گیارویں قسط

3.8K 134 114
                                    

گیارویں قسط ۔۔
"شاہ " اس کے وجود پر نظر پڑتے ہی رابیل کے منہ سے اس کا نام نکلا
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا رابیل کے پاس آ رہا تھا روشنی اب اسکا سراپا ظاہر کر رہی تھی ۔ دھیرے دھیرے اس کے چہرے کے نقش واضح ہو رہے تھے ۔ وہ شخص جو اندھیرے میں اس کے شوہر کی طرح لگ رہا تھا اب جب روشنی میں آ رہا تھا اور  رابیل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ ڈر ،بے چینی جیسے ملے جلے جذبات تھے
جس کو اندھیرے میں بھی رابیل نے پہچان لیا تھا۔ وہ شاہ زیب خان ہی تھا ۔  ہاں آخر وہ اس شخص کو پہچاننے میں غلطی کیسے کر سکتی تھی جس سے اس نے خود سے زیادہ محبت کی تھی ۔دروازے کے پاس اسکا وہ بیگ پڑا تھا جو شائد وہ گھر سے جاتے ہوئے لے کر گیا تھا ۔  رابیل کی آنکھیں بھر رہی تھیں۔ وہ  خیرت اور بے یقینی سے  اسے دیکھ رہی تھی ۔ آنکھیں پوری طرح کھولے ہوئے اور ان آنکھوں میں آنسو ۔ جو کسی بھی وقت اپنی حدود توڑنے کو تیار تھے ۔

جینز کے اوپر وائٹ شرٹ جس کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہوئے تھے۔  آستینیں کہنیوں تک چڑھائی ہوئی تھیں ۔ وہ کمزور لگ رہا تھا ۔ اور بے حال بھی ۔ رابیل بس اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی اس کے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کے وہ لوٹ آیا ہے یا یہ کہنا بہتر ہو گا کے وہ رابیل کے پاس لوٹ آیا تھا جب کے  اب تو اس نے شاہ زیب کی واپسی کی ساری امیدیں ہی چھوڑ دی تھیں  ۔

وہ چلتا ہوا رابیل کی طرف آ رہا تھا پھر اچانک  ہال کے درمیان میں ہی  رک گیا  ۔۔ رابیل کو اپنی دھڑکن  ایک لمحے کے لئے تھمتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ رک کیوں گیا تھا ۔ رابیل  اب شاہ زیب کا اپنے پاس آنے کا انتظار نہیں کر سکتی تھی وہ اب پھر اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اپنی زندگی کا مزید قیمتی وقت  وہ اب اس کے انتظار میں نہیں گزار سکتی تھی بلکہ اسے تو اپنی زندگی اس کے ساتھ گزارنی تھی  ۔  رابیل تیزی سے اسکی طرف بڑھی وہ شائد اب چاہتا تھا کے رابیل اسکی طرف خود آئے ۔ یاں پھر وہ اس کی بے قراری دیکھنا چاہتا تھا ۔ رابیل تیزی سے   اس کے پاس جا کر رکی
"شش ۔۔ شاہ " رابیل نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بے یقینی سے کہا
"آئی ایم سوری رابیل " سر اثبات میں ہلاتے ہوئےشاہ زیب نے جواب دیا  اور اسکو اپنے قریب کیا

شکایتیں ساری جوڑ کر رکھی تھی میں نے
اس نے گلے اپنے لگا کر سارا حساب بگاڑ دیا

"کک۔۔کہاں چلے گئے تھے آپ ۔۔ " شاہ زیب سے لپٹ کر وہ بول رہی تھی ۔۔ آنسو نکل رہے تھے مگر  یہ خوشی کے آنسو تھے ۔ رابیل نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ وہ محسوس کرنا چاہتی تھی یقین کرنا چاہتی تھی کے وہ شاہ زیب کی گرفت میں ہے وہ رابیل کے پاس تھا ، وہ رابیل کے پاس ہے اسے اپنے حصار میں لئے ہوئے ۔ شاہ زیب نے اس کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی ۔
"میں اب تو آ گیا ہوں نا "  دھیمے لہجے میں وہ  بولا
"ترس گئی تھی میں یہ آواز سننے کو " شاہ زیب کے سینے سے سر لگائے آنکھیں بند کیے ہوئے اس نے  کہا
"میں بھی تو ترس گیا تھا تمھیں دیکھنے کے لئے " شاہ زیب نے کہا جس پر رابیل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا 

بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅ Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang