قسط - 8 "خاموش تماشائی"

247 26 16
                                    

وہ بیڈ کے ایک کونے کی طرف ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی، گلشن اسے زبردستی تیار تو کر گئی تھی لیکن اب اسے ان بھاری اور ٹائٹ کپڑوں میں گھٹن ہو رہی تھی، پیچھے سے دروازہ کھلنے اور اچانک بند ہونے کی آواز آئی تو وہ چونک گئی، پھر کسی لڑکے کی گلا خراشنے کی آواز آئی تو وہ اچانک اوٹھ کھڑی ہوئی اور جلدی سے مڑ کر دو قدم پیچھے ہوئی، ساتھ ہی وہ چلائی
"میں بتا رہی ہوں مجھے ہاتھ مت لگانا ورنہ..."
وہ وارن کرنے والے انداز میں بولتے ہوئے اچانک چپ ہوگئی اور حیرت سے اس لڑکے کو دیکھنے لگی، لڑکے کے بھی اس کی طرف بڑھتے ہوئے قدم تھم گئے، وہ بھی بےیقینی سے اسے دیکھنے لگا
"انوشہ... تم؟" ریاض نے بےساختہ کہا
ریاض کو دیکھ کر انوشہ کو بہت غصہ آیا۔

"واہ... وہاں ماں مر گئی، یہاں تم دبئی کا کہہ کر بہن کو بیچے گئے پیسوں میں عیاشی کر رہے ہو؟" انوشہ نے ریاض پر تنز کیا

"ماں مر گئی؟" ریاض نے چونکتے ہوئے زیرے لب کہا

"واہ ریاض... آج تم نے ثابت کردیا..تم اپنے باپ کے ہی بیٹے ہو، بےغیرت باپ کا بےغیرت عیاش بیٹا" اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ دانت پیستے ہوئے کہا

اس کے الفاظ سن کر ریاض کو چپ لگ گئی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے
"انوشہ ..میں..." وہ جیسے کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہا تھا

"میں اب تک یہ سوچتی رہی، میں نے ایسا کیا گناہ کیا تھا کہ اتنا صبر کرنے کے باوجود بھی مشکلات کے اس دلدل میں دھستی چلی جارہی ہوں، آزمائشیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہورہیں... اور آخر میں اس اندھیری کھائی میں آ گری ہوں، مگر اب... تمھیں یہاں دیکھ کر سب سمجھ میں آگیا ہے"
انوشہ اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر بولتی چلی جارہی تھی، اور آج پہلی بار ریاض شرم سے پانی پانی ہورہا تھا، جسے انوشہ نے نوٹ نہیں کیا

"مجھے ان لڑکیوں کی آہ لگی ہے ریاض!" انوشہ کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔

"ان لڑکیوں کی جن کی مجبوریوں کا تم نے فائدہ اوٹھایا، ان کی بدعائیں کہ جیسا ان کے ساتھ ہوا ویسا تمھاری بہن کے ساتھ بھی ہو، لیکن ان لڑکیوں کو کون بتاتا مجھ بدنصیب بہن کے بھائی میں تو غیرت ہی نہیں ہے.. اور قدرت کا لکھا تو دیکھو.. آج تمھاری بہن کا پہلا مہمان ہی اس کا بےغیرت بھائی بن کر آیا ہے"
انوشہ نے غصے میں چلا کر کہا

"بس کردو انوشہ.. خدا کے لیے.. میں آگے نہیں سن سکتا" ریاض نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔

"کیوں؟ کیوں نہیں سن سکتے؟ میرے الفاظ ہی کیوں ہمیشہ سے تمہیں چبھتے آئے ہیں؟ کیونکہ تمھیں پتا تھا میں صحیح کہتی ہوں اس لیے؟ ہر بار یا تو مجھ سے لڑنے لگتے تھے یا پھر اپنے کان بند کر لیتے تھے اور حشمت اس کی مار پر اپنی آنکھیں، تم نے بھائی، بیٹا ہونے کے ناتے کبھی کچھ نہیں کیا، ہمیشہ تماشا دیکھا اور ماں بہن کے پیسوں سے عیاشی کی، آج بھی بہن کو بیچے گئے پیسوں سے عیاشی کر لو، تماشا دیکھ لینا، کچھ مت کرنا، سچ میں مجھ ذرا بھر حیرت نہیں ہوگی! کیونکہ مجھے پتہ ہے تمھارے خون میں ہی غیرت نہیں ہے..."

خلاWhere stories live. Discover now