باب نمبر ۱: ہر گھر کی کہانی

2.4K 87 37
                                    

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ ارّحیم.

دنیا

از قلم کائنات

************************

کبھی عرش پر کبھی فرش پر،
کبھی اُس کے در کبھی دربدر،
غم عاشقی تیرا شکریہ،
میں کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔۔۔

بیپ ... بیپ ... الارم کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی تھی۔ حسبِ مامون سب سو رہے تھے اور وہ ہمیشہ کی طرح نماز پرھنے کے لئیے اٹھ گئی تھی. چادر ہٹا کر وہ بستر سے اٹھی اور برابر سائٹ ٹیبل پر پڑی بوتل سے ساتھ ہی رکھے گلاس میں پانی انڈیلا اور اسے لبوں سے لگا کر لمبے لمبے گھونٹ بھر کر پینے لگی۔ پھر گلاس کو واپس اسی جگہ پر رکھنے کے بعد آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھی اور غسل خانے کی طرف بڑھی۔
کمرے کے درمیان میں رکھا ایک چھوٹے سائز کا ڈبل بیڈ جس کے دونوں طرف ایک ایک سائٹ ٹیبل رکھی تھی۔ تھوڑے ہی فاصلے پر دو دروازوں والی ایک الماری اور اس کے بارے میں کچھ فٹ کے فاصلے پر ایک دیوار والا شیشہ لگا ہوا تھا۔ لہٰذا ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا جانے والا سارا سامان اب سائٹ ٹیبل پر ہی پڑا ہوا تھا۔
تقریباً دس پندرہ منٹ فریش ہونے اور وضو کرنے کے بعد وہ غسل خانے اسے نکلی تو اذان کی آواز اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ وہ ہاتھ پہنچتی الماری کی طرف بڑھی اور اوپر والے شیلف سے نماز کی چادر اور جائے نماز نکال کر زمین پر ایک طرف بچھا لیا۔
چادر کو اپنے گول چہرے کے گرد لپیٹنا شروع کیا۔ تھوڑی کے نیچے سے اوپر کی طرف لپیٹ تے ہوئے سارے بالوں کو چادر کے اندر کرتے ہوئے اس نے چادر کے آخری کونے کو نیچے تھوڑی کی طرف پھنسایا۔
سفید اُجلی چادر اس کی دودھیا رنگت کو اور نکھار رہی تھی۔ اس کے گالوں سے قدرتی گلابیت جھلک رہی تھی۔ مکھن جیسی سکن اور لمبی لمبی کالی پلکیں اس کی آنکھوں کو ایک الگ ہی کشش دے رہی تھیں۔ اس میں کوئی تو خاص بات ضرور تھی۔
فجر کی نماز پڑھنے کے بعد وہ جائے نماز تہ کر کے اور چادر اٹھا کر دوبارہ سے انہیں اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔
اس کے کمرے کے برابر میں ایک دروازہ تھا جو کے پریشے کے کمرے کا تھا۔
وہ راہداری میں چلتی ہوئی لاؤنچ کی طرف بڑھی۔ سامنے دیوار پر ایک ایل سی ڈی لگی تھی اور تھری سیٹر صوفے رکھے تھے۔ اور سامنے بالکنی کے دروازے کے برابر میں صوفے کی پیچھے والی دیوار پر ایک کھڑکی بنی تھی۔ وہ کھڑکی کے پٹ کھول کر وہیں کھڑکی کے پاس کھڑی نکھرتے سورج کو دیکھتی اپنے آنے والے کل کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ سورج بہت آہستگی سے اپنی کرنے آسمان میں بکھیر رہا تھا۔ زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اس میں بھی بہت آہستہ روشنی کی کرنیں بکھرتی ہیں۔ مگر سیاہی کے وقت بھی ہلکی، باریک، بہت باریک ہی صحی، ایک pinhole جتنی ہی صحی مگر روشنی قائم ضرور رہتی ہے۔ بس اسے بہت غور و فکر سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کی سوچوں کی دنیا سے وہ اپنی امی کی آواز پر حال میں واپس آئی۔

 دنیا💝Onde histórias criam vida. Descubra agora