دسویں قسط
وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی ہال میں داخل ہوئی۔ پہلے ہمیشہ وہ تیزی سے شاہ زیب کے پیچھے چلتی ہوئی اس گھر میں داخل ہوتی تھی ۔ پہلا قدم بھی اس نے شاہ زیب کے ساتھ اس گھر میں رکھا تھا ۔مگر آج وہ اکیلی تھی شاہ زیب اس کے ساتھ نہیں تھا جو اپنے ساتھ اسے اس گھر میں لایا تھا آج اس کے ساتھ نہیں تھا وہ اکیلی تھی بلکل اکیلی ۔ رابیل کے لئے یہ یقین کرنا بہت ہی مشکل تھا کے شاہ زیب اسے چھوڑ کر جا چکا ہے۔
جب آپ کسی سے بے انتہا محبت کریں اور اس کی آپ کو عادت بھی ہونے لگے اور جب وہ آپ کو چھوڑ جاۓ یقین کرنا سچ میں مشکل ہی ہو جاتا ہے ۔رسم کی رسائی کیسے کی جاتی ہے
کسی اپنے سے جدائی کیسے کی جاتی ہے
اب جو ملا تو میں پوچھوں گا اس سے
محبت میں بے وفائی کیسے کی جاتی ہےیہ بے وفائی ہی تو تھی اتنی خبط کے باوجود وہ کسی اور کی وجہ سے رابیل کو بغیر بتاۓ گیا تھا بغیر اس کی پروا کرے کے اس سے رابیل پر کیا گزرے گی ۔ کیا محبت کرنے والوں کو یہ صلہ دیا جاتا ہے ۔
"شا۔۔ہ۔۔ " آواز درد سے بھر پور تھی ۔صوفے کے پاس آئی تو آنکھوں کے سامنے رات کا منظر دھندلا سا نمودار ہوا ۔ جس طرح وہ رات کو اس کا ہاتھ پکڑ کر سو گئی تھی۔ وہ تو پوری زندگی شاہ زیب کا ہاتھ تھام کر چلنا چاہتی تھی ۔
"میں نہیں جانتی تھی آپ چلے جاؤ گے ورنہ میں تو پوری رات نہیں سوتی ۔ میں نے سوچا ہی نہیں تھا آپ مجھے چھوڑ کر جاؤ گے شاہ ۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے کے جو میرے بغیر رہ نا سکتا ہو وہ مجھے چھوڑ کر چلا جاۓ " ماتھے پر بل پڑھ گئے تھے ۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔
رات کو جو چادر اس نے شاہ زیب کو دی تھی اس کو اپنے ہاتھوں میں لئے وہ صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔
"شاہ ۔۔ کہاں ہیں آپ ۔۔پلیز آ جاؤ میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر۔ رابیل اپنے شاہ کے بغیر کیسے رہے گی شاہ " چادر کو غور سے دیکھتے ہوئے وہ بولی ۔۔
اگر کوئی بھی اس وقت اس کو دیکھتا تو یقیناً اسے پاگل سمجھتا ۔وہ پاگل ہی تو ہو چکی تھی ۔ جب آپ کی محبت آپ کو بغیر بتاۓ آپ سے دور چلی جائے اور آپ کا قصور بھی نا ہو تو کیا آپ اس بات پر یقین کر سکتے ہیں ۔
"شاہ ۔۔۔پلیز ۔۔۔ آ جاؤ ۔۔۔ "وہ چادر کو اپنے سینے سے لگا کر روتے ہوئے بولی
"شاہ ۔۔۔شاہ سن رہے ہیں آپ " وہ چادر کو زور دے اپنے ساتھ لگائے ہوئے بول رہی تھی
"شاہ ۔۔ جواب دیں پلیز کہیں سے آ جائیں میں کیا کروں گی آپ کے بغیر کیسے رہوں گی ۔۔ شاہ زیب ۔۔ شاہ ۔۔۔۔۔۔" وہ چلا چلا کر بول رہی تھی ۔۔ رو رہی تھی ۔۔
جیسے وہ کہیں سے اسے سن کر اس کے پاس دوڑا چلا آئے گا مگر اگر اس نے آنا ہوتا تو وہ جاتا ہی کیوں ؟ اگر کسی کو لوٹ کر آنا ہوتا ہے تو وہ آپ کو چھوڑتا ہی کیوں ہے کیا کسی کو اذیت میں چھوڑ کر چلے جانا اتنا آسان ہے
"بی بی جی ۔۔ بی بی جی آپ ٹھیک تو ہیں نا " چوکیدار شور سن کر بھاگ کر اندر آیا
"شاہ آ گئے ۔۔ شاہ زیب آ گئے نا " رابیل دروازے کی طرف بھاگی ۔۔
جب آگے بڑھ کر چوکیدار نے دروازہ بند کیا اور وہ سر کو پکڑے ہوئے وہیں چکر کھا کر گر گئی ۔۔۔
_____________________
رات بھر گھر میں سب اپنے اپنے کمرے میں تو تھے مگر سب ہی جانتے تھے کے پوری رات کوئی بھی نہیں سویا تھا ۔ گھر کے بچوں سے کو ئی ایسی توقع نہیں کر رہا تھا .
دادی جان ہمیشہ کی طرح سات بجے کمرے سے باہر آ چکی تھیں ۔ نگہت بیگم اور کلثوم بیگم کچن میں ناشتہ بنا رہی تھیں ۔ ھر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ پورے گھر میں گویا کوئی شخص رہتا ہی نا ہو ۔ عجیب سی سنسانی کے جس سے وحشت ہونے لگے ورنہ اس وقت تینوں ساس بہووں کی باتیں عروج پر ہوتی تھیں ۔ جنید صاحب اور عامر صاحب اپنے اپنے کمرے میں تیار ہو رہے تھے ۔ زری پوری رات بیڈ پر بیٹھے آنسو بہاتی رہی تھی جس کی وجہ سے اب اس کی آنکھیں سوج چکی تھیں ۔ کوئی اس کی بات سننے تک کو تیار نہیں تھا ایسا کیوں ہو رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔ عدیل کی بھی حالت کچھ اسی طرح کی ہی تھی ۔ اگرچہ زری لڑکی تھی اور ان کے لئے ایسے معاملات زیادہ نازک ہوتے ہیں یہ ہی وجہ تھی کے عدیل کو اپنی فکر سے زیادہ زری کی فکر تھی ۔ایک تو گھر والوں کی نظر میں بدنامی ہو چکی تھی اوپر سے زری بھی اسے غلط سمجھ رہی تھی ۔ کوئی سکون سے سو رہا تھا تو وہ تھی عروا۔ ۔ جو فساد پھیلا کر سکون کی نیند سو رہی تھی ۔۔
"بد کردار لڑکی " عروا کے الفاظ زری کے کانوں میں سنائی دیئے
"میں نہیں ہوں بد کردار ۔۔ میں نہیں ہوں بد کردار " اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے ۔۔
پوری رات وہ جب بھی کچھ بھولا کر سونے کی کوشش کرتی عروا کے یہ الفاظ اسے سونے نہیں دیتے تھے ۔
"میں بات کروں گی ابا سے میں بد کردار نہیں ہوں " وہ بیڈ سے نیچے اتری۔۔ سرخ کھلی شلوار اور سفید رنگ کی گھٹنوں تک آتی کمیز اس نے رات کی پہنی ہوئی تھی ۔ اپناسفید دوپٹہ اٹھا کر سر پر پھیلا کر لیتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکلی اور جنید صاحب کے کمرے کا رخ کیا ۔۔
ہال کے ارد گرد کمرے بنے تھے اور دادی جان ہال میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں ۔۔ انہوں نے نظر اٹھا کر زری کو دیکھا جو تیزی سے جنید صاحب کے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔۔
دروازے کے پاس جا کر وہ رکی اور دروازے پر دستک دی ۔
"بابا میں اندر آ جاؤں " زری نے پوچھا
"آؤ " سنجیدگی سے جواب دیا گیا تھا ۔
دروازہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوئی ۔ جنید صاحب ٹیبل پر کچھ فائلز پھیلائے ہوئے صوفے پر بیٹھے تھے ۔
"السلام عليكم بابا " زری نے ادب سے سلام کیا ۔ نظر جھکی ہوئی تھی ۔
"وعلیکم اسلام " فائل سے منہ اٹھاۓ بغیر جواب دیا گیا تھا ۔
"بابا آپ سے ضروری بات کرنی ہے " زری نے آنسو حلق میں اتار کر کہا ۔۔ وہ نظر جھکا کر ہی کھڑی تھی
"بولو " اب بھی جنید صاحب نے اسکی طرف نہیں دیکھا تھا
"بابا میں نے کچھ نہیں کیا ۔ میری بات کا یقین کریں " وہ رندی آواز میں بولی
YOU ARE READING
بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅
Romanceالسلام عليكم ! بے مول محبت ناول یک طرفہ محبت پر مبنی ایک کہانی ہے ۔ محبت سیکریفائزز منگتی ہے مگر یک طرفہ محبت میں سیکریفائزز تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں ۔ جس سے آپ کو محبت ہو اس کے دل میں اپنا مقام بنانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے ۔ یک طرفہ محبت بے مول ہوتی ہے ۔...