یہ دو دن بعد کی بات ہے، رات کا وقت تھا، حشمت حمید نے پیسے لا کر ریاض کے ہاتھ میں دیئے
جو اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا، اپنے ہاتھ میں پیسے دیکھ کر ریاض کی آنکھیں پھیل گئیں تھیں، ساتھ بتیسی بھی نکل آئی تھی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پیسے گننے لگا
"تین لاکھ؟ ابا اتنے پیسے کہاں سے آئے؟"
اسے یقین نہیں آرہا تھا اس کا نشئی باپ اتنے پیسے بھی لا سکتا ہے کہیں سے، اسے تو لگتا تھا اس کی بینک بس ماں اور بہن ہیں
"جہاں سے بھی لایا ہوں اس کی فکر تم مت کرو، بس تم اپنے جانے کی تیاری کرو، اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا کر کمانا چاہتے ہو نہ؟ جاو اپنے شوق پورے کرو"
حشمت نے ایسے فخر سے بیٹے کو جانے کی اجازت دی جیسے وہ جنگ لڑنے یا ورلڈ کپ کھیلنے جا رہا ہو، قریب ہی کالیں پر بیٹھی انوشہ نے پڑھتے ہوئے یہ منظر دیکھا تو بےساختہ اس کے منہ سے نکلا "کما ہی نہ لے"
خوشی سے باپ کے گلے لگتا ریاض اچانک باپ سے الگ ہوا اور انوشہ کو گھورتے ہوئے چلا کر کہا "بکواس بند کرو اپنی"
"بس.. بیٹا بولنے دو اس کو، پیسے نہیں دیئے نہ پہلے، تو اب آگے بھگتنا بھی اسی کو پڑے گا"
حشمت نے ریاض کے کندھے کو سہلاتے ہوئے، اسے دلاسہ دیا،کچن سے کام سے تھک کر برآمدے میں آتی سمینا نے حشمت کے الفاظ سن لیے۔
"کیا مطلب؟" سمینا نے چونکتے ہوئے پوچھا
"امی کچھ بھی نہیں ہے.. ایسے ہی بکواس کر رہے ہیں، ان کی فضول باتوں کو سیریس نہ لیں"
انوشہ نے حشمت کی بات کا مزاق اڑاتے ہوئے سمینا کو حوصلہ دیا
"ہاں... بول لو، اڑا لو مزاق، پتہ تو تمہیں چل ہی جائے گا" حشمت نے اس بار انوشہ کا مزاق بنایا، سمینا اس کے ارادوں سے گھبرا گئی وہ اچانک آگے بڑھی اور حشمت کی کمیز کا کالر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا
"کیا مطلب ہے تمھارا؟ کیا کرنے والے ہو میری بیٹی کے ساتھ؟ کہاں سے آئے یہ پیسے؟" سمینا نے چلا کر غصے میں اس سے پوچھا۔ سمینا کی یہ ہمت دیکھ کر وہ حیران ہوگیا، یہ پہلی بار تھا اس سے پہلے اس کی آواز تک نہیں نکلتی تھی حشمت کے سامنے۔
"تمھاری اتنی ہمت؟ چھوڑو مجھے"
حشمت خود کو چھڑانے لگا، مگر سمینا کی گرفت مضبوط تھی، دوسری طرف سے انوشہ اپنی جگہ سے اوٹھی اور ان کی طرف بھاگی، ریاض ہمیشہ کی طرح ایک نیا جھگڑا شروع ہوتا دیکھ عجیب شکل بناتا ہوا ایک طرف ہوگیا، جیسے سوچتا ہو "یہ لوگ پاگل ہیں میں ان میں سے نہیں ہوں۔"
"بتاو... کیا کیا ہے تم نے؟ کیا ہونے والا ہے میری بیٹی کے ساتھ؟ اگر انوشہ کے ساتھ کچھ بھی ہوا میں تمھیں جان سے مار دوں گی" سمینا کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا، جذبات سے اس کی آواز کانپ رہی تھی، حشمت کو غصہ آیا اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ سمینا کے گال پہ رکھ کر دیا، ایسا بھاری تھپڑ تھا کہ سمینا پیچھے کی طرف جا گریں اور پیچھے سے آتی انوشہ نے انھیں سنبھال لیا، انوشہ انھیں سنبھالتے ہوئے نیچے زمین پر بیٹھ گئی، وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے انوشہ کی گود میں پڑی تھیں۔
"پہلے خود کو تو سنبھال لو، پھر مجھے جان سے مارنا" حشمت نے اپنے کالر ٹھیک کیئے اور وہاں سے چلا گیا۔
ریاض نے اپنے ہاتھ میں موجود پیسوں کو دیکھا، پیسوں کے لفافے کو صحیح سے بند کرتا ہوا وہ بھی وہاں سے کھسک گیا۔
"امی آپ ٹھیک ہیں؟ کیا ہوا؟" انوشہ نے اپنی ماں کو پکارا
"انوشہ... میرا سر پھٹ رہا ہے" سمینا کی آنکھیں بند تھیں اور وہ دونوں ہاتھوں سے ماتھے کو تھامے ہوئی تھیں، ماں کو تڑپتا دیکھ انوشہ پریشان ہوگئی،
"انو...ش.." اسے پکارتے ہوئے اچانک ان کے ہاتھ بےجان سے نیچے گر گئے اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی
"امی..؟؟" یہ دیکھ کر انوشہ چلائی اور سمینا کی گال کو تھپتھپایا، مگر وہ بےسدھ بے ہوش پڑیں تھیں، ان کی سانسیں چیک کیں تو وہ بہت آہستہ چل رہیں تھیں، انوشہ ان کا سر آرام سے زمین پر رکھتے ہوئے اوٹھی اور پانی کا گلاس بھر کر لائی، اور دوبارہ سمینا کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے پانی کے چھنٹے مارے مگر وہ پھر بھی ہوش میں نہ آئیں،
"امی... ہوش میں آئیں" ان کا چہرہ تھپتھپاتے انوشہ نے پکارہ لیکن وہ ہنوز بےہوش پڑی تھیں، اپنے ہاتھ میں بیگ لئے کمرے سے باہر آتا ہوا ریاض انوشہ کی آواز پر ایک پل کے لیے روکا، اس نے اپنی ماں اور بہن کی طرف دیکھا، پھر اگلے ہی لمحے انھیں نظر انداز کرتا ہوا باہر کی طرف چلا گیا۔
---------------------------
"انھیں برین ٹیومر ہے اور وہ بھی لاسٹ اسٹیج پر" ڈاکٹر نے کہا تو انوشہ شوک سے چلا اوٹھی
"کیا؟" اور اپنا سر تھام لیا۔
"جی" ڈاکٹر نے اپنی بات کی تصدیق کی۔
"تو کیا ان کا علاج نہیں ہوسکتا؟ آپریشن وغیرہ؟ کچھ تو؟" انوشہ پریشانی میں سوال کرنے لگی
"بہت مشکل ہے... آپریشن بہت رسکی ہوگا، اس میں زیادہ چانسز ان کی موت کے ہیں" یہ سن کر انوشہ نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا
"شاید انھیں پہلے بھی سر درد اور چکر وغیرہ آتے تھے لیکن یہ اگنور کرتی رہی ہیں"
ڈاکٹر نے مزید بتایا، انوشہ کو یاد آیا اکثر انہیں سر درد رہتا تھا
"تو... کتنا وقت ہے ان کے پاس؟" انوشہ نے اپنی آنکھوں کی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا
"ابھی انھیں ہم نے دوائیوں پہ رکھا ہوا ہے، باقی جب تک خدا نے چاہا"
ڈکٹر کے الفاظ سن کر ایک آنسو بندھ توڑتے ہوئے اس کی آنکھ سے بہہ نکلا، ڈاکٹر نے انوشہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور وہاں سے چلا گیا، پھر اس کے بعد آنسوؤں کا دریا بےآواز اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہوگیا، اس وقت وہ ہاسپٹل کے کوریڈور میں سر جھکائے دیوار سے لگ کر کھڑی تھی اس نے سامنے دیکھا لوگ وہاں سے گزر رہے تھے، رات کے اس پہر بھی وہاں کافی بھیڑ تھی، اس بھیڑ میں وہ موجود