Last Episode

3.2K 210 71
                                    


"میں نے آپ سے کہا تھا نا ثُمامہ کل چلتے ہیں۔۔ اب دیکھیں کتنی تیز بارش ہورہی ہے۔۔ "
وہ باہر مسلسل برستی بارش کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔ وہ رات کو دس بجے تک ساری پیکنگ کرکہ گھر سے نکلے تھے اور ابھی انہیں نکلے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا اور تب سے مسلسل زور سے بارش ہورہی تھی۔۔ دونوں بچے گاڑی میں ہی سو چکے تھے جبکہ اتنی تیز بارش سے منال کا دل گھبرا رہا تھا۔۔۔
"ڈاکٹر ہوکر اتنا ڈر رہی ہیں آپ۔۔ ایک بارش ہی تو ہے رک جائے گی تھوڑی دیر میں۔۔ "وہ اس کا خوف سے ہراساں چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"اور اگر نا رکی تو؟ "
"تو ہم کہیں تک جائیں گے۔۔۔"وہ ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتا جبکہ دوسرے ہاتھ سے منال کا سرد پڑتا ہاتھ پکڑ کر بولا
"اس لیے میں شادی نہیں کرتی تھی آپ سے۔۔ پتا تھا مجھے یہ فوجی لوگ ایسے ہی بد دماغ ہوتے ہیں اپنی تو فکر ہوتی نہیں ساتھ میں دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لٹکا لیتے ہیں۔۔ "وہ اسے شکائیتی نظروں سے دیکھتی ہوئی بول رہی تھی اور ثُمامہ کو اپنی مسکراہٹ دبانا نہایت مشکل کام لگ رہا تھا۔۔
"اوہ۔۔ لگتا ہے گاڑی خراب ہوگئی ہے۔۔ "منال کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ نہایت پریشانی سے بولا۔۔ گاڑی بھی ایک جھٹکے سے رک چکی تھی۔ 
"اب کیا ہوگا۔۔ "منال کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔۔ بارش تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"ہونا کیا ہے۔۔ صبح تک انتظار کرنا پڑے گا۔۔ اتنی تیز بارش میں تو کچھ نہیں ہوسکتا۔۔"وہ پریشانی سے بولا
"کیا مطلب صبح تک ہم اسی جگہ بیٹھے رہیں گے؟ "
منال کھڑکی سے باہر بے یقینی سے دیکھتے ہوئے بولی جہاں بالکل اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔۔ منال کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔
"ہاں اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔۔ "وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا
"منع کیا تھا میں نے آپ کو لیکن آپ کو ہمیشہ اپنی ضد چڑھی رہتی ہے کبھی جو کسی اور کی سنی ہو۔۔ کریں اب کچھ مجھے نہیں بیٹھنا یہاں۔۔ سارا قصور آپ کا ہے آئیندہ میں کبھی نہیں آؤں گی آپ کہ ساتھ۔۔ "وہ غصے میں مسلسل بولے جا رہی تھی ساتھ آنکھوں سے آنسو بھی نکل رہے تھے ۔۔
ثُمامہ کے لیے اب برداشت کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔۔ منال کی شکل دیکھ کر بے اختیار ہی وہ ایک زور دار قہقہہ لگا بیٹھا تو منال نے گردن موڑ کر اسے حیرت سے دیکھا۔
"آپ کو ایسی سچویشن میں بھی ہنسی آرہی ہے؟ "
وہ حیرت سے بولی
"مجھے یقین نہیں آرہا آپ واقعی اس قدر ڈرپوک ہیں۔۔ "وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔ اسے ہنستا دیکھ کر منال کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔۔
"ایسی سچویشن میں سب کو ہی ڈر لگتا ہے۔۔ "
وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تو ثُمامہ نے بغیر کچھ کہے گاڑی سٹارٹ کی اور سڑک پر دوڑھا دی۔۔
"اب گاڑی کیسے سٹارٹ ہو گئی؟ "وہ حیرت سے بولی
"کیونکہ گاڑی خراب ہی نہیں ہوئی تھی۔۔ "وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو منال نے اس کہ بازو پر دو تین تھپڑ رسید کیے۔۔
"آپ۔۔ آپ اتنی دیر سے میرا مزاق بنا رہے تھے۔۔؟ "
اس نے غصے سے پوچھا
"اس قدر ڈرپوک ہیں آپ یار مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا۔۔ "وہ ابھی تک اس کی حالت انجوئے کر رہا تھا۔ منال نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا اور پھر ناراضگی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اچھا نا یار میں بس ویسے ہی مزاق کر رہا تھا اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔۔ "وہ سارا راستہ خاموش رہی تو ثُمامہ اسے ایک نظر دیکھتا ہوا بولا
"یہ کوئی چھوٹا مزاق نہیں تھا۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولی
"اچھا یار سوری مجھے نہیں پتا تھا آپ سیریس ہوجاؤ گی۔۔ "وہ معذرت کرتا ہوا بولا
"دوبارہ کبھی میرے ساتھ ایسی حرکت کی تو کبھی بات نہیں کروں گی۔ "وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی
"کبھی نہیں ہوگا ایسا آئیندہ۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولا تو وہ خاموش ہوگئی۔۔
"ویسے شکل دیکھنے والی تھی آپ کی۔۔ کاش میں کیمرے میں کیپچر کر لیتا۔۔ "وہ دوبارہ شرارت سے بولا تو منال نے غصے سے اسے گھورا اور گاڑی سے اتر گئی۔۔ وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب کتنا آکورڈ لگے گا ہم اس ٹائم سب کو تنگ کریں گے۔۔ "گھر پہنچتے انہیں تین بج چکے تھے جب منال غصے سے بولی
"ہم کسی کو نہیں تنگ کریں گے میرے پاس چابی ہے گھر کی۔۔ "وہ چابی نکالتے ہوئے بولا
"آپ کی حرکتیں بہت مشکوک ہیں۔۔ فوجی کم دہشت گرد زیادہ لگتے ہیں۔۔ "وہ اس پر طنز کرتی ہوئی بولی
"ہائے اللہ۔۔ اتنا بڑا الزام۔۔ "وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا
"میں بھی ادھر ہی رہوں گی؟ "جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو منال جھجکتے ہوئے بولی کیونکہ شادی کہ بعد تو وہ سیدھا ایبٹ آباد ہی گئی تھی اب یہاں رہنا اسے عجیب لگ رہا تھا۔۔
"ظاہر سی بات ہے یہاں یہی میرا کمرہ ہے تو آپ بھی یہیں پر رہیں گی۔۔ "وہ آرام سے کہتا بیڈ پر جاکر لیٹ گیا جبکہ وہ بھی جھجکتے ہوئے وہیں آگئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح سب انہیں وہاں دیکھ کر حیران تھے۔۔ ثُمامہ نے اپنی آمد کی اطلاع کسی کو نہیں دی تھی اس لیے سب کا حیران ہونا بنتا تھا۔۔ ناشتے کی میز پر آج سب خوشگوار موڈ میں تھے۔۔ سب ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے جبکہ حنان اور فیضان دونوں سب سے پیار کروا رہے تھے۔۔
ناشتے کے بعد منال اپنے گھر سب سے ملنے چلی گئی جبکہ ثُمامہ لان میں بیٹھا ہوا تھا جب کرنل زبیر اس کہ سامنے آکر بیٹھ گئے۔۔
"اب بھی ناراض ہو مجھ سے؟ "جب کرنل زبیر نے اس سے منال سے شادی کرنے کی بات کی تھی وہ ان سے تب سے ہی ناراض تھا۔۔ پھر کچھ منال کا رویہ بھی اس کے ساتھ ایسا رہا تھا کہ وہ ان سے اقر ناراض ہوگیا تھا ۔۔
"پہلے تھا  ناراض بہت زیادہ۔۔ اب نہیں ہوں۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولا
"مجھے پورا یقین تھا اپنے بیٹے پر کہ وہ سب ٹھیک کر لے گا۔۔ "وہ اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولے
"پہلے لگتا تھا آپ میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں لیکن اب واقعی سمجھ میں آگیا ہے کہ باپ کی رضا میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے۔۔ "
"اب خود باپ بن گئے ہو اس لیے سمجھ آ گئی ہے۔۔ وہ شرارت سے بولے تو وہ ان کی بات پر مسکرا کر رہ گیا۔۔
"ہاں جی۔۔ اب عقل آ گئی ہے۔۔ "وہ بھی انہی کہ انداز میں بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم خوش ہو منال؟ "وہ سب سے ملنے کے بعد مسز عثمان کہ ساتھ بیٹھی تھی جب انہوں نے پوچھا۔۔
"میں مطمئن ہوں امی۔۔ اب زندگی بوجھ نہیں لگتی۔۔ اب لگتا ہے جیسے میرے پاس جینے کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولی
"میں نے کہا تھا نا بیٹا کہ ثُمامہ بہت اچھا ہے۔۔ وہ تمہیں کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں آنے دے گا۔۔ "
منال کو مطمئن دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی تھیں۔۔
"وہ واقعی بہت اچھے ہیں امی۔۔ آپ کا انتخاب بالکل ٹھیک تھا۔۔ "وہ دل سے بولی
"اللہ میری بچی کو ایسے ہی ہمشیہ خوش رکھے۔۔ حنان اور فیضان کہاں ہیں؟ "انہوں نے بچوں کہ متعلق دریافت کیا۔۔
"وہ چلے گئے ہوں گہ ثمامہ کے پاس۔۔ ان کے بغیر تھوڑی دیر بھی دونوں کا گزارا نہیں ہے۔۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولی تو وہ بھی پرسکون ہو گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں سب کا ڈنر مسز عثمان کی طرف تھا۔۔ سب ہی منال اور ثُمامہ کہ چہرے دیکھ کر بتا سکتے تھے کہ وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش تھے۔۔
ڈنر کے دوران حنان رونے لگ گیا تو ثُمامہ اسے اٹھا کر باہر لے گیا۔۔ وہ باہر لان میں اسے لیے چکر لگا رہا تھا جب مسز عثمان وہاں آگئیں۔۔
"میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ثُمامہ۔۔ تم نے میری بچی کو زندگی کی طرف واپس لوٹایا ہے۔۔ اس کو بچوں کو بالکل اپنی اولاد کی طرح پالا ہے اگر تم نہیں ہوتے تو میری منال بکھر کر رہ جاتی۔۔ "
وہ تشکر سے کہہ رہی تھیں۔
"آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں آنٹی۔۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔۔ منال میری بیوی ہے اور اس کا خیال رکھنا میرا فرض ہے اور اس کہ بچے میرے ہی بچے ہیں۔۔ ان کی پرورش کرنا بھی مجھ پر فرض ہے۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولا
"خوش رہو ہمیشہ۔۔ "وہ اس کہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جلدی کرلو منال۔۔ دیر ہو رہی ہے۔۔ "ج ان کسی رشتے دار کی طرف کھانا تھا۔۔ منال کافی دیر سے تیار ہورہی تھی وہ کتنی دیر سے اسے بلا رہا تھا۔۔
"بس دس منٹ آ رہی ہوں۔۔ "
وہ جلدی سے بولی
"پچھلے آدھے گھنٹے سے آپ کے دس منٹ پورے نہیں ہو رہے۔۔ میں پندرہ منٹ کے اندر اندر تیار ہوگیا تھا۔۔ "
"آپ نے بچوں کو تیار نہیں کرنا تھا نا ہی آپ کہ اتنے لمبے بال ہیں جنہیں بناتے آدھا گھنٹہ لگ جائے۔۔ "
وہ اسے گھورتے ہوئے بولی
"جلدی کرو یار۔۔ میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں۔۔"
کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر باہر آئی تو ثُمامہ گاڑی میں ہی بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ بھی بیٹھ گئی۔ 
"میں سوچ رہی ہوں ثُمامہ بچوں کو گھر ہی چھوڑ جاتے ہیں۔۔ "
"کیوں؟ "ثمامہ نے اچھنبے سے پوچھا
"تنگ کریں گے وہاں۔۔ منال نے بہانہ بنایا۔۔
"بچے ہمیشہ ہی ہر جگہ ہمارے ساتھ جاتے ہیں اور کبھی تنگ نہیں کرتے۔۔ تو آج کیوں کریں گے؟ "وہ منال کو غور سے دیکھتا ہوا بولا
"لیکن پھر بھی۔۔۔ "منال نے کچھ کہنا چاہا تو ثُمامہ نے اس کی بات کاٹی۔
"اگر کسی نے بچوں سے متعلق کوئی سوال کیا تو اسے جواب دینا میری زمے داری ہے آپ اس بارے میں پریشان مت ہوں۔۔ "وہ اس کہ چہرے سے ہی اس کی پریشانی بھانپ گیا تھا اس لیے سنجیدگی سے بولا تو منال خاموش ہو گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں پر کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا تھا چائے پیتے وقت ایک میزبان عورت نے ثُمامہ سے سوال کیا۔۔
"آپ ہی پھر ان بچوں کو پال رہے ہیں؟ "انہوں نے سرسری سے انداز میں پوچھا تو منال بھی ان کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
"میرے بچے ہیں تو میں ہی انہیں پالوں گا نا آنٹی۔۔
ثُمامہ نہایت سنجیدگی سے بولا تو وہ منال کی طرف متوجہ ہوگئیں۔۔
"ددھیال والوں سے بھی ملتے ہیں یا نہیں؟ خرچا پانی بھی دیتے ہوں گے وہ۔۔ "اب کہ ان کی توپوں کا رخ منال کی طرف تھا۔۔
"میں اتنا قابل تو ہوں آنٹی کہ اپنے بچوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی سے خرچا پانی لینے کی ضرورت نا پڑے۔۔ "منال کہ بجائے اس بار بھی ثُمامہ نے جواب دیا تو اب کی بار وہ خاموش ہوگئیں۔۔ ثُمامہ کا انداز ایسا تھا کہ اب کی بار انہوں نے کوئی بھی جواب دینے سے گریز کیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے آپ سے کہا تھا نہیں لے کر جاتے بچوں کو لوگ سوال کریں گے لیکن آپ میری بات کبھی نہیں مانتے۔۔ "واپسی پر منال دکھ سے بولی۔۔
لوگوں کا کام تو ہے ہی باتیں بنانا۔۔ اگر آج بچوں کو نا لے کر جاتا تو ساری زندگی وہ ہمارے ساتھ کھڑے نا ہو پاتے کیونکہ یہ سوال تو ساری زندگی بند نہیں ہوں گے۔۔ انہی سوالوں سے ڈرتے رہے تو اپنے بچوں سے دور ہو جائیں گے۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولا تو منال خاموش ہوگئی البتہ اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔۔ ثُمامہ اس کہ آنسوؤں سے بخوبی واقف تھا لیکن فلحال اس نے کچھ بھی کہنے کے بجائے منال کو رونے دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتا کہ میں کیسے آپ کا شکریہ ادا کروں۔۔ "وہ سونے کی غرض سے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا جب منال آہستہ سے بولی
"ایسا کیا کردیا میں نے جو شکریہ کی نوبت آ گئی۔۔
وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بولا
"آپ میرے لیے بہت بڑا سہارا بنے ہیں۔۔ میرے بچوں کے لیے سائبان بنے ہیں۔۔ مجھے یہی ڈر رہتا تھا کہ مجھے تو کوئی بھی قبول کر لے گا لیکن میرے بچوں کو کون قبول کرے گا۔۔ مگر آپ نے میرے بچوں کو مجھ سے زیادہ پیار دیا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی میں کیسا آپ کا یہ احسان اتاروں گی۔۔ "
وہ بہتے آنسوؤں کے درمیان کہہ رہی تھی۔۔
"محبت سے۔۔ "وہ بیڈ سے اتر کر اس کہ قریب جاتے ہوئے بولا
"کیا مطلب۔۔؟ "وہ نا سمجھی سے بولی
"خود ہی پوچھ رہی ہیں کیسے اتاروں گی احسان آپ کا تو مشورہ دے رہا ہوں محبت سے اتار دیں۔۔ جیسے میں آپ سے محبت کرتا ہوں ویسے ہی آپ مجھ سے بھی محبت کریں۔۔ "وہ نرمی سے کہہ رہا تھا جبکہ منال اس کا اعتراف سن کے ششدر سی کھڑی رہ گئی۔۔
"کیا ہوا اب بندہ بیوی سے محبت بھی نہیں کر سکتا۔۔؟ "وہ اس کا حیران چہرہ دیکھ کر شرارت سے بولا
"میں جانتا ہوں یہ رشتہ مجبوری سے شروع ہوا تھا میرے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی لیکن میں نے ہمیشہ اس رشتے کو دل و جان سے نبھانے کی کوشش کی ہے۔۔ نکاح کا رشتہ ایسا ہوتا ہے کہ خود ہی دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے۔۔ میرے دل نے بھی پچھلی تمام باتوں بھلا کر اسی دن آپ سے محبت شروع کر دی تھی جب آپ میری زندگی میں شامل ہوئی تھیں۔۔ "وہ اس کا ہاتھ پکڑے نرمی سے اپنے جذبات کا اطراف کر رہا تھا۔۔
"کیا آپ کریں گی مجھ سے محبت۔۔؟ "اس نے ایسے انداز میں سوال کیا کہ منال کی نظریں خود بخود جھک گئیں۔۔
"میں منتظر رہوں گا آپ کہ اقرار کا۔۔ اس دن کا منتظر رہوں گا جب آپ کو مجھ سے محبت ہو جائے گی۔۔ "مسکرا کر کہتا وہ دوبارہ اپنی جگہ پر جاکر لیٹ گیا جبکہ منال کو سوچوں کے نئے بھنور میں چھوڑ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن وہاں گزار کہ وہ لوگ واپس اپنے گھر آ گئے تھے۔۔ ثُمامہ کی محبت میں دن بہ دن منال کے لیے اضافہ ہورہا تھا۔۔ اور وہ اپنے ہر عمل سے ہر لفظ سے اس بات کا اظہار بھی کرتا تھا۔۔ ثُمامہ کی بچوں سے محبت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ وہ ہر دن ان سے پہلے سے زیادہ پیار کرتا تھا۔۔ منال کبھی کبھی اپنے اوپر ثُمامہ کے احسان گننے بیٹھتی تو کبھی ان کا شمار نہیں کر پاتی تھی کیونکہ کوئی بات ایسی نہیں تھی جب ثُمامہ نے اس کا ساتھ نا دیا ہو۔۔ ثُمامہ کو لے کر وہ کبھی بہت حیران ہو کرتی تھی کہ کوئی بندہ کیسے اتنا نرم مزاج ہوسکتا ہے۔۔ وہ کیسے کسی سے اتنی بے لوث محبت کر سکتا ہے۔۔۔
منال کو لگتا تھا وہ کبھی اپنی زندگی میں آگے نہیں بڑھ پائے گی کبھی احمد کو نہیں بھول پائے گی لیکن ثُمامہ کی محبت نے اسے سب کچھ بھلانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔ ثُمامہ نے اسے خود سے محبت کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔۔ وہ نا چاہنے کے باوجود بھی ثُمامہ سے محبت کرنے لگی تھی۔۔ ثُمامہ کی باتیں اس کا ایک ایک انداز اب منال کہ دل کو بھانے لگا تھا۔۔  وہ اکثر راتوں میں اسے اٹھ اٹھ کر دیکھا کرتی تھی جب وہ بے خبر سو رہا ہوتا تھا۔۔
"کیا ہو گیا صبح صبح میرا معائنہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ "  وہ جانے کے لیے تیار ہورہا تھا جب منال کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا
"سوچ رہی ہوں وقت بھی کتنا عجیب ہے نا۔۔ کیسے بازی پلٹتا ہے۔۔ "
"کیوں بئی ایسا کیا کر دیا وقت نے۔۔؟ "
"پہلے آپ کہ ساتھ رہنے سے ڈرتی تھی اب آپ کہ بنا رہنے سے ڈرتی ہوں۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولی تو ثُمامہ نے آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔
"کبھی کوئی مجھ سے کہتا تھا میں نارمل زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔۔ "وہ اسے اس کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے شرارت سے بولا
"مجھے واقعی لگتا تھا میں کبھی نارمل زندگی نہیں گزار سکوں گی آپ کے ساتھ۔۔ بابا کی شہادت نے مجھ پر بہت گہرا اثر کیا تھا۔۔ مجھے لگتا تھا فوج نے مجھ سے میرے بابا چھین لیے ہیں۔۔ اسی وجہ سے مجھے فوج سے نفرت ہو گئی تھی۔۔ جب امی نے آپ کہ رشتے کی بات کی تو تب دوبارہ سے وہی خوف میرے اندر پیدا ہوگیا ۔۔ مجھے لگتا تھا میں آپ کہ ساتھ کبھی خوشحال زندگی نہیں گزار پاؤں گی۔۔ مجھے بے اعتبار لگتی تھی آپ کی زندگی لیکن پھر قسمت نے سکھایا کہ زندگی تو ہر ایک کی بے اعتبار ہی ہے۔۔ کبھی بھی کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔ "آہستہ سے کہتے آخر میں اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔
"احمد کے بعد مجھے لگتا تھا میری زندگی ختم ہوگئی ہے سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔۔ میرا رشتوں پر اسے زندگی سے اعتبار اٹھ گیا تھا ۔۔ مجھے لگتا تھا اب مجھے اور میرے بچوں کو کوئی قبول نہیں کرے گا لیکن آپ نے مجھے اور بچوں دونوں کو ہی سنبھالا ہے۔۔۔ آپ نے مجھے زندگی کی طرف دوبارہ دھکیلا ہے ورنہ میں اب تک بالکل ختم ہوچکی ہوتی۔۔۔ پہلے لگتا تھا آپ کہ ساتھ زیادتی ہوئی ہے مجبوری میں آپ یہ رشتہ نبھا رہے ہیں لیکن آپ نے مجھے اتنی محبت دی کہ میرے ذہن سے ہر منتشر سوچ خود ہی ختم ہو گئی۔۔ آپ نے مجھے اتنی عزت اتنا مان دیا کہ مجھے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے اپنی محبت کا اطراف کر رہی تھی۔۔
"آخری جملے کا مطلب میں کیا سمجھوں۔۔؟ "اس کی ساری باتیں نظر انداز کر کہ وہ شرارت سے بولا
"جو بھی سمجھ لیں۔۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے بولی
"آپ ساری زندگی بھی اگر اقرار نا کرتیں تو میں پھر بھی آپ کا منتظر رہتا منال۔۔۔ میں نے جس دن یہ رشتہ جوڑا تھا اسی دن اپنا دل بھی آپ کہ ساتھ جوڑ دیا تھا۔۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میرے جذبات کی قدر کی۔۔ "اس کہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ محبت سے کہہ رہا تھا۔۔
"چلیں بس کریں۔۔ لیٹ ہوجائیں گے۔۔ "منال اس کا دھیان وقت کی طرف لگاتی ہوئی بولی
"اف یہ نوکری۔۔۔ "گہری سانس لیتا وہ دوبارہ شیشے کے سامنے تیار ہونے چل دیا۔۔ منال کمرے سے باہر جانے لگی تو ثُمامہ بے آواز دے کر اسے روکا۔۔
"آپ کچھ بھول رہی ہیں۔۔ "ثمامہ نے کہنے پر منال نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو ثُمامہ نے اپنی کیپ آگے کردی۔۔ منال سمجھتے ہوئے مسکرائی اور اس کے ہاتھ سے کیپ پکڑی۔۔ ثُمامہ نے منال کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا سر جھکایا اور منال نے اس کہ سر پر کیپ پہنائی۔۔
"اب جائیں اس سے پہلے آپ کو لینے ہی آجائیں۔۔۔ "
مسکرا کر کہتی وہ باہر چلی گئی جبکہ وہ بھی مسکراتا ہوا اس کہ پیچھے آگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد ❤

MUNTAZIR (COMPLETE)Where stories live. Discover now