تیسری قسط

2.4K 133 25
                                    

"آہا۔۔۔ زری آرام سے" زری اسکے ہاتھ پر ٹیوب لگا رہی تھی جو رابیل اچھل اچھل کر لگوا رہی تھی ۔ کیوں کے اسے جلن ہو رہی تھی اور جب زری اس پر  ٹیوب لگا رہی تھی تو رابیل سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
"کیسے جل گیا دھیان تمہارا ہوتا کہاں پر ہے " زری کو اس پر تپ چڑ رہی تھی۔ ایک تو وہ تھی ہی نازک سی اوپر سے اس قدر حساس۔
"چاۓ ڈالتے ہوئے بس جل گیا پتا بھی نہیں چلا " رابیل دوسرے ہاتھ سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی. اب وہ کیا بولتی کے یہ تمہارے بھائی جان کی ہی کرم نوازیاں ہیں 
"اچھا اب سچی سچی بتا دو کس کے خیالوں میں ڈوبی تھی ۔ " مزے سے ٹیوب بند کرتی ہوئی زری اسکے پاس بیٹھ گئی۔ 
"ہاں " رونے کی وجہ سے رابیل کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔  جنہیں زری کی بات پر وہ مزید کھول کر زری کو دیکھ رہی تھی۔ زری اور رابیل کزنز تو تھیں ہی مگر اکلوتی اکلوتی ہونے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو بہنیں ہی سمجھتی تھیں ۔ ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کرنے کی وجہ سے وہ بیسٹ فرینڈز بھی تھیں ۔
"شاہ زیب بھائی کے خیالوں میں کھوئی تھی نا ،ہے نا، ہے نا " زری نے اپنے کندھے سے اسکے کندھے کو جھٹکا جس پر رابیل چڑ کر اٹھی
"حد ہوتی ہے ۔ زندگی تمہارے بھائی پر شرو ع ہو کر اس پر ہی ختم نہیں ہو جاتی زری میڈم ۔ اس دنیا میں اس سے بھی زیادہ  اچھے انسان موجود ہیں " رابیل زری کی طرف منہ کیے کھڑی تھی زری اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ یک دم وہ اپنا درد بھول گئی تھی یاں یہ ٹیوب کا ہی اثر تھا جو جلن محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔
"آہا جیسا کے " زری نے مسکراہٹ دبا کر آبرو اچکائے
"جیسا کے اممم۔۔۔ جیسا کے ہمارے گیٹ کیپر۔۔ چچا (چوکیدار کو سب چچا کہتے تھے )  ، یاں پھر وہ دودھ والا ۔۔ ہاں ہاں وہ ہی دودھ والا جو روز دودھ دینے آتا ہے ، یاں پھر وہ وہ اخبار والا جو روز اپنے سائیکل کی گھنٹی ٹرن ٹرن بجا کر چچا کو بلاتا ہے اور اخبار دے کر جاتا ہے یہ سب تمہارے بھائی سے بہت بہتر ہیں " رابیل ہاتھ لہرا لہرا کر بات کر رہی تھی۔
"پر پھر بھی تم مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتی ھو " شاہ زیب کی آواز سن کر وہ ساکن ہو گئی ۔۔ ہاتھ اسی طرح ہوا میں جو لہرا رہی تھی وہیں ٹھہر گئے ۔۔ شاہزیب چلتا ہوا اسکے سامنے آیا ۔ زری نے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کی ۔ سامنے کھڑے ہوتے ہوئے اسنے رابیل کے ہاتھ نیچے کیے
"جب منہ پر بھیگی بلی بننا ہوتا ہے تو پیچھے سے شیرنی مت بنا کرو " کہ کر شاہ زیب نے زری کی طرف منہ کیا
"ایک کپ چاۓ ابھی میرے کمرے میں بھیجو " کہ کر وہ رکا نہیں اور چلا گیا زری اسکے پیچھے بھاگی اور رابیل کو بھی جیسے ہوش آئی ۔ زری اس لئے بھی بھاگی تھی کے شاہ زیب کی آمد کی خبر جو اسنے رابیل کو نہیں دی تھی تو کہیں وہ زری کو پیٹنا نا شرو ع ہو جاتی ۔
"کیوں میں  ہر وقت اس کے سامنے بے عزت ہوتی رہتی ہوں بلکہ خود ہی خود کو بے عزت کر دیتی هوں  " وہ کلس کے رہ گئی
_________________
"اماں جان شاہ زیب نے اپنی راۓ بتائی یاں نہیں آپ نے بات کی بھی تھی کے نہیں " جنید صاحب صبح صبح ناشتے کے بعد اپنی ماں کے کمرے میں آئے تھے ۔ آج اماں جان ناشتے کے ٹیبل پر نہیں آئی تھیں۔ جنید صاحب ایک ادھیڑ عمر شخص تھے لیکن وجیہہ شخصیت کے مالک تھے ۔
"میں نے ابھی شاہ زیب سے ٹھیک سے بات نہیں کی کل رات گھڑی دو گھڑی ہی اس سے ملاقات ہوئی ہے آج پھر بات کروں گی "  وہ فل وقت اپنے بیٹے سے نظریں نہیں ملا رہی تھیں ۔ کل رات کو شاہ زیب کے روئیے نے انہیں پریشان کر دیا تھا
"اچھا میں اسے آپ کے پاس بھیجتا ہوں ۔ " جنید صاحب جانے لگے
"نہیں میں خود مناسب وقت دیکھ کر بات کر لوں گی "
"اماں جان عدیل آرام سے رشتے کے لئے مان گیا ہے اس بات کو گھر والوں کو میں اور عامر تب تک نہیں بتا سکتے جب تک شاہ زیب کی ہاں نہیں ہوتی آپ مہربانی فرما کر شاہ زیب کو منا ئیں " جنید صاحب کا لہجہ التجائیہ تھا
"جنید بچے کی راۓ پوچھے بغیر تمھیں رشتے کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی " عمر کا تقاضا تھا وہ شاہ زیب کے کل رات والے روئیے سے بہت کچھ اخذ کر چکی تھیں
"اماں جان بچے کب سے اتنے بڑے ہو گئے کے یہ فیصلے کرنے لگیں گے۔ ہم نے پال کر انکو اتنا کیا ہے اور آج یہ اٹھ کر اپنے فیصلے ہم پر ڈالیں گے ۔ آپ نے بھی تو ہم سے تب پوچھا تھا جب بات پکی ہو چکی تھی ہم بھی آپ کے اس فیصلے کا مان رکھ رہے ہیں نا " لہجہ دھیمہ تھا
"تم لوگوں کی مرتبہ  وقت اور تھا جنید تم چھوٹے نہیں ہو دو بچوں کے باپ ہو ۔ اس معاشرے کو مجھ سے بہتر جانتے ہو پھر ایسی باتیں تم پر زیب نہیں دیتیں۔ وقت بدل چکا ہے آج کے بچے بھی بہت سمجھدار ہیں اپنے اچھے برے کا فیصلہ کر سکتے ہیں  "
"جانتا هوں لیکن میں چاہتا ہوں کے گھر کے بچے گھر میں رہیں "
"گھر کے بچے گھر میں رکھنے کے لئے اپنے بچوں کی خوشیوں کو داؤں پر نہیں لگایا جا سکتا ۔ بچوں کی خوشیاں معنی رکھنی چاہییں ۔ ہم آج ہوں کل نا ہوں زندگی تو بچوں نے ہی گزارنی ہے نا "
"آپ ٹھیک کہ رہی ہیں لیکن کوشش کریں کے وہ مان جائے"
"میں کوشش کروں گی " اماں جان نے انہیں تسلی دی ۔۔
______________
"زری یہ شاہ زیب کے کمرے میں رکھ آؤ " شرٹس استری کر کے رابیل نے زری کو پکڑائیں جو کتاب پکڑے بیٹھی تھی ۔
"رابی میں پڑھ رہی ہوں نا تم رکھ آؤ جا کر " زری نے ایک منٹ کے لئے کتاب سے نظر اٹھا کر رابیل کو دیکھا
"یار شاہ زیب آنے والے ہیں اگر انھوں نے مجھے اپنے کمرے میں دیکھ لیا تو بہت غصہ ہوں گے "
"یار رابیل بندے کو تمہارے جتنا ڈر پوک بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ گھر والے تم لوگوں کی شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور تم ہو کے ان کے سامنے جانے سے بھی ڈرتی ہو "
"زری پلیز ۔۔۔" رابیل ابھی بولنے ہی لگی جب مزے سے چلتی ہوئی عروا کمرے میں داخل ہوئی ۔ ہینڈ بیگ بڑے سٹائل سے اس نے بیڈ پر رکھا ۔
"ہیلو لیڈیز " عروا مسکرا کر بولی
"ہائے " زری نے منہ بنا کر کہا اور دوبارہ نظر کتاب پر جما لی ۔ اسے عروا سے سخت قسم کی چڑ تھی یہ بات عروا بھی جانتی تھی ۔ بلکہ سب ہی جانتے تھے کیوں کے وہ ٹھیک سے کبھی بھی عروا سے بات نہیں کرتی تھی ۔۔
لیکن بیچاری عروا ۔ اسے تو ٹھیک سے بات کرنی ہی پڑتی تھی کیوں کے وہ اس کے تایا کی بیٹی تھی ۔۔ نا۔۔ نا بلکل نہیں ۔۔ کیوں کہ وہ شاہ زیب کی بہن تھی ۔
"کیسی ہو عروا" رابیل نے زری کے رویے کو چھپانے کے لئے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا
"یہ کیا ہے ۔۔ یہ تو شاہ زیب کی شرٹس لگ رہی ہیں " رابیل کے سوال کا جواب دیے بغیر عروا نے سوال کر دیا
"ہاں وہ میں زری سے کہ رہی تھی ان کے روم میں رکھ آئے۔۔ شاہ زیب آنے والے ہیں اس لئے " رابیل بات کر رہی تھی کی اچانک عروا نے اس کے ہاتھ سے شرٹس تقریباً کھینچنے والے انداز میں  پکڑیں
"دو میں رکھ آتی ہوں ۔۔ اور کیا کہا شاہ زیب آنے والے ہیں " کہتے ہوئے عروا ڈریسنگ ٹیبل کے آگے جا کر کھڑی ہوئی اور بال ٹھیک کرنے لگی ۔۔ وائٹ پینٹ ، بےبی پنک گھٹنوں سے تھوڑا اوپر تک شرٹ، سٹولر مفلر کی طرح لئے ہوئے ۔۔ بالوں کی ہائی پونی بنائے۔۔وہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔ ہم یہ کہ کر کے  مرد ہمیں دیکھتے ہیں ہمیں چھیڑتے ہیں ۔۔سوسائٹی میں لوگوں کی ہمدردیاں لیتے ہیں لیکن اگر سوچا جاۓ تو کیا بناؤ سنگار کر کے باہر نکلنے پر مرد آپ کو نہیں دیکھیں گے۔ کیا آپ باہر اس انداز سے نکلو گی تو وہ آپ کو دیکھ بغیر رہ پائیں گے۔ ہمارا مقصد  بھلے کسی کی اٹریکشن لینے  کا نا ہو لیکن ہم خود کو دیکھنے پر کسی کو روک بھی تو نہیں سکتے نا ۔ صرف تھوڑی سی ، تھوڑی سی کوشش درکار ہے اس بات کو سمجھنے کے لئے۔۔ شیشہ دیکھ کر وہ باہر نکل گئی ۔۔ زری کتاب سے منہ اٹھاۓ اسے غور سے دیکھ رہی تھی رابیل کے بھی تاثرات الگ نہیں تھے وہ بھی ہکی بکی عروا کو جاتے دیکھتی رہی ۔۔
"ڈرامہ " زری نے سر جھٹک کر کتاب پر دھیان دیا ۔۔رابیل تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی
باہر نکلتے ہی وہ ہال سے گزر رہی تھی جب اسکی نظر ہال کی کھڑکی پر پڑی جس میں اس کا عکس نمایاں تھا ۔۔
بلیک ٹرائوزر کے اوپر وائٹ کرتا جس کا گلا بے سٹائل کا بنا تھا اور اس کی کناری پر کالے موتی لگے تھے ۔۔ گلے میں بلیک اور وائٹ ڈائی ہوا دوبٹہ ، بالوں کا ڈھیلا ڈالا جوڑا جس میں سے چند لٹیں نکل کر اسکے چہرے پر پڑ رہی تھیں ۔۔ گھر کے وہ عام سے حلیے میں بھی خوبصورت لگ رہی تھی نا جانے کیوں پھر بھی آج اسنے اپنا موازنا عروا سے کیا ۔۔اور اسے وہ ہر لحاظ سے بہتر لگی ۔  لیکن بہتر رابیل کو ہی لگی تھی ۔۔۔۔
________________
شرٹس الماری میں رکھ کر عروا شاہ زیب کے بیڈ پر بیٹھی ۔ اسکا کمرہ بہت نفیس تھا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر ۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کے وہ اپنا کمرہ ان لاک کر کے جاۓ اور آج عروا کو اسکا کمرہ ان لاک مل گیا تھا ۔ وہ ہر ایک چیز غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔ اب بیڈ پر بیٹھے وہ شاہ زیب کی فوٹو دیکھ رہی تھی جو بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی تھی۔۔
اچانک کمرے میں کوئی داخل ہوا عروا نے دروازے کی طرف دیکھا وہ شاہ زیب ہی تھا ۔۔ پینٹ شرٹ پہنے کوٹ بازو پر ڈالے وہ یقیناً آفس سے ہی آیا تھا ۔ عروا کو اپنے کمرے میں دیکھ کر وہ ٹھٹکا
"تم یہاں کیا کر رہی ہو " شاہ زیب کے ماتھے پر بل پڑے
"وہ شرٹس رکھنے آئی تھی تو بس آپ کا کمرہ دیکھنے لگ گئی "عروا کھڑے ہوتے ہوئے بولی
"دیکھ لیا " شاہ زیب نے تنے اسباب سے پوچھا
"جی تقریباً " عروا مسکرا کر بولی
"سو گیٹ آوٹ " شاہ زیب نے کوٹ بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا
"جی " عروا خیرانگی سے بولی
"جس پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھ کر تم بے حیائی سیکھ چکی ہو اس پرائیویٹ یونیورسٹی نے تمھیں گیٹ آوٹ کا مطلب بھی نہیں بتایا " شاہ زیب بغیر لحاظ کیے بولا
"کیا مطلب ہے تمہارا "
"مطلب یہ کے قصور یونیورسٹی کا نہیں ہے قصور تمہارا ہے ۔ یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے وہ ہمیں تعلیم سکھاتا ہے لیکن تم جیسے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں جو ماڈرن ڈریسنگ کر کے خود کو تعلیم یافتہ سمجھ لیتے ہیں ۔ علم حیا سکھاتا ہے بے حیائی نہیں۔۔" شاہ زیب نے ایک طنزیہ نظر سے عروا کو دیکھا
"اب جاؤ " شاہ زیب نے اسکا بازو پکڑ کر اسے دروازے کی طرف کیا جب اچانک رابیل ساجدہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہیں رک گئی  ۔۔ ساجدہ نے چاۓ کی ٹرولی تھام رکھی تھی وہ دونوں وہیں دروازے پر رک گئیں ۔۔ عروا نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے جلدی سے منہ پر  مسکراہٹ لائی ۔۔کیوں کے جب وہ دونوں آ رہی تھیں تب تک رابیل کا بازو شاہ زیب چھوڑ چکا تھا اس لئے وہ نہیں جانتی تھیں کے عروا نے شاہ زیب سے کیا عزت افزائی کروائی تھی
"چاۓ " رابیل نے ٹرولی کی طرف اشارہ کیا
"نہیں میں چلتی ہوں " عروا کمرے سے نکل گئی ۔۔
_____________________
دن گزرتے جا رہے تھے ۔ سب کو انتظار تھا کب اماں جان شاہ زیب سے ہاں کی خوش خبری لے کر سنائیں گیں ۔۔ لیکن شاہ زیب نا جانے کن چکروں میں تھا کبھی دو دو دن باہر رہتا تو کبھی گھر آ کر کمرے میں بند رہتا ۔ ایک مہینہ ہونے کو تھا اسکی یہ ہی روٹین تھی ۔ رابیل کو نا چاہتے ہوئے بھی اس کے جواب کا انتظار تھا ۔۔نا جانے کیوں اسے لگتا تھا شاہ زیب اسے چھوڑ کر عروا سے شادی کرے گا کیوں کے عروا کے ساتھ اس نے کبھی شاہ زیب کو روڈ ہوتے نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن نہیں عروا کے ساتھ تو اس نے کبھی شاہ زیب کو زیادہ  بولتے بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔ اکیلی بیٹھ کر وہ اب اکثر یہ ہی سوچتی رہتی تھی ۔۔ شاہ زیب کو گھر نا آئے ہوئے ہفتہ ہونے کو تھا ۔ جنید صاحب اب اکثر اس کی طرف سے پریشان رہتے تھے ۔۔  وہ یوں ہی چھت پر ٹیرس پر کھڑے نیچے  گارڈن  کی  طرف دیکھ رہی تھی ۔۔اکیلے سوچنے کے لئے اپنے ساتھ وقت گزرانے کے لئے وہ ٹیرس پر آ جاتی تھی ۔۔ شاہ زیب کی گاڑی کا ہارن بجا ۔۔ گاڑی اندر لا کر کھڑی کر کے وہ باہر نکلا اندھیرے میں اسکا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔ لیکن شاہ زیب تیزی سے گھر میں داخل ہوا ۔۔ رابیل نیچے آئی اور وہ دادی جان کے کمرے میں جا رہا تھا ۔۔رابیل اسکی کمر دیکھ پائی وہ کمرے میں چلا گیا ۔۔
____________________
"میرا بیٹا کدھر تھا اتنے دن " دادی جان نے شاہ زیب کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسکا ماتھا چوما ۔
"دادی جان میں آپ سے ضروری بات کرنے آیا ہوں " شاہ زیب نے انکو دیکھ کر کہا
"بولو نا میری جان "
"میں رابیل سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں " شاہ زیب نے سپاٹ لہجے سے بولا جیسے اسکی آنکھیں اسکے چہرے کے تاثرات اسکے لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھے ۔ لیکن یہ الفاظ دادی جان کے  چہرے پر مسکان لے آئے تھے
"میری جان آج تم نے مجھے بہت خوش کر دیا ہے " شاہ زیب کو دیکھ کر وہ مسکرا کر بولیں ۔۔ شاہ زیب نے انکے ہاتھ خلوص اور محبت سے چومے ۔۔
"شب بخیر " کہ کر وہ چلا گیا
___________________
یہ صبح رابیل کے لئے اتنی خوش گوار ہو گی وہ  نہیں جانتی تھی ۔ اٹھتے ہی وہ فریش ہو کر باہر آ رہی تھی جب زری اسے مل گئی جو بھاگتی ہوئی کمرے میں ہی آ رہی تھی ۔۔اسے زری سے خبر ملی تھی کے شاہ زیب نے ہاں کر دی اور ان لوگوں کا رشتہ پکا ہو گیا ہے اور ساتھ ساتھ زری اور عدیل کا بھی ۔۔ عدیل کی طرف سے ہاں سن کر زری بہت خوش تھی ۔۔ زری نے ہی اسے بتایا کے ایک ہفتے تک شادی کی تاریخ پکی ہو چکی ہے ۔۔ مہندی سے ایک دن پہلے نکاح تھا اور زری اور عدیل کا بھی نکاح اسی روز تھا ۔ لیکن ان کی رخصتی ایک سال بعد ہوگی۔ سب کچھ جتنا جلدی ہوا تھا اتنی ہی تیزی سے زری نے پکا خبری بنتے ہوئے رابیل کو بتایا تھا  ۔۔رابیل کا دل کرتا تو وہ  خوشی سے پتا نہیں کیا کر جاتی ۔۔ خود پر قابو پاتے ہوئے وہ ناشتے کی ٹیبل پر گئی ۔۔سب نے باری باری اسے مل کر مبارک باد دی ۔۔ ناشتہ کر کے وہ کمرے میں آئی اور آن لائن شاپنگ کرنے لگی ۔
جب کسی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دھڑام سے دروازہ بند کیا رابیل نے مڑ کر دیکھا وہ عروا تھی ۔۔ شدید غصے میں ۔
"کیا کہا ہے تم نے شاہ زیب کو میرے بارے میں "
"کیا ۔۔" رابیل نا سمجھی سے بولی
"مطلب یہ کے میں جانتی ہوں شاہ زیب کو تم نے میرے بارے میں بڑکایا ہے تبھی اس نے مجھے چھوڑ کر تم سے شادی کرنے کے لئے ہاں کی ہے "
"کیا بول رہی ہو تم ہوش میں تو ہو ۔ شاہ زیب کو میں کیوں بولوں گی کچھ بھی "
"تم جتنی معصوم دکھتی ہو نا اتنی ہو نہیں ۔۔ یہ معصومیت دکھا کر تم نے شاہ زیب کو پھسایا ہے نا تو دیکھنا میں اسے تم سے چھین کر رہوں گی "
" اوہ سٹار پلس کی ہیروئن۔۔ کیا ایشو ہے تمھیں رابیل سے ہاں۔ادھر مجھ سے بات کرو یارا تم لوگوں کی بھی سمجھ نہیں آتی جس کا آپ کو پتا ہو کے بندہ شریف ہے چپ کر کے سب سن لے گا اس پر ہی کیوں غصہ نکالتے ہو ۔۔  " زری اندر آتے ہوئے بولی
"تم بیچ میں مت آؤ  "
"اوہ میڈم آرام سے تم میری ہونے والی بھابی پر غصہ نہیں کر سکتی اور دیکھو عروا میں نہیں جانتی تم بھائی کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہو لیکن ایک بات جو حقیقت ہے مان لو بھائی نے رابیل کو پسند کر لیا ہے ۔۔ اب تم دور رہو ان سے " زری بغیر لحاظ کیے بولی
"دیکھ لوں گی "۔۔ عروا سر جھٹک کر چلی گئی ۔۔
_________________
"رابیل ۔۔ رابیل " رابیل اپنی کتابیں پیک کر رہی تھی جب زری آوازیں دیتی ہوئی آئی
"زری پاس آ کر بات کیا کرو نا ۔۔ کتنی شور کرتی ہو تم "
"اچھا جی۔۔ مجھ سے تمہاری طرح منہ میں نہیں بولا جاتا۔ شاہ زیب بھائی کے سامنے تو بولتی ہی بند ہو جاتی ہے تمہاری پتا نہیں شادی کے بعد کیا بنے گا "
"تم فکر نا کرو ۔ مجھے تو اپنے بھائی کی فکر ہو رہی ہے کتنی باتونی عورت پلے پڑنے والی ہے اس کے "ہاتھ میں پکڑی کتابیں اس نے ریک پر رکھتے ہوئے کہا
"ہی ۔۔ہی ۔۔(مصنوعی ہنسی رابیل کو چڑانے کے لئے ) "
"اچھا بولو اب کیا کام ہے "رابیل ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولی
"نیچے شاہ زیب بھائی تمہارا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔ رنگ کا ماپ دینا ہے اور نکاح کا ڈریس لانا ہے " زری نے اسے بتایا اور رابیل کو لگا کسی نے اسے کے ٹو سر کرنے کو کہ دیا ہو
"شاہ زیب کے ساتھ اور شاپنگ ۔۔ کبھی بھی نہیں زری تم بھی چلو نا "رابیل نے ہاتھ جوڑے
"نا " زری نے ہنسی دبا کر گردن نا میں ہلائی
"زری پلیز " رابیل نے التجا کی زری نے زور دار قہقہ لگایا
"میڈم رابیل ۔۔آپ کو لگتا ہے دو دن بعد آپ کا جس سے نکاح ہے اس کے ساتھ آپ کو کوئی شاپنگ پر جانے دے گا وہ بھی اکیلے ۔۔ ہاہا ۔۔ میں بھی ساتھ جا رہی ہوں۔ جلدی سے  تیار ہو جاؤ" زری کی بات پر رابیل نے مکا بنا کر اسکے کندھے پر مارا ۔۔
جب سے انکا رشتہ ہوا تھا ۔ رابیل کا شاہ زیب سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ رابیل زیادہ تر کمرے میں رہتی تھی ۔ کھانا شاہ زیب یاں تو  کمرے میں منگوا لیتا تھا  یاں گھر سے باہر ہی کھاتا تھا ۔۔ آج اتنے دنوں بعد وہ شاہ زیب کو دیکھنے والی تھی ۔۔
زری کے ساتھ وہ باہر  گئی ۔۔ شاہ زیب کار کے پاس کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا ۔ رابیل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ کالی شلوار کمیز کے نیچے کالے جوتے ۔۔ کلاہی پر گھڑی ۔۔ آنکھوں کو سن گلاسز سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن اسکا رنگ آگے سے پھیکا پھیکا ہوا تھا ۔ مسکراہٹ چہرے پر نہیں تھی ۔آگے بھی اتنی خاص نہیں ہوتی تھی لیکن آج وہ کچھ بیزار لگ رہا تھا ۔ شیو آگے سے کافی زیادہ ہو گئی تھی ۔۔ اسے دیکھتے ہوئے رابیل اس کے پاس آئی ۔۔ شاہ زیب نے انکو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ پورا راستہ شاہ زیب نے کوئی بات نہیں کی تھی ۔ جاتے اور آتے ہوئے اس نے جیسے چپ کا روزہ رکھا تھا ۔ شاہ زیب کی حالت نے رابیل کے اندر سو سوال پیدا کر دیے تھے جو وہ جانتی تھی کے چاہ کر بھی شاہ زیب سے نہیں پوچھ سکتی اور پوچھنے پر بھی کون سا اسنے بتا دینا تھا
_________________
گھر میں سب شادی کی تیاریوں میں لگے تھے ۔ آج رات کو نکاح تھا ۔ ہر طرف دوڑ لگی تھی ۔ کوئی ڈیکوریشن کی طرف تھا تو کوئی مہمانوں کی لسٹ بنانے میں مصروف۔۔ رابیل  ساجدہ کو ساتھ لئے سب کو چاۓ دے رہی تھی ۔ ساجدہ ٹرولی گھسیٹتے ہوئے رابیل کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔ ہال میں  سائیڈ پر صوفے لگے تھے  جہاں جنید صاحب اور ان کے ساتھ عدیل بیٹھا تھا وہ دونوں مہمانوں کی لسٹ بنا رہے تھے ۔ رابیل انکے پاس رکی ساجدہ نے اسے چاۓ کا کپ پکڑایا۔ رابیل نے کپ پکڑ کر جنید صاحب کو دیا اور پھر دوسرا کپ ساجدہ سے لے کر عدیل کو دیا ۔
اب وہ عامر صاحب کی طرف گئی جو ڈیکوریشن دیکھ رہے تھے انہیں دے کر وہ شاہ زیب کی طرف گئی ۔۔ بلیو کرتا ، سفید شلوار ، کف کوہنیوں تک فولڈ کیے وہ رف سے حلیے میں تھا ۔ رابیل نے بلیک کیپری کے اوپر پنک کرتا پہنا ہوا تھا دوبٹے کا سکارف کیا ہوا تھا ۔ باقی گھر کی عورتیں شاپنگ پر گئی ہوئی تھیں اس لئے رابیل کو ہی سب کرنا پڑھ رہا تھا ۔جھجھک کے ساتھ ہی وہ شاہ زیب تک پوھنچی . ۔ وہ فون پر بات کر رہا تھا رابیل کو اپنے پاس کھڑا دیکھ کر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا ۔ رابیل نے چاۓ کا کپ پکڑایا ۔ شاہ زیب نے ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہا ۔ جو اس بات کی۔ علامت تھا کے چاۓ لے جاؤ مجھے نہیں پینی ۔۔ وہ ڈھیٹ ہو گئی ۔ اور کپ دوبارہ ساجدہ کو پکڑا دیا ۔
عجیب انسان ہے ۔ کب اس کے اندر کیا چل رہا ہوتا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا ۔۔ کیا بنے گا میرا ۔۔ رابیل نے سر جھٹکا ۔۔
______________________
باہر لان میں اسٹیج بنایا گیا تھا ۔۔ ہر طرف  وائٹ پھول لگاۓ گئے تھے ۔۔ پورا تھیم وائٹ تھا ۔ ہر طرف مہمان گھوم پھر رہے تھے ۔ صرف نکاح تھا اس لئے فیملی کے لوگ ہی تھے کیوں کے اگلے دن سے شادی کے فنکشن شرو ع ہو رہے تھے ۔ اس لئے رش کم تھا ۔ اسٹیج پر عدیل اور شاہ زیب بیٹھے تھے ۔
دونوں نے سفید رنگ کی شلوار کمیز پہنی تھی ۔۔ اور بیٹھے اپنی ہونے والی بیگموں کا انتظار کر رہے تھے نکاح ہو چکا تھا اب بس دلہنوں کو لانے کی دیری تھی ۔ عدیل کی نظریں زری کو ڈھونڈ رہی تھیں کے وہ کب آئے گی جب کے شاہ زیب بار بار ایک ہی سوال کر رہا تھا
