Episode 3

1.8K 135 9
                                    

کچھ صلاح مشورے کے بعد اس رشتے کے لیے ہاں کردی گئی تھی ۔ چونکہ احمد نے امریکہ جانا تھا اسی لیے شادی کی تاریخ بھی جلد ہی رکھی گئی۔
وقت پر لگا کر اڑ گیا تھا اور آج منال کی مہندی تھی۔دونوں کی مہندی کا فنکشن کمبائین ہی رکھا گیا تھا۔
منال گرین شرٹ پنک لہنگے اور پرپل دوپٹے میں ملبوس تھی۔ میک سے پاک چہرہ لیے بالوں کی چوٹی بنائے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ گیندے کے پھولوں کی جیولری اسے اور حسین بنا رہی تھی۔
احمد بھی براؤن کرتے کے ساتھ گلے میں آف وائٹ پٹکا ڈالے بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا۔ دونوں کی ہی جوڑی بے حد حسین تھی۔ دونوں کے لیے ہر آنکھ میں ستائش تھی۔
مہندی کے شاندار فنکشن کے بعد اگلے دن صبح ان کا نکاح تھا اور شام میں بارات کا فنکشن ہال میں منعقد کیا گیا تھا۔
منال نے ڈیپ ریڈ لہنگا پہن رکھا تھا جبکہ احمد بلیک سوٹ میں ملبوس تھا۔ وہ دونوں ساتھ کھڑے بالکل مکمل لگ رہے تھے۔ احمد کی ماں اور بہنوں نے منال کا بہت خوش دلی سے استقبال کیا تھا۔ منال بھی ان کے ساتھ بے حد خوش تھی۔ جتنا پیار جتنی محبت احمد نے اسے دی تھی اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ جتنا رشتوں کو لے کر بے اعتبار تھی احمد نے اسے اتنا ہی رشتوں پر اعتبار کرنا سکھایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال کی اب ہاؤس جاب اسٹارٹ ہوچکی تھی جبکہ احمد کسی گورنمنٹ ہاسپٹل میں جاب کررہا تھا اور ساتھ ہی اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانے کی تیاری بھی کررہا تھا۔
"احمد اب اٹھ بھی جائیں "ان کی شادی کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ صبح کے دس بج رہے تھے لیکن احمد اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا جبکہ منال اسے کب سے اٹھا رہی تھی۔
"کیا ہے یار سونے دو نا۔"وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولا

"مجھے ہاسپٹل جانا ہے پہلے ہی لیٹ ہو چکی ہوں آپ مزید لیٹ مت کروائیں"وہ جھنجلا کر بولی
"نا جاؤ نا آج سو جاؤ آرام سے"وہ اس کا کھینچ کہ اسے جھٹکے سے بیڈ پر گراتے ہوئے بولا
"احمد آپ اٹھ رہے ہیں کہ نہیں؟"اب کہ وہ غصے سے بولی
"اچھا بیگم اٹھ رہا ہوں صبح صبح آتش فشاں کیوں بن جاتی ہو؟"وہ ہار مانتے ہوئے بولا
"کیونکہ آپ میری بات پہلی دفعہ میں نہیں مانتے اس لیے مجھے غصہ کرنا پڑتا ہے"وہ الماری سے اس کے کپڑے نکالتے ہوئے بولی
"ہم تو پہلی بار میں ہی آپ کو دل دے بیٹھے تھے بیگم آپ بات ماننے کی بات کررہی ہیں"وہ پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیتا ہوا محبت سے بولا
"بس یہ ڈرامیٹک باتیں بعد میں کر لیجیے گا ابھی تیار ہوجائیں جا کر"وہ اس کے کندھے پر چپت لگاتی ہوئی بولی اور کچن میں چلی آئی۔
پیچھے سے احمد مسکراتا ہوا تیار ہونے چل دیا۔
یہ تو ان کی روز کی روٹین تھی جتنا لڑتے تھے اتنا ہی ایک دوسرے سے پیار بھی کرتے تھے۔ منال نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی زندگی کبھی اتنی پرسکون اور خوشحال بھی ہوگی۔ احمد کے ملنے پر وہ جتنا اپنے رب کا شکر کرتی کم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اڑا تھا اور منال اور احمد کو اللہ نے دو پیارے پیارے بیٹوں سے نوازہ تھا۔ دونوں ٹونز تھے اور منال کے لیے ان دونوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا۔ کبھی کبھی تو وہ ان دونوں کو چھوڑ کر رونے ہی بیٹھ جایا کرتی جس پر احمد پھر پورا دن منال کو بھی چپ کرواتا اور دونوں بچوں کو بھی سنبھالتا تھا۔ اسی دوران احمد اور منال کی امریکہ جانے کی بھی ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ثُمامہ تمہارا شادی کرنے کا کوئی ارادہ بھی ہے یا نہیں؟"مسز زبیر ثُمامہ کہ سر پر کھڑیں اس کی کلاس لے رہیں تھیں جو کہ آج چار ماہ بعد ان کے ہاتھ لگا تھا۔
"مام آپ کو میری زندگی میں سکون برداشت نہیں ہورہا کیا؟"وہ شرارت سے بولا
"میں مزاق نہیں کررہی ثُمامہ آج شام کو فنکشن میں مسز ہمدانی کی بیٹی بھی آئے گی۔ تم مل لینا اس سے ایک بار پھر میں ان سے بات کروں گی۔"وہ سنجیدگی سے بولیں
"اگر تو ان کی بیٹی آپ کی طرح خوبصورت ہے تو آپ ابھی ہاں کردیں ۔"وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر شرارت سے بولا
"بہت فضول بولتے ہو تم۔"اس کی بات پر وہ مسکرا کر رہ گئیں۔
"ویسے فنکشن کس کا ہے؟"ثمامہ نا سمجھی سے بولا
"اوہ ہاں سچ میں تو بتانا ہی بھول گئی آج مناہل ( حسن اور عینی کی بیٹی) کی سالگرہ ہے۔"
"ارے مام میں تو بھول ہی گیا تھا۔ شکر ہے آپ نے یاد کروا دیا۔"وہ یہ کہتا اٹھ کر مارکیٹ جانے کے لیے تیار ہونے چل دیا اسے مناہل کے لیے گفٹ بھی لینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارا لان آج لائیٹوں سے جگمگا رہا تھا اور مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔
منال بلیک کلر کی ساڑھی پہنے حنان کو اٹھائے یہاں سے وہاں پھر رہی تھی اور احمد فیضان کو سنبھالے مہمانوں سے مل رہا تھا ۔
ثُمامہ داخلی دروازہ سے ابھی اندر آیا ہی تھا کہ اس کی نظر منال اور احمد پر پڑی جو کسی بات پر مسکرا رہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہوئے ثُمامہ نے اپنا سر جھٹکا اور اندر چلا آیا جہاں باقی سب باتوں میں مشغول تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال اور احمد کی امریکہ کی ایک ہفتے بعد فلائٹ تھی۔ منال یہیں رک گئی تھی جبکہ احمد واپس کسی کام سے لاہور چلا گیا تھا دو دن بعد اسے بھی واپس آجانا تھا۔
منال کی آنکھ حنان کے رونے کی آواز سے کھلی۔ وہ فوراََ سے اس کا فیڈر بنانے کچن میں چلی آئی ابھی واپس ہی آئی تھی کہ فیضان بھی اٹھ چکا تھا اور اب دونوں بھائیوں کا رونے کا مشغلہ جاری تھا۔ وہ ایک کو فیڈر پلاتی تو دوسرا رونے لگتا۔ آخر تنگ آکر وہ ان دونوں کو ہی باہر لان میں لے آئی جہاں اب ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔
"یار کوئی ایک تو چپ کرجاؤ رحم کرو اپنی ماں پہ"وہ ان دونوں کو ایک ساتھ روتا دیکھ کر بیچارگی سے بولی
ثُمامہ جو کہ جاگنگ کے بعد لان میں آرہا تھا منال کی بات سن چکا تھا۔ بڑی مشکل سے مسکراہٹ دباتا اس تک آیا اور حنان کو اس کی گود سے لے لیا۔
"ڈاکٹر صاحبہ خود سے باتیں کرنے لگ گئی ہیں۔ یہ علامت بھی تو میرا خیال سے ابنارملوں میں ہی پائی جاتی ہے"وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے اسکی ڈیڈھ سال پہلے کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے بولا
"صبح صبح طنز کے تیر نا چلائیں کیپٹن صاحب"
وہ بھی پرانی باتوں کو یاد کر کہ ہنستے ہوئے بولی
" جملہ درست کرلیں جب آپ ماں کہ مرتبے پر فائز ہوچکی ہیں تو میں بھی صرف کیپٹن ہی تو نہیں رہوں گا نا۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولا
"اوکے اوکے میجر صاحب مبارک ہو آپ کو"
وہ خوشی سے بولی
اب وہ دونوں لان میں پڑی چیئرز پر آکر بیٹھ گئے تھے۔ حنان تو ثُمامہ کے پاس ہی سو چکا تھا جبکہ فیضان کو منال ہلکے ہلکے سے تھپک رہی تھی۔
"ویسے آپ نے شادی نہیں کی ابھی تک"منال آہستہ سے بولی
"آپ کی بے وفائی کے بعد دل ہی نہیں کیا"ثمامہ شرارت سے بولا تو منال کا اسکی بات پر بے اختیار ہی قہقہہ بلند ہوا۔
"خیریت ہے میجر صاحب آج صبح ہی صبح بڑے خوشگوار موڈ میں ہیں"اس نے حیرانگی سے سوال کیا کیونکہ اتنے سالوں میں یہ پہلی بار تھا کہ وہ دونوں نارمل ہوکر بات کررہے تھے ورنہ تو کچھ دیر کہ بعد ہی ان کا کسی نہ کسی بات پر اختلاف شروع ہو جایا کرتا تھا۔
"جی ہاں میں نے سوچا آج پرانی دشمنی ختم کر ہی دیتے ہیں "وہ مسکراتے ہوئے بولا
ابھی منال کوئی جواب دیتی اس سے پہلے اسکے موبائل کی ٹون بجی۔اس نے دیکھا تو ڈاکٹر ہارون کی کال تھی۔ وہ احمد کے کولیگ تھے اور منال کے بھی ٹیچر رہ چکے تھے۔ اس وقت ان کی کال دیکھ کر منال کہ چہرے پر پریشانی کے آثرات آگئے۔
"السلام علیکم ڈاکٹر ہارون۔ خیریت آپ نے اس وقت کال کی؟"وہ کال اٹھاتے ہی بولی
"خیریت نہیں ہے منال آپ کو ابھی السلام آباد آنا پڑے گا"دوسری طرف سے ان کی بات سن کر منال کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔
"کیا بات ہے ڈاکٹر ہارون؟"اس نے پھر سوال کیا ۔ ثُمامہ خاموشی سے اس کے تاثرات نوٹ کررہا تھا۔
"ڈاکٹر احمد کا اکسیڈینٹ ہوگیا ہے منال اور ان کی کنڈیشن بہت کریٹکل ہے۔ سروائول کے چانسز بہت کم ہیں۔"ان کی بات سن کر منال کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر نیچے جاگرا۔ فیضان پر اس کی گرفت کمزور ہوئی اس سے پہلے کہ وہ نیچے گر جاتا ثُمامہ نے فوراً سے اسے تھاما۔
"کیا ہوا ہے منال؟"اس نے پریشانی سے سوال کیا
منال کے چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا
"احم۔۔۔احمد۔۔ک۔ک۔ا۔۔۔اکسیڈنٹ ہوگیا ہے"وہ بے ربط الفاظ بولتی وہیں زمین پر بے ہوش ہوگئی۔
ثُمامہ صورتحال سے بے حد پریشان ہوگیا۔ اس نے پاس سے گزرتی ملازمہ کو آواز دی اور دونوں بچے اسے تھما کر منال کو اندر لے آیا اور صوفے پر بٹھایا دیا۔ اتنی دیر میں سبھی جاگ چکے تھے۔ یہ خبر پورے گھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تھی۔ ہر کسی کا پریشانی سے برا حال تھا۔ منال تو ویسے ہی ہوش و ہواس کھو بیٹھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر وہ دو دن کی بجائے ایک دن بعد ہی واپس آگیا تھا لیکن ایک جیتے جاگتے انسان کے طور پر نہیں بلکہ ایک تابوت میں بند سانسوں کے ساتھ لوٹا تھا۔
اکسیڈینٹ میں احمد کے سر پر کافی گہری چوٹیں آئیں تھی جس کہ باعث وہ سرواؤ نہیں کر پایا تھا اور آپریشن کے دوران ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
اس خبر نے تو جیسے سب کے پیروں تلے سے زمین ہی نکال لی تھی۔ مسز زبیر جوان بیٹی کہ بیوہ ہونے پر اپنا دل پکڑ کر بیٹھ گئیں تھیں جبکہ منال کو تو جیسے کوئی ہوش ہی نہیں تھا۔
وہ دو دن سے ہوش و ہواس سے بیگانہ پڑی تھی جس وقت احمد کا جنازہ اٹھا تھا اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔
ابھی بھی اچانک سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ گھبرا کر بیڈ سے اٹھی اور کچھ دیر اپنی سانسوں کو معتدل کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈھائی بج رہے تھے۔
اس نے ایک آس ایک امید کے ساتھ اپنے بائیں جانب دیکھا کہ شاید وہاں احمد موجود ہو لیکن اپنی ماں کو دیکھ کر اس کی آنکھیں مایوس لوٹ آئیں۔
حقیقت منہ پھاڑے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ جس بارے میں کبھی سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی وہ باتیں آج اسکے سامنے حقیقت بن کے کھڑی تھیں۔ وہ جو سمجھ بیٹھی تھی کہ اسے اپنی خوشیوں کی ضمانت مل گئی ہے اب دکھوں میں پور پور بھیگی ہوئی تھی۔
کیا یہ تھی زندگی؟ اس قدر غیر یقینی؟ اس قدر بے وفا؟
یہ کیا ہوا تھا اس کے ساتھ؟
ہستی بستی زندگی کو کس کی نظر لگ گئی تھی۔
زندگی کیسے اتنی آسانی سے اجڑ گئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں گھروں میں ہی جیسے موت کا سا سناٹا تھا۔ ہر کوئی اس حادثے پر بے یقین تھا۔ لیکن آخر کب تک اس بات کا بھی سوگ منایا جاتا؟ جانے والا تو چلا گیا اب زندگی پھر سے اپنے معمول پر آ چکی تھی۔ سب اپنے اپنے کاموں میں دوبارہ مصروف ہوگئے تھے۔ ایک ویرانی برقرار تھی تو بس منال کے دل میں۔ اسے اپنا آپ بے وجہ سے لگنے لگا تھا۔ جتنی خوشیاں ملی تھیں اب یہ دکھ اس سے کئی گنا بڑھ کر محسوس ہوتا تھا۔
آج اس کی عدت بھی ختم ہوگئی تھی۔ جس شخص کے ساتھ اس نے جینے مرنے کا ارادہ کیا تھا آج اسی کی جدائی کا سوگ منا رہی تھی وہ۔
"امی مجھے اپنے گھر جاکر رہنا ہے۔"اس نے آج پھر سے وہی بات دہرائی جو وہ کئی دفعہ دہرا چکی تھی۔
"منال اب تمہارا وہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
"کیوں امی؟ وہ میرا گھر ہے۔ احمد اور میرا گھر۔ ہمارے بچوں کا گھر۔ وہاں سے میری یادیں جڑیں ہیں آپ کیسے کہہ سکتی ہیں میں وہاں نہ جاؤں؟"
وہ دکھ سے بولی تو مسز عثمان نے اس کی کیفیت دیکھ کر انکار نہیں کیا اور اسے وہاں جانے کی اجازت دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

MUNTAZIR (COMPLETE)Where stories live. Discover now