چھٹی قسط

3.3K 141 43
                                    

اپسرا اس کے ساتھ کچن میں تھی ۔ رابیل نے اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کھانا بنایا پھر اپنی اور اپسرا کی چاۓ ٹرے میں رکھ کر اپسرا کو ساتھ لئے ہال میں آگئی. ہال کے ایک سائیڈ پر چاروں صوفے آمنے سامنے لگے تھے ۔ درمیان میں ٹیبل تھا ۔ رابیل نے ٹیبل پر ٹرے رکھی اپسرا سامنے صوفے پر بیٹھ گئی  جب اپسرا کی نظر گھڑی پر پڑھی

"اوہ نماز کا وقت ہو گیا ہے باتوں باتوں میں ٹائم گزر گیا پتا ہی نہیں چلا ۔ مجھے جاۓ نماز کا بتا دو کہاں ہے " اپسرا کھڑی ہو گئی
"چاۓ تو پی لو پھر پڑھ لینا " رابیل نے چاۓ کی طرف اشارہ کیا
"نہیں پہلے ہی دیر ہو گئی ہے " اپسرا نے کہا
"چاۓ ٹھنڈی ہو جاۓ گی "
"چاۓ گرم کر لیں گے نا نماز قضا نہیں کر سکتی " اپسرا کی بات سن کر رابیل اٹھی اور اپسرا کو جاۓ نماز لا کر دیا ۔
وہ پہلے ہی عبایا پہنے ہوئے تھی سکارف بھی کیا ہوا تھا جاۓ نماز بچھا کر پسرا نماز پڑھنے لگ گئی ۔ رابیل دیکھ رہی تھی وہ بہت تسلی سے نماز پڑھ رہی تھی۔ جیسے نا جانے اسے نماز پڑھتے کتنا سکون مل رہا تھا اور وہ اسے جلد  ختم نہیں کرنا چاہتی تھی رابیل ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی   ۔  نماز مکمل کر کے اپسرا نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ تو رابیل اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی ۔۔ جب وہ واپس آئی۔۔تو جاۓ نماز اندر رکھ  کے اپسرا   مسکراتی ہوئی صوفے پر آ کر بیٹھی

"تم کتنی تسلی سے نماز پڑھتی ہو نا " رابیل کہے بغیر رہ نا پائی
"ہاں ۔ میں تو ایسے ہی پڑھتی ہوں " اپسرا نے چاۓ کا کپ پکڑا جو رابیل اپسرا جب دعا مانگ رہی تھی تو  دوبارہ بنا لائی تھی
"ویسے تم مجھے دیکھ رہی تھی مجھے نہیں پتا تھا " چاۓ کا گھونٹ لے کر اپسرا نے کہا
"اچھا مجھے لگا تھا تمھیں معلوم ہے کے میں تمھیں دیکھ رہی ہوں تم نے اس لئے آرام آرام سے نماز مکمل کی " رابیل معصومیت سے بولی جس پر اپسرا یک دم کھل کر مسکرائی
رابیل نے نوٹ کیا تھا وہ کھل کر مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لیتی تھی ۔
"یہ ہی تو بات ہے ہم آج کے مسلمانوں کی رابیل ۔۔(اس نے چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھا۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھی تھیں ) ہم جب جانتے ہوں کے کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم بڑے آرام آرام سے اور سوار سوار کر نماز پڑھتے ہیں لیکن تنہائی میں جب ہم نماز پڑھیں تو جلد بازی میں پڑھتے ہیں ۔ کیوں ؟ " اپسرا بول رہی تھی اور  رابیل خاموشی سے اسے سن رہی تھی
"جب کے ہمیں چاہیے کے ہم جب بھی نماز پڑھیں تو یہ تصور کریں کے ہم اللہ‎ کو دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے سامنے  ہے اور اگر ہم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔۔ یہ بات تو ہمیں حدیث میں بھی بتائی گئی ہے "تم اللہ‎ کی عبادت اس طرح کرو کے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے " تو اب بتاؤ میں آرام سے ، تسلی سے نماز کیوں نا پڑھوں۔  " وہ پل بھر کو رکی
"ہم نے اس دنیا کو نہیں اللہ‎ تعالیٰ کو جواب دہ ہونا ہے رابیل  ۔ اس دنیا کی نظر میں اچھا اور نیک بننے کی کوشش میں جب تک لگے رہو گے سکون حاصل نہیں کر پاؤ گے اللہ‎ تعالیٰ کی نظر میں اچھا بنو ۔ جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے اور کسی کے دل میں کیا ہے وہ خوب جانتا ہے اس کے سامنے کوئی دکھاوا نہیں کر سکتا وہ ہر شے کا جاننے والا ہے " بات مکمل کر کے اس نے پھر چاۓ کا کپ اٹھایا
"تم کتنی پیاری باتیں کرتی ہو اپسرا ۔۔ " رابیل نے مسکرا کر کہا
"اچھا اچھا بس بس ۔۔" وہ مسکرائی
"تم سب نمازیں پڑھتی ہو " رابیل نے بچوں کی طرح سوال کیا عجیب سا سکون تھا اپسرا کے چہرے پر ۔
"چھوڑ کیسے سکتے ہیں یہ تو فرض ہے ، کوشش کرتی ہوں سب پڑھوں " اپسرا نے بتایا
"ایک بات کہوں رابیل "
"جی "
" رابیل اپنی پریشانیاں اللہ‎ تعالیٰ سے شیر کیا کرو ہر بات اللہ‎ تعالیٰ کو بتایا کرو ۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے  بس وہ ہم سے سننا چاہتا ہے۔ لوگوں سے اپنے مسئلے شیئر کرو گی تو وہ   حل بتائیں گے اللہ‎ تعالیٰ کو بتاؤ گی تو وہ خود کوئی ایسا جائز  راستہ نکال دے  گا کے تمہارے مسئلے خود ہی  حل  ہو جائیں گے ۔ " کہ کر وہ اٹھی
"مجھے اب گھر جانا ہے اپنا خیال رکھنا " اپسرا رابیل کے گلے لگی
"تم آتی رہنا پلیز مجھے بہت اچھا لگا تم سے مل کر " اپسرا کو خود سے الگ کرتے ہوئے وہ بولی
" تم بھی آنا اور کل رات کا ڈنر تمہارا میرے گھر ہے "
"کوئی اور ہوتا تو میں کہتی اوہ اس تکلف کی کیا ضرورت ہے لیکن تم سے نہیں کہوں گی کیوں کے تم سے ملنے کا تو  مجھے بس بہانہ چاہیے " رابیل ہنس کر بولی
"ہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے اپنا خیال رکھنا فی امان اللہ‎ "
"اللہ‎ حافظ " رابیل نے کہا اور اپسرا کے جانے کے بعد دروازہ لاک کر دیا ۔۔
وہ اپنے کمرے میں آئی اب تک اپسرا  کی باتیں اسے یاد آ رہی تھیں کتنا سکون تھا اس کے چہرے پر ، اسکی باتیں ، اسکا لہجہ سب کچھ ۔۔ اپنی سوچوں میں گم وہ بیٹھی تھی جب عصر کی اذان ہونے لگی وہ نماز  کی نیت سے اٹھی ۔ وضو کر کے وہ نماز پڑھنے لگی
نماز پڑھ کر کے  دعا کے  لئے ہاتھ اٹھاۓ ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کیسے کیا بات شرو ع کرے  کیسے کرے  ۔
"اللہ‎ میں نہیں جانتی آپ سے کیا کہوں کیسے کہوں ۔ میرے دل میں کیا ہے آپ تو جانتے ہیں نا ۔ مجھے معلوم نہیں ہے شاہ زیب جو میرا محرم ہے مجھ سے اتنا اوزار کیوں رہتا ہے کیوں مجھ سے چڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھے پسند نہیں کرتا ،نفرت کرتا ہے مجھ سے ۔ اسے مجھ سے اگر کوئی شکایت ہے تو بول کیوں نہیں دیتا ۔اگر مجھ سے شادی کر کے خوش نہیں تو کی ہی کیوں مجھے کچھ بتاتا کیوں نہیں۔اس کی خاطر میں نے اپنا گھر چھوڑا اور ایک وقت تھا کے میں سب کی نظر میں بری اور خود غرض بھی بنی ۔ مگر اور کیا کرتی ادھر رہ کر سب کو پریشان کرتی اس رشتے کی خرابی کا اثر زری اور عدیل کے رشتے پر بھی پڑھ سکتا تھا ۔  یا اللہ‎ مجھے اس کشمکش سے نکالیں میں کسی کو کچھ نہیں بتا سکتی میں کسی کو ٹینشن نہیں دے سکتی پلیز مجھے سکون نصیب کریں ۔ ۔ امین " کہ کر وہ جاۓ نماز اٹھا کر اٹھی
________________
"عدیل کل مجھے کالج سے چھٹی ہے تم مجھے رابیل کے پاس لے جاؤ گے " زری نے عدیل کے آگے چاۓ کا کپ رکھتے ہوئے کہا
"ہاں ٹھیک ہے کل مارننگ میں ریڈی ہو جانا پھر چلیں گے " عدیل نے سنجیدگی سے کہا اور پھر فون میں مگن ہو گیا
"عدیل اس کی جان چھوڑ دو ایک تو پہلے ہی رابیل کی یاد آ رہی ہے اوپر سے تمہارے ڈرامے یہ فون میرے سامنے مت استمعال کیا کرو " زری نے عدیل کا فون کھینچ کر ٹیبل پر رکھا
"اچھا تو بتائیں اب میڈم کو کیا باتیں کرنی ہیں " عدیل زری کو دیکھ کر بولا
"اب ایسے تاڑنے کو بھی نہیں کہا "
"ھف یارا تم کہاں سے سیکھتی ہو ایسے الفاظ " عدیل ہنس کر بولا
"کیسے ؟" زری نے پوچھا
"یہ تاڑنا ۔۔دفع ہو جاؤ وغیرہ وغیرہ "
"منہ بند کرو ۔۔ " زری نے کشن اٹھا کر عدیل کے کندھے پر مارا
"ہیلو ۔۔ یقیناً میں نے آپ کو ڈسٹرب نہیں کیا ہو گا " یک دم عروا کی آواز سن کر زری نے دیکھا وہ ان دونوں کے پاس آ کر رکی
"اگر کر دیا ہو تو ۔۔" زری نے سنجیدگی سے آئی برو اٹھا کر کہا
"تو ۔۔ تم لوگوں نے برا نہیں مانا ہوگا "
"اگر برا لگا ہو تو " زری اسی انداز میں بولی
"تو ایڈجسٹ کر لو اب کزن ہوں اتنا تو حق بنتا ہے نا " وہ مسکرا کر بولتے ہوئے صوفے پر بیٹھی
"ویسے آج کل کچھ زیادہ ہی چکر نہیں لگ رہے تمہارے ادھر "زری نے پوچھا
"وہ تو میں پہلے بھی آتی تھی "
"ہاں لیکن اب شاہ زیب بھائی نہیں ہے  نا " زری نے مسکراہٹ دبا کر کہا
"جی نہیں میں یہاں اپنی دادی سے ملنے آتی ہوں " عروا اسی کو دیکھ کر بولی
"ویسے ایک بات کہوں تم ہو بڑی ڈھیٹ مطلب اتنا سناتی ہوں میں تمھیں اور تم پھر منہ اٹھاۓ آ جاتی ہو " زری سپاٹ لہجے میں  بولی
"عدیل دادی امی کہاں ہیں " عروا عدیل سے مخاطب ہوئی
"اپنے کمرے میں ، میں بلاتا ہوں " عدیل اٹھ کر چلا گیا ۔
"دادی کیسی ہیں آپ " دادی جان کو آتا دیکھ کر وہ دادی سے ملی
"میں ٹھیک ہوں تم سناؤ " دادی جان زری کے ساتھ بیٹھ گئیں
"میں بھی ٹھیک ہوں "
"زری جاؤ کافی بنا لاؤ عروا کے لئے " دادی کی بات سن کر زری جلدی سے اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی ۔ مسز عامر ، مسز جنید بھی ہال میں آ کر بیٹھ گئیں
"زری کی رخصتی کب کر رہے ہیں آپ لوگ " مسز جنید کو دیکھ کر عروا نے پوچھا
"جیسے ہی اس کے فائنل  پیپر ہو جائیں گے " مسز جنید نے مسکرا کر کہا
"ہاں آپ کو جلدی کر ہی دینی چاہیے ۔ دیکھیں نا اب اچھا تھوڑی لگتا ہے ہر ٹائم دونوں چھچھوری حرکتیں کرتے رہتے ہیں ۔ "
"مطلب " مسز عامر نے پوچھا
"مطلب ابھی آج میں آئی ہوں تو دونوں ایسے کشن سے لڑ رہے تھے دیکھیں نا لوگ تھوڑی سمجتے ہیں یہ سب عدیل تو لڑکا ہے پر زری کو تو خیال کرنا چاہیے " عروا پیار پیار سے بولی ۔ جس پر مسز عامر ، مسز جنید خاموش رہیں
"بچی ہے سمجھ جاۓ گی ہم جانتے ہیں ہمارے بچے کیسے ہیں " دادی جان نے جواب دیا تو عروا کلس کر رہ گئی
____________________

بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅ Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang