"منال بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"
وہ حنان کو سیریلیک کھلا رہی تھی جب مسز عثمان اس کے پاس آکر بیٹھیں۔
"جی امی کہیں۔"وہ ان کی طرف متوجہ ہوئی
"دیکھو بیٹا پہلے وعدہ کرو تم میری بات کو تحمل سے سنو گی اور ٹھنڈے دماغ سے میری بات پر غور کروگی۔ "وہ تہمید باندھتے ہوئے بولیں
"کیا بات ہے امی مجھے پریشانی ہورہی ہے۔"وہ پریشان سی بولی
"میں چاہتی ہوں کہ اب تم شادی کرلو منال۔"
وہ سنجیدگی سے بولیں تو منال گہری سانس بھر کر رہ گئی ۔ وہ جانتی تھی ایک نا ایک دن اسے یہ سب ضرور سننا پڑے گا۔
"دیکھو منال یہ زندگی بہت لمبی اس کا سفر تم اکیلے طے نہیں کر پاؤ گی اور تمہیں کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے اور مرد سے بہتر سہارا عورت کے لیے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔"وہ اسے سمجھانے کی کوشش کررہیں تھیں۔
"ابھی حنان اور فیضان دونوں چھوٹے ہیں باپ کی اتنی سمجھ نہیں ہے لیکن جب بڑے ہوں گے تو قدم قدم پہ انہیں باپ کی ضرورت محسوس ہوگی۔"
"امی کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو مجھے میرے بچوں سمیت قبول کرلے۔"وہ بہتے آنسوؤں کے درمیان بولی
"نہیں منال ہمارا اللہ بڑا مہربان ہے۔ اگر وہ ہم پہ ایک دروازہ بند کرتا ہے تو دوسرا اس سے پہلے ہی کھول رکھتا ہے۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولیں
"کیا مطلب امی؟"اس نے ناسمجھی سے سوال کیا۔
"بیٹا زبیر بھائی نے ثُمامہ کے لیے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔"ان کی بات سن کر ایک لمحے کو منال گنگ رہ گئی۔
"نہیں امی ایسا بالکل نہیں ہوسکتا میں ثُمامہ سے شادی نہیں کروں گی۔"وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھری بولی
"منال اب میں تمہاری کوئی بے وقوفی برداشت نہیں کروں گی۔"مسز زبیر سختی سے بولیں
"لیکن امی ثُمامہ کی شادی تو ماریہ سے ہونے والی ہے میں کیسے اس سے شادی کرلوں؟"وہ ابھی بھی بے یقین تھی۔
"زبیر بھائی یہی چاہتے ہیں منال اور ثُمامہ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں بھی ہماری طرف سے ہاں کہہ چکی ہوں اب تمہاری طرف سے کوئی انکار نہیں آنا چاہیے۔"وہ سختی سے کہتیں اٹھ کر چلی گئیں جبکہ وہ وہیں بے یقین سی بیٹھی رہ گئی۔
یہ قدرت نے اسے کہاں لاکھڑا کیا تھا۔ جس سے وہ سب سے زیادہ بھاگتی تھی اسے گھما پھرا کر وہیں پہنچا دیا تھا۔ فقط دو سال پہلے وہ ثُمامہ کو کس قدر دھڑلے سے انکار کرکہ آئی تھی اور آج قسمت نے وہاں لاکھڑا کیا تھا کہ وہ ہلکی سی مزاحمت بھی نا کرسکتی تھی۔
لیکن ماریہ؟
اس کا کیا؟
وہ اسے کسی کا حق مار کر اپنی زندگی آباد ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس نے فوراََ سے پہلے بنا سوچے سمجھے فون نکالا اور ماریہ کا نمبر ڈائل کیا۔
"السلام علیکم منال۔ کیسی ہو؟"کال اٹینڈ ہوتے ہی ماریہ کی خوشگوار سی آواز سنائی دی۔
"وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں ماریہ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"منال سنجیدگی سے بولی
"میں جانتی ہوں تم کیا بات کرنا چاہتی ہو منال۔"
ماریہ سب واقعے سے پہلے سے ہی واقف تھی اس لیے سنجیدگی سے بولی
"تو تمہیں اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟"منال کے لہجے میں حیرت تھی۔
"منال انسان کو وہی ملتا ہے جو اس کی قسمت میں ہوتا ہے ۔ ثُمامہ میری قسمت میں نہیں ہیں اس لیے وہ مجھے نہیں مل سکتے۔ وہ تمہارے لیے بنے ہیں اسی لیے تمہاری قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں اور انسان اپنی قسمت سے کبھی نہیں لڑ سکتا۔"وہ نرمی سے بولی
"میں بہت شرمندہ ہوں ماریہ مجھے واقعے نہیں پتا تھا کہ یہ گھر میں کیا ہورہا ہے ورنہ میں ایسا کبھی نہ ہونے دیتی۔"وہ شرمندگی سے بولی
"شرمندہ ہونے والی کوئی بات نہیں منال۔ ثُمامہ اور میرا ساتھ شاید اتنا ہی تھا۔ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ میں دعا کروں گی کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو۔"وہ خوشگوار لہجے میں بولی
"تم بہت اچھی ہو ماریہ۔"منال دل سے بولی
"میں جانتی ہوں۔ کوئی نئی بات بتاؤ۔"وہ شرارت سے بولی تو منال مسکرا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماریہ سے بات کرنے کے باوجود بھی اسے کسی صورت چین نہیں آرہا تھا۔ ایک عجب سی جنگ چھڑی تھی اس کے دل و دماغ میں۔ وہ کسی صورت بھی ثُمامہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پہلے ہی اس پر احسان کرچکا تھا اب وہ ساری زندگی اسکی احسان مند نہیں رہنا چاہتی تھی۔
کافی دیر سوچنے کے بعد ہمت کرکہ اس نے آج پھر ثُمامہ کا نمبر ڈائل کرلیا۔
وقت بدل چکا تھا لیکن آج بھی ثُمامہ سے اس کی یہی فریاد تھی جو کہ دو سال پہلے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کسی کام سے باہر آیا ہوا تھا جب اس کا سیل رنگ کیا۔ منال کا نمبر دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا لیکن وہ اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کیا بات کرنے والی ہے۔
"ثُمامہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"کال اٹھاتے ہی وہ بے تابی سے بولی تو ثُمامہ کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ بکھر گئی۔ وہی آواز تھی وہی فریاد تھی لیکن وقت اور لہجہ دونوں بدل چکے تھے اب۔
"منال اگر اب ایک بار پھر انکار کرنے کی بات کررہی ہیں تو میں معذرت خواہ ہوں اس بار آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔"وہ قطعیت سے بولا
"لیکن ثُمامہ دیکھیں آپ مجھ سے کوئی اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہیں۔ میں آپ کو کبھی کوئی خوشی نہیں دے پاؤں گی۔ آپ میرے ساتھ کبھی بھی نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے ثُمامہ پلیز میری بات کو سمجھیں میرے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے"الفاظ وہی تھے جو کہ دو سال پہلے اس نے استعمال کیے تھے لیکن آج ان الفاظ کا مطلب کچھ اور ہی نکلتا تھا۔
"بہتر یہی ہوگا منال کہ آپ شادی کی تیاری کریں۔"
سنجیدگی سے کہہ کر اس نے کال کاٹ دی جبکہ منال اپنا ضبط کھوتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمامہ کو ایک ہفتے بعد واپس چلے جانا تھا۔ اس کی چھٹیاں اب ختم ہورہی تھیں۔ اب کی بار اس کی پوسٹنگ واہ کینٹ میں ہورہی تھی۔ اسی وجہ سے ان کے نکاح کی تاریخ دو دن بعد ہی کی مقرر کردی گئی تھی۔ کیونکہ اس کے بعد ثُمامہ کو واپس جانا تھا پھر وہاں گھر کا انتظام کرکہ یہاں سے منال کو رخصت کروا کر لے جانا تھا۔
دو دن پر لگا کر اڑے اور آج ان کا نکاح تھا۔ منال اس نکاح کے لیے دلی طور پر بالکل راضی نہ تھی لیکن ہر کام انسان کی مرضی سے نہیں ہوتا بہت سے کام زبردستی بھی کرنا پڑتے ہیں۔
دوسری طرف ثُمامہ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے بعد پریشان ہوگیا تھا آخر کو ساری زندگی کی بات تھی کوئی ایک دو دن کا نبھا تو نہیں تھا۔
وہ دونوں اپنے اپنے شبہات سمیت اب ایک ہوچکے تھے۔
کیسے عجیب رشتے ہیں نا ابھی ایک لمحہ پہلے ہی وہ ایک دوسرے کے لیے کچھ بھی نہیں تھے اور چند بول کے بعد ان کی ساری زندگی ایک دوسرے کے نام لکھی جاچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مام میں آ جاؤں اندر؟"مسز زبیر اپنے کمرے میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہیں تھیں جب ثُمامہ نے ڈور ناک کرکہ پوچھا
"آؤ ثُمامہ بیٹھو۔"وہ کتاب رکھتے ہوئے بولیں
"مام مجھے آپ سے اجازت چاہیے تھی۔"وہ سنجیدگی سے بولا
"کس بات کی اجازت ؟"
"میں جانے سے پہلے ایک بار منال سے تفصیل سے بات کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے کہیں باہر لے جاؤں؟"ہچکچاتے ہوئے اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔
"اس میں اجازت لینے والی کیا بات ہے ثُمامہ اب وہ تمہاری بیوی ہے۔ شراعی اور قانونی ہر طرح کا حق رکھتے ہو تم اس پر جہاں چاہے لے جاؤ اسے۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولیں
"لیکن مام میں چاہتا ہوں کہ آپ خود اس سے کہیں میرے ساتھ جانے کو میرے کہنے پر شاید وہ انکار کردیں۔"وہ سنجیدگی سے بولا
"ثُمامہ اب دوستی کا رشتہ اس کے ساتھ تم نے خود قائم کرنا ہے لیکن بحر حال میں اسے کہہ دوں گی تم شام میں لے جانا اسے۔"وہ نرمی سے بولیں تو وہ گہری سانس لیتا ہوا باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ مام نے منال سے کیا بات کی ہے لیکن جب وہ شام میں گھر کے باہر کھڑا تھا تو منال خاموشی سے دونوں بچوں کو ساتھ لئے اس کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ بھی بغیر کچھ کہے گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کرکہ سڑک پر دوڑا دی۔
"کوئی بات کرنی تھی آپ کو تو گھر میں بھی کی جاسکتی تھی باہر آنا ضروری نہیں تھا۔"وہ سنجیدگی سے بولی
"اگر آپ کو کوئی مسلہ تھا تو آپ نہ آتیں۔"وہ ایک نظر اس پہ ڈالتا ہوا بولا
"میں آنٹی کے کہنے پر آئی ہوں۔ اگر وہ اتنے مان سے نہ کہتیں تو میں کبھی بھی نا آتی۔"وہ ناراضگی سے بولی
"جب ان کا مان رکھ کر آ ہی گئی ہیں تو خاموشی سے بیٹھی رہیں۔ "جواب میں وہ بھی سنجیدگی سے بولا تو منال خاموش ہوکر بیٹھ گئی اور نظریں کھڑکی پر مرکوز کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پل خاموشی میں گزرے تھے کہ منال گاڑی کو مونال ( پیر سوہاوہ ) کے راستے پر جاتے ہوئے دیکھ کر بول پڑی۔
"ثمامہ میں آپ کے ساتھ سیر سپاٹے کرنے کے لیے نہیں آئی آپ نے کہا تھا آپ کو ضروری بات کرنی ہے تو کریں نہیں تو گاڑی گھر کی طرف واپس موڑیں۔"
وہ غصے سے بولی
"اتنی بے اعتباری نہ دکھائیں منال۔ آپ اپنے شوہر کے ساتھ ہی جارہی ہیں کسی غیر کے ساتھ نہیں۔"
وہ اسے اپنے اور اس کے مابین رشتے کا حوالہ دیتے ہوئے بولا
"جی ہاں مجبوری کا شوہر۔"وہ تلخی سے بولی تو ثُمامہ خاموش ہوگیا ۔ وہ جانتا تھا کہ ابھی منال سے کوئی بھی بات کرنا بے کار تھا۔
کچھ دیر سفر کے بعد وہ لوگ مونال پہنچ چکے تھے۔ شام ہونے کی وجہ سے ہلکی ہلکی دھند سارے اطراف میں پھیل رہی تھی۔ سردی کی شدت کے باعث اکا دکا لوگ ہی موجود تھے۔ ثُمامہ نے حنان کو اٹھایا اور گاڑی سے باہر نکل گیا۔ منال بھی فیضان کو اٹھائے باہر آگئی اور ثُمامہ کی پیروی کرنے لگی۔
تیز ہوا کے باعث منال کی شال اس کے سر سے سرک کر شانے تک آگئی تھی۔ اس نے سادے کدھر کے کالے سوٹ کے ساتھ لائٹ پنک کلر کی شال اوڑھی ہوئی تھی جو کہ اسے سردی سے بچانے کے لیے ناکافی تھی۔ فیضان کو اٹھانے کی وجہ سے وہ شال درست بھی نہیں کر پا رہی تھی۔
ثُمامہ نے ایک دو بار مڑ کر اسے دیکھا جو اپنے آپ میں الجھی ہوئی تھی۔ پھر آہستہ سے چل کر اس کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک درخت کے پاس لے آیا اور اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ منال حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ثُمامہ نے اس کی ایک طرف ڈھلکی ہوئی شال اٹھائی اور اس کے سر پر رکھتے ہوئے بولا
"آئیندہ یہ میں سر سے اتری ہوئی نا دیکھوں۔"وہ اتنی سختی سے بولا تھا کہ ایک لمحے کو منال اس کے لہجے پر لرز گئی۔ پھر ثُمامہ نے منال کے ہاتھوں سے فیضان کو بھی پکڑ لیا اور اسے اپنے آگے چلنے کا اشارہ کیا اور خود دونوں بچوں کو اٹھائے اس کے بالکل پیچھے چل دیا۔ منال یوں اس سے آگے چلنے پر جھجک رہی تھی لیکن فل وقت خاموش ہی رہی۔
اس کے پیچھے چلتے ثُمامہ کی رگیں غصے سے تن گئیں تھیں منال جب اپنی شال سے الجھ رہی تھی تو وہ بغور پاس کھڑے کچھ لڑکوں کی نظریں اس پر مرکوز دیکھ چکا تھا اسی لیے منال سے بھی سختی سے بات کرگیا۔
تھوڑی آگے جاکر ثُمامہ ایک کارنر والی ٹیبل مے گرد کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ وہاں سے نیچے پورا شہر نظر آرہا تھا۔ منال بھی اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور فیضان کو اس سے لے لیا۔
دونوں کے درمیان اب خاموشی کا راج تھا کوئی بھی ایک دوسرے سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ ثُمامہ مسلسل منال کو دیکھ رہا تھا جبکہ وہ اس کی نظروں سے کنفیوز ہوتی اردگرد دیکھ رہی تھی۔
"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟ کیوں مسلسل گھور رہے ہیں مجھے؟ "اس کی نظروں سے تنگ آکر بالآخر وہ غصے سے پوچھ بیٹھی۔
"سامنے والی کو گھوروں گا تو آپ مائنڈ کریں گی۔"وہ اپنی مسکراہٹ دباتا سنجیدگی سے بولا
"میری بلا سے جس کو مرضی گھوریں۔"وہ ہلکی آواز میں بڑبڑائی اور پھر سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
"میں کون ہنی؟"
ُ" با با۔۔۔ "
منال کو ادھر ادھر مصروف دیکھ کر ثُمامہ حنان کو ٹیبل پر بٹھائے اس میں مصروف ہوگیا۔
"با۔۔ با۔۔"
حنان بھی اپنی توتلی زبان میں ثُمامہ کی طرح بابا بولنے کی کوشش کررہا تھا۔
حنان کو بابا بولتے دیکھ کر منال کی آنکھیں میں آنسوؤں کا ریلا امڈ آیا۔
"یہ میرے بچے ہیں ثُمامہ۔ آپ ان کے کچھ نہیں لگتے اس لیے برائے مہربانی ان کے ننھے ذہنوں میں خرافات مت ڈالیں۔"وہ نہایت سختی سے بولی ۔ ثُمامہ ایک پل کو گنگ رہ گیا پھر اس کے تاثرات سرد ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