کال کریے گا۔ "جانے سے پہلے وہ لمبی تقریر کرنا نہیں بھولا تھا ۔
منال کو بے اختیار ہی احمد کی یاد آئی تھی وہ بھی تو جانے سے پہلے اسے ایسے ہی خیال رکھنے کو کہا کرتا تھا۔ باتیں اب بھی سب وہیں تھیں لیکن اب کہنے والا احمد نہیں تھا اب اس کی جگہ ثُمامہ لے چکا تھا۔
ثُمامہ کچھ دیر منال کہ چہرے کے تاثرات دیکھتا رہا پھر خود ہی بولا
"میری ڈیوٹی سات بجے تک ختم ہوتی ہے آتے آتے دیر بھی ہوسکتی ہے آپ پریشان مت ہوئے گا۔ "
وہ یہ کہہ کر چل پڑا ۔ تھوڑا سا آگے جاکر اس آس سے مڑا کہ شاید منال اسے بھی کچھ کہے لیکن منال کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اور ان آنسوؤں کی وجہ سمجھتے ہوئے وہ لب بھینچے وہاں سے تیزی سے نکلتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر تک منال نے خود کو کمپوز کرلیا تھا اور اب وہ اپنا سارا سامان سمیٹ رہی تھی۔ سامان سمیٹنے تک دونوں بچے اٹھ چکے تھے۔ انہیں ناشتہ کرواتے تیار کرتے ہوئے اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
گھر کے سارے کام تو ملازمہ کرکہ جاچکی تھی جبکہ اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہورہا تھا۔ منال کو خاص کوکنگ تو نہیں آتی تھی اور نہ ہی اسے شوق تھا لیکن پھر بھی گزارے لائق کھانا بنا لیا کرتی۔
ابھی بھی وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی جبکہ دونوں بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
ثُمامہ کا دو تین بار فون آچکا تھا اسے کبھی وہ بچوں کے بابت پوچھتا تو کبھی اس کے بارے میں۔
سارا دن منال کا انہیں کاموں میں گزر گیا اور اپنے لیے شام کی چائے بناتے ہوئے اسے اپنا ماضی یاد آیا۔
کیا تھی آخر یہ زندگی؟ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے وہ ہر شام احمد کے لیے چائے بنایا کرتی تھی اور اس کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیار ہوا کرتی تھی لیکن اب سب کیسے بدل گیا تھا۔
اچانک ہی اس کا دل ہر چیز سے بے زار ہوا اور کچن سے نکل کر کمرے میں چلی گئی اور ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع ہوگئی۔
"کیوں چھوڑ گئے احمد آپ۔مجھے؟ کیوں مجھے تنہا کردیا؟ آپ کے بغیر بہت مشکل لگتی ہے یہ زندگی احمد کچھ تو میری محبت کا مان رکھ لیتے "
روتے روتے جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو وہ ہمیشہ کی طرح احمد سے شکوے کرنے لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمامہ تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا تو گھر میں خاموشی کا راج تھا۔ دونوں بچے فیڈر لیے ٹی وی دیکھ رہے تھے جبکہ منال اسے کہیں نظر نا آئی۔ وہ اندر داخل ہوا اور دونوں بچوں کو باری باری پیار کرتا ہوا منال کو ڈھونڈتے ہوئے کچن میں داخل ہوا۔ اسے وہاں موجود نہ پاکر وہ اپنے کمرے میں آیا جہاں اسے منال نظر آئی جو کہ اس کی آمد سے بے خبر دونوں ہاتھوں میں اپنا سر گرائے رونے میں مصروف تھی۔
منال کے الفاظ سن کر ثُمامہ کے ماتھے کی رگیں تن گئیں۔ اسے منال کا احمد کے لیے رونا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ ٹھیک ہے احمد اس کی زندگی کا بہت اہم شخص تھا لیکن اب وہ ثُمامہ کی ملکیت تھی اس کے نکاح میں تھی۔ اب اسے صرف ثُمامہ کے بارے میں ہی سوچنا چاہیے تھا۔
ثُمامہ کی آنکھیں غصے سے لال ہورہیں تھیں۔ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے کمرے میں داخل ہوا اور منال کا بازو پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسے کھڑا کیا۔
"کیوں روتی رہتی ہو ہر وقت ؟ کیوں بہتے ہیں اتنے آنسو تمہارے؟"دونوں کندھے سے اسے تھامے وہ اپنی سرخ آنکھیں اس پر گاڑتے ہوئے بولا
"ثُمامہ آپ۔۔۔۔منال اس کی اچانک آمد پر گھبرا گئی۔ آج سے پہلے ثُمامہ کو اس نے کبھی ایسے لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔
"یہ بات اچھی طرح سے اپنے ذہن میں بٹھا لیں منال کہ جس نے مرنا تھا وہ مرگیا چلا گیا جانے والا اب اس کے لیے رو رو کر آپ اپنی ساری زندگی نہیں گزار سکتیں۔ اب آپ میری بیوی ہیں میرے نکاح میں ہیں میں ہرگز یہ برداشت نہیں کروں گا کہ میرے ہوتے ہوئے آپ کسی اور کو یاد کریں۔
آپ کی سوچوں پر آپ پر صرف اور صرف میرا حق ہے ۔ آئیندہ میں نے اگر آپ کو کسی اور کے لیے روتے دیکھا تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا۔"
وہ نہایت غصے سے بول رہا تھا
"ثُمامہ آپ یہ کس طرح کہ باتیں کر رہے ہیں۔"منال نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر سوال کیا۔
"میں جو بھی کہہ رہا ہوں بالکل درست کہہ رہا ہوں بہتر ہوگا کہ میری یہ سب باتیں آپ زہن نشین کر لیں۔"اسے جھٹکتا ہوا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ منال گنگ کھڑی رہ گئی۔ اس کہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ثُمامہ اس سے اس لہجے میں بات کرے گا۔ ثُمامہ اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کن کن حالات سے گزری ہے اسے سنبھلنے کے لیے کچھ وقت تو دیتا۔
منال کہ رونے میں مزید شدت آگئی۔ کچھ دیر روتے رہنے کے بعد اس نے چہرہ صاف کیا اور کچن میں چلی آئی۔ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا کر دونوں بچوں کو کھلایا اور پھر انہیں لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ یہ دوسرا کمرہ ثُمامہ نے بچوں کہ لیے سیٹ کروایا تھا۔ اس میں دو سنگل بیڈ تھے جن میں سے ایک پر منال دونوں بچوں کا لے کر بیٹھ گئی اور انہیں سلانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمامہ شاور لے کر نکلا تو منال کمرے میں موجود نہیں تھی۔ وہ باہر آیا تو وہ کچن میں بھی نہیں تھی لیکن ڈائننگ پر کھانا لگا ہوا تھا۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے کھانا کھایا اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں آگیا۔ اس کی توقع کے عین مطابق منال وہیں پر موجود تھی۔ دونوں بچے سو چکے تھے جبکہ وہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ اس کہ چہرے پر مٹے ہوئے آنسوؤں کے نشان تھے۔ ثُمامہ کو اپنے رویے پر بے حد افسوس ہوا۔ وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے سامنے بیڈ پر آکر بیٹھ گیا تو منال فوراََ سے اٹھ کر جانے لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتی ثُمامہ نے اس کی کلائی تھام کر اسے دوبارہ وہیں بٹھا لیا۔
"سوری منال مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔ میں اس وقت غصے میں تھا مجھے زرا احساس نہیں تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں۔ میں تھکا ہوا آیا تھا اور آپ کی اٹینشن چاہتا تھا لیکن اپ کی باتیں سن کر مجھے غصہ آگیا تھا۔"وہ شرمندگی سے بولا تو منال سپاٹ چہرہ لیے اسے خاموشی سے سنتی رہی۔
"منال اب آپ میری بیوی ہیں آپ کو خود ہی اپنی زمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
"آپ جو بھی خوش فہمیاں اس رشتے کو لے کر اپنے دل میں پالے بیٹھے ہیں برائے مہربانی انہیں نکال دیں۔ یہ رشتہ میرے لیے صرف زبردستی اور مجبوری کا رشتہ ہے اس میں میری کوئی مرضی شامل نہیں ہے جو میں اس کہ تقاضے بھی پورے کرتی پھروں۔"بے رخی سے کہتی وہ اپنی کلائی اس سے چھڑواتی کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ ثُمامہ لب بھینچ کر وہیں بیٹھا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بھی وہ کمرے میں واپس نہیں آئی تھی بلکہ اسی کمرے میں سوئی تھی۔ صبح بھی اس نے صرف اپنا اور بچوں کا ناشتہ بنایا تھا جبکہ ثُمامہ سے مخاطب ہونا گوارہ نہیں کیا تھا اس نے۔ ثُمامہ نے بھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دونوں ہی اپنی اپنی انا میں تھے۔
منال تو سرے سے ہی اس رشتے کو قبول نہیں کرنا چاہ رہی تھی جبکہ ثُمامہ کے دل میں بھی یہی سوچ پیدا ہوگئی تھی کہ اگر وہ اس رشتے کو نہیں نبھانے کی کوشش کررہی تو وہ ہی کیوں اکیلا محنت کرے؟
جب اسے ان دونوں کہ مابین رشتے کا خیال ہوجائے گا تو وہ بھی خیال کر کے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