قسط- 14 "محافظ"

516 28 22
                                    

"میں نے آپ سے کہا بھی تھا.. مجھے آپ کے گھر نہیں جانا.." وہ اس وقت سر جھکائے بیٹھی تھی، اس نے دھیمی آواز میں اٹک اٹک کر اپنا جملا مکمل کیا اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ 
شجاع نے ڈرائیو کرتے ہوئے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے دوبارہ سامنے فوکس کیا، اس کا انداز پرسوچ تھا..کچھ سیکنڈ بعد اس نے گاڑی روڈ کے ایک کنارے کھڑی کی اور خود گاڑی سے باہر نکل گیا، انوشہ نے سامنے دیکھا وہ باہر کھڑے ہو کر موبائل پر کسی سے کچھ بات کر رہا تھا۔ کافی دیر ہوگئی تھی شجاع کی وہ کال مسلسل چل رہی تھی۔ 
پھر جب کافی دیر بعد شجاع کال بند کرکے واپس گاڑی میں بیٹھا، وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے ہی لگا تھا کہ اچانک اس نے چابی سے اپنا ہاتھ ہٹا دیا اور انوشہ کی جانب دیکھا، جس کا دھیان شجاع کی طرف نہیں تھا

"انوشہ.. مجھ سے.. شادی کرو گی؟" شجاع نے ٹھر ٹھر کر اپنا جملا مکمل کیا 
انوشہ نے بےیقینی میں مبتلا ہوکر شجاع کی جانب دیکھا 
"جی ..؟؟" اس کے منہ سے بےساختہ نکلا، وہ سوالیہ نظروں سے شجاع کو دیکھنے لگی۔

کچھ پل خاموش رہنے کے بعد شجاع نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا

"دیکھو.. تمہیں بھی معلوم ہے.. اب تمھارے پاس  ایسا کوئی راستہ نہیں جس طرف تم جا سکو، نہ ہی ایسی کوئی جگہ جہاں تم پناہ لے سکو، دارالامان میں بھی تم نے پناہ لی تو یہ سب ہوگیا، تمھارا پہلے بھی کسی نے ساتھ نہیں دیا تھا، لیکن اب..اب جو بھی ہو گزرا ہے اس کے بعد سب تمہیں شک کی نگاہ سے دیکھیں گے، نہ ہی تم اکیلی کہیں پر محفوظ ہو، کیا یہ ٹھیک نہیں؟ کہ.. میں 'صرف اپنا نام' دے کر تمہیں معاشرے میں تمھاری کھوئی ہوئی عزت لوٹانے میں تمھاری مدد کروں؟" 

شجاع کے الفاظ سن کر انوشہ کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے.. کچھ دیر بعد اس نے کہا 
"سر..کیا آپ نے وہ بات نہیں سنی؟ کیچڑ میں پتھر نہیں پھینکتے اپنا دامن داغدار ہوجاتا ہے" 

"نہیں ہوگا داغدار.. کیونکہ میں کیچڑ میں پتھر پھینک ہی نہیں رہا... میں صرف تمھاری مدد کرہا ہوں.. اور تم خود کو کیچڑ سے مشابہت مت دو!" 
شجاع نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھایا 

"جب سب شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.. تو آپ میری مدد کیوں کرنا چاہتے ہیں..؟ کیا آپ کو ایسی لڑکی قبول ہے جو اتنے دنوں تک اغوا رہی.. اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں کوئی شریف انسان جانا تو دور کی بات.. اس جگہ کا نام بھی اپنی زبان سے لینا حرام سمجھتا ہے..." 
یہ کہتے ہوئے آنسو انوشہ کی آنکھوں سے بہنے لگے

"کیونکہ اس سب میں اس لڑکی کی کوئی غلطی نہیں ہے... اور پاکیزگی کی بات کی جائے تو... وہ اس لڑکی کی آنکھوں سے صاف جھلکتی ہے اس کے لیے مجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے!" 
شجاع کے الفاظ سن کر جیسے وہ ساکت سی ہوگئی تھی، اس کے پاس کچھ بچا ہی نہیں تھا مزید بولنے کے لیے، وہ انسان اس کی پاک دامنی کی بات کر رہا تھا جو اسے جانتا بھی نہیں تھا۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Feb 03, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

خلاWhere stories live. Discover now