ہوکر بھی خود کو اکیلا محسوس کر رہی تھی، اس وقت وہاں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے وہ اپنا دکھ بتا پاتی، وہ اپنا نچلا ہونٹ کاٹنے لگی اور اجنبی نگاہوں سے اپنے ارد گرد دیکھنے لگی، اوڑھی ہوئی چادر کو اس نے اپنی دونوں مٹھیوں میں زور سے جکڑا ہوا تھا، اس کا چہرہ آنسوؤں سے گیلا ہو چکا تھا، آنسو تھے کہ بہتے ہی چلے جا رہے تھے، یہ خوف کہ اب اگر اس کی ماں کو کچھ ہوگیا تو وہ کیا کرے گی؟ اسے سانس لینے میں بھی دشواری پیدا کر رہا تھا
---------------------------
صبح کا وقت تھا، وہ اس وقت بس میں سفر کر رہی تھی اور غائب دماغ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی، کھڑکی سے آتی صبح کی ٹھنڈی ہوا بھی اس کی گیلی پلکوں کو خشک نہیں کرپارہی تھی۔
"امی آپ نے خامخا ٹینشن لی،کچھ نہیں ہوگا مجھے" انوشہ کو اپنی آواز سنائی دی
"تمھیں نہیں پتہ کچھ بھی... میں جانتی ہوں تمھارے باپ کو، تئیس سال گزارے ہیں میں نے اس کے ساتھ، اس میں انسانیت نہیں ہے.. اپنے مطلب کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے" اسے اپنی ماں کی بیماری میں نکاہت سے ڈوبی آواز سنائی دی
"تم ابھی تک یہیں ہو پیپر دینے نہیں گئی؟" اسے اپنی ماں کی پریشان آواز سنائی دی۔
"امی... میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گی" اسے اپنی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
"پاگل میں کہاں جا رہی ہوں؟ تم پیپر دے کر جلدی سے واپس آجاو... میں تمھارا انتظار کر لوں گی"
"نہیں امی بس.. یہاں ہاسپٹل میں کیسے آپ کو اکیلا چھوڑ دوں؟" انوشہ نے ضد کی۔
"دیکھو انوشہ.. میری محنت کو رائیگاں مت جانے دو.. جاو بیٹا"
اتنے میں بس روک گئی اور سب اترنے لگے، انوشہ نے دیکھا تو وہ بھی اپنا چہرہ صاف کرتی ہوئی بس سے اتری۔
پیپر لکھتے وقت بھی اس کا دھیان بار بار اپنی ماں کی طرف جا رہا تھا، رات کو جو پڑھا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ سب کہاں چلا گیا؟ اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا، ساری رات اسے نیند نہیں آئی تھی، اوپر سے اس نے صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا تھا، اس کا دماغ بلکل کام کرنا بند ہوگیا تھا، اب اسے رونا آرہا تھا، اس نے اپنا سر اوپر اوٹھا کر اپنی رونی سی شکل کے ساتھ ارد گرد دیکھا، سب اسٹوڈنٹس اپنا پیپر لکھ رہے تھے، یہ دیکھتے ہوئے اسکا دل اور ڈوبا
"میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ " یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔
سامنے سے آتے ٹیچر نے اسے دیکھ کر پوچھا
"اینی پرابلم؟"
انوشہ چونک گئی اور گھبرا کر کہا "نو "
پھر جلدی سے اپنا سر نیچے جھکا لیا۔
اس کے بعد اسے کافی کوشش کے بعد تھوڑا بہت یاد آیا اور اس طرح اس نے پورا پیپر سوچ سوچ کر لکھا۔
پیپر کے بعد وہ سندس کے ساتھ کوریڈور سے گزر رہی تھی کہ اسے چکر آگئے تو سندس نے اسے تھام لیا، اور پاس ہی پڑے بینچ پر بٹھایا۔
جب اسے پتہ چلا وہ پوری رات کی جاگی ہوئی ہے اور صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تو وہ اسے وہیں بٹھا کر خود کچھ کھانے کے لیے لینے چلی گئی، اسکا انتظار کرتے ہوئے انوشہ اپنا سر تھامے آنکھیں بند کیئے بیٹھی رہی، اس کے سر میں درد ہورہا تھا، ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ اسے آواز سنائی دی
"انوشہ؟ آر یو فائن؟" یہ آواز سن کر انوشہ نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہوئی تو اپنے سامنے مومنہ کو کھڑے پایا۔
"یس میم... آئی ایم فائن" یہ کہتے ہوئے انوشہ پھیکا سا مسکرائی۔
مومنہ اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئی اور اس نے انوشہ کے آگے آتے بال ٹھیک کرتے ہوئے کہا
"لگ تو نہیں رہا"
یہ سن کر انوشہ کی پھیکی سی مسکراہٹ غائب ہوگئی اور اس نے اپنا سر جھکا لیا،
مومنہ نے اس کی تھوڑی سے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے پوچھا
"ارے کیا ہوا؟"
اور اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی
"کیا ہوا؟ پھر کچھ ہوا ہے کیا؟ رو کیوں رہی ہو؟" مومنہ نے پوچھا
انوشہ خاموشی سے روتے ہوئے مومنہ کو دیکھنے لگی، آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، اس کی یہ حالت دیکھ کر مومنہ کی پریشانی بڑھ گئی، اس کے آنسو پونچتے ہوئے اس نے دوبارہ پوچھا
"بتاو بھی..."
"میم... میری امی کو برین ٹیومر ہے، وہ اس وقت ہاسپٹل میں ہیں اور ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے" انوشہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے مومنہ کو بتایا اور پھر اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر رونے لگی۔
قریب سے گزرتے ہوئے اسٹوڈنٹس اسے دیکھنے لگے، اس کی بات سن کر مومنہ کو جھٹکا لگا اور اسکا رونا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی نمی اترنے لگی تھی، اسے سمجھ نہیں آیا وہ اسے کیسے دلاسہ دے، پاس سے گزرتے ہوئے اسٹوڈنٹس میں سے ایک لڑکے کو مومنہ نے روک کر اسے پانی لانے کا کہا
"میم... پانی" اس لڑکے نے پانی کا گلاس مومنہ کو دیا۔
"ٹھیک ہے.. تم جاو " مومنہ نے پانی کا گلاس لے کر لڑکے کو بھیجا اور انوشہ کی طرف مڑی، انوشہ کے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اس کے آنسو پونچے اور اسے پانی پلایا
"بس... اب چپ کر جاو، اس طرح روگی تو امی کا خیال کیسے رکھو گی؟ آئے نو یہ مشکل ہے.. لیکن تمھیں اسٹرانگ بنا پڑے گا" مومنہ نے اسے پیار سے سمجھایا۔
"لیکن میم... ان کے بعد میں اکیلی ہو جاؤں گی، یہ سوچ کر مجھے بہت ڈر لگتا ہے" انوشہ نے اپنا خدشہ بتایا، مومنہ نے اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"تم اکیلی نہیں ہو، میں ہوں نہ... میں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں گی"
انوشہ مومنہ کو دیکھنے لگی، وہ اسے کوئی فرشتہ سی لگی۔
