دوسری قسط

2.7K 135 18
                                    


میرے رگ و پے میں سما گیا وہ شخص
میری زندگی میں چھا گیا وہ شخص
میرے دل سے دل ملا گیا وہ شخص
مجھے خوش نصیب بنا گیا وہ شخص
مجھے دے گیا اپنی ہر خوشی
میری آنکھوں سے نیند چرا گیا وہ شخص
جانے کیا بات تھی اس میں ایسی
مجھے محبت کرنا سیکھا گیا وہ شخص
(Copied)
ٹیرس پر کھڑی وہ نیچے صحن پر نظریں جمائے  اپنی سوچوں میں گم تھی ۔۔ ہوا کے تیز جھونکے بار بار اس کے چہرے پر پڑھ رہے تھے لیکن وہ سب سے بےخبر  اپنے خیالوں میں کھوئی تھی ۔ جب سے مسز عامر اس کے کمرے سے ہو کر گئی تھیں تب سے  رابیل ان کی باتوں پر  خود کو یقین دلا رہی تھی ۔ صرف انکی باتیں اس کے دماغ میں تھیں . . . باغیچے کی گھاس پر نظریں مرکوز کیے وہ ماضی میں چلی گئی جب آج صبح مسز عامر اس کی کمرے میں آئی تھیں ۔
"کیا کر رہی ہو رابیل " مسز عامر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں
"کپڑے رکھ رہی تھی پریس کیے تھے " رابیل واردروپ کھولے ہوئے بغیر مڑے بولی
"اچھا مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے چھوڑو یہ سب " مسز عامر صوفے پر بیٹھ گئیں
"امی۔ آپ بولیں میں سن رہی ہوں " رابیل مصروف انداز سے بولی
"رابیل بیٹا تمہاری زندگی کا معاملہ ہے " لہجہ تھوڑا تلخ ہوا تو رابیل واردروپ ببند کر کے ان کی پاس آ کر بیٹھ گئی
"جی اب بولیں "
"دیکھو رابیل اب تم بڑی ہو گئی ہو اور تمہاری سٹڈی بھی کمپلیٹ ہو چکی ہے ۔ ہم نے  سوچا ہے کی تمہاری شادی کر دیں اب مجھے تمہاری شادی کی فکر ہونے لگی ہے " مسز عامر نے پیار بھرے لہجے سے کہا
"امی ابھی مجھے شادی نہیں کرنی " شادی کا سنتے ہی رابیل کے اندر تک ڈر گیا تھا ۔ یہ ڈر شادی کا نہیں بلکہ کسی کو  کھو جانے کا تھا
"کیوں " مسز عامر سپاٹ لہجے میں بولیں
"امی وہ ۔۔وہ ۔۔" رابیل ہاتھ ملنے لگی ۔وہ کنفیوز ہو گئی تھی
"کسی اور کو پسند کرتی ہو " مسز عامر کی بات پر اس نے یک دم نظر اٹھا کر انہیں دیکھا
"نن۔۔نہیں ۔" رابیل نے ٹھنڈی آہ بھری
"تمہارے تایا نے آج ہم سے بات کی ہے تمہارے رشتے کے بارے میں " مسز عامر کی بات پر رابیل کو یقیناً جھٹکا لگا تھا
"کک۔۔ کک ۔۔کیا "
"شاہ زیب تمھیں کیسا لگتا ہے ۔" انھوں نے رابیل کو جواب دئیے بغیر ہی  پوچھا وہ ماں تھیں اور بیٹی کی راۓ لینا چاہتی تھیں اس لئے وہ پوری فرینکلی ہو کر پوچھ  رہی تھیں
وہ کیا کہتی کے شاہ زیب ھی وہ واحد انسان ہے جس کو ہمیشہ اس نے اپنے ساتھ تصور کیا ہے ۔ شاہ زیب ھی وہ انسان ہے جس کے لئے پسند تو شائد بہت چھوٹا لفظ ہے اس نے تو اس سے  محبت کی تھی۔ لیکن وہ خود کے ساتھ بھی اس بات کا اعتراف نہیں کرتی تھی ۔ کیوں ک وہ نا محرم تھا وہ اپنے ساتھ بھی اظہار کرتی تو بھی شائد پھر کبھی اس کے اندر آتا کے اسے شاہ زیب کو بھی بتانا چاہیے۔ وہ شاہ زیب جیسے سڑیل انسان کی سامنے اپنی ذات کا تماشا نہیں بنانا چاہتی تھی ۔
"مم ۔۔ میں کیا کہ سکتی ہوں وہ ۔۔بہت اچھے انسان ہیں امی ۔"رابیل نے نظریں چرائیں 
"تو پھر میں ہاں سمجھوں " مسز عامر نے پوچھا
" امی آپ کی اور ابو کی راۓ ہی میری راۓ ہو گی ۔ جو آپ دونوں کا فیصلہ ہو گا مجھے منظور ہو گا لیکن اگر سپ ہاں کرنا چاہیں تو شاہ زیب کی راۓ ضرور لیجئے گا میں کسی پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتی ۔اگر شاہ زیب کی مرضی ہوئی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں " رابیل نے ماں سے نظریں ملاتے ہوئے کہا ۔۔
"کیسا رہا فنکشن پھر مزہ تو خوب آیا ہوگا نا " زرفشاں اس کی پاس آ کر رکی اور بولی تو رابیل یک دم حال میں لوٹی ۔زری  اب اس سے امرین کی شادی کے فنکشن کی ڈیٹیلز پوچھ رہی تھی ۔ جو کے اسے ابھی یاد آئی تھیں
"بہت یار میں تمھیں کیا بتاؤں " رابیل نے آہ بھری یک دم وہ زری سے مخاطب ہو گئی تھی ۔
"تمھیں پتا ہے زری ۔۔۔۔" وہ بات کرنے ھی لگی جب شاہ زیب کی گاڑی آتی دکھائی دی وہ دونوں بات ادھوری چھوڑ کر  نیچے چلی گئیں ۔ شاہ زیب ہال میں داخل ہوا سب سو چکے تھے ۔زری اور رابیل شاہ زیب کے لئے جاگ رہی تھیں ۔ کیوں کے دادی جان کا آرڈر تھا کے شاہ زیب جب بھی آئے اسے کھانا کھاۓ بغیر نا سونے دیا جاۓ ۔ آخر وہ ٹھہرا دادی جان کا لاڈلا
"شاہ زیب بھائی آپ آ گئے " زری آتے  ہوئے بولی
"کھانا لگاؤں " رابیل نے جلدی سے  پوچھا
وہ بغیر کچھ بولے کمرے کی طرف بھڑا ۔۔
"شاہ زیب بھائی بولیں بھی ۔ آپ جانتے ہیں  میں اور رابی ابھی تک آپ کے لئے ھی جاگ رہے تھے "
"کچھ  نہیں کھانا نا کوئی میرے کمرے میں آئے " وہ سپاٹ لہجے میں  کہ کر کمرے میں چلا گیا ۔
"کیا ہوا ہے انہیں " رابی نے نا سمجھی سے پوچھا کسی کا غصہ اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا ۔ شاہ زیب غصے میں نہیں ٹینشن میں لگ رہا تھا جس کی وجہ سے رابی کو بھی پریشانی ہوئی
"پتا نہیں میں نے تو پہلی بار انہیں اتنے غصے میں دیکھا ہے " زری بھی پریشان ہو گئی
"زری تم سو جاؤ صبح کالج جانا ہے نا "رابیل نے زری کو مخاطب کیا وہ سر اثبات میں ہلا کر چلی گئی
"چاۓ بنا دیتی ہوں شائد فریش ہو جائیں " رابیل سوچ کر کچن کی طرف چلی گئی ۔ 5 منت بعد وہ چاۓ لے کر شاہ زیب کے روم کے باہر کھڑی تھی۔ سب تقریباً سو چکے تھے رات ہو چکی تھی ہر طرف خاموشی اتنی تھی  کے ہوا کا تیز جھونکا بھی گزرتا تو آواز آتی ۔  اس نے دروازہ نوک کیا ۔۔مگر کسی نے دروازہ نا کھولا وہ بار بار نوک کرتی گئی ۔۔ آخری بار نوک کرنے لگی جب دروازہ جھٹ سے کھلا اسنے اپنا آگے بڑا ہوا ہاتھ پیچھے کیا
"کیا پرابلم ہے "ہاتھ میں سیگریٹ لئے وہ اس کے سامنے ھی کھڑا تھا
"آ۔۔۔۔۔آ ۔۔آپ سموکنگ کرتے ہیں " رابیل کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
"کیوں آئی ہو میں نے بولا تھا نا کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا مجھے " وہ غصے سے بولا۔ مگر رابی اسکی آنکھیں پڑھ رہی تھی کے وہ  جاگنے کی وجہ سے لال تھیں لیا وہ رویا تھا . ۔ ہاں لگ رہا تھا کیا وہ سچ میں رویا تھا مگر کیوں کس کے لئے آخر اس جیسے انسان کو کیا ہوا ۔۔رابیل نے اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے کہا 
"چچ۔۔ چاۓ لائی تھی آپ کے لئے "  اور کانمپتے ہاتھوں سے اس نے ٹرے آگے کی ۔۔شاہ زیب نے اٹھا کر  چاۓ نیچے فرش پر پھینکی ۔۔ زمین پر گرتے ھی کپ  ٹوٹ گیا ۔ کپ  کے ٹوٹنے کی آواز پورے ہال میں سنائی دی تھی ۔۔رابیل یک دم سہم گئی ۔
"لو مل گئی تمہاری چاۓ اب جاؤ " کہ کر اس نے جھٹ سے دروازہ بند کر دیا رابیل کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا
عجیب بات ہے اس کے مزاجِ شاہی کی
خفا کسی اور سے ہو آنکھیں مجھے دکھاتا ہے
(Copied)
"میں نے کیا کیا تھا ۔ میرا کیا قصور ہے ۔ موڈ کسی کی وجہ سے اوف ہے غصہ مجھ پر ۔ اب اس وقت میں یہ سب سمبھالوں گی ٹھیک ہے نا کریں مجھ سے پیار سے بات کم از کم تمیز سے تو بات کر سکتے ہیں نا ۔میں نے کون سی بدتیمزی کی ہے کبھی ان سے ۔  ۔" رابیل کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکنے لگے وہ اسی طرح کی ھی تھی کسی کا غصہ اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا ۔کیوں کے وہ خود ٹھنڈے مزاج کی لڑکی تھی ۔ٹرے پکڑے خود قلامی کرتی ہوئی  کچن کی طرف چلی گئی ۔۔
**************
"جنید بھائی ہمارے بچے آپ کے بھی بچے ہیں آپ جو فیصلہ کریں ہمیں منظور ہو گا ۔ابا جی کے جانے کے بعد میں نے آپ کو اور اماں جی کو ہمیشہ انکا مقام  دیا ہے ۔ رابیل آپ ھی کی بیٹی ہے ہماری طرف سے تو ہاں ہے اگر آپ شاہ زیب سے پوچھ لیں تو بہت بہتر ہوگا "عامر صاحب نے اپنے بڑے بھائی سے کہا جو رابیل کا ہاتھ شاہ زیب کے لئے مانگ چکے تھے اور آج عامر صاحب سے جواب لینا چاہ رہے تھے
"شاہ زیب سے میں پوچھ لو گا  بس تمہاری طرف سے ہاں چاہیے تھی " جنید صاحب نے چاۓ کی پیالی ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا
"لیکن میں نی اور نگہت نی کچھ اور بھی سوچا ہے " عامر صاحب نے کہ کر بات شرو ع کی ۔
"بھائی صاحب مجھے اور نگہت کو زرفشاں بہت پسند ہے اگر آپ کو عدیل پسند ہے تو " عامر صاحب نے ایک نظر نگہت  بیگم پر ڈالی انھوں نے بھی سر اثبات میں ہلایا تو عامر صاحب نے بات مکمل کی
"ارے زرفشاں کے لئے عدیل سے اچھا لڑکا ہو ھی نہیں سکتا یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کے گھر کے بچے گھر میں ھی رہیں گے " جنید صاحب نے خوب خوشی کا اظہار کیا
" آپ کیا کہتی ہیں اماں جان " عامر صاحب نے اپنی ماں کی راۓ لینا ضروری سمجھا
"جنید سے میں نے ھی تم سے بات کرنے کا کہا تھا اور اگلی بات تو تم نے خود کر دی میں سہمت ہوں اس فیصلے سے " اماں جان نے رضا مند ہوتے ہوئے بکہا  ۔ ان کے دو بیٹے اور گہرے رشتے میں بندھنے جا رہے تھے انہیں اور کیا چاہیے تھا
"بہت بہت مبارک ہو سب کو " مسز جنید خوشی سے بولیں
"آپ کو بھی بھابی "مسز عامر  اٹھ کر مسز جنید  کو گلے ملیں ۔
"اچھا اب ہم آفس چلتے ہیں شاہ زیب نے آج نہیں جانا اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔ اور آپ میں سے کوئی شاہ زیب سے اس بارے میں بات نہیں کرے گا  امی جان شاہ زیب آپ کی بات نہیں ٹالے گا آپ اس سے خود بات کریں  " جنید صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا
"میں بات کر لوں گی " دادی جان نے کہا
"کیوں کیا ہوا شاہ زیب کو  ۔ " عامر صاحب کو فکر ہونے لگی
"شائد بخار ہے کلثوم(جنید صاحب کی بیگم )  تم ذرا دیکھ لینا اسے  اور ہاں زری  اس سلسلے میں راۓ لے لینا بچوں کی مرضی بہت ضروری ہے ۔ میں شاہ زیب سے خود بھی  بات کر لوں گا " جنید صاحب نے کہا اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر نکل گئے عامر صاحب بھی ان کے پیچھے الوداعی کلمات کہتے ہوئے چلے گئے ۔ اماں جان ، مسز جنید اور مسز عامر نے اپنا ناشتہ مکمل کیا اور پھر  مسز عامر نے  رابیل ، اور زرفشاں کے کمرے کا رخ کیا ۔۔کمرے میں داخل ہوتے ھی ان کو غصہ چڑ گیا
دونوں اب تک سو رہی تھیں
"رابی ،زری اٹھ جاؤ تم دونوں " مسز عامر نے ان کے اوپر سے کمبل اٹھایا
"امی تھوڑی دیر " رابی نے پھر کمبل کھینچا
"اٹھوووو ۔۔ 10 بج گئے ہیں " مسز عامر  نے غصے سے کہا ۔ رابیل جوں کی توں رہی جب کے زری فٹ سے اٹھی
"کیا ۔۔ چچی 10 ہو گئے ۔۔۔میں نے تو کالج جانا تھا آپ نے اٹھایا کیوں نہیں " وہ تیز تیز بولتے ہوئے بیڈ سے اتری
"لو میں آئی تھی تمھیں اٹھانے اور تم نے کہا کے مجھے آج نہیں جانا کالج اس لئے میں باہر چلی گئی " مسز عامر  کی بات پر وہ خیران ہوئی
"کیا ۔۔ میں نے۔ ۔میں نے کب کہا ۔۔ چچی آپ کو پتا ہے میں نے نیند میں  بولا ہو گا آپ مجھے زبردستی اٹھا دیتیں نا ۔۔" زری نے منہ بنایا ۔ زری بڑی پکی نیند سوتی تھی ۔ زری  کے آلارم سے زری کے علاوہ سارا گھر جاگ جاتا تھا مگر زری کو علم تک نہیں ہوتا تھا 
"اچھا اب تو چھٹی ہو گئی تمہاری ۔۔اٹھ جاؤ دونوں اور ناشتہ کر لو " وہ کہتی ہوئیں باہر چلی گئیں ۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں کھانے کی ٹیبل پر تھیں
" زری مجھے تم  سے بہت ضروری بات کرنی ہے رابیل سے تو اسکی ماں بات کر چکی ہے  " اماں جی  ان کے پاس بیٹھے ہوئے بولیں جو دونوں ناشتے میں مگن تھیں
"دادی جان میں بس ابھی بی اے کے بعد نہیں پڑوں گی اس کے علاوہ کوئی بھی بات کر لیں ۔ آپ کے کہنے پر ھی  میں نے بی اے میں بھی ایڈمشن لیا تھا ورنہ میں نے  تو ایف اے ھی کرنا تھا " زری نے منہ بناتے ہوئے کہا جس پر رابی اور اماں جان  نے قہقہ لگایا
"ہاہاہاہا اچھا اگر تمہاری شادی کسی  زیادہ پڑھے لکھے  شخص سے ہو گئی تو " رابی نے اسے چھڑا نے کے لئے کہا
"تو ۔ تو یہ کے پڑھا  لکھا لڑکا مجھ سے شادی ھی کیوں کرے گا ہاہاہا اور میڈم میں بی اے پاس ہوں گی تو گریجویشن کمپلیٹ ہوگا بس میں نے کون سا جاب کرنی ہے جو پڑتی جاؤں میں تم سب کی طرح پاگل نہیں ہوں چھوٹی سی زندگی بھی پڑھ پڑھ کر خراب کر دوں ۔۔ بی اے کم ہے کیا بس بہت ہے اتنا ھی " زری مزے لے لے کر بول رہی تھی ۔ وہ یوں ھی تھی چلبلی سی ۔۔
"اچھا تمہارے لئے رشتہ آیا ہے زری " مسز جنید بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور مسز عامر بھی کچن صاف کر کے آ گئیں ۔۔
"کب "  رابی اور زری نے کہا دادی  کی بات پر دونوں کو جھٹکا لگا ۔۔
"کیا ۔۔۔" دونوں نے ایک ساتھ کہا
"ہاں جی بلکل ۔۔"مسز جنید نے ہنسی دبا کر کہا
"کس کا " زری نے فٹ سے پوچھا
"شرم کرو لڑکی تمہاری شادی کی بات ہو رہی ہے ہمارے وقتوں میں تو لڑکیاں شادی کی بات سن کر اٹھ کر ھی چلی جاتی تھیں " دادی جان نے مذاق کرتے ہوئے زری کے کندھے پر تھپکی لگائی
"ہاں جی اور کمرے میں جا کر خوشی سے دھمال ڈالتی تھیں " زری بھی لحاظ نہیں کرتی تھی
"یار شرم کرو اپنے بونگے انسٹاگرام جوکس دادی جان کو نہیں سناؤ " رابی نے زری کو کوہنی ماری
"عدیل  عامر خان کا  " مسز عامر  نے مسکرا کر کہا مگر زری  کی مسکراہٹ غائب ہو گئی
"نا کریں چچی آپ کا  بیٹا کبھی نہیں مانے گا "زری پریشانی سے بولی
"کیوں نہیں مانے گا میں اس سے بات کر لوں گی "
"کیوں کریں گی آپ بات۔  ہماری پہلے ھی نہیں بنتی بعد میں پتا نہیں کیا ہوگا " زری نے بریڈ واپس پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا اب اسکی بھوک تو اوڑھ چکی تھی
"لو شادی کے بعد ایسے تھوڑی رہیں گے آپ لوگ "
"مگر چچی وہ مجھے بلکل لائک نہیں کرتا " زری بچوں جیسا منہ بنا کر بولی ۔
"یہ غلط فہمی کس نے ڈال دی تمھیں "
"تو کیا کرتا ہے " یک دم وہ سرپرائز ہوئی
"اب میں نے ایسا بھی نہیں کہا "
"چچی آہا پلیز ۔۔" زری کلس کر رہ گئی
"میری شہزادی نکاح کے بولوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ جب کوئی نا محرم محرم بنتا ہے نا تو خود با خود ھی خوبصورت لگنے لگتا ہے " مسز عامر نے پیار سے سمجھایی
"اوہ ویٹ میری  شادی پر  تو میں دلہن بنوں گی ۔۔ یاہو ۔۔۔۔ ہاں میری ہاں سمجھ لیں ۔۔ ہائے کتنا شوق تھا مجھے لہنگا پہننے کا ۔۔ چچی آپ میرا فریش ریڈ لہنگا لانا اوکے ۔۔ جیولری اور پتا نہیں کیا کیا ہوگا ۔۔ مزہ آئے گا نا ۔ ۔۔" زری کو جب یاد آیا کے وہ دلہن بنے گی تو وہ اپنی خوشی چھپا نا پائی اور  ہاں کرتے ہوئے خوشی خوشی اچھلتی اور خود کلامی کرتے ہوئے اکسائٹمینٹ میں اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
"لیں کروا لیں شادی اس کی ۔۔ پتا نہیں کب بڑی ہو گی " مسز جنید نے اپنا ماتھا پکڑتے ہوئے کہا
"ہو جاۓ گی ٹھیک کون سا بیگانے گھر جا رہی ہے "مسز عامر نے انکو بھر پور تسلی دی
اسی وقت  شاہ زیب اپنے کمرے سے نکل کر جانے لگا تھا جب اماں جان نے اسے مخاطب کیا
"شاہ زیب کدھر جا رہے ہو بیٹا "
" دوست سے ملنے جا رہا ہوں " وہ کہ کر نکل گیا
"ایک تو مجال ہے یہ گھڑی دو گھڑی سکون سے ہماری بات سن لے ۔ کیا کروں میں ان بچوں کا " مسز جنید کلس کر رہ گئیں ۔۔
"بھابھی کیوں آپ چھوٹی چھوٹی بات کی فکر کرتی ہیں ۔ بچے اب بچے نہیں رہے " مسز عامر نے انہیں حوصلہ دیا ۔۔ رابی بظاہر تو ناشتہ کر رہی تھی مگر اندر ھی اندر وہ خود کو یہ ھی یقین دلا رہی تھی کے وہ شاہ زیب کی دلہن بننے والی ہے ۔
****************
"عدیل خبردار تم نے اب میری گوٹی ماری ورنہ میں تمھیں مار دوں گی " عدیل ، رابیل ، زری ہال میں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے جب زری نے عدیل سے کہا کیوں کے عدیل اس کی تین گوٹیاں مار چکا تھا
"منہ بند کرو گیم میں سب چلتا ہے " عدیل مست انداز میں کھیل کی طرف توجہہ کیے ہوئے بولا
"یار یاں تو تم لوگ لڑ لو یاں کھیل لو " رابیل آک کر بولی ۔۔
"یہ شاہ زیب کو فوں کرو ذرا دیکھو تو بخار میں صبح سے نکلا ہے کوئی ریسٹ بھی نہیں کی اب شام ہونے والی ہے اب تو آ جائے " مسز جنید نے فکر مندی سے زری کو کہا تب ھی شاہ زیب آ گیا
"شاہ زیب بیٹا کھانا لگاتی ہوں فریش ہو کر آؤ " مسز جنید نے اسے دیکھتے ھی کہا کیوں کے وہ صبح ناشتہ کر کے بھی نہیں گیا تھا
"نہیں امی مجھے بھوک نہیں " کہہ کر وہ کمرے میں گیا اور دو منٹ بعد چینج کر کے پھر باہر جانے لگا جب دادی جان نے اسے آواز دی ۔ رابیل لوڈو کھیلتے ہوئے چھوڑ نگاہوں سے شاہ زیب کو دیکھ رہی تھی
"اب کدھر جا رہے ہو "
" باہر گارڈن میں ہوں " مختصر سا جواب دے کر وہ چلا گیا 
"ارے اس لڑکے کو بخار ہے پر یہ باز نہیں آے گا آرام تو کرتا ھی نہیں ہے نا " دادی جان  پریشانی سے بولیں
"رابی یاں زری تم میں سے کوئی چاۓ بنا کر ساتھ انڈے بوئل کر کے اسے دے کر اؤ اور عدیل تم اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤ  " دادی جان  کہتے ہوئے چلی گئیں
"چلو اٹھو اپنے ہونے والے ان کو چاۓ دے کر آؤ میڈم " زری نے مزے سے  رابی کو کہا عدیل نے خیرانگی سے اسے دیکھا کیوں کہ وہ اس بات سے فل حال نا واقف تھا
"کیا ہونے والے کیا " عدیل نے زری سے پیچھا
"کان صاف کرواؤ جاؤ دادی جان بلا رہی ہیں " زری اپنے انداز میں اسے ٹکری اور وہ اٹھ کر چلا گیا
"تمھیں اللہ‎ ھی پوچھے زری ۔ مجھے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے لئے کہہ رہی ہو " رابیل چڑ کر اٹھی اور کچن کی طرف چلی گئی
"ارے ہاں تھوڑے پیار سے بنانا ۔۔ مرد کے دل تک پوھنچنے کا راستہ اس کے پیٹ سے   ھی جاتا ہے " زری نے گیسا پیٹا ڈائلاگ مارا
"شٹ اپ " رابی کچن سے ھی با آواز بلند بولی ۔۔ دس منت بعد چاۓ اور ایگ لے کر  وہ باہر گارڈن میں گئی ہر سو شام ہونے کو تھی ۔۔ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی  ۔۔ادھر ادھر دیکھا مگر کہیں پر بھی شاہزیب نظر نا آیا وہ واپس جانے ھی لگی جب اس کی نظر دور بیٹھے شاہزیب پر پڑی ۔۔ وہ دیوار کی طرف رخ کیے بیٹھا تھا ۔۔ ٹراوذر شرٹ پہنے وہ عام سے حلیے میں تھا ۔۔ رابی ٹرے سمبھالتی ہوئی اس تک پوھچی۔۔ 
"آپ کا ناشتہ " رابی نے کہا جس پر اس نے مڑ کر رابی کو دیکھا ۔۔ ہاتھ میں اس کے سیگریٹ  تھا ہاں وہ  بیٹھ کر سموکنگ کر رہا تھا
"تمھیں کیا پرابلم ہے کیوں ہر جگہ میرے پیچھے آ جاتی ہو "وہ غصے سے بولا
"وہ امی نے کہا تھا " رابی کانمپتی آواز کے ساتھ بولی
"جاؤ یہاں سے " اسکی شیو بھی اب  بڑھ  رہی  تھی وہ سچ میں بیمار تھا شائد پریشان تھا مگر کیوں نہیں بتاتا تھا وہ کسی کو کچھ۔  وہ پہلے جیسا شاہزیب نہیں لگ رہا تھا
"وہ ۔۔۔"
"جسٹ گو " رابی کچھ کہنے لگی جب شاہزیب کے کہنے پر وہ اپنے آنسو کنٹرول کرتی مڑ گئی ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح اس نے اسے بے عزت کر دیا تھا ۔ وہ ایسے ہی کرتا تھا رابیل کو یاد نہیں تھا کے آخری بار اس انسان سے رابیل سے کب نورملی بات کی تھی ۔
*******************
"کیا ہوا ہے رابیل کیوں روۓ جا رہی ہو "سر گھٹنوں میں دئیے وہ بد پر بیٹھی سسکیاں لے کر رو رہی تھی ۔۔ زری اسے مسلسل چپ کروانے کی کوشش میں تھی
"ہوا کیا ہے یار بتانا ہے کہ میں چچی کو بلاؤں "زری بیڈ سے اٹھ کر جانے لگی جب رابیل نی فوری اسکا ہاتھ پکڑا
"نہیں زری پلیز " روتے ہوئے وہ بمشکل بولی
"پھر بتا دو آرام سے "
"وہ شاہ زیب ۔۔ شاہ زیب نے میری انسلٹ کی " ہجھکیوں کے ساتھ وہ بول رہی تھی
"لو۔۔ کیا مسئلہ ہے انکو ۔ تم نے بھی آگے سے ٹکا کر جواب دینا تھا بھائی جب میں تمہارے بھائی کا لحاظ نہیں کرتی تو تم میرے بھائی کا کیوں کرتی ہو "
"زری پلیز میرا دماغ نا کھاؤ فلحال" رابیل تنگ آ کر بولی
"اچھا میں باہر چلی جاتی ہوں " وہ اٹھنے لگی
"نہیں میرے پاس بیٹھو " رابیل کی بات پر زری مسکرائی ۔۔ رابیل جب بھی اپسیٹ ہوتی اسے اپنے ساتھ کسی نا کسی انسان کی ضرورت ہوتی تھی ۔۔۔
*******************
"شاہ زیب میری جان کیا ہوا ہے دو دن سے تم نا تو کچھ ٹھیک سے کھا رہے ہو اور نا ھی کمرے سے باہر نکل رہے ہو جب بھی نکلتے ہو گھر سے باہر جانے کے لئے ھی نکلتے ہو سب خیریت ہے نا بیٹا " وہ دادی کی گود میں سر رکھے تھا اور وہ آہستہ آہستہ اس سے باتیں کر رہی تھیں ۔کوئی جواب نا پا کر وہ پھر بولیں
"تم سے ضروری بات کرنی تھی "
"ہوں " اسی طرح دادی جان کی گود میں سر رکھے وہ آہستہ سا بولا
"تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں ہم اور تمہارے لئے لڑکی بھی ڈھونڈھ لی ہے " دادی جان کی بات پر لمحے بھر کو اس نے سر اٹھا کر دیکھا
"مجھے شادی نہیں کرنی فلحال "
" منگنی کر لو بس "
"وہ بھی نہیں "
"کیوں "
"پتا نہیں " شاہ زیب نے مختصر جواب دیا
"وہ لڑکی تمھیں پسند آئے گی " دادی جان نے سمجھانا چاہا
"ہمم " پھر سے نپا تلا جواب
"جانتے ہو وہ کون ہے " دادی جان نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی گود میں سے اسکا سر اٹھا کر اپنی طرف کیا وہ کرسی پر بیٹھی تھیں اور شاہ زیب زمین پر پڑے کشن پر اور دادی جان کی گود میں وہ با آسانی اپنا سر رکھ کر بیٹھا تھا ۔۔اب وہ انہیں دیکھ رہا تھا
"وہ لڑکی رابیل ہے اور جانتے ہو اس کی طرف سے ہاں ہے " دادی جان کی بات پر شاہ زیب کے چہرے پر سنجیدگی کی جگہ غصہ دھر آیا ۔۔
"مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی رابیل سے تو بلکل نہیں " غصّے سے کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل گیا
"شاہ زیب ۔۔شاہ زیب ۔۔" دادی جان آوازیں دیتی رہ گئیں ۔۔
دادی جان کے کمرے سے نکلتے ھی وہ سیدھا رابیل کے کمرے میں گیا لیکن وہ ادھر موجود نہیں تھی تب ھی اسے احساس ہوا کی وہ کچن میں ہو گی  فل غصے میں وہ کچن میں گیا جہاں رابیل چاۓ بنا رہی تھی وہ کپ میں چاۓ ڈال رہی تھی جب شاہ زیب نے اسکا بازو پکڑ کر غصے سے اسے اپنی طرف کیا  ۔ ڈر اور خوف سے رابیل کی چیخ نکلی دوسرے ہی پل شاہ زیب کو دیکھ کر وہ سمنبھال گئی
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ہاں " آنکھوں میں شدت کا غصہ اور آواز میں کوئی لچک کوئی نرمی نہیں تھی مضبوطی سے اسکی کلاہی پکڑے ہوئے وہ بولا
"مم۔ ۔ میں۔ نے کیا ،کیا ہے " رابیل نی نظریں جھکالیں
"اتنی معصوم مت بنو جتنی تم نہیں ہو ۔یہ ہی وجہ ہے کی میں تم سے زیادہ فرینک نہیں ہوتا تھا کیوں کی میں جانتا ہوں تم جیسی سٹوپڈ لڑکیاں دلوں میں سو ارمان پال لیتی ہیں ۔ پر تم بہت ڈھیٹ ہو۔ پھر بھی نہیں مانی اب شادی کرنا چاہتی ہو دیکھو رابیل مجھ سے دور رہو سمجھی میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا سمجھی تم ۔" بات مکمل کر کی اس نی ایک جھٹکے سے رابیل کو چوڑا وہ یک دم پیچھے ہوئی ۔۔ہکا بکا وہ اسے دیکھ رہی تھی
"یہ بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو " یک دم پاس آ کر وہ بولا رابیل دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔ شاہ زیب پھر رکا نہیں اور باہر نکل گیا ۔۔
"اس لیے میں تم سے دور رہتا ہوں " شاہ زیب کے  الفاظ اس کے  کانوں میں گھونجے ۔۔
تم جیسی لڑکیاں ۔۔ سو ارمان پال لیتی ہیں ۔۔ تم ڈھیٹ ہو ۔۔ تم جیسی لڑکیاں ۔۔ میں تم سے شادی نہیں  کر سکتا ۔۔ یہ بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو ۔۔ شاہ زیب کے الفاظ پر غور کرتی اسنے اپنا ہاتھ دیکھا جو جل چکا تھا ۔ شاہ زیب نے آتے ہی جب اسکا بازو پکڑا تو اسکے ہاتھ میں جو چاۓ تھی وہ رابیل کے ہاتھ پر گری تھی ۔۔اب حواس قائم ہوتے ہی رابیل کو ہاتھ جلنے کی شدت محسوس ہوئی ۔۔ وہ یک دم کمرے کی طرف بھاگی
*******************

بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅ Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang