وہ اس ویران، اندھیرے کمرے میں دروازہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی جب اس کا ہاتھ اچانک کسی نوکیلی شہ سے ٹکرایا اور اس کی خوفناک چیخ سارے میں گونجی
"آئیییییییییی"
"Noor, are you alright?"
(نور، تم ٹھیک ہو؟)
اس کی فکرمند سی آواز اس کے کانوں میں پڑنے سے اس کے خواب کا غبارہ پھوٹا۔
"کیا ہوا ہے؟ تم ٹھیک ہو؟" اس کی خوفناک چیخ سن کر ماہم نے فکرمندی سے اپنا سوال دہرایا۔
"ہاں، وہ۔۔ میں۔۔ تمہاری بات سن کر ڈر گئ تھی یار" ماہ نور نے فوراً جھوٹ بولا کیونکہ وہ اچھی طرح واقف تھی اگر ماہم کو خبر ہوئی کہ محترمہ ان کی کال کے دوران سو رہی تھیں تو وہ رات کے اس پہر بھی اس کی کُٹائی کرنے اس کے گھر آنے میں دیر نہیں کرے گی۔
"نور، میں تمہیں بریانی کی ریسیپی بتا رہی تھی؟" ماہم کو اچھنبا ہوا۔
"ہاں۔۔ تو۔۔۔ ارے ماہا! خود سوچو زرا! بریانی کی ریسیپی بتا رہی ہو، اس کا مطلب مجھے بنانی بھی پڑے گی نا، اور خود کو بریانی بناتا سوچ کر ہی میری چیخ نکل گئی" ماہ نور نے بےشرموں کی طرح اپنے نکمّا ہونے کی دلیل دی۔
"ہو گیا تمہارا ڈرامہ؟ اچھی طرح پتا ہے سو رہی تھیں تم۔ بریانی مجھے خود بناتی آتی ہوگی تو اس کی ریسیپی بتاؤں گی نا تمہیں! پاگل، بہت نیند آرہی ہے تمہیں، سو جاؤ جا کر" ماہم میڈم بھی اپنی اس سوتُو ماہارانی کو اچھے سے جانتی تھیں، لہٰذا مزید اس کو تنگ کیے بغیر کال کاٹ دی کہ کہیں چڑیل میرے گلے ہی نہ پڑ جائے۔
"شکررررر! مجھے تو لگا تھا آج پھر پوری رات دماغ کھائے گی یہ اُلّو" ماہنور نے تشکر سے آنکھیں موند لیں اور نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔
•••
"سلام طلحہٰ صحاب، کیا حال ہیں؟" اس کی زہر خند آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
"کال کیوں کی ہے؟" طلحہٰ نے ناگواری سے سوال کیا۔
"ارے، سلام کا جواب ہی دے دیتے ہیں بھئی۔ کچھ نہیں تو اس چھوٹے سے رشتے کا ہی خیال کرلو جو ہمارے بیچ ہے" اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ طلحہٰ کو اس کی بد قسمتی سے آشنا کیا تھا جس کو وہ ہمیشہ جھٹلاتا تھا۔
"مجھے اپنی باتوں کو دہرانے کی عادت نہیں ہے، لہٰذا اپنی یہ ڈرامے بازی بند کرو" طلحہٰ کو تو اس کا نام پڑھتے ہی غصہ چڑھا تھا اوپر سے اس کی یہ بات سنتے ہی وہ تو مزید غصے سے لال ہو گیا تھا۔
"میرا تحفہ تو مل گیا ہو گا تمہیں، نہیں؟" اس کی زہر اگلتی الفاظ سے طلحہٰ کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔
"تمہاری اس فضول بکواس کے لیے میرے پاس ٹائم نہیں ہے، بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا تحفہ" اس سے پہلے کہ مخالف اس کا اور دماغ خراب کرتا، طلحہٰ نے کال کاٹ کر اپنا فون آف کر دیا۔
•••
رات کے ساڑھے چار بجے وہ فون کی آواز سے ہڑبڑا کر اٹھی۔
"ہیلو، السلام و علیکم"
"وعلیکم السلام ڈاکٹر ماہم، آپ کو ڈاکٹر ادریس نے فوراً اسپتال بلوایا ہے، ایمرجنسی ہے، آپ پندرہ منٹ میں فوراً پہنچیں"
"Jee sister, I am on my way don't worry"
(جی سسٹر، آپ فکر نہیں کریں میں آرہی ہوں)
کہتے ہی اس نے کال کاٹی، کپڑے تبدیل کیے، گاڑی کی چابی اٹھائی اور گھر سے نکل گئی۔
اسپتال آتے ہی وہ ڈاکٹر ادریس کے پاس پہنچی جو پہلے ہی آپریشن کے لیے تیار کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
ڈاکٹر ادریس اس اسپتال کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ شہر کے نامور ڈاکٹروں میں سے تھے اور ماہم اور ماہنور فی الوقت ان ہی کے انڈر تھیں۔ ان کے مطابق دونوں لڑکیاں ان کی نکمّی ترین شاگرد تھیں، لیکن ان کے سب سے قریب بھی صرف وہی دونوں تھیں، مگر وہ اس بات کا اظہار کر ہی نہ دیں۔
"Doctor, is everything alright?"
(ڈاکٹر، سب ٹھیک ہے؟)
اس نے آتے ہی سوال کیا، جس پر اس کو فوراً ہی پچھتاوا ہوا تھا۔
"سب ٹھیک ہوتا تو میں آپ کو ایسے بلاتا؟ کب ذمّہ داری کا احساس ہوگا بیٹا آپ کو؟ پورے پانچ منٹ لیٹ ہیں آپ" ڈاکٹر ادریس کا لمبا لیکچر جو شروع ہونے لگا تھا، وہ تو بھلا ہو اس نیک نرس کا جس نے آکر انہیں مریض کی حالت یاد دلائی اور وہ اسے ساتھ چلنے کا کہہ کر آگے بڑھ گئے۔

YOU ARE READING
یا قمر/Ya Amar
Adventure"تمہیں پتا ہے تم میرے لیے کیا ہو؟" "کیا؟" "یا قمر" "مطلب؟" "میری زندگی کا سب سے خوبصورت چاند"