Episode 9

1.9K 141 16
                                    

ان کی تلخ کلامی کو تین دن گزر چکے تھے۔ زندگی معمول پر ہی چل رہی تھی منال کا سارا دن بچوں کہ ساتھ گزرتا اور ثُمامہ ڈیوٹی سے آنے کے بعد یا تو موبائل پر لگا رہتا یا ٹی وی دیکھ لیتا۔ بچوں سے بھی اس کا ملنا بہت کم ہوچکا تھا کیونکہ وہ جب گھر میں داخل ہوتا منال دونوں کو لے کر کمرے میں بند ہوجاتی تھی۔
آج ثُمامہ کو اوف تھا اسی لیے وہ صبح ہی صبح جاگنگ کے لیے چلا گیا تھا۔ جب وہ گھر واپس آیا تو منال کو اپنے کمرے میں دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی۔ منال اس کی الماری میں گھسی ہوئی تھی جبکہ سارے کپڑے بیڈ پر پھیلے ہوئے تھے۔
"یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟"ثمامہ نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا
"اپنا اور اپنے بچوں کا سامان اپنے کمرے میں منتقل کر رہی ہوں۔ روز روز مجھے یہاں سے آکر چیزیں نکالنا پسند نہیں ہے۔"وہ سنجیدگی سے بولی اور اپنے کام میں مشغول رہی۔
"آپ یہاں سے کچھ نہیں لے کر جائیں اور نہ ہی خود یہاں سے کہیں جائیں گی۔"ثمامہ اس کا بازو پکڑ کر سنجیدگی سے بولا
"کیوں؟"منال کی آواز بھی اونچی ہوئی
"کیونکہ جس چیز کا جو مقام ہوتا ہے وہ وہاں پر ہی اچھی لگتی ہے۔"ثمامہ کی گرفت اور مضبوط ہوئی
"میرا آپ کی زندگی میں کوئی مقام نہیں ہے اور نہ ہی میں اپنی زندگی میں آپ کو کوئی مقام دیتی ہوں۔"وہ غصے سے بولی
"آپ کہ سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا قانون اور شریعتاً مجھے آپ کے شوہر ہونے کا مقام حاصل ہے۔"
"میں ایسے کسی رشتے کو نہیں مانتی جس کی بنا پر آپ اتنا اترا رہے ہیں۔ یہ رشتہ میں آپ کو ہزار بار باور کروا چکی ہوں کہ صرف اور صرف مجبوری کہ تحت بنا ہے۔"
"ایسی کیا مجبوری تھی ہاں؟ جب آپ نہیں بنانا چاہتی تھی یہ رشتہ تو ہاں کیوں کی؟"ثمامہ نے اپنی سرخ آنکھیں اس کہ نڈر چہرے پر گاڑھتے ہوئے پوچھا
"میری پہلی مجبوری یہ تھی کہ میں یتیم ہوں اور میری ماں میرے بھائیوں پر ساری زندگی مجھے بوجھ بنا کر نہیں بٹھانا چاہتی تھی اور دوسری مجبوری یہ تھی کہ میرے بچے بھی میری ہی طرح کے یتیم ہیں جن کو ان کے ددھیال والے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے اور بقول میری ماں کہ میں اکیلی ان کی پرورش نہیں کرسکتی۔ مجھے ان کی پرورش کہ لیے کسی سہارے کی ضرورت تھی اور میں نےکر لی آپ سے شادی۔"وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنی بات مکمل کر گئی۔
"آپ نے صرف اپنے مفاد کے لیے شادی کی ہے؟ تو پھر میرے ساتھ یہ زیادتی کیوں؟ میں نے تو کسی فائدے کے لیے شادی نہیں کی آپ سے پھر میں آپ کہ ایسے رویے کا مستحق کیوں؟"ثمامہ نے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔
"آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ میں نے آپ کی منت ترلا تو نہیں کیا تھا کہ مجھ سے شادی کرلیں۔ یہ فیصلہ آپ کی اپنی مرضی سے ہوا اور میں نے تو اس رشتے کے جڑنے سے پہلے ہی آپ پر سب کچھ واضح کردیا تھا ۔ انکار کا حق موجود تھا آپ کہ پاس۔"سنجیدگی سے کہتی وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی ۔ ثُمامہ بھی غصے سے گھر سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر تک گھر سے باہر رہا۔ منال کی باتوں پر اسے شدید غصہ آرہا تھا۔ اس کا دل تھا کہ وہ یا خود کو کچھ کر دے یا منال کو۔۔ وہ اس سے آخر کس بات کا بدلہ لے رہی تھی۔ ثُمامہ نے تو اس سے بغیر کسی مطلب کے شادی کی تھی لیکن وہ آخر ایسا کیوں کر رہی تھی۔ ثمامہ کی سمجھ سے باہر تھے سارے حالات۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کہ دن رات پھر اسی طرح سے گزرنے لگے تھے۔ ثمامہ رات کو گھر آتا تو منال بچوں کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی۔۔
وہ بھی کچھ دیر بعد اپنے کمرے میں چلا جاتا۔۔ دونوں میں بات چیت بالکل ختم تھی۔۔
رات گیارہ بج رہے تھے وہ سونے ہی والا تھا کہ اس کہ کمرے کا دروازہ بجا۔۔ باہر سے منال کی پریشان آواز سنائی دے رہی تھی۔
"کیا ہوا منال آپ اس وقت؟ "وہ منال کا پریشان چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"وہ فیضان کو بہت تیز بخار ہے وہ کانپ رہا ہے۔۔ "
وہ روتے ہوئے بولی تو ثُمامہ فوراً اس کہ ساتھ کمرے میں بھاگا جہاں فیضان ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا ساتھ سسک بھی رہا تھا۔
"کب سے ہے بخار اسے؟ "ثمامہ نے اس کہ ماتھے پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ بخار میں تپ رہا تھا۔
"کل سے تھا بخار میں نے دوا دی تھی ۔ کل ٹھیک ہوگیا تھا اب پتا نہیں اتنا زیادہ کیسے ہوگیا۔"وہ پریشانی سے بولی
" حد ہوتی ہے لاپرواہی کی منال۔۔ اسے کل سے بخار ہے اور آپ نے مجھے بتانا تک ضروری نہیں سمجھا۔ "
وہ اس پر غصہ کرتا ہوا بولا
"میں نے سوچا ٹھیک ہوجائے گا۔ بلاوجہ آپ کو تنگ کیوں کروں۔ "
"ہر بات اپنے سے فرض نا کر لیا کریں۔۔ میں نے شروع دن سے کہہ دیا تھا یہ بچے صرف آپ کے نہیں ہیں میرے بھی ہیں اور ان کہ معاملے میں میں کوئی لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا۔ "وہ غصے سے کہتا فیضان کو اٹھا کر گاڑی کی طرف بڑھا۔ منال بھی اس کہ پیچھے ہی آئی۔
"گھر پر ہی رہیں آپ۔۔۔ ایک کو تو بیمار کر ہی دیا اب دوسرے کا خیال کر لیں۔ "وہ حنان کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا تو منال وقتی طور پر خاموش ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھنٹہ ہوگیا تھا ثُمامہ کو گئے ہوئے اور منال کا پریشانی کے مارے برا حال تھا۔ کافی دفعہ اس کا دل کیا ثُمامہ کو کال کرے لیکن پھر خاموشی سے بیٹھ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی اس وقت ثُمامہ غصے میں ہے۔۔ اور اسے کال کرنے کا مقصد اس کہ غصے کو مزید ہوا دینا ہے۔
کچھ ہی دیر میں اسے مین ڈور کھلنے کی آواز آئی۔ وہ فوراََ بھاگی ہوئی باہر آئی جہاں سے ثُمامہ سوئے ہوئے فیضان کو اٹھائے اندر داخل ہورہا تھا۔
"کیا ہوا کیا کہا ڈاکٹر نے؟ "اس کہ اندر آتے ہی منال نے سوال کیا۔
"103 بخار تھا اسے۔۔ "وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تو منال نے آگے بڑھ کر فیضان کو پکڑنا چاہا۔
"پٹیاں کرنی ہیں اسے۔۔۔ لے کر آئیں آپ۔ "یہ کہتا ہوا وہ اسی کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں پر منال رہ رہی تھی آج کل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال باؤل لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو ثُمامہ بیڈ پر لیٹا تھا اور فیضان اس کہ بازو پر سو رہا تھا۔ منال کو خدشہ ہوا شاید ثُمامہ کی بھی آنکھ لگ گئی ہے۔ اس نے آہستہ سے اسے آواز دی تو وہ اٹھ بیٹھا۔ اس کہ ہاتھ سے باؤل پکڑ کر وہ کافی دیر تک فیضان کی پٹیاں کرتا رہا پھر جب اس کا بخار کچھ کم ہوا تو اسے اٹھا کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ منال اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی۔۔ وہ ایسے بی ہیو کر رہا تھا جیسے سارا قصور منال کا ہی ہو۔۔ اسی کی وجہ سے بخار چڑھا ہو فیضان کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات وہ بے چین رہی تھی۔۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر ثُمامہ کہ کمرے میں جاتی اور فیضان کا بخار چیک کرتی۔۔ پھر واپس آجاتی۔
ابھی پھر وہ فیضان کا بخار چیک کرکہ واپس جارہی تھی جب اچانک سے اس کی کلائی ثُمامہ کی گرفت میں آئی۔
"پوری رات جو بے چین رہی ہیں۔۔۔ یہاں بھی رہ سکتیں تھیں۔ "وہ آنکھیں کھولتا ہوا بولا
"میں بس ابھی آئی تھی فیضان کو دیکھنے۔۔ "وہ جھینتے ہوئے بولی
"ہاں جی پتا ہے مجھے۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولا تو وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بوہر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سارا دن اس کا فیضان اور حنان کو سنبھالنے میں گزرا تھا۔ وہ صبح سے گھر کا کوئی کام بھی نہیں کر پائی تھی۔ ثُمامہ بھی بغیر ناشتہ کیے چلا گیا تھا۔۔ صبح سے منال کو بھی کھانے کی کوئی ہوش نہیں تھی۔۔
رات کو ثُمامہ گھر آیا تو وہ ہمیشہ کی طرح کمرے میں ہی تھی دونوں بچوں کو لے کر۔۔ وہ کچن میں آیا تو آج ڈائننگ پر اس کہ لیے کھانا بھی نہیں پڑا تھا۔ اسے خدشہ ہوا کہ شاید منال نے کچھ نہیں بنایا۔۔
وہ ناک کرتے ہوئے اس کہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ دونوں بچوں کہ ساتھ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
"آپ نے کھانے میں کچھ نہیں بنایا؟ "
"نہیں ٹائم نہیں ملا۔۔ "
"کھایا بھی کچھ نہیں ہوگا؟ "
"نہیں اس کا بھی ٹائم نہیں ملا۔ "
"حد ہے۔۔ چلیں باہر چلتے ہیں کہیں۔۔ "
"نہیں میں اب کچھ بنا لیتی ہوں۔۔ باہر جانے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے۔ "وہ انکار کرتی ہوئی بولی
"میں نے مشورہ نہیں مانگا حکم دیا ہے۔۔۔ تیار کریں بچوں کو میں چینج کر کہ آتا ہوں۔ "وہ سنجیدگی سے کہتا چلا گیا جبکہ وہ سر جھٹک کر بچوں کو تیار کرنے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بچوں کو تیار کرکہ باہر لائی تو وہ صوفے پر بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔۔ ان کہ آتے ہی وہ لوگ چلے گئے۔۔۔ منال جتنا بچوں کو ثُمامہ سے دور کرنے کی کوشش کرتی بچے اتنا ہی اس کہ قریب ہوتے جارہے تھے۔۔ آج بھی سارا وقت وہ ثُمامہ ہی کی گود میں جانے کی ضد کرتے تھے۔۔ منال چاہتے ہوئے بھی دونوں کو ایک ساتھ نہیں سنبھال سکتی تھی اس لیے مجبوراً کسی ایک کو ثُمامہ کو دینا پڑتا تھا۔
کافی دیر باہر گھومنے پھرنے کے بعد جب وہ گھر آئے تو دونوں بچے سو چکے تھے۔ ثُمامہ بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ منال بچوں کو کمرے میں لٹا کر ٹیرس پر آ گئی اور اپنی زندگی میں ہونے والی تبدیلی کے متعلق سوچنے لگی۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔
"انسان کو ہمیشہ کسی نا کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ چاہے زندگی کا کوئی بھی مرحلہ ہو اسے ایک ساتھی درکار ہوتا ہے۔۔ انسان خوش ہو تب بھی اپنی خوشی شئیر کرنے کے لیے کسی کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور غمگین ہو تو تب بھی اپنا غم بانٹنے کے لیے کسی کا سہارا تلاش کرتا ہے۔۔۔ انسان کبھی بھی اکیلا حالات سے نہیں لڑ سکتا۔۔ ہر وقت خود کو مضبوط ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ کبھی ٹوٹ بھی جانا چاہیے تاکہ کوئی آپ کو جوڑ سکے۔۔ کبھی بکھر بھی جانا چاہیے کہ کوئی آپ کو سمیٹ سکے۔۔۔ کبھی اپنے دل کی بات ، اپنے جذبات کسی کے ساتھ شئیر کر لینے چاہیے۔۔ یقین مانیں اس سے بعض اوقات دل کو سکون ملتا ہے۔۔ "وہ اس کہ بالکل پیچھے کھڑا نرمی سے کہہ رہا تھا۔
وہ کافی دیر اس کی بات سنتی رہی۔۔ آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔
"سب سہارے عارضی ہوتے ہیں۔۔۔ سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔۔ اب مجھے کسی پر اعتبار نہیں ہے۔۔ "
وہ تلخی سے بولی
"زندگی کا ایک باب اچھا نہیں تھا تو آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ پوری زندگی ہی اچھی نہیں ہے۔۔ آپ ورق پلٹ کر تو دیکھیں۔۔ کیا پتا آگے کچھ اچھا ہو۔۔ خوشیاں آپ کی منتظر ہوں۔۔ "اب کی بار وہ اس کا ہاتھ تھام کر بولا
"آپ مجھ پر ایک بار تو اعتبار کر کہ دیکھیں۔۔ پورا بچپن ہم نے ساتھ گزارا ہے آپ کو اتنا تو یقین ہونا چاہیے کہ میں کیسا انسان ہوں۔۔ آپ کو پتا ہونے چاہیے کہ میں بیچ راہ میں چھوڑ کر جانے والا نہیں ہوں۔۔ "اس کہ خاموش رہنے پر اس نے دوبارہ اعتبار دلانا چاہا۔۔
"میرا دل نہیں مانتا ہے اب کوئی بات۔۔ کسی چیز پر کسی دلیل پر یقین کرنے کا دل نہیں کرتا میرا۔۔ "وہ روتے ہوئے بولی
"آپ مجھے ایک موقع دے دیں۔۔ ایک بار کوشش تو کریں۔۔ جب تک آپ چاہیں گی ہی نہیں آپ کا دل کیسے راضی ہو گا۔۔ ؟ "وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔
"میں کوشش کروں گی۔۔ "وہ آہستگی سے بولی
"میں آپ کی پیش قدمی کا منتظر رہوں گا۔۔ یہ زندگی بہت طویل ہے منال اور ہم اسے یوں الگ الگ رہ کر نہیں گزار سکتے۔۔ زندگی گزارنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ بہت ضروری ہے۔۔ امید ہے آپ مجھ پر یقین کریں گی۔۔ "وہ اپنی انگلیوں کے پوروں میں اس کہ آنسو جذب کرتا ہوا بولا۔۔ اس سے پہلے کے منال کچھ بولتی اندر سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی تو وہ بغیر کچھ کہے اندر چلی گئی جبکہ وہ چاندنی رات میں کھڑا چاند کو دیکھتا رہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

MUNTAZIR (COMPLETE)Where stories live. Discover now