قسط - 5 "اکیلی اور تنہا"

212 20 8
                                    

سمینا کو گزرے تین ہفتے ہوگئے تھے، انوشہ کے باپ اور بھائی کا کوئی آتا پتا نہیں تھا، سب اس نے اکیلے کیا تھا، اس کے پاس جو سیونگ تھی اس سے اس نے اپنی ماں کا کفن دفن کیا، کوئی اس کا ہمدرد بن کر اس کے پاس نہیں آیا سوائے سندس کے، محلے کی عورتیں بس باتیں کرنے اور تماشا دیکھنے آتی رہیں کیونکہ مومنہ کے کیس میں انوشہ گواہ تھی پولس کئی بار اس کے گھر کا چکر لگا چکی تھی اور وہ بھی کئی بار تھانے جا چکی تھی، یہ سارا قصہ آگ کی طرح محلے اور یونیورسٹی میں پھیل چکا تھا، انوشہ کے بنوائے گئے اسکیچ سے دآور تو تیسرے دن ہی پکڑا گیا تھا اور آج عدالت میں اسے گواہی کے لیے بلایا گیا تھا، اس نے بھی بنا کسی خوف کے گواہی دے دی، اسے بھی مومنہ کو انصاف دلانا تھا، عدالت سے باہر نکلتے وقت دآور نے اسے سب کے سامنے بہت گالیاں دیں اور دھمکیاں بھی، اس نے ساری خواری برداشت کی، اتنا سب کرنے کے بعد اس نے شجاع کی قصوروار ٹھراتی نظروں کو بھی مجرموں کی طرح برداشت کیا کیونکہ کسی حد تک وہ بھی مومنہ کی موت کا خود کو قصوروار سمجھتی تھی، وہ عدالت کی بلڈنگ سے باہر نکلی تو ایک گاڑی اسپیڈ سے آئی اور اچانک اس کے سامنے رک گئی، اپنی سوچوں میں چلتی ہوئی انوشہ چونک گئی، اچانک گاڑی کا آگے کا دروازہ کھلا اور اس نے دیکھا شجاع کے ہاتھ میں اس کا بیگ تھا جسے اس نے انوشہ کے پیروں کے آگے پھیکنے کے انداز میں پٹخہ، پھر ہونٹ پہنچتے ہوئے اسے گھور کر دروازہ بند کر دیا اور وہ جس اسپیڈ سے آیا تھا اسی اسپیڈ سے گاڑی نکالتا ہوا وہاں سے چلا گیا، انوشہ نے جھک کر بیگ اٹھایا اور اردگرد دیکھا، لوگ اسے ہی دیکھ رہے تھے، نمی کب اس کی آنکھوں سے بہنے لگی اسے معلوم نہیں ہوا، اس نے چہرے کے آگے چادر درست کرتے ہوئے اپنا چہرا صاف کیا اور آگے بڑھ گئی۔
---------------------------
اس کی اونرس کی ڈگری کو مکمل ہونے میں ابھی ایک سال باقی تھا، اس نے یونیورسٹی جانے کا سوچا اور وہاں جا کر اسے معلوم ہوا کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو اسے جانتا نہ ہو، اسے دیکھ کر ہر کوئی ایک دوسرے کے کان میں بات کرنے لگتا، جس نے نہ دیکھا ہوتا اسے دوسرا اشارہ کر کے بتاتا "یہ وہی ہے"
ایک سندس تھی جو اب تک اس کے ساتھ تھی،
انوشہ سب کو نظرانداز کرتی رہی لیکن سندس کئی بار اسٹوڈنٹس کو ایسا کرتا دیکھ کر سنا دیتی، کوئی ان دونوں کو مسلسل دیکھتا تب بھی ان پر چڑھائی کر دیتی
"کیا دیکھ رہے ہو؟ کوئی کام وام نہیں ہے تمھیں"
سندس کا اس کے لیے اتنا کرنا اسے یقین نہ دلاتا کہ وہ اس حد تک اس کی اچھی دوست ہے اور ساتھ اسے ڈر لگتا کہ کہیں وہ بھی اسے چھوڑ نہ دے، کئی دفع کچھ لڑکیوں نے سندس کو انوشہ سے دوستی توڑنے کا بھی کہا تھا
"تم تو بہت اچھی لڑکی ہو، کیوں خامخا میں ایسی لڑکی کے ساتھ گھوم رہی ہو جو پوری یونیورسٹی میں بدنام ہے، تمھیں اپنی عزت کی پرواہ نہیں"

"تم لوگوں کو اپنی عزت کی پرواہ ہے نہ؟ تو مجھ سے بات مت کرو، جاو اپنا کام کرو" سندس نے بھی الٹا انہیں سنا دیا۔

کئی بار لیکچر کے دوران پروفیسرز کی بھی عجیب نظریں انوشہ کے دل میں چھبتی تھیں، انوشہ نے سارے ماحول اور ٹیچرز سے تنگ آکر دو سال کی ڈگری نکلوانے کا سوچا کیونکہ اسے کہیں نوکری کے لیے ویسے بھی ڈگری نکلوانی تھی اور ساتھ اس نے سب سے تنگ آکر یونیورسٹی بدلنے کا فیصلا کیا لیکن جب وہ کلارک آفس گئی تو وہاں بھی اسے عجیب ٹریٹ کیا گیا، پہلے تو اسے عجیب نگاہوں سے دیکھا جاتا اور معنی خیز الفاظ اس کی طرف اچھال کر آپس میں ہنسنے لگتے، وہ چکر لگا لگا کر تھک گئی تھی لیکن اسے اگلی تاریخ کا کہہ دیتے، انوشہ ان سے سختی سے بات کرتی تو وہ بھی کہہ دیتے
"ہم تمھارے باپ کے نوکر نہیں بیٹھے، ہمیں اور بھی کام ہیں"
انوشہ اس سب سے تنگ آگئی تھی، اسے لگ رہا تھا اگر ایسے چلتا رہا تو وہ بہت جلد نفسیاتی مریضہ بن جائے گی۔

اب اس کا محلے میں بھی جینا محال ہوگیا تھا گھر پر اکیلی رہتی تو لوگ اسے دیکھ کر باتیں بناتے، وہ محلے کی عورتوں کا فارغ وقت کا بہترین موضوع بن گئی تھی، گلی سے گزرتی تو لوگ بھی انگی اوٹھا کر پوچھتے
"یہ وہی ہے نہ؟"

"اس کا باپ اور بھائی اسے بیچ کر خود بھاگ گئے، اب اکیلی ٹھوکریں کھا رہی ہے، بیچاری"

اس سب کے بعد اسے اپنے باپ سے نفرت مزید بڑھ گئی۔
لوگوں نے اپنے بچوں کو اس کے پاس ٹیوشن پڑھانا بھی چھوڑ دیا، کوئی اس کی مدد کرنا چاہتا تو وہ بھی یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا کہ "لوگ کیا کہیں گے؟"
سب اسے عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے، کہ جیسے وہ اکیلے گھر میں نہیں رہتی بکلہ کوئی ایسا کام کرتی ہے جو اس معاشرے کے لیے حرام ہے، تب اسے اپنی ماں کے الفاظ یاد آتے

"مرد جیسا بھی ہو، اس کا ساتھ ضروری ہے، ورنہ اکیلی عورت کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے"

"عورت کو جھکنا پڑتا ہے، مرد جیسا بھی ہو اسے جھکنا پڑتا ہے، جو جھکتی ہے اس کی جگہ ہے، جو نہیں جھکتی یہ دنیا اسے کھا جاتی ہے"

پھر انوشہ بےبسی سے سوچتی
"کہاں آکے پھس گئی ہوں؟"
اور وہ دعاوں میں اللہ سے گلا کرتی
"کیا میرا پیدا ہونا ضروری تھا؟ میرے بغیر یہ دنیا نہیں چل سکتی تھی کیا؟ یا صرف خوار ہونا ہی میرا مقدر ہے؟"

