عمار کے ساتھ وہ فیضان اور حنان دونوں کو لے کر اپنے گھر آگئی تھی لیکن اب وہ گھر صرف اس کے لیے ہی اپنا گھر رہ گیا تھا ورنہ باقیوں کی نظروں میں تو اس کا وہاں کوئی حق نہیں تھا اب۔
بیل بجانے پر احمد کی امی دروازے پر نمودار ہوئیں۔
"اب تم کیا لینے آئی ہو یہاں؟ میرے جوان بیٹے کو کھا گئی اب کونسی کثر رہ گئی؟ میرے بیٹے کو موت کہ منہ میں اتار دیا۔ اپنی نحوست سے میرا گھر اجاڑ دیا تم نے منال اب دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔"
منال کو دیکھتے ہی وہ نفرت سے پھنکاریں جب کہ منال ان کے الفاظ پر سن کھڑی رہی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہی عورت جو احمد کہ ہوتے ہوئے اس کے اتنے لاڈ اٹھاتی تھیں آج اس کی غیر موجودگی میں اسے یوں بے عزت کریں گی۔
"لے جاؤ میاں یہاں سے اپنی بہن کو۔ اب میں اپنے گھر پر اس کا منحوس سایہ برداشت نہیں کرسکتی"اب کہ وہ عمار بھائی سے مخاطب ہوئیں اور کسی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی دروازہ بند کرکہ اندر چلی آئیں۔
"تمہیں کتنا سمجھایا تھا منال اب تمہارا یہاں کوئی رشتہ نہیں ہے دیکھ لیا انجام؟ "عمار بھائی غصے سے بولے لیکن منال کو کسی بات کا ہوش نہیں تھا۔ زندگی اس پر اتنی تنگ ہوجائے گی وہ کبھی سوچ نہیں سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باہر لان میں بیٹھی تھی۔ دونوں بچے نیچے گھاس پر بیٹھے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔ دونوں اب ایک سال کے ہوچکے تھے۔
اس نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں بادل برسنے کو بے تاب تھے۔ نا چاہتے ہوئے بھی بے اختیار ہی اس کی آنکھیں بھیگنے لگی۔ اسے شدت سے احمد کی یاد ستائی جو بارش دیکھتے ہی دیوانہ ہو جاتا تھا۔
"آپ تو ہر جگہ ہمیشہ دیر سے جایا کرتے تھے احمد پھر دنیا سے جانے میں اتنی جلدی کیوں کردی؟ مجھے کیوں اتنی جلدی چھوڑ گئے؟ آپ نے تو عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا پھر بیچھ راہ میں تنہا کیوں کرگئے مجھے احمد آپ؟ "وہ روتے روتے ہی بے اختیار ہوئی اور چیخنے چلانے لگی۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ وہ اپنا اختیار کھو بیٹھے ۔
اس کے چیخنے پر دونوں گھروں کے سبھی افراد باہر آگئے اور اس کی حالت کے پیش نظر اسے فوراََ سے ہسپتال لے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کچھ دیر بعد ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ گھر آکر اس دوائیوں کے زیر اثر وہ سو رہی تھی جبکہ مسز زبیر کا اپنی بیٹی کی اجڑی حالت دیکھ کر دل کٹ کر رک گیا تھا۔ یہ ان کا سب سے لاڈ پیار سے پلنے والا بچا تھا اور آج کن عذابوں سے لڑ رہا تھا۔ زندگی کی تلخیاں برداشت کررہا تھا۔
منال کی آنکھ کھلی تو مسز زبیر کو روتا دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی پھر سے بھیگنے لگیں۔
"امی یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ؟"بے بسی سی بے بسی تھی اس کے لہجے میں۔ یہ وہ سوال تھا جہاں ہر جواب خاموش ہوجایا کرتا تھا۔ اس سوال کے آگے کوئی دلیل کام نہیں کرتی تھی۔ اس سوال کا کوئی جواب بنا ہی نہیں تھا۔
"بیٹا اللہ کے کام ہیں یہ سب انسان تو کچھ نہیں کرسکتا نا۔"وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
"لیکن پھر بھی امی۔ ہر بار میں ہی کیوں؟ پہلے بابا چھینے گئے مجھ سے اور اب احمد۔۔۔ "ابھی اس کی بات مکمل بھی نا ہوئی تھی کہ وہ ہچکیوں سے رونا شروع ہوگئی۔
"بس کردو منال میرے بچے حوصلہ کرو۔مسز عثمان اسے تسلیاں دینے لگیں۔ اس کے علاوہ اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج بڑے عرصے بعد گھر آیا تھا۔ ابھی اس نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ کرنل زبیر نے اسے اپنے کمرے میں آنے کو کہا۔ وہ اپنا بیگ سائڈ پر رکھتا بغیر کپڑے تبدیل کیے ان کے پاس چلا آیا۔
"دیکھو ثُمامہ جو التجا میں نے تم سے دو سال پہلے کی تھی آج میں وہ دوبارہ کرتا ہوں۔"وہ بغیر کسی تہمید کے بولے
"کیا مطلب بابا؟"اس نے ناسمجھی سے سوال کیا
"میں چاہتا ہوں تم منال سے شادی کرلو۔"ان کی بات پر ثُمامہ نے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا۔
"جی؟"وہ اپنے لہجے میں حیرت سموئے بولا کہ شاید اسے سننے میں غلطی لگی ہو۔
"ہاں ثُمامہ میں چاہتا ہوں تم منال سے شادی کرلو ۔ میرے سے اس بچی کی حالت نہیں دیکھی جاتی ثُمامہ اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔"
وہ دکھی لہجے میں بولے
ُ"لیکن بابا ماریہ کا کیا ہوگا؟ کچھ ماہ بعد ہماری شادی ہونے والی ہے؟"کچھ عرصہ پہلے ہی ثُمامہ کی نسبت ان کے کسی کزن کی بیٹی سے تہہ ہوئی تھی اور تین ماہ بعد ان کی شادی تھی لیکن اب کرنل صاحب کی بات سن کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔
"ماریہ سمجھدار لڑکی ہے وہ حالات کو سمجھ جائے گی۔ تم بس منال سے شادی کے لیے راضی ہوجاؤ۔"
وہ سنجیدگی سے بولے تو ثُمامہ بغیر کچھ کہے وہاں سے اٹھ گیا۔ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی تھی وہ کسی کو بیان نہیں کرسکتا تھا۔ جس لڑکی نے دو سال پہلے اسے ٹھکرایا تھا اب بابا اسی سے رشتہ جوڑنے کی بات کررہے تھے۔ وہ کیسے اس بات پہ راضی ہوجاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی دن ہوچلے تھے لیکن ثُمامہ کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ نہ اس نے کسی سے اس بارے میں کوئی بات کی تھی اور نہ ہی کسی نے اس سے کچھ کہا تھا۔ دن یونہی خاموش اور اداس سے سرکتے جارہے تھے۔
ثُمامہ اس بار لمبی چھٹیوں پر آیا تھا۔ اس وقت ٹیرس پر کھڑا اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اس کی۔نظر نیچے لان میں بیٹھی منال پر پڑی جس کی گود میں فیضان بیٹھا تھا جبکہ حنان نیچے کرالنگ کررہا تھا۔ ثُمامہ غور سے منال کو دیکھنے لگا جو کہ اب بالکل مرجھا چکی تھی۔ ثُمامہ کو وہ پہلے والی ہر وقت ہنستی مسکراتی سب سے چھیڑ چھاڑ کرتی منال یاد آئی۔ وہ بے اختیار ہی اس سے اپنی نظریں ہٹا گیا۔ ابھی وہ وہاں سے پلٹنے ہی والا تھا کہ کسی کے رونے کی آواز پر وہاں متوجہ ہوا۔ نیچے دیکھنے پر اسے پتا چلا کہ حنان جوکہ کرالنگ کررہا تھا سیڑھی چڑھنے کی کوشش میں گر گیا تھا اور سیڑھی اس کے سر پر لگی تھی جس کہ باعث بہت خون بہہ رہا تھا۔ ثُمامہ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر فوراََ سے نیچے کو بھاگا۔
منال حنان کو خون سے لت پت دیکھ کر بالکل حواس باختہ ہوچکی تھی اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس وقت گھر پر بھی کوئی موجود نہیں تھا۔ اس کی نظر سامنے سے آتے ثُمامہ پر پڑی تو وہ حنان کو اٹھائے بھاگتی ہوئی اسکی طرف بڑھی۔
"ثُمامہ دیکھیں حنان کو کیا ہوگیا ہے اتنا خون بہہ رہا ہے "وہ حواس باختہ سی ہوکر بولی۔ آنسو تواتر اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔
"آپ پریشان مت ہوں منال ہمیں اسے ہاسپٹل لیکر جانا چاہیے۔"ثمامہ اس کے ہاتھوں سے حنان کو تھامتا ہوا بولا اور اسے لے کر اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔ منال بھی فیضان کو اٹھا کر جلدی سے گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماتھے پر چوٹ لگنے کی وجہ سے حنان کو تین ٹانکے لگے تھے۔ ہسپتال میں سارا وقت ثُمامہ ہی بھگ دوڑ میں لگا رہا کیونکہ منال کہ تو آنسو ہی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی اولاد کی تکلیف نہیں دیکھ پارہی تھی۔ ویسے بھی حالات دیکھ دیکھ کر تو اس کا دل اور کمزور ہوچکا تھا۔ ہر وقت بس دھچکا ہی لگا رہتا کہ کہیں کچھ برا نا ہوجائے۔
"منال بس کریں اب۔ آپ ایسے ریکیٹ کریں گی تو بچوں کو کون سنبھالے گا۔ حوصلہ کریں آپ۔"
واپسی پر بھی جب اس کہ آنسو نہ تھمے تو ثُمامہ کو بولنا پڑا۔
"نہیں ہوتا اب مجھ سے حوصلہ ثُمامہ۔ آخر میں کیسے یہ سب برداشت کروں؟ آپ بچوں کو سنبھالنے کی بات کررہے ہیں میرے سے اپنا آپ نہیں سنبھالا جاتا۔ اپنا آپ ایک زندہ لاش کی طرح محسوس ہوتا ہے۔"وہ سسکتے ہوئے بولی
"میرے بچے میرا آخری سہارا ہیں انہیں ہلکی سی خراش بھی آئی تو میں جی نہیں پاؤں گی۔"وہ حنان کو اپنے گلے سے لگاتے ہوئے بولی جو کہ اس کی گود میں سو رہا تھا جبکہ فیضان کو ثُمامہ نے اپنی گود میں بٹھایا ہوا تھا۔
منال کو تسلی دینے کے لیے ثُمامہ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اس لیے وہ خاموشی سے لب بھینچے ڈرائیونگ میں مصروف ہوگیا البتہ اس کا ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض فیصلے انسان کو اپنا من مار کر بھی کرنے پڑتے ہیں۔ بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو حالات کے تقاضے دیکھ کر کرنا پڑتے ہیں۔ بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی خوشیوں کے لیے کرنا پڑتے ہیں۔ ثمامہ بھی فیصلہ کرچکا تھا۔
"مام آپ ڈیڈ کو بتا دیں مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔"مسز زبیر کے سامنے وہ اپنا فیصلہ سنا رہا تھا۔
"سچ کہہ رہے ہو ثُمامہ؟"انہیں جیسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا تھا۔
"اس میں جھوٹ کہنے والی کوئی بات نہیں ہے۔"
وہ سنجیدگی سے بولا
"میں بہت خوش ہوں تمہارے اس فیصلے سے ثُمامہ۔ اللہ تم دونوں کو خوش رکھے۔"وہ خوشی سے کہتیں اس کا ماتھا چوم کر اٹھی کھڑی ہوئیں اور زبیر صاحب کو یہ خوشی کی خبر سنانے چل دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میں کیپٹن زبیر نے اسے اپنے کمرے میں بلایا۔
"تم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے نا؟"وہ سنجیدگی سے بولے
"جی ڈیڈ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے"وہ سر جھکائے بولا
"مجھے امید ہے ثُمامہ اگر تم نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے تو تم اسے پورے دل سے نبھاؤ گے بھی۔ "وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
"میں پوری کوشش کروں گا۔"
"دیکھو ثُمامہ منال نے پہلے ہی زندگی میں بہت دکھ دیکھے ہیں۔ اتنی اس کی عمر نہیں تھی جتنا زندگی نے اس کا امتحان لیا ہے۔ تمہیں اس کے تمام دکھوں کا ازالہ کرنا ہے ثُمامہ۔ اس کے لیے ایک مضبوط سہارا بننا ہے۔"ان کی باتوں پر وہ بولا کچھ نہیں محض سر ہلا دیا۔
"اور سب سے اہم بات۔ تم نے اس کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پالنا ہے ثُمامہ۔ انہیں کبھی بھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دینی۔ تم یہ بھول جانا کہ وہ کسی اور کہ بچے ہیں بس انہیں اپنا سمجھ کر سہارا دینا۔ میں نے بڑے یقین سے تم پر یہ زمہ داری عائد کی ہے ثُمامہ۔ مجھے پورا یقین ہے تم میری توقعات پر پورا اترو گے۔ "وہ اسے جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے
"میں اپنی پوری کوشش کروں گا ڈیڈ کہ آپ کو شکایت کا کوئی موقع نہ ملے۔"وہ آہستگی سے کہتا کمرے سے باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد میں رات کی تاریکی آہستہ آہستہ پھیل چکی تھی۔ دسمبر کا مہینہ تھا جس کہ باعث ہر طرف دھند کا راج تھا۔ رات گیارہ بجے کا وقت تھا اور وہ خالی ویران سڑکوں پر گاڑی دوڑھا رہا تھا۔ اسے خود بھی معلوم نہیں تھا وہ کہاں جا رہا ہے کہاں جانا چاہتا ہے بس معلوم تھا تو یہ کہ وہ کچھ پل کے لیے سکون چاہتا ہے۔
اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی زندگی کبھی ایسا موڑ بھی لے گی۔ وہ ہمیشہ سے اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھا بہت پرسکون تھا لیکن اچانک سے وہ یوں بے اطمینان ہوجائے گا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
جب منال نے اس سے رشتے سے انکار کیا تھا تو اسے رشتہ ختم ہونے کا کوئی دکھ نہیں تھا کیونکہ اس کی منال سے کوئی جزباتی وابستگی نہیں تھی لیکن منال نے جس انداز میں انکار کیا تھا وہ اسے بہت برا لگا تھا لیکن پھر بھی اس نے منال پر کوئی بھی آنچ آنے نہیں دی تھی بلکہ ساری بات اپنے سر لے کر اس رشتے کی بات کو ختم کیا تھا۔ اس بات کو لے کر سب گھر والے اس سے کافی عرصہ ناراض بھی رہے تھے لیکن وہ منال کے لیے یہ برداشت کرگیا تھا کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ ہر انسان کو اپنی خوشیوں پر حق ہوتا ہے اگر وہ خود کو اس کے ساتھ کسی رشتے میں جڑنے نہیں دینا چاہتی تھی وہ کیوں زبردستی کے رشتے بناتا۔
منال کو احمد کے ساتھ خوش دیکھ کر وہ بھی خوش تھا۔ دوبارہ کبھی اس کے دل میں منال کا خیال نہیں کبھی نہیں آیا تھا۔
پھر اس کی پوسٹنگ ہی ایسی جگہ ہوگئی کہ وہ اپنی جاب میں بے حد مصروف ہوگیا۔
اسی دورانیے میں منال کے ساتھ دل دہلا دینے والا واقع پیش آیا۔ ان دنوں وہ السلام آباد ہی آیا ہوا تھا۔ سب کی طرح وہ بھی اس واقعے پر بہت شاکڈ تھا اور منال کے لیے بہت دکھی بھی تھا لیکن تقدیر کے آگے تو سب بے بس ہوتے ہیں کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد اس کی منگنی ماریہ سے ہوگئی تھی۔ ماریہ بہت اچھی لڑکی تھی اس کی اس سے زیادہ ملاقات یا بات چیت نہیں ہوتی تھی لیکن وہ اس رشتے سے مطمئن تھا۔
لیکن زندگی میں اچانک سے آنے والے اس طوفان نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ زبیر صاحب کی بات سن کر ایک بار تو وہ بے یقین ہی ہوگیا تھا لیکن پھر حالات کو دیکھ کر وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