"آج کل کے دور میں کوئی اتنا بھی رحم دل ہوتا ہے کیا؟ بغیر کسی غرض کے کسی کی مدد کرے؟ ہر بار مومنہ میم میری مدد کے لیے آجاتی ہیں، یہ سچ میں میری مدد کرنا چاہتی ہیں یہ ان کی آنکھوں میں صاف دکھتا ہے.. یہ سب دکھاوا نہیں لگتا"
اسے ایسا لگتا تھا اس کی زندگی میں جو آیا اپنی خودغرضی کے لیے ہی آیا، جیسے کہ اس کا باپ اور بھائی.. پوری دنیا میں سب سے قریب اور عزیز ترین رشتے... جو اپنی غرض کی خاطر اس کی زندگی میں تھے جیسے ہی ان کا غرض پورا ہوا وہ دونوں غائب ہوگئے، وہ آج اکیلی تھی بلکل تنہا.. اور ایک مومنہ تھی جو بغیر کسی غرض کے اس کے ساتھ کھڑی ہونا چاہتی تھی! اس کے تجربے کے لحاظ سے کوئی اجنبی کسی غرض کے بغیر بھی کسی کی مدد کرتا ہے کیا؟ دنیا میں اتنے اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں کیا؟ یا پھر صرف مرد ہی خود غرض ہوتے ہیں؟ مومنہ کو دیکھ کر اس کے دماغ میں سوال ابھرنے لگے۔
انوشہ کو مسلسل خود کو دیکھتا پاکر مومنہ نے پوچھا "کیا ہوا؟"
انوشہ اپنی حرکت پر شرمندگی سے دہیمے سے ہنس پڑی
"کچھ نہیں" انوشہ نے کہا
اتنے میں سندس آگئی چیزیں لے کر، اس نے آتے ہی مومنہ کو دیکھ کر سلام کیا
"السلام علیکم میم"
مومنہ نے مسکرا کر اسے جواب دیا،
اس نے انوشہ کو سینڈوچ کھول کر دیا
"یہ لو،کھاو، سوری یار لیٹ ہوگئی، اتنا رش تھا کینٹین پر"
"تم کافی اچھی دوست ہو انوشہ کی" مومنہ نے اسے انوشہ کا خیال رکھتے دیکھ کر کہا،
مومنہ کی تعریف پر سندس پھولے نہ سمائی "تھینک یو میم" اس نے مسکراتے ہوئے کہا
"اس کا کبھی ساتھ مت چھوڑنا، ہمیشہ ساتھ رہنا اس کے" مومنہ نے اوڈر دینے کے انداز میں کہا
"نو میم، کبھی نہیں.. ہمیشہ ساتھ رہوں گی" سندس نے احد کرنے والے انداز میں کہا
اس کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی کہ سندس نے اچانک مسکراتے ہوئے کہا
"ویسے میم.. آپ بھی بہت اچھی ہیں اور آج بہت پیاری لگ رہی ہیں اس ڈریس میں"
یہ سنتے ہی سینڈوچ کھاتی ہوئی انوشہ کو اچانک ہنسی آگئی اور سینڈوچ اس کے گلے میں پھنس گیا اور وہ کھانسنے لگی، مومنہ نے پریشانی سے کہا "کیا ہوا؟" اور انوشہ کی پیٹھ تھپتھپانے لگی، سندس نے اسے پینے کے لیے جوس دیا، پھر جاکر وہ ٹھیک ہوئی، ایک مسکراہٹ تھی انوشہ کے چہرے پر جسے اس نے جوس پیتے ہوئے ضبط کرنے کی کوشش کی۔
انوشہ کو معلوم تھا کہ سندس کو مومنہ کتنی پسند تھی، وہ ہر وقت اس سے مومنہ کی خوبصورتی، اس کے بال اور کپڑوں کی تعریف کرتی رہتی تھی، آج موقع ملا تو اس نے پہلی بار تعریف بھی کردی ورنہ مومنہ کے سامنے اسے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
---------------------------
ESTÁS LEYENDO
خلا
Ficción General"زندگی میں اکثر چیزیں چھن جاتی ہیں تو اس کے بدلے کچھ مل ہی جاتا ہے یہی زندگی کا اصول ہے، لیکن کھوئی ہوئی چیزیں انسان کے دل میں ایک خلا ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔"