قسط- 13 "مسیحا"

269 23 12
                                    

"یہ لو تمھارے پیسے.. یہ تمھارے.." گرد آفرید سب کے حصے کے پیسے دے رہا تھا، رات کے اس وقت وہ سب لوکل ہوٹل میں ایک کونے کی طرف بیٹھے تھے جہاں بلب کی روشنی کم پڑ رہی تھی اور لوگ بھی ان سے کافی دور بیھٹے تھے، ساتھ بیٹھا آدمی گرد آفرید کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا "گرد بھائی.. آپ نے اس آدمی کو اس لڑکی کو لے جانے کیوں دیا؟ روکا کیوں نہیں؟" اس نے آخر بےساختہ سوال پوچھ لیا 
گرد آفرید جو پیسوں کا حساب لگاتے ہوئے ابھی سگریٹ کا کش لگا ہی رہا تھا کہ اس کے سوال پر رک کر اس کی جانب دیکھا 
"جتنا کام کہا جائے.. اتنا کیا کرو.. فضول سوال نہیں!" گرد آفرید نے دانت پیستے ہوئے اس سے کہا 
اتنے میں اکبر بھی بول اٹھا "گردآفرید بھائی.. اس کی بات صحیح ہے، آپ کو روکنا چاہئے تھا، اب دآور بھائی کو کیا جواب دیں گے؟" گھبراہٹ اس کے چہرے سے واضح ہورہی تھی 
اس نے اکبر کی طرف دیکھا "دآور کو جواب دینا میرا کام نہیں ہے، نہ اس نے مجھے خریدہ ہوا ہے اور نہ ہی میں اس کا غلام ہوں" اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا، سب گردآفرید کو دیکھنے لگے۔ 
"سب کا حساب ہوگیا؟ اب آج کے بعد نہ تم لوگ مجھے جانتے ہو اور نہ میں تم لوگوں کو" گردآفرید نے ایک اور بات علان کرنے کے انداز میں سب کو بتائی۔ 
"ایسا کیوں؟" بےساختہ سب کے منہ سے نکلا، سب حیران ہوئے تھے 
"تمہیں کیا لگتا ہے وہ آدمی جو اس لڑکی کو لے کر گیا ہے وہ چپ بیٹھے گا؟ کل، پرسوں تک دارالامان کی انکوائری شروع ہوجائے گی اور پولس ہم سب تک آ پہنچے گی، اس لیے! آج کی ملاقات ہماری آخری ملاقات ہے" 
گرد آفرید نے بات کھول کر انہیں سمجھائی اور اٹھنے ہی لگا تھا کہ ان میں سے کسی نے  پوچھا 
"اگر ایسی بات تھی تو اس لڑکی کو لے جانے ہی کیوں دیا؟" 
گردآفرید نے ہونٹ بھینچ کر اس آدمی کی طرف دیکھا اور بنا کچھ کہے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا... پھر وہ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ 
سب نے عجیب نظروں سے اسے پیچھے سے جاتے ہوئے دیکھا۔
                          ☆☆☆
اس نے چوڑیاں اپنے ہاتھوں سے اتاریں، ہاتھوں میں ان کی موجودگی اور آواز سے انوشہ کو اب تک گھٹن محسوس ہورہی تھی، اس نے اپنے کان میں موجود بھاری جھمکے جھٹکے سے اتار کر ایک طرف رکھے.. وہ اس وقت واش بیسن کے آگے کھڑی تھی، اس نے پانی اپنے چہرے پر لگایا اور اپنے چہرے سے میک اپ ایسے رگڑ کر اتارنے لگی جیسے میک اپ نہ ہو بلکہ کوئی ایسی چیز ہو جو اس کے چہرے سے چمٹ گئی ہو۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آئینے میں خود کو دیکھا.. اس کے سامنے پارٹی کا منظر بار بار آرہا تھا، اسے لوگوں کی خود کو دیکھتی  نظریں یاد آر ہیں تھیں، ان کے غیر محذب الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے، وہ ایک بار پھر بیسن کے آگے جھکی اور اپنے چہرے، اپنے ہاتھوں اور بازو کو رگڑ کر دھونے لگی۔ اس کا چہرا اور بازو زیادہ رگڑنے سے لال ہوگئے تھے لیکن اتنا سب کرنے کے باوجود اسے وہ داگ مٹتے ہوئے نظر نہیں آ رہے تھے، اس کی آنکھوں سے نمی پانی کے ساتھ گھل کر اس کے چہرے پر بہنے لگی۔ 
                           ☆☆☆
کمرے کا دروازہ کافی دیر سے کہٹکے ہی جارہا تھا، شجاع آخر بیزار ہوکر کمبل کو ایک طرف کرتے ہوئے بیڈ سے اٹھا، اس نے گھڑی کی طرف دیکھا صبح کے نو بج رہے تھے اور پھر سست قدموں کے ساتھ جا کر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے آزر کھڑا تھا 
"کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنی دیر سے دروازہ بجائے جا رہے ہو؟" شجاع نے سختی سے پوچھا 
"وہ ابو غصے میں ہیں، آپ کو بلا رہے ہیں" آزر نے بتایا 
اس کی بات سن کر شجاع کو جیسے ہوش آیا ہو 
"ابو غصے میں ہیں، کیوں؟" 
"پتہ نہیں.. لیکن وہ بول رہے ہیں جلدی آو، آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے" 
"اچھا تم جاو.. میں آتا ہوں" شجاع نے اس سے کہا 
اور خود ہاتھ منہ دھونے کے لیے واش روم کی طرف چلا گیا۔
                          ☆☆☆

خلاWhere stories live. Discover now