قسط-2 "ہیرو بس کہانیوں میں ہوتے ہیں"

264 22 2
                                    

حشمت اور سمینا دونوں ایک ہی پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر تھے۔ سمینا ایک کنزرویٹو خاندان سے تعلق رکھتی تھی، جہاں لڑکیوں کی خاندان سے باہر شادیوں کا رواج نہیں تھا، خاندان سے باہر شادی غیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا، سمینا کے گھر کے حالات کچھ ایسے ہوئے کہ اس کے والد کو فالیج ہوگیا اور اس وقت گھر میں کوئی دوسرا کمانے والا نہ تھا، ماں بھی پڑھی لکھی نہیں تھی، سب بہن بھائیوں میں سمینا بڑی تھی اور ایک وہی تھی جو اس وقت انٹر میں پڑھ رہی تھی، پڑھائی میں بھی وہ کافی اچھی تھی، گھر میں فاقے دیکھ کر اس نے پرائیوٹ اسکول میں پڑھانا شروع کردیا، اس کے بعد گھر کے حالات کچھ بھتر ہوئے اور چھوٹے بہن بھائی بھی پڑھنے لگے، سمینا کے بعد تین بہنے اور تھیں، ان کے بعد دو چھوٹے بھائی تھے، ایسے میں  سمینا کے لیے کوئی رشتہ آتا تو ماں انکار کردیتیں، وہ سوچتیں یہ چلی گئی تو باقیوں کا کیا ہوگا؟ پھر جب سب بڑے ہوئے سمینا کے لیے جو رشتہ آتا اسکی ماں یا تو انکار کردیتیں یا اچھا لگتا تو چھوٹی بیٹیوں کا رشتہ طے کردیتیں، ایسے میں ایک وقت آیا جب سمینا کی دو چھوٹی بہنوں کی شادی ہوگئی اور ایک آخری بہن کی بھی شادی ہونے والی تھی، تب تک سمینا کی عمر بڑھ چکی تھی اور اس کے لیے خاندان سے رشتے آنا بند ہوگئے، اب بھائی بھی کمانے لائق ہو چکے تھے لیکن وہ گھر میں بیٹھی رہے گئی، اس وقت "حشمت حمید" کو اس کے ساتھ اسکول میں پڑھاتے ہوئے ایک سال ہونے والا تھا، ایک دن اس نے سمینا کو شادی کے لیے پروپوز کردیا، سمینا پہلے حیران ہوئی لیکن حشمت اسے بھی اچھا لگتا تھا، اس لیے ایک طرح سے وہ خوش بھی ہوئی تھی مگر اس نے حشمت کو انکار کردیا.. کیونکہ اسے معلوم تھا اس کے گھر والے خاندان سے باہر شادی کے لیے کبھی راضی نہیں ہوں گے ، مگر حشمت پھر بھی ہر آئے دن اسے کہتا رہتا اور جب سمینا کی آخری بہن کی شادی کا وقت قریب آیا تو اس کے دل میں شادی نہ ہونے کی محرومی کا احساس پیدا ہوگیا، ایک بار پھر حشمت نے اس سے شادی کا کہا تو سمینا نے جواب میں اسے بھاگ کر شادی کرنے کے لیے کہہ دیا، حشمت کو پہلے یقین نہیں آیا کہ
"وہ لڑکی ہوکر اس سے خود بھاگنے کی بات کر رہی ہے؟"
لیکن بعد میں وہ بھی راضی ہوگیا، کیونکہ اسے سمینا سے مطلب تھا اور وہ اسے مل رہی تھی، سمینا گھر سے بھاگتے وقت اپنی چھوٹی بہن کی شادی کا زیور بھی اپنا حق سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر چلی گئی، پھر سمینا اور حشمت نے کورٹ میرج کرلی اور وہاں سے دوسرے شہر چلے گئے، سمینا اور حشمت نے وہاں دوبارہ ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھانا شروع کیا، کچھ ماہ تک سب ٹھیک چل رہا تھا پھر آہستہ آہستہ حشمت کے روئیے میں تبدیلی آنے لگی، وہ کبھی کبھی سمینا سے خامخا جھگڑنے لگتا تھا.. اور کبھی کبھی اس کا اسکول میں بھی کسی نہ کسی سے جھگڑا ہوتا رہتا تھا، کچھ وقت بعد اس کا اسکول پرنسپل سے جھگڑا ہوا اور اس نے حشمت کو نوکری سے نکال دیا، اس نوکری کے چھوٹ جانے کے بعد حشمت نے دوبارہ کوئی نوکری ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی۔
پھر اس کے بعد حشمت کا اصلی روپ سمینا کے سامنے آنے لگا، وہ شرابی تھا، اس کے اندر ہر بری عادت تھی اور وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر سمینا کو مارنے بھی لگا تھا۔
اب فرق یہ تھا کہ پہلے وہ اپنے گھر والوں کے لیے کماتی تھی اور اب اپنے شوہر کے لیے! سمینا کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا.. وہ واپس نہیں جا سکتی تھی، کیونکہ گھر سے بھاگ کر وہ اپنی واپسی کے سارے راستے خود بند کرکے آئی تھی۔
اب صورتحال یہ تھی کہ سمینا کماتی تھی اور حشمت خود سارا دن گھر پر پڑا رہتا یا پھر باہر آوارہ گردی کرتا۔ کچھ وقت بعد جب انوشہ پیدا ہوئی تو اسکا سمینا کو مارنا بڑھ گیا کیونکہ اسے بیٹا چاہیے تھا! اور پھر دو سال بعد جب ریاض پیدا ہوا تو حشمت کا سمینا کو مارنا رک گیا۔  سمینا نے اپنی اولاد پر بہت محنت کی اسے جتنا ہوسکا پڑھایا، جب انوشہ نے میٹرک پاس کیا تو وہ ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ٹیوشنز پڑھانے لگی، انوشہ اس سے اپنی تعلیم کا خرچہ خود اٹھانے لگی تھی، ریاض سے جو امیدیں سمینا کو وابستہ تھیں کہ زندگی میں جو عزت اور سکون شوہر نہ دے سکا وہ بیٹا دے گا لیکن ان ساری امیدوں پر پانی پھر گیا... جب ریاض نے آٹھویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیا اور سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے لگا، اسے چھوٹے موٹے نشے کی عادت پڑ گئی، وہ بھی باپ کی طرح پیسوں کے لیے ماں اور بہن کا منہ دیکھنے لگا، وہ اگر اسے پیسے دینے سے انکار کرتیں تو وہ باپ سے شکایت لگا دیتا، ریاض باپ کا بہت لاڈلا تھا پھر حشمت دونوں کو مار کر پیسے چھین کر اسے دیتا۔
پہلے بچپن میں انوشہ اپنے باپ کے سامنے آنے یا بولنے سے ڈرتی تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ ڈھیٹ بن گئی،کئی بار مار کھا کر بھی پیسے نہ دیتی اور کئی بار باپ کو سنا بھی دیتی، سمینا اسے روکتی لیکن وہ نہ مانتی پھر حشمت اسے 'بدتمیز' کا ٹائٹل دے کر اور زیادہ مارتا۔
آج کل ریاض کو دبئی جانے کا شوق چڑھا ہے، وہ کہتا ہے "وہ دبئی جائے گا اور وہاں کمائے گا" اس شوق میں اس نے انوشہ سے اس کی اسکالرشپ کے پیسے مانگ لیے لیکن اس نے دینے سے صاف انکار کردیا.. تو اس نے انوشہ کے نوٹس پھاڑ دیئے جن سے وہ اس وقت اپنے پیپر کی تیاری کر رہی تھی اور پھر اس کے بعد ریاض نے جاکر باپ کو شکایت لگا دی، پھر جب حشمت نے آکر پیسے مانگے تو اسے انوشہ نے دو ٹوک انکار کردیا، جس پر 'بدتمیز' کہہ کر اسے مارنے لگا اور جب وہ غصے میں اسکا گلا دبانے لگا تو سمینا بیچ میں آگئی اور اسے چھڑوایا، سمینا کو دیکھ کر حشمت کو اور غصہ آیا،  وہ اسے بھی مارنے لگا پھر انوشہ نے بیچ میں آکر ماں کو کور کرتے ہوئے اسے بچایا اور ساری مار اس نے خود کھائی، پھر حشمت جب تھک گیا تو "ڈھیٹ" کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر چلا گیا اور جو اب تک دور کھڑے ہو کر ساری فلم دیکھ رہا تھا وہ ریاض.. مایوسی سے وہاں سے پیر پٹختہ ہوا چلا گیا۔
---------------------------
"اس بات پر تو پولس کیس ہونا چاہیے، آخر مسئلہ کیا ہے؟ کیس کرو اور جیل بھیجو، مسئلہ ہی ختم" مومنہ نے صاف راستہ دکھایا، انوشہ کو بےبسی سے ہنسی آئی 
"میم، کیا فاعدہ ہوگا کیس کرنے سے؟ پہلی بات کیس ہو بھی جائے وہ بڑی بات ہے، اگر ہو بھی جاتا ہے تو وہ کب تک جیل میں رہیں گے؟ قتل کے تو مجرم ہیں نہیں کہ ساری زندگی جیل میں سڑیں دونوں، کبھی نہ کبھی تو واپس آئیں گے نہ؟ پھر کیا ہوگا؟ اس چیز کا بدلا وہ لوگ کسی بھیانک انداز میں لیں گے مجھ سے اور میری ماں سے، مجھے کوئی بھروسہ نہیں ان دونوں پر" انوشہ نے سارے خدشات مومنہ کے سامنے رکھ دئیے اور اس بار انوشہ نے اپنے جواب سے مومنہ کو چپ کروا دیا تھا۔

خلاDonde viven las historias. Descúbrelo ahora