وہ گھر پر اکیلی ہوتی تو اسے کئی بار اکیلے ڈر بھی لگتا،کئی بار آدھی رات کو گھر کا دروازہ بھی کھٹکتا رہتا اور وہ ساری رات سو نہ پاتی۔
دو مہینے بعد انوشہ نے تنگ آکر اپنا کرائے کا مکان چھوڑنے کا فیصلا کیا اور اپنے سامان کا بیگ لے کر سندس کے گھر چلی گئی جہاں سندس اسے ساتھ رکھنے کے لیے راضی ہوگئی لیکن تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد ہی اسے معلوم ہوا اس کے گھر کا ماحول اسے قبول نہیں کر رہا تھا، اندر سے سندس اور اس کی ماں کی بحث کرنے کی آوازیں آرہیں تھیں

"میں کہتی ہوں کس کی اجازت سے اسے رہنے کی اجازت دی؟"

"وہ اکیلی ہے امی، اسے مدد کی ضرورت ہے"

"تو کیا میں نے یتیم خانہ کھولا ہوا ہے؟ جوان جھان لڑکی منہ اوٹھا کر گھر میں رہنے آگئی، میرے بھی جوان لڑکے گھر میں ہیں، ایسے کیسے اسے رکھ لوں؟ ماں مر گئی، باپ بیچ کر جان چھوڑا کر بھاگ گیا تو اب کیا میں نے اس کا ٹھیکا لیا ہوا ہے؟"

"امی آہستہ بولیں،بولنے سے پہلے ایک بار سوچ تو لیں، کیا بولے جارہی ہیں آپ، وہ سن رہی ہوگی"

"سنتی ہے تو سن لے، سچ ہی تو کہہ رہی ہوں، کوئی اندھا بھی اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں سے آگ نہیں لگاتا، میں کیسے لگا لوں؟ بولو تو تمھارے بھائی سے شادی بھی کروالیتی ہوں اس کی، تم بھی خوش، وہ بھی خوش، اس کا مسئلہ بھی حل"

ان کے جو منہ میں آیا بولے چلے جا رہیں تھیں بغیر سوچے سمجھے، ان کا ایک ایک لفظ انوشہ کے دل میں چبھتا چلا گیا، آنسو اس کی آنکھوں سے بھنے لگے پھر ایک منٹ کی بھی دیر کئے بغیر وہ خاموشی سے اپنا سامان اٹھائے گھر سے نکل گئی، اسے لگ رہا تھا یہ دنیا اس کے لیے تنگ پڑ گئی ہے، اب سوائے ایک جگہ کے اس کے پاس کوئی دوسری جگہ نہیں تھی، وہ اپنی سوچوں میں ڈوبی سست قدموں سے اس طرف چل دی
"کبھی سوچا نہیں تھا دارالامان میں پناہ لینی پڑے گی"
---------------------------
چاروں طرف اندھیرا تھا، گپ اندھیرا، صرف ایک کونہ تھا جھاں سے اچانک ہلکی سی روشنی آنے لگی تھی، وہ اس طرف گیا، جتنا اس روشنی کے قریب جا رہا تھا وہ اور بڑھتی چلی جارہی تھی، وہ چلاتا رہا اتنا چلا کہ اندھیرا پوری طرح سے ختم ہوگیا، مگر اب روشنی اتنی تھی کہ سوائے روشنی کے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی، اس کی آنکھوں کو تکلیف دے رہی تھی، تکلیف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بھنے لگے تو اس نے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیا، کچھ دیر بعد جب ہاتھ ہٹائے تو دیکھا وہ واپس وہیں کھڑا تھا جھاں وہ پہلے تھا، ہر طرف گپ اندھیرا۔
'کوئی ہے؟' وہ چلایا لیکن اس کی آواز گونجتی ہوئی واپس اسے سنائی دی، اسے اس انجان جگہ، اندھیرے، خاموشی اور اکیلے پن سے خوف آنے لگا، اب آنکھیں کھولی ہوں یا بند منظر ایک ہی تھا کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا، کچھ دیر بعد پھر اسے دور سے ہلکی روشنی نظر آئی، وہ اس اندھیرے سے دور بھاگنا چاہتا تھا اس لیے اس روشنی کی طرف گیا لیکن تھوڑا آگے چل کر اسے یاد آیا یہ روشنی پھر اس کی آنکھوں کو تکلیف دے گی اور پھر آنسو آنا شروع ہوجائیں گے، وہ چلتے چلتے روک گیا، کچھ دیر بعد اسے اس روشنی کی طرف کوئی دکھائی دیا، شاید کوئی لڑکی، اس لڑکی کی پشت اس کی طرف تھی، وہ آگے منہ کئے کھڑی تھی لیکن اس نے اسے پہچان لیا تھا، وہ سفید رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھی اور اس کے کھلے بال کندھے تک آرہے تھے،
"مومنہ؟ یہ سب تم کر رہی ہو؟" شجاع نے اس سے پوچھا، لیکن مومنہ نے کوئی جواب نہیں دیا وہ ویسے ہی خاموش کھڑی رہی،
"کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟" شجاع نے پھر پوچھا لیکن اس بار بھی کوئی جواب نہیں آیا، مومنہ آگے روشنی کی طرف چلنے لگی
"مومنہ اس طرف مت جاو، میں اس طرف نہیں جا سکتا، میری آنکھوں کو تکلیف ہوتی ہے" شجاع نے اسے روکا لیکن وہ نہیں روکی، شجاع بھی اس کے پیچھے جانے لگا لیکن کچھ دور جا کر اس کی آنکھیں چندھیانے لگیں، دوبارہ اس کی آنکھوں میں تکلیف شروع ہوگئی اور آنسو بہنا شروع ہوگئے، اس نے آنکھوں کے آگے اپنا ہاتھ رکھ لیا، کہ اچانک اس کی آنکھ کھول گئی اس نے ارد گرد دیکھا کمرے میں گپ اندھیرا تھا، اسے کچھ دکھائی نہیں دیا اور اس وقت باہر سے آذان کی آوازیں آرہیں تھیں۔
"امی... امی" اس نے چلا کر ماں کو بلایا، اس کے دو سے تیسری بار چلانے پر وہ بھاگتے ہوئے کمرے میں آئیں اور کمرے کی لائٹ کھولی، انھوں نے دوپٹا چہرے کے گرد نماز کی طرح لپیٹا ہوا تھا اور ان کا چہرا گیلا تھا، وہ جلدی سے شجاع کے قریب آئیں اور اس کے ساتھ بیٹھ گئیں
"کیا ہوا بیٹا؟ تم رو کیوں رہے ہو؟" انھوں نے شجاع کے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا، شجاع چونک گیا، اس نے اپنی آنکھوں کو انگلیوں سے چھو کر دیکھا تو وہ گیلی اور سوجی سی محسوس ہوئیں
"میں سچ میں رو رہا تھا" شجاع نے سوچا،
"کیا ہوا؟ خواب میں ڈر گئے تھے کیا؟" ماں نے پیار سے پوچھا
"میرے کمرے کی لائٹ کس نے بند کی تھی؟" شجاع نے گلا کے انداز میں کہا

"تم نے خود! دوپہر کو لائٹ جلائی کب تھی تم نے؟ اب مغرب کا وقت ہونے کو آیا ہے،بیٹا آنکھیں کھولو"
پیچھے سے شجاع کے والد جنید احمد نے دروازے سے جواب دیا، ان کو دیکھ کر شجاع نے منہ بنا کر گردن نیچے کرلی۔

"خود تو کمرے میں پڑے رہتے ہو، ہمارا جینا محال کردیا ہے،کتنی دفعہ بولا ہے کمرے سے باہر نکلو، جب جی چاہتا ہے منہ اٹھا کر گھر سے نکل پڑتے ہو اور جب دل نہیں ہوتا تو وہیں پڑے رہتے ہو،اب تو یونیورسٹی بھی نہیں جاتے،تین مہینے ہونے والے ہیں،کتنی دفعہ کہا ہے روٹین پہ آو " وہ بولتے ہوئے کمرے میں آئے اور شجاع پہلوں بدلنے لگا، جیسے سوچتا ہو "اب کہاں جائوں میں"

"فہمیدا بیگم، آپ جائیں، ان کی فکر میں اپنی نماز چھوڑ کر نہ بیٹھیں" جنید احمد کے کہتے ہی وہ اپنی جگہ سے اوٹھ کھڑی ہوئیں

"میں نماز پڑھ کر تمھارے لیے کھانے کے لیے کچھ لے کر آتی ہوں"
شجاع کی گال کو سہلاتے ہوئے انھوں نے کہا اور باہر چلی گئیں

"اپنے بال دیکھو بیٹا،کیا حالت بنا دی ہے اپنی، یہ پہلے بھی مجھے زہر لگتے تھے لیکن پھر بھی خیال تو رکھتے تھے اب تو جب دیکھو بکھرے رہتے ہیں، مہربانی کرو کٹوا لو ان کو" انھوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، شجاع اب ان کے لیکچر سے بیزار ہو رہا تھا۔

"ہاں... مامو صحیح کہہ رہے ہیں، تمھیں بال کٹوا لینے چاہیے" دروازے سے پرویز کی آواز آئی، شجاع نے آگے دیکھا اور جنید احمد نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا

"ہاں بیٹا، تم ہی اس کو سمجھاو، مجھے نماز کو دیر ہورہی ہے میں آتا ہوں بعد میں" جنید احمد نے گھڑی دیکھ کر کہا

"جی مامو آپ جائیں" پرویز نے کہا
جنید احمد باہر جاتے جاتے واپس پرویز کی طرف مڑے
"بیٹا تم نے نماز نہیں پڑھنی؟"
انھوں نے پوچھا تو پرویز گڑبڑا گیا
"جی مامو، شجاع کو ساتھ لے کر چلتا ہوں" پرویز نے کہا تو انھوں نے منہ بنا کر شجاع کو دیکھا، شجاع نے گردن نیچے جھکا لی
"پڑھ ہی نہ لے یہ" وہ تنز کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے، ان کے جاتے ہی شجاع نے گہرا سانس لیا اور واپس لیٹ کر بازو اپنی آنکھوں پہ دے دیا، پرویز چڑتے ہوئے اس کے پاس گیا اور اس کے اوپر سے کمبل اوتار کر اسے بازو سے کھینچ کر بٹھایا،

"یہ کیا بدتمیزی ہے؟" شجاع نے چلاتے ہوئے کہا

"تمہیں بس اب ایسی بدتمیزیوں سے ہی ہینڈل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے" پرویز نے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا

"جاو یار تم یہاں سے، مجھے اکیلا چھوڑ دو" شجاع نے عجیب منہ بنا کر اسے جانے کے لیے کہا

"نہیں،اب تو میں تمھیں ٹھیک کرنے کے بعد ہی چھوڑوں گا" پرویز نے احد کرنے والے انداز میں کہا

"میں تمھارا کوئی پاگل مریض نہیں ہوں جس کو تم ٹھیک کرنے چل پڑے" شجاع نے چڑتے ہوئے کہا

"اپنی حالت پہ غور کرو، اس وقت آدھے پاگل تو حلیے سے ہی لگ رہے ہو تم" پرویز نے موبائل کا فرنٹ کیمرا کھول کر اسے اس کی شکل دکھائی، شجاع چونک گیا اور اسے چپ لگ گئی۔

"تم کیوں کر رہے ہو یہ اپنے ساتھ؟ آئی نو یہ مشکل ہے، مگر کوشش کرو واپس آو اپنی زندگی میں" پرویز نے اسے سمجھایا

"کیسی زندگی؟ سب کچھ تو ختم ہوگیا ہے" شجاع نے کہا تو اس کی آنکھوں میں نمی آنے لگی

"کچھ ختم نہیں ہوا، تمھارے پاس آج بھی سب کچھ ہے، سوائے ایک شخص کے، باقی سب کچھ تو وہیں پر ہی ہے" پرویز نے کہا تو شجاع چڑ گیا

"اس ایک شخص سے ہی تو کنیکٹڈ تھا سب کچھ، وہ نہیں تو سب کچھ بے معنے ہے" شجاع نے مایوسی سے کہا

"کسی کے جانے سے سب رک نہیں جاتا، یو ہیو ٹو مو اون یار" پرویز نے جیسے ہی یہ کہا شجاع کی چڑ بڑھ گئی
"یہ اپنی ڈاکٹری کہیں اور جھاڑنا، ابھی جاو تمھارے مریض تمھارا ویٹ کر رہے ہوں گے، مجھے اکیلا چھوڑ دو" شجاع نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
پرویز دھیرے سے ہنسا اور بیڈ سے اوٹھ گیا،
"اوکے میں جا رہا ہوں، لیکن اب میں دوبارا نہیں آوں گا تمھارے پاس" پرویز نے جیسے ہی یہ کہا شجاع نے اس کی طرف دیکھا

"اب تم خود چل کر میرے پاس آو گے، دیکھنا" پرویز نے داوا کرنے والے انداز میں کہا

"یار تم جاو، جان چھوڑو" شجاع نے عجیب شکل بنا کر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اسے جانے کے لیے کہا
پرویز ہنستے ہوئے کمرے سے چلا گیا، کچھ دیر شجاع یوں ہی بیڈ پہ پڑا رہا پھر منہ دھونے کے لیے بیڈ سے اوٹھا اور منہ دھوتے وقت اتنے دنوں میں پہلی بار اس نے آئنے میں اپنا چہرا غور سے دیکھا اور اچانک اس کے دماغ میں پرویز کے کہے الفاظ گونجے۔

"اپنی حالت پہ غور کرو، اس وقت آدھے پاگل تو حلیے سے ہی لگ رہے ہو تم"

اس کی آنکھیں متروم سوجی سی ہوئیں تھیں، آنکھیں جن میں ویرانی سی تھی، شیو بڑھی ہوئی تھی، اسے یاد نہیں آیا وہ آخری دن کب تھا جس دن اس نے شیو کی تھی،اس کے بال الجھے اور بکھرے ہوئے تھے، بالوں کو دیکھ کر آج پہلی بار اس کے دل میں خیال آیا اس نے رکھے کیوں تھے؟ ایسی بھی کیا مجبوری؟ ایلکس نے رکھے تو رکھے میں نے پاکستان واپس آکر بھی نہ کٹوائے، وہ سچ میں خود کو پاگل لگا، اس نے شیونگ کڈ اٹھائی اور شیو کرنے لگا۔
شیو کرنے کے بعد اس نے خود کو دیکھا لیکن ابھی بھی اسے کوئی خاص فرق نہیں لگا، اب وہ خود کو کمزور بھی لگ رہا تھا، اب ایک تھے اس کے بال، دوسری تھیں اس کی آنکھیں جو اسے اریٹیڈ کر رہیں تھیں اس نے دو سیکنڈ اپنے بالوں کو ہاتھ لگا کر دیکھا اور کچھ سوچ کر کپڑے بدل کر کمرے سے باہر نکل گیا-
---------------------------
ٹائیٹینک کا آخری سین تھا، جیک روز کا ہاتھ چھوڑ کر سمندر میں ڈوبنے والا تھا، روز اسے پکار رہی تھی، اس سین میں کھوئی عفت کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، وہ آلتی پالتی مارے صوفے پر بیٹھی تھی رموٹ اس کے دونوں ہاتھوں کی مٹھی میں جکڑا تھا اور اس کی تھوڑی اس کی مٹھی پر تھی،
"آپی، رموٹ دو" آرز نے بیزاری سے وہاں آکر اس سے رموٹ مانگا

"اوف، کیا ہے؟ آخری سین ہے، بولا تھا نہ مو وی ختم ہوگی تو آنا لینے اور تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ نماز پڑھنے نہیں گئے ابو کے ساتھ؟"

"پڑھ کر بھی آگیا، ابو کو چاچو سے کوئی کام تھا وہ ان کی طرف چلے گئے، آپ ابھی تک یہیں ہیں آپ نے نماز پڑھی؟"
آزر کے کہنے پر عفت گڑبڑا گئی پھر خود کو سنبھالتے ہوئے الٹا اسے ڈانٹنے لگی
"اوئے پانچ سال بڑی ہوں تم سے، یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے تمھیں، امی کو بتاو مجھ سے بدتمیزی کر رہے ہو تم" عفت نے اس کا دایاں کان پکڑ کر مروڑا

"آ... چھوڑو آپی" آرز درد سے کرہانے لگا

"جاو یہاں سے، فلم ختم ہو پھر آنا"
وہ منہ بناتے ہوئے چلا گیا،
عفت واپس اسی پوز میں بیٹھ کر مو وی دیکھنے لگی، ابھی کچھ سیکنڈ گزرے تھے

"یہ مو وی کتنی بار دیکھی ہوگی تم نے؟ آئی تھنک کم سے کم سو بار" اسے شہریار کی پیچھے سے آواز سنائی دی
اس نے چونک کر پیچھے دیکھا، صوفے کے بلکل ساتھ آرمی کی یونیفارم میں شہریار کھڑا تھا اور اپنی تھوڑی پر انگلی رکھے ٹی وی کی طرف دیکھ رہا تھا، عفت منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے صوفے سے اوٹھ کھڑی ہوئی

"میں ایک بار دیکھوں یا سو بار تم سے مطلب؟ اور تم کیا ہر بار جب بھی ڈیوٹی پہ جاتے ہو آرمی کا یونیفارم پہن کر دکھانے آجاتے ہو؟ پتا ہے کیپٹن ہو آرمی میں" عفت نے چڑتے ہوئے تنز کیا

"میں کسی کو دیکھانے نہیں آتا ، ڈیوٹی پہ جانے کی وجہ سے پہنتا ہوں، کونسہ اسلاماباد میں ڈیوٹی ہوتی ہے جو ان فارمل ڈریسنگ میں جاوں، یہیں صدر میں تو ہے، فکر مت کرو جب اسلاماباد یا بلوچستان ڈیوٹی لگے گی تب گھر سے ان فارمل ڈریسنگ میں جاوں گا، تمھیں میرے لیے سوچ کر ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تمہیں نہیں دھونی پڑتی میری یونیفارم"
ان دونوں کو بحث کرتا دیکھ آزر موقعے کا فاعدہ اٹھاتے ہوئے ٹی وی کا رموٹ اوٹھا کر بیٹھ گیا اور چینل تبدیل کرنے لگا

"ہاہا... فضول جوک.. میرے پاس کوئی فارغ ٹائم نہیں ہے کہ میں تمھارے لیے سوچ کر ہلکان ہوں اور تمھارا یونیفارم؟ وہ دھوتی ہے میری جوتی"

"یہ فضول بحث کا ٹائم نہیں ہے میرے پاس، بتاو سبین خالا کہاں ہیں؟ مجھے کام ہے ان سے" شہریار نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا

"اپنے کمرے میں ہوں گی" عفت نے لاپرواہی سے جواب دیا
اتنے میں کچن سے شجاع کے لیے کھانا لاتی ہوئی فہمیدا نے شجاع کو لاونچ سے جلدی میں کراس ہوکر باہر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے پیچھے سے اسے پکارا "شجاع کہاں جارہے ہو؟" مگر وہ کوئی جواب دیئے بغیر باہر چلا گیا۔
عفت اور شہریار نے بھی شجاع کو دیکھا۔ عفت بھائی کی یہ حالت دیکھ کر دکھ میں دل پہ ہاتھ رکھ کر بول اوٹھی "ہائے، میرے شجاع بھائی"
شہریار نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔
---------------------------

جاری ہے

give vote this episode by clicking the star, give your review in comment section and share my story... :)

خلاDonde viven las historias. Descúbrelo ahora