"عدیل یہ سب کب ختم ہوگا یار "
"یار تھوڑی دیر بس ۔۔۔" عدیل بولتے بولتے یک دم کھڑا ہو گیا اسکی نظریں زری پر تھیں ۔ زری اور رابیل چلتی ہوئیں اسٹیج کے پاس آ رہی تھیں۔ دونوں کی دوستوں نے انہیں سائیڈوں سے گھیر رکھا تھا ۔ شاہ زیب بھی عدیل کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا ۔
دونوں نے ایک جیسی ڈریسنگ کی تھی ۔ وائٹ شرارہ جو بلکل سادہ تھا اسکی کمیز گھٹنے تک آتی تھی ۔ کلاہیوں  میں گجرے۔۔
میک اپ براۓ نام ۔۔ وہ دونوں شہزادیاں لگ رہی تھیں ۔۔
اسٹیج پر آ کر رابیل اور شاہ زیب ایک ساتھ بیٹھے اور زری اور عدیل ایک ساتھ ۔۔
سب کی نظریں ان خوبصورت جوڑوں پر تھیں ۔۔
رابیل کے ہاتھ کانمپ رہے تھے ۔ یک دم اسے نکاح کا لمحہ یاد آیا ۔ آج خود کو شاہ زیب کے نام کرتے ہوئے ایک پل کے لئے وہ  کانمپ اٹھی تھی خود کو ایسے انسان کے نام کرنا جو ہمیشہ اس سے بے زار رہتا تھا شادی کے بعد نا جانے وہ اس سے کیا سلوک کرے گا ۔ وہ اس سے اتنا تنگ رہتا تھا پھر شادی کیوں کر رہا تھا یہ سوچیں اس کے دماغ میں آ رہی تھیں کے سگنیچر کرتے ہوئے اسکے ہاتھ کانمپ اٹھے زری نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی ۔ تو اس نے سگنیچر کیے ۔۔۔ چند رسموں کے بعد فنکشن ختم ہوا تو شاہ زیب اٹھ کر چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد رابیل اور زری بھی اپنے کمرے میں آ گئیں ۔ زری بالوں سے پنز اتار رہی تھی جو پارلر والی نے لگائی تھیں ۔ جب اسکا فون بجا ۔ ہاتھ بڑھا کر اسنے ڈریسنگ ٹیبل پر سے فون اٹھایا ۔ عدیل کا میسج تھا
"نکاح مبارک ہو مسز عدیل " میسج پڑھ کر زری زیرِ لب مسکرائی
"خیر مبارک تمھیں بھی۔۔ ٹینڈے (عدیل کا نک نیم جو ابھی ابھی زری نے رکھا تھا )"
"یہ ٹینڈے کیا ہے " پھر میسج آیا
"تمہارا نک نیم "
"یار مجھے لگا تھا شادی کے بعد تم بدل جاؤ گی اور تھوڑی سی تمیز کر لو گی مگر نہیں وہ زری ہی کیا جو بدل جاۓ "
"اس لحاظ سے تو آپ بڑے خوش قسمت ہیں آپ کو بڑی با وفا لڑکی ملی ہے کبھی نا بدلنے والی " وہ مسکرائی
"ہائے تمہارا یہ مجھے لا جواب کرنا "
"ہیلو سنا تو ہے کے نکاح کے بولوں میں طاقت ہوتی ہے لیکن اتنی جلدی تم میں تبدیلی آ جاۓ گی میں نے سوچا نہیں تھا "
"ہاہا۔۔ کزن کا رشتہ بہت الگ ہوتا ہے اب آپ میری بیوی ہیں میڈم "
"اچھا اب سر نا کھاؤ ۔۔ چینج کرنے دو تھکا مارا آج کے فنکشن نے " میسج کر کے وہ جیولری اتارنے لگی 
"حد ہے " عدیل کا میسج آیا وہ مسکرائی ۔۔ لیکن جواب نا دیا
_________________
شاہ زیب کے کہنے پر شادی میں زیادہ ہلا گلا نہیں ہوا تھا ۔ سادگی سے شادی ہوئی تھی ۔ جس پر زری میڈم نے تو اچھا خاصا اعتراض کیا تھا مگر شاہ زیب کی ایک گوری نے اسے چپ لگوا دیا تھا ۔ آج رخصتی ہو چکی تھی

بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅ Waar verhalen tot leven komen. Ontdek het nu