قسط - 6 "دلدل"

254 21 3
                                    

وہ ابھی دارالامان سے کچھ فاصلے پر ہی تھی کہ دو لڑکے اس کا پیچھا کرنے لگے، وہ تیز تیز چلنے لگی، اسے چلتا دیکھ وہ لڑکے بھی تیز چلنے لگے، انوشہ کے دل کی دھڑکنے تیز ہوگئیں وہ اس کے قریب پہنچنے ہی والے تھے کہ انوشہ نے واچ مین کو دیکھ لیا اور اس کے پاس جا کر لڑکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بتایا، اسے اشارہ کرتا دیکھ وہ لڑکے وہاں سے ہٹ گئے، انوشہ اندر چلی گئی، وہ لڑکے کافی دیر باہر کھڑے رہے لیکن وہ باہر نہیں آئی
"لگتا ہے وہ اب یہیں رہے گی" ایک نے کہا
"ہاں لگ تو یہی رہا ہے، اگر ایسا ہے تو کام اور بھی آسان ہے" دوسرے نے کہا
"ہاں، گرد آفرید بھائی کو یہ خبر دے دیتا ہوں" پہلے نے کہا اور جیب سے موبائیل نکالا
"ہیلو بھائی" دوسری طرف سے کال اوٹھانے پر اس نے کہا
"ہاں، کیا خبر ہے؟" گرد آفرید نے کہا اور سگریٹ کا کش لیا
"گرد بھائی اچھی خبر ہے، وہ لڑکی آج ہی اپنا گھر چھوڑ کر دارالامان میں رہنے آئی ہے، اب اس کا ٹھکانہ یہی ہے" اس لڑکے نے بتایا تو گرد آفرید کی مسکراہٹ گہری ہوگئی
"آہاں،بس اب سیما کو فون کرو باقی کا کام وہ آسان کردے گی تم لوگوں کا" گرد آفرید نے کہا اور فون بند کردی
"دآور بھائی آپ کا کام ہو گیا، کل تک وہ لڑکی ہمارے پاس ہوگی" گرد آفرید نے مسکراتے ہوئے سلاخوں کے پیچھےکھڑے دآور کو خوش خبری دی

"شاباش، ایک ایک پائی کا حساب لینا اس سے" دآور نے چبا چبا کر کہا
"بےفکر.. میں نے سوچ لیا ہے اس کا کیا کرنا ہے" گرد آفرید نے پرسوچ انداز میں کہا

"مجھے جیل میں ڈال کر کیا سوچا ہوگا جان چھوٹ گئی دآور سے، میری نظر جس پہ پڑ جائے اس کا میں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتا، یہاں تو میرے پیسے کا بھی معملا ہے، حساب تو دینا پڑے گا"
---------------------------
اس نے ٹاول سے بال پونچ کر ٹاول کو ایک طرف رکھا، اور ڈریسنگ ٹیبل کے آئنے میں خود کو دیکھا، بال بھی کٹ کر چھوٹے ہوگئے تھے مگر ابھی بھی ایک چیز تھی جو اسے اریٹیڈ کر رہی تھی اور وہ تھی اس کی آنکھیں، ویران ویران سی، خالی خالی سی، وہ اچانک اردگرد دیکھتے ہوئے اپنے گلاسز ڈھونڈنے لگا، کافی دن ہوگئے تھے اس نے چیزیں کہاں رکھیں تھیں اسے یاد ہی نہیں تھیں، اس نے ڈریسنگ ٹیبل کا پہلا خانہ کھولا اسے نہیں ملے، دوسرا خانہ کھولا اسے وہیں پڑے مل گئے، اس نے وہ کانٹیکٹ گلاسز صاف کرنے کے بعد پہن کر آئنے میں خود کو دیکھا
"ہاں یہ صحیح ہے، اس سے آنکھیں اتنی ظاہر نہیں ہو رہیں"
لیکن ایک اور چیز بھی تھی جو غائب تھی اس کے چہرے سے، وہ تھی شجاع کی مسکراہٹ، شجاع کو وہ کمی بھی محسوس ہوئی، شجاع نے مسنوئی مسکراہٹ چہرے پر لانے کی کوشش کی، لیکن اس سے مسکرایا نہیں گیا

"بس اب اس سے زیادہ نہیں کرسکتا میں دکھاوے کے لیے، جھوٹا مسکرانا مجھ سے نہیں ہوگا، لوگوں نے مجھے آوٹ کاسٹ کرنا ہے تو کر لیں، بس ابا اور پرویز کا منہ بند کرنے کے لیے یہی کرسکتا تھا میں" وہ آئنے میں خود کو دیکھتے ہوئے سوچوں میں خود سے باتیں کرنے لگا، پیچھے سے فہمیدا نے اس کے لیے کھانا لا کر صوفے کے ساتھ پڑی میز پر رکھا اور اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا
"شجاع.. آو کھانا کھالو"
شجاع گیا اور ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا، ابھی پہلا نوالا توڑا تھا کہ انھوں نے کہنا شروع کیا
"بیٹا مجھے یقین نہیں آرہا، بال کٹوا لیے تم نے،
کتنے اچھے لگ رہے ہو تم ایسے، تمھارے ابو کہتے رہے، مومنہ بھی کہتی رہی لیکن آج پرویز نے یہ معجزہ کردیا"
شجاع نے منہ میں نوالا ڈالا لیکن چبا نہ سکا،

خلاTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang