شاہ زیب نے رابیل کے کہنے پر گاڑی روک کر رابیل کو دیکھا
"کیا ہوا رابیل " شاہ زیب نے پوچھا
"شاہ گول گپے (اس نے گول گپے کے ٹھیلے کی طرف اشارہ کیا ) مجھے کھانے ہیں " بچوں سی ضد تھی
"رابیل کوئی حال نہیں ہے تمہارا پتا ہے میں ڈر گیا تھا کے پتا نہیں کیا دیکھ لیا تم نے " شاہ زیب رابیل کی عقل کو کوستا ہوا بولا
"اچھا نا چلیں مجھے کھلائیں " رابیل ضد پر تھی
"یار یہاں کھاؤ گی کھڑے ہو کر " شاہ زیب کو خیرانگی ہوئی
"شاہ گول گپے ادھر ہی کھاتے ہیں اب اتریں ورنہ میں چلی جاؤں گی اور آپ اکیلے جائیے گا گھر " رابیل گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی اور کہ کر اتر گئی شاہ زیب نے بھی گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور اتر کر رابیل کے پیچھے بھاگتے ہوئے گیا
"تم پاگل ہو " رابیل تک پوھنچ کر وہ بولا
"ہا۔۔۔(رابیل نے ہا کہتے ہوئے منہ کے آگے ہاتھ رکھا ) آپ کو ایک پاگل سے شادی کرنے سے پہلے کم از کم سوچنا تو چاہیے تھا نا شاہ ویری بیڈ " کندھے اچکا کر وہ بولی
"کیا کروں دیر سے پتا چلا نا " شاہ زیب نے بھی کندھے اچکائے
"اگر جلدی پتا چل جاتا تو " رابیل نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر مصنوعی غصے سے پوچھا
"تو۔۔۔اممم۔۔۔ کر لیتا کیوں کے اتنی پیاری اور کیوٹ لڑکی کو کوئی ریجیکٹ کیسے کر سکتا ہے " کہ کر وہ جلدی سے آگے بڑھ گیا
"یہ انسان مجھے خیران کرنے سے کبھی باز نہیں آئے گا " مسکرا کر رابیل خود کلامی کرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لی____________________________
ہوا کافی زور سے چل رہی تھی بارش کے امکان لگ رہے تھے ۔ زری بازو باندھے ہوئے چھت پر ہلکی ہلکی واک کر رہی تھی۔ اندھیرا ہو رہا تھا ۔ عجیب پر سکون سا ماحول تھا ۔
جب اندر شور برپا ہو تو سکون حاصل کرنے کے لئے تنہائی خوبصورت ساتھی ہوتی ہے ۔
گھر والوں سے تھوڑی دیر بچ کر وہ چھت پر آ گئی تھی ۔ جیسی وہ ہو گئی تھی چند دن پہلے تو ایسی نہیں تھی۔ پر جب وہ وقت نہیں رہا تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ وقت بھی ٹھہر جاۓ وقت اچھا ہو یاں برا گزر تو جاتا ہے ۔ بالوں کو جوڑے میں باندھ کر کندھوں پر بڑی شال اوڑھ کر اس نے خود کو کور کیا ہوا تھا۔واک کرتے ہوئے وہ مڑی جب کسی سے اس کی زور دار ٹکر ہوئی۔۔ چوڑا مردانہ وجود ۔
"آہ۔۔۔"وہ کراہی
عدیل کے سینے سے اس کا ماتھا لگا تھا۔ وہ آنکھیں میچ کر ماتھا سہلاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی ۔
"تم کب آئے" ماتھے پر ہاتھ رکھے اس نے عدیل کو دیکھ کر پوچھا
"جب سے تم اپنی سوچوں میں گم چکر کاٹ رہی تھی "
"بتانا تو چاہیے تھا میں ایک دم سے ڈر گئی تھی "
"اچھا یہ بات مجھے زری عدیل خان کہ رہی ہیں جو بڑی دلیر بنتی پھرتی ہیں " عدیل مسکرا کر بولا
"عدیل خان لگانا ضروری تو نہیں " زری نے اسے جتایا کے وہ اپنا نام زری کے ساتھ نا ہی جوڑے
"ضروری تو ہے اب آپ کی وجہ سے میری آزادی جو ختم ہو گئی ہے " ہنسی دبا کر عدیل نے کہا
"آزادی ختم مطلب " زری نا سمجھی سے بولی
"مطلب اب لیٹ نائٹ باہر نہیں رہ سکتا کیوں کے بیگم گھر میں ہے انتظار کر رہی ہوگی یہ فکر بھی تو رہے گی نا مجھے "
"اور تمھیں لگتا ہے میں تمہارا انتظار کروں گی ہہہ ۔۔ کیا سچ میں " زری نے ابرو اچکا کر کہا
"ہمم ۔۔۔ مانو نا مانو پر کرو گی تو سہی "
"تم سے میرا سکون برداشت نہیں ہوا نا اگر تھوڑی دیر یہاں آ گئی تو ادھر بھی پیچھے آ گئے آپ کی مہربانی ہوگی مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز ۔ مجھے تھوڑی دیر کے لئے اس جھوٹ میں جی لینے دیا کریں کے میری زندگی میں تم نہیں ہو " ہاتھ جوڑ کر اس نے کہا ۔
عدیل کے تاثرات یک دم بدلے
"ہمم۔۔ ٹیک یور ٹائم " عدیل مجبورًا مسکرا کر بولا اور وہاں سے چلا گیا
________________________________
گاڑی کھڑی کر کے شاہ زیب اترا اور رابیل کی طرف کا دروازہ کھولا رابیل مسکرا کر نیچے اتری ۔ گاڑی لاک کر کے وہ دونوں چلتے ہوئے ہال کے دروازے کی طرف آئے رابیل نے بیگ سے چابیاں نکال کر شاہ زیب کو دیں شاہ زیب لاک کھول رہا تھا جب چوکیدار نے ان کے پاس آ کر سلام کیا ۔ شاہ زیب نے مسکرا کر جواب دیا
YOU ARE READING
بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅
Romanceالسلام عليكم ! بے مول محبت ناول یک طرفہ محبت پر مبنی ایک کہانی ہے ۔ محبت سیکریفائزز منگتی ہے مگر یک طرفہ محبت میں سیکریفائزز تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں ۔ جس سے آپ کو محبت ہو اس کے دل میں اپنا مقام بنانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے ۔ یک طرفہ محبت بے مول ہوتی ہے ۔...