قسط-9 "تمہیں یہ خیال بہت دیر سے آیا"

224 27 15
                                    

"اتنے دن ہوگئے، کیا کر رہے ہو تم؟ اکبر سے بھی پوچھا میں نے ، اس نے بتایا وہ لڑکی بس کمرے میں بند ہے، نہ تم اس سے کوئی کام لے رہے ہو اور نہ اسے بیچ کر میرے پیسے واپس لا رہے ہو" دآور نے غصے میں گرد آفرید سے پوچھا
"ہاں.. ہاں سب ہوگا، تھوڑا صبر تو کرو" گرد آفرید نے اسے تہمل سے کام لینے کا کہا 
"صبر وبر دآور سے نہیں ہوتا، مجھے کام چاہئے..جب میں.." دآور نے چڑچڑاہٹ میں کہتے کہتے بات ادھوری چھوڑ دی اور گرد آفرید کو غور سے دیکھا جو اس وقت سلاخوں کے اس پار سگریٹ جلانے میں مصروف تھا
"کہیں تمھارا دل تو نہیں آگیا اس پہ..؟" دآور نے اپنا شبھا ظاہر کیا
اس کی بات سن کر گرد آفرید قہقہ لگا کر ہنس پڑا..
کیا عجیب کھوکھلی ہنسی تھی
"میری زندگی میں کتنی حسین لڑکیاں آئیں گئیں، آخر میں ان کا انجام کیا ہوا؟ آپ کے سامنے ہے، میں نے کبھی کسی پہ دل نہیں لگایا، گرد آفرید کبھی کام کے بیچ میں دل نہیں لاتا..." اس نے سنجیدہ چہرے کے ساتھ کہا اور سگریٹ کا کش لے کر اسے ہوا میں چھوڑا 
"صحیح... جیسا میں نے کہا ہے ویسا ہی ہونا چاہیے، ویسا نہ ہوا تو پھر جانتے ہو تم مجھے، بس میرے باہر نکلنے کی دیر ہے پھر.." دآور نے اسے باور کروایا 
---------------------------
"فائنل ائیر کی لڑکی انوشہ کو بلا کر لے کر آو" 
صبح کے وقت پیون نے شجاع کی میز پر چائے کا کپ رکھا تو شجاع نے اچانک غائب دماغی سے نکل کر اس سے کہا 
اسے سن کر پیون نے شجاع کو عجیب نظروں سے دیکھا
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ سمجھ نہیں آئی کیا کہا؟" شجاع نے سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا 
"جی.. سر..سمجھ گیا" پیون نے جلدی سے کہا اور باہر نکل گیا
شجاع انتظار کرنے لگا، پھر کچھ دیر بعد اسے خیال آیا 
"میں نے کیوں بلایا ہے اسے؟ کیا کہوں گا؟ تمھارا حال چال پوچھنا ہے؟ اوف ..." شجاع نے سوچتے ہوئے اپنا سر تھام لیا 
کچھ دیر بعد پیون واپس آیا۔ 
"سر.. وہ لڑکی تو کافی دن ہوئے یونیورسٹی ہی نہیں آئی، شاید ایک مہینہ ہونے والا ہے"  
"اچھا.. کیوں نہیں آرہی؟" شجاع نے پوچھا 
"یہ تو معلوم نہیں سر" پیون نے لاعلمی سے جواب دیا
"اس کی کوئی دوست ہے تو اس کو بلاو" 
"اوکے سر.." ایک بار پھر پیون عجیب نظروں سے شجاع کو دیکھ کر وہاں سے چلا گیا 

کچھ دیر بعد سندس شجاع کے سامنے کھڑی تھی۔
"سر وہ تو کافی ٹائم سے غائب ہے، اس کا تو مجھے بھی کچھ نہیں معلوم" سندس نے کہا 
"غائب ہے مطلب؟" شجاع نے نا سمجھی سے پوچھا
"سر وہ.. مومنہ میم کے معملے کے بعد سے.." سندس نے اٹک اٹک کر کہا
"یونیورسٹی میں اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں ہوتی تھیں، وہ ان سب سے تنگ آگئی تھی اور یونیورسٹی بدلنا چاہتی تھی، کیس اور پولس کے چکروں کی وجہ سے اس کے محلے والے بھی اس کے بارے میں غلط باتیں کرنے لگے تھے، وہ اپنا گھر چھوڑ کر میرے گھر پر رہنے آئی تھی لیکن.."  سندس نے بات ادھوری چھوڑ دی
"لیکن کیا..؟ " شجاع نے تجسوس سے پوچھا 
"میری امی نے اسے باتیں سنائیں اور پھر وہ میرے گھر سے بھی چلی گئی مجھے کچھ بھی بتائے بغیر... اور وہ تب سے اب تک غائب ہے، اس کا کوئی اتا پتا نہیں.." سندس نے دکھی دل کے ساتھ ساری بات بتائی 
"اوہ..." شجاع کو چپ لگ گئی 
"کیا پتا وہ اپنے کسی رشتے دار کے یہاں گئی ہو؟" شجاع نے اچانک کہا 
"سر اس کا تو کوئی رشتے دار ہی نہیں ہے، اسے تو معلوم ہی نہیں ہے اپنے رشتےداروں کا، اسے معلوم ہوتا تب بھی وہ کبھی نہ جاتی ان کے پاس، ایسے معملوں میں تو ویسے بھی موقع چاہئے ہوتا ہے رشتےداروں کو باتیں کرنے کا اور زخموں پر نمک چھڑکنے کا" 
شجاع نے اس سے ایک بات پوچھی تھی وہ بولے چلی جارہی تھی۔
"ہاں.. مومنہ نے بتایا تھا، اس کا کوئی رشتےدار
نہیں ہے" شجاع کو خیال آیا 
"اوکے.. آپ جاو.." شجاع نے سندس سے کہا
وہ اوٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
"کہاں گئی ہوگی؟" شجاع نے غائب دماغ سوچا
---------------------------
شام کا وقت تھا راستے میں روڈ کے ایک طرف لوگوں کی کافی بھیڑ اکٹھا تھی، جس نے شجاع کو دور سے ہی اپنی طرف متوجہ کیا تھا اس نے قریب پہنچ کر گاڑی ایک طرف روکی اور اوتر کر بھیڑ کی جانب بڑھا، وہ وہاں پہنچا تب تک بھیڑ جھٹنے لگی تھی، شجاع نے ایک آدمی سے پوچھا 
"کیا ہوا تھا؟" 
"کچھ نہیں بھائی، چار لڑکے ایک لڑکی کو گاڑی میں اوٹھا کر لے گئے" اس آدمی نے لاپرواہی کے انداز میں بتایا 
شجاع نے اسے حیرت سے دیکھا 
"اتنے سارے لوگ کھڑے تھے، کسی نے آگے بڑھ کر مدد نہیں کی اس کی؟" اس نے بےساختہ پوچھ لیا
"وہ کوئی امیرزادے تھے، کون منہ لگتا ان کے؟" اس نے شجاع کو ایسے دیکھا جیسے اس نے کوئی بہت ہی عجیب بات کی ہو
"پھر بھی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی، سب کی بہن،بیٹیاں ہیں، خداناخواستہ کل کو ان کے ساتھ ایسا نہ ہو پھر.."  اس آدمی نے شجاع کی بات بیچ ہی میں کاٹ دی
"میاں... پہلی بات..جو عزت دار ہوتا ہے نہ اس کی بہن بیٹیاں اس طرح اکیلے بازاروں میں دندناتی نہیں پھرتیں، کم از کم ہماری تو بلکل نہیں" اس آدمی نے اپنے سینے پہ شہادت کی انگلی رکھ کر ایسے بتایا جیسے اپنے خاندان کے حسب نسب سے متعارف کروا رہا ہو۔
"ہاں... اور کیا پتا اس لڑکی کا پہلے ہی کوئی چکر ہو اس لڑکے کے ساتھ، دھوکا دیا ہو لڑکے کو، تو اب اسے اغوا کر لیا ہو دوستوں کے ساتھ مل کر، کچھ کہہ نہیں سکتے زمانہ بہت خراب ہے .." اس آدمی کی بات پر پیچھے کھڑے آدمی نے اپنی سوچ کا بھی ایک نمونہ شجاع کے سامنے پش کیا
"ہاں.." پہلے آدمی نے اس کی بات پر متفق ہوتے ہوئے ہامی بھری اور آگے بڑھ گیا۔ شجاع نے حیرت سے ان کی باتیں سنیں اور اس کے دماغ میں آج یہ سوچ ابھری کہ ہر کوئی خود کو اور اپنے خاندان کی عورتوں کو کتنا اونچا سمجھتا ہے، اتنا اونچا جتنا دوسروں کے گھر کی عورتوں کو گرا ہوا، درحقیقت عورت کی پہچان مرد پر محدود کردی گئی ہے، اس کی اپنی پہچان کیا ہے؟ نظر نہیں آتی 
"عفت کو بیچ میں مت لاو، اس کے باپ بھائی اسے بیچتے نہیں پھر رہے" اپنے کہے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے
---------------------------
"یار... بڑی بدتمیز ہو چپکے سے نکاح کر رہی ہو، ہمیں بتایا ہی نہیں!" مخاطب کی دوسری جانب سے آواز آئی، جس کے الفاظ سن کر عفت گڑبڑا گئی

خلاOpowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz