حنان کو لٹا کر جب وہ واپس آئی تو ثُمامہ ہنوز اسی پوزیشن میں بے خبر سویا ہوا تھا۔
منال نے اس کے قریب جاکر اسے آواز دی۔
"ثُمامہ۔۔"اس کے ایک دو بار آواز دینے پر بھی جب وہ نا اٹھا تو منال کو زور سے اس کا کندھا ہلانا پڑا جس پر وہ فوراََ سے ہی ہڑبڑا کر اٹھا۔
"کیا بات ہے سب ٹھیک ہے؟"نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں سے منال کو دیکھتے ہوئے سوال کیا گیا۔
"یہاں تو سب ٹھیک ہے البتہ آپ ٹھیک نہیں لگ رہے۔ اندر جا کر سو جائیں آپ۔"وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی
"کیوں کیا ہوا؟"وہ حیرانی سے بولا
"آپ اندر جاکر سو جائیں ثُمامہ۔"
"ہاں بس جارہا ہوں۔"یہ کہہ کر وہ پھر آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گیا جبکہ منال اس کی ڈھٹائی دیکھ کر وہ گئی۔
کچھ دیر وہ اسی پوزیشن میں لیٹا رہا اور منال اسے دیکھتی ہوئی سوچنے لگی۔ آخر کیوں کر رہا تھا وہ شخص یہ سب کچھ؟ کسی اور کی اولاد کے لیے ساری رات اپنی نیند کیوں خراب کررہا تھا؟ کیوں وہ انہیں ان کے سگے رشتوں سے زیادہ محبت دینے کی کوشش کررہا تھا؟ کیوں وہ ان کے لیے سب کچھ کر کہ بھی احسان نہیں جتاتا تھا؟
"مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا ثُمامہ؟"کچھ دیر اسے غور سے دیکھنے کے بعد منال جھجکتے ہوئے بولی
"ہمم پوچھیں۔"وہ ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹے ہوئے بولا
"آپ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟"
"خدا کو مانیں منال میں نے کچھ بھی تو الٹا سیدھا نہیں کیا۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہاں بالکل شریف ہونے کا مظاہرہ کررہا ہوں اور آپ مجھے الزام دے رہی ہیں؟"بغیر منال کی بات کی گہرائی کا اندازہ لگائے وہ نیند میں اپنے ہی مفروضے قائم کرتا ہوا بولا۔
"میں یہ بات نہیں کررہی ثُمامہ۔"وہ سنجیدگی سے بولی تو ثُمامہ کو مجبورا اٹھ کر اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔
"پھر کیا بات کررہی ہیں آپ؟"وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
"میں آپ کی بچوں سے محبت کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔۔۔ آپ ان کا اتنا خیال کیوں رکھ رہے ہیں انہیں اتنا پیار کیوں دے رہے ہیں؟ کسی اور کی اولاد کو اپنی اولاد کی طرح محبت کیوں کر رہے ہیں؟"
وہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
"منال بچے تیرے یا میرے نہیں ہوتے وہ تو معصوم ہوتے ہیں۔ وہ جس کے بھی ہوں انہیں بس پیار کی ضرورت ہوتی ہے اور ویسے بھی میں نے ان دونوں کو کبھی "کسی" کی اولاد نہیں سمجھا میں جب ان کے قریب جاتا ہوں ان کے لمس سے مجھے سکون ملتا ہے وہ مجھے اپنے ہی بچے لگتے ہیں میں کیسے ان سے محبت نہ کروں؟"
"آپ انہیں اپنا عادی بنا رہے ہیں۔ بن باپ کہ بچے ہیں وہ زیادہ محبتوں کو عادی ہوگئے تو میرے لیے مسئلہ بنے گا۔"وہ اپنے آنسو روکتے ہوئے بولی
"کیا آپ کو مجھ پر زرا سا بھی اعتماد نہیں ہے؟ آپ کو کیا لگتا ہے میں انہیں عادی بنا کر چھوڑ دوں گا؟ ایسا بالکل نہیں ہے منال۔ میں نے ان کی زمہ داری لی ہے تو یقین کریں میں ایک باپ سے بڑھ کر ان سے محبت کروں گا میں مانتا ہوں کہ ان کہ باپ کی جگہ میں کبھی نہیں لے سکتا لیکن آپ میرا یقین کریں میں انہیں کوئی کمی بھی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔ "وہ منال کے دونوں ہاتھ تھام کر محبت سے بولا جبکہ منال گنگ سی اسے سنے گئی۔ وہ جیسے اس کی باتوں کہ سحر میں کھو سی گئی تھی۔
"میں آپ کہ معاملے میں شاید کبھی کوئی کوتاہی کر بیٹھوں لیکن "اپنے" بچوں کے معاملے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔"
وہ اپنے پر زور دیتا جذب سے کہہ رہا تھا۔
"میں چلتا ہوں۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے واپسی کے لیے نکلنا بھی ہے۔ آپ اپنا اور بچوں کا خیال رکھیے گا۔"آہستگی سے کہتا وہ منال کو سوچوں کے سمندر میں چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمامہ کہ جانے کے بعد وہ کافی دیر اس کے بارے میں سوچتی رہی لیکن وہ کچھ بھی نتیجہ اخز کرنے سے کاثر تھی۔ دل کہتا تھا کہ ثُمامہ کی باتوں پر یقین کرنا چاہیے جبکہ دماغ مسلسل اس بات کی نفی کرتا تھا۔ وہ اپنے دل و دماغ کے درمیان بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی۔
ثُمامہ کی بچوں سے محبت اسے ہر غرض سے عاری لگتی تھی لیکن دماغ تھا کہ اتنے جھٹکے کھانے کہ بعد اب کسی کی بات پر ایمان لانا ہی نہیں چاہتا تھا۔
جانے اب دل و دماغ میں سے کون کامیاب ہوتا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیٹ کھلنے کی آواز پر منال بھاگ کر ٹیرس پر آئی تھی۔ اس کی توقع کے عین مطابق اس وقت ثُمامہ ہی واپس جارہا تھا۔
بے اختیار ہی ثُمامہ نے بھی نظر اٹھا کر اسے دیکھا ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں۔ پھر دونوں ہی نظریں چرا گئے۔
منال واپس اندر چلی آئی جبکہ ثُمامہ اپنے اگلے سفر کو نکل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمامہ کو گئے تین دن ہو چکے تھے۔ گھر وغیرہ کو انتظام وہ وہاں جاتے ہی کرچکا تھا۔ اب اسے تین دن بعد واپس جانا تھا اور منال اور بچوں کو اپنے ساتھ لے کر آنا تھا۔
وہ اس وقت گھر کے لان میں بیٹھا منال کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ منال کا مزاج کچھ عجیب سا ہی تھا بعض اوقات وہ اسے بالکل نارمل لگتی اور ثُمامہ کو محسوس ہونے لگتا جیسے وہ اب اس رشتے کو قبول کر رہی ہے لیکن کبھی اتنی تلخ ہوجاتی کہ ثُمامہ بالکل ہی مایوس ہوجاتا کہ اس کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزرے گی؟
لیکن جو بھی تھا ثُمامہ کو کسی نا کسی طریقے منال کو اس رشتے کا احساس دلانا ہی تھا۔
آج اسے آئے تیسرا روز تھا اور وہ تینوں دن انتظار کرتا رہا تھا کہ شاید منال اسے کال کرکہ اس کی خیریت پوچھے لیکن منال نے ایک بار بھی اسے کوئی کال میسج نہیں نہیں کیا تھا بالآخر اسنے ہی تنگ آکر منال کو کال کردی تھی۔
"السلام علیکم۔۔"منال کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز سن کر ثُمامہ کو وقت کا احساس ہوا۔ اپنے خیالوں میں گم اسے محسوس ہی نہیں ہوا تھا کہ ساڑھے بارہ بج چکے تھے رات کے۔
"سوری منال آپ سو رہی تھیں کیا؟"ثمامہ شرمندگی سے بولا
"مجھے آپ کی طرح آرمی ٹریننگ نہیں دی گئی جو میں ساری رات جاگ کر گزاروں۔ ظاہر سی بات ہے سو ہی رہی تھی۔"منال چڑتے ہوئے بولی
"ویری سوری۔۔آپ سو جائیں میں صبح کال کرلوں گا۔"وہ حقیقتاً اپنی بے خودی پر شرمندہ تھا۔ اسے کال کرنے سے پہلے وقت کا احساس کرنا چاہیے تھا۔
"اب نیند تو خراب کر ہی دی ہے آپ نے بات بھی کرلیں جس کے لیے فون کیا تھا۔"منال اب مکمل طور پر جاگ چکی تھی اس لیے طنز کرتے ہوئے بولی
"میں کچھ نہیں بس بچوں کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا۔"وہ جھجکتے ہوئے بولا
"بچے ٹھیک ہیں ابھی سو رہے ہیں آپ تھوڑی دیر پہلے کال کرتے تو بات کروا دیتی میں۔"وہ تفصیل سے بولی
"اچھا۔۔۔"وہ اس کا حال بھی پوچھنا چاہ رہا تھا لیکن جھجک آڑے آرہی تھی۔
"اور؟"اس کے کافی دیر خاموش رہنے پر منال کو بولنا پڑا۔
"نہیں بس بچوں کا ہی پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔"وہ جھجکتے ہوئے بولا تو منال نے خدا حافظ کہہ کر کال بند کردی۔
یعنی عجیب ہی بندہ تھا آدھی رات کو اس کی نیند خراب کر کہ بس بچوں کا پوچھنا چاہ رہا تھا؟
دوسری طرف ثُمامہ کو اب اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا۔ کیا ضرورت تھی آخر اتنی رات کو کال کرنے کی؟ اور اگر کر بھی لی تھی تو ڈھنگ سے بات تو کر لیتا۔
اب وہ اپنی بے خودی پر بلاوجہ ہی شرمندہ ہورہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کہ اڑا تھا اور یہ دو دن بھی گزر چکے تھے۔ آج ثُمامہ انہیں لینے کے لیے آرہا تھا۔ آج سے منال کی پوری زندگی ثُمامہ کے نام ہونے جا رہی تھی۔ آج سے وہ ہمیشہ کے لیے اس کی ہو رہی تھی۔
پرانی باتیں، پرانی یادیں وہ سب اب اسے یہیں چھوڑ کر جانا تھیں۔
سب سامان پیک کرنے کے بعد وہ بیڈ پر بیٹھی اپنا موبائل کھول کر اپنی اور احمد کی شادی کی تصاویر دیکھ رہی تھی۔ بے اختیار ہی کئی آنسو اس کا چہرہ بھگو گئے۔
"کیوں آپ اتنی جلدی چلے گئے احمد آخر کیوں اپنے وعدے نہیں نبھا سکے آپ "وہ ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
مسز عثمان جو کب سے دروازے پر کھڑیں اسے ثُمامہ کے آنے کی اطلاع دینے آئیں تھیں اسے بے تحاشہ روتا دیکھ کر اندر آگئی اور اس کہ ساتھ بیٹھ گئی۔
"منال بچے بس کردو رونا اب۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب اس پر رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا تمہارے آگے پوری زندگی پڑی ہے اپنے بچوں میں دل لگاؤ ثُمامہ کی طرف توجہ دو گزری زندگی کو بھول جاؤ۔
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
"کیسے بھول جاؤں امی؟ "اس نے بے بسی سے سوال کیا۔
"منال جب شوہر مر جائے نا تو وہ عورت کے لیے نا محرم ہوجاتا ہے۔ عدت کہ بعد اس کو یاد کرنا یا اس کے لیے رونا سہی نہیں ہے۔ اب تم کسی اور کہ نکاح میں ہو کسی اور کی امانت ہو امانت میں خیانت کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اب ثُمامہ تمہارا شوہر ہے تمہاری کل کائنات ہے اب صرف اسی کو سوچنا اور اسی پر دھیان دینا۔"وہ اسے محبت سے سمجھا رہیں تھیں لیکن جانتی تھیں کہ وہ اتنی جلدی کبھی نہیں سمجھے گی۔ اتنی سی عمر میں جتنے دھچکے اسے لگ چکے تھے وہ سب برداشت کرنا اور ان کہ بعد سنبھلنا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔
وہ جب خاموش ہوئیں تو ان کی نظر دروازے پر پڑی جہاں ثُمامہ روتے ہوئے فیضان کو اٹھائے دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑا تھا ۔ اس کہ چہرے کے تاثرات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ سب باتیں سن چکا ہے۔ مسز عثمان اٹھ کھڑیں ہوئیں اور ثُمامہ سے فیضان کو لے کر باہر چلی گئی جبکہ ثُمامہ آہستہ قدموں سے اندر آیا اور منال کے بالکل سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کا ایک ہاتھ تھام لیا۔
"یہ زندگی بڑی عجیب سی چیز ہے منال۔۔ خوشیاں آئے تو بہار لگتی ہے اور غم آئیں تو عذاب۔ میں جانتا ہوں آپ کس کس عذاب سے گزری ہیں۔ جوانی میں ہی بیوہ ہونا کسی قیامت سے کم نہیں تھا آپ کہ لیے اور میں جانتا ہوں اتنی جلدی آپ اس سب کو کبھی بھول نہیں سکتیں لیکن منال ماضی میں رہ کر تو کوئی نہیں جی پاتا نا؟ ٹھیک ہے ماضی کو بھلایا نہیں جاسکتا لیکن اسے اپنے ساتھ لیے زندگی میں آگے بھی تو نہیں بڑھا جاسکتا نا؟ آپ پلیز اس فیز سے نکلنے کی کوشش تو کریں۔"وہ اسے سمجھاتے ہوئے نرمی سے بولا
"میں آپ کو احمد کی جگہ کبھی نہیں دے سکتی ثُمامہ۔۔۔۔۔"اس کی بات اس کے آنسوؤں نے مکمل ہونے ہی نا دی تھی شاید وہ جانتے تھے کہ اگر یہ جملہ مکمل ہوجاتا تو کسی اور کی ذات بھی کس قدر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی۔
"میں احمد کی جگہ لینا بھی نہیں چاہتا۔ میں آپ کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہتا ہوں خود محنت کر کہ۔۔"وہ اپنے دل میں اٹھتے طوفان کو دباتے ہوئے بولا
"منال میں آپ کہ ماضی کہ دکھوں کا مداوا تو نہیں کرسکتا لیکن اس بات کی یقین دہانی ضرور کرواتا ہوں کہ آپ کہ حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کروں گا۔۔"نرمی سے کہتے ہوئے اس نے منال کہ چہرے سے اس کے آنسو صاف کیے اور پھر خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد منال خود کو کمپوز کرکہ منہ ہاتھ دھو کر باہر آگئی اور کچھ ہی دیر میں یہ قافلہ اپنے اگلے سفر کو نکل گیا۔ ایک بار پھر منال اس گھر سے رخصت ہورہی تھی لیکن پچھلی بار کی طرح کوئی امید کوئی امنگ اس کے دل میں موجود نہیں تھی۔ اس بار اس کا دل بالکل ویران تھا۔خوشیوں سے اس کا اعتبار اٹھ گیا تھا ۔
وہ سارا سفر خاموش رہی تھی جبکہ ثُمامہ بھی اس کا احساس کرتے ہوئے خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