"مہد، مجھے بک شاپ سے دو بُکس لینی ہیں، دلا دو یار؟" انوشہ نے اپنی مشہورِ زمانہ معصوم شکل پیش کرتے ہوۓ فرمائش کی۔
وہ لوگ اب ضحیٰ کو کالج چھوڑ کر یونیورسٹی کی طرف جا رہے تھے جب انوشا کو اپنی کتابیں یاد آگئیں۔
"یاررر! انّو اس وقت کونسی دکان سے لاؤں میں تمہاری یہ کتابیں؟" مہد نے اس کے اس وقت یاد دلانے پر منہ بنایا، کیونکہ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے کونسی بک شاپ کھلی ہوتی ہے؟
"بھائی ہو نا؟ پلیییز دلا دو؟ یہ دیکھو یہ آگے والی دکان کھلی تو ہوئی ہے" انوشہ نے سامنے والی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا جو واقعی کھلی ہوئی تھی۔
"رکو اچھا میں آ رہا ہوں" مہد نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا۔
"ایک منٹ! مجھے سامنے ٹھیلے سے چنے بھی لا دو پلیز؟" آگے لگے ٹھیلے پر چنے دیکھ کر رمشا کی بھوک پھر جاگ اٹھی جس کو ناشتہ کیے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا۔
"ارے! بس کر دو موٹی کتنا کھاؤ گی؟ تمہارے بے چارے شوہر کا پتا نہیں کیا بنے گا" مہد کو اس سے دلی ہمدردی تھی۔
"تمہیں کیوں فکر ہو رہی ہے؟ تم تھوڑی ہو گے" رمشا نے آنکھیں چڑھاتے ہوئے کہا۔
"کیا پتا؟" وہ مسکراہٹ دبائے، زیرِ لب کہتا ہوا، گاڑی سے نکل گیا۔ اصل میں اگر وہ نہ بھی بولتی تو وہ خود سے بھی چنے لے کر ہی آتا۔ صدا کے بھوکے جو ٹھہرے سارے۔
•••
"نور، راستے سے آئسکریم بھی دلا دو" ماہم نے ماہ نور سے کہا جو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے ہوئے تھی۔
"پیسے نکالو بیٹا" ماہ نور نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
"ارے! اب تم اپنی پیاری چھوٹی بہن سے پیسے مانگو گی؟ ویسے بھی مجھے کتنی بھوک لگی ہے" ماہم نے معصومانہ شکل بنائے اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا۔
"اللّٰہ کو مانو ماہا! ابھی ایک گھنٹے پہلے ہی لنچ کر کے نکلے ہیں ہاسپٹل سے! اور یہ زیادہ ڈرامے نہیں کرو، صرف دو دن کا ہی فرق ہے ہم میں!"
"ایک گھنٹے میں سارا کھانا دو بار ہضم ہو گیا ہوگا، اور دو دن بھی بہت ہوتے ہیں باجی جان" ماہم کے بھی ڈرامے کہاں ختم ہونے تھے؟
"اچھا اب زیادہ بکو مت! بتاؤ کون سا فلیور لوں؟"
"جو تم لو، میرے لیے بھی وہی لے لینا اور گھر پر جو چار بھوکے بندر بیٹھے ہیں نا ان کے لیے بھی لے لو نہیں تو ساری زندگی ہی طعنے ملیں گے" اس نے اسے گھر پر موجود بھوکوں کے سردار یاد دلاۓ۔
"ہاں شکر یاد آگیا!" وہ کہتے ہوۓ گاڑی سے اتر گئی۔"Excuse me?"
ابھی ماہ نور کو گاڑی سے اترے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ ماہم کو کھڑکی کے باہر سے آواز آئی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔ سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ اس نے کالے رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی آستینیں کہنیوں تک چڑھی تھیں۔ وہ اچانک ماہم کو دیکھ کر چونکا۔ ماہم نے سی گرین کلر کی گھٹنوں تک آتی کمیز پہن رکھی تھی اور اس کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر اور ہم رنگ دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا تھا، بالوں کو آدھا کیچر میں جکڑا ہوا تھا اور چہرہ میک اپ سے بالکل شفاف تھا۔ وہ سادہ مگر پھر بھی حسین لگ رہی تھی۔ لیکن وہ شخص اس کا چہرہ نہیں، بلکہ کچھ اور ہی دیکھ رہا تھا۔
"Can you please help me with the direction?"
(کیا آپ مجھے یہ راستہ بتا سکتی ہیں؟)
اس نے سر جھٹکا اور ماہم کو اپنے فون کی اسکرین دکھاتے ہوئے اس سے مطلوبہ جگہ کا راستہ پوچھا جس میں ماہم نے فوراً ہی اس کی مدد کر دی۔
"Thank you so much"
(شکریہ)
وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا جب کہ پیچھے ماہم اس شخص کی نظروں کی وجہ سے الجھ گئی تھی۔
"کیا ہوا ہے؟ کہاں کھوئی ہوئی ہو؟" ماہنور کی آواز سے اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا جس نے ابھی ہی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے آئسکریم اس کی طرف بڑھائی تھی اور اب اچھنبے سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"پتا نہیں؟ ابھی ایک لڑکا آیا تھا اور مجھ سے راستہ پوچھ کر چلا گیا"
"تو؟ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟"
"نہیں یار، اس نے مجھے کافی عجیب نظروں سے دیکھا"
"مطلب؟ تاڑ رہا تھا تمہیں؟" ماہنور نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
"نہیں! جیسے مجھے دیکھ کر چونک سا گیا ہو؟ اور راستہ بھی اس نے مجھ سے ہمارے ہاسپٹل کا ہی پوچھا ہے" ماہم نے اسے بتایا۔
"ہاں تو، ہوگا کوئی لفنگا، تم چھوڑو اور یہ آئسکریم کھاؤ" ماہنور نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے اسے آئسکریم پکڑائی اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
•••
"ہمممم ماہم راشد۔۔۔ انٹرسٹنگ" طلحہ کی نظروں کے سامنے سے کچھ دیر پہلے کا منظر گزرا تو اس نے معنیٰ خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس کا نام لیا۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی آواز سے وہ حقیقت میں واپس آیا اور کال اٹھائی۔
"اوۓ؟ کہاں رہ گیا ہے؟ میں ایک گھنٹے سے یہاں گھوم رہا ہوں اب تو نرسیں بھی مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہی ہیں" کال اٹھاتے ہی حمزہ کی غصے سے بھری آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
"آ رہا ہوں میرے ابّا، راستہ نہیں مل رہا تھا، ابھی ابھی پتہ کیا ہے بس"
"اور کوئی بہانہ ڈھونڈ لے پلیز، پچھلے ایک ہفتے سے تو یہیں رہ رہا ہے، تجھے ابھی تک راستے یاد نہیں ہوۓ؟" حمزہ آج تو فی الحال اسے نہیں چھوڑنے والا تھا، آخر اس کا انتظار کرتے ہوۓ ہی وہ اس پاگل سی ڈاکٹر سے ٹکرا گیا تھا۔
"اچھا نا میں آ رہا ہوں ویسے بھی تجھے ایک امپورٹنٹ بات بتانی ہے" طلحہ کا اشارہ ماہم سے ملنے کی طرف تھا۔
"ہیں؟ کہیں تو بھی کسی سے ٹکرا تو نہیں گیا؟" حمزہ نے حیرت سے اس سے پوچھا، وہ چاہ کر اپنے اس شرمناک ٹکراؤ کو بھلا نہیں پا رہا تھا۔
"ہاں، ٹکرانا ہی سمجھ لو" اس نے ایک بار پھر معنیٰ خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"تو ذرا پہنچ تو سہی، میں بتاتا ہوں تجھے"
"اچھا میں بس پندرہ منٹ میں پہنچ رہا ہوں" طلحہ نے کہہ کر فون کاٹ دیا۔
•••
"خالہ جان! آج تو میں آپ کے ہاتھ کا کڑاہی گوشت کھا کر ہی جاؤں گی" انوشہ نے غزالہ بیگم سے کہا جو ان کی آوازیں سن کر کچن سے باہر آئی تھیں۔ وہ دونوں کالج اور یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ادھر ہی آگئی تھیں۔
"لیں امّی! آگئی ندیدی، پتا نہیں میرے لیے کچھ بچے گا بھی یا نہیں" رمشا نے اس کو تنگ کیا۔
"اوہو رومی آپی، آپ ہاتھ لگنے دیں گی تب انّو آپی ختم کریں گی نا!" ضحیٰ نے ہنستے ہوۓ انوشہ کو تالی ماری آخر کو وہ میڈم بھی کوئی کم نہیں تھیں اپنی بہنوں سے، بلکہ یہ کہا جاۓ کہ ان کی بھی دادی امّاں تھیں۔
"اور ویسے اپنے بارے میں کیا خیال ہے چڑیل تمہارا؟" ٹیبل پر ضحیٰ کے مخالف سمت میں بیٹھے معیز کو آج بیماری میں بھی اس کو چھیڑے بغیر چین نہیں آیا تھا۔
"جی ہاں، کھانے کے معاملے میں تو آپ ہم سب سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں" رمشا نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"ہاں تو وہ مجھے وراثت میں مل گیا نا، پہلے ماہا آپی، پھر نور آپی، بھئیّا، پھر آپ دو، اور ایک یہ بندر سب کھانے کے شوقینوں کا ہی ملا جلا شاہکار ہوں میں" ضحیٰ نے معیز کی طرف اشارہ کر کے اپنے فرضی کالر جھٹکتے ہوۓ کہا۔
"دیکھو ذرا، شیطانوں کا نام لیا ہے اور شیطان حاظر ہو گۓ۔ السلام و علیکم، کیسی ہیں جی آپ؟" ضحیٰ نے اندر آتی ہوئی ماہم اور ماہنور کو دیکھ کر مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جبکہ آنکھوں میں صاف شرارت جھلک رہی تھی۔
"لو، یہ دادی امّاں یہاں بھی پہنچ گئیں، ادھر آؤ ذرا میں تمہیں بتاتی ہوں" ماہنور نے اس کے پیچھے بھاگتے ہوۓ کہا جو شیطان پہلے ہی آئسکریم کی شاپر اٹھاۓ غزالہ بیگم کے پیچھے چھپ گئی تھی۔
"نور ایک میری طرف سے بھی لگاؤ اسے ذرا" ماہم نے اپنے جوتوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوۓ کہا۔
"ارے ارے، چھوڑ دو تم لوگ میری بچی کے پیچھے ہی پڑ گئی ہو" غزالہ بیگم نے اسے اپنے سے لگاتے ہوۓ کہا۔
"رہنے دیں خالہ، ہماری بھی دادی ہے یہ شرارتوں میں، کل اس نے مہد کے فون سے بابا کو کسی صبا کے نام کے میسجس کر دیے اور وہ بے چارہ آدھے گھنٹے تک بابا کی منتیں کرتا رہا ہے کہ بابا مجھے نہیں پتا آخر یہ صبا ہے کون" ماہم نے اس چھوٹی شیطان کی شکایت لگائی جو صرف دکھنے میں ہی چھوٹی تھی اندر پتہ نہیں کونسا شیطانی دماغ فٹ تھا۔
"ہیں؟ سچی؟ پھر تو لگاؤ ذرا اس کو ایک" انہوں نے پہلے حیرت اور پھر غصے سے اس کا کان پکڑا جو محض مزاق ہی تھا کیونکہ ایک وہی تو ان سب کے گھر کی رونق تھی، کبھی کسی کو تنگ کرتی تو کبھی کسی کو چھیڑتی۔
•••
"اللّٰہ کا شکر ہے تو آگیا، ورنہ مجھے تو لگا تھا میرے جنازے پر ہی آۓ گا اب" حمزہ نے طلحہ کو آتے دیکھ فوراً اس پر طنز کیا جو بے چارہ پندرہ منٹ کا کہہ کر دس منٹ میں آیا تھا۔
"قسم سے ایسی باتیں کرتا ہوا تو مجھے دوست نہیں میری بیوی لگتا ہے" طلحہ بے چارے کا تو دیوار پر سر مارنے کا دل کر رہا تھا جو پہلے پورے شہر میں خوار ہوا اور پھر راستہ ملتے ہی گاڑی بگھاتا ہوا لایا تھا پھر بھی اس لڑکے کے طعنے نہیں ختم ہو رہے تھے۔
"پتہ نہیں اس بے چاری کا بھی کیا بنے گا، تو تو بدلے گا نہیں، یہاں تیری وجہ سے میں بھی ایک بے چاری ڈاکٹر سے ٹکرا گیا"
"میری وجہ سے یا موصوف خود ٹکراۓ تھے؟" طلحہ نے اسے کندھا مارتے ہوۓ چھیڑا۔
"زیادہ بکو مت" حمزہ نے اسے پورا واقعہ بتایا۔
"ایک منٹ ایک منٹ، اس کا حلیہ کیسا تھا" طلحہ کو دوسری لڑکی کا ذکر سن کر اچھنبا سا ہوا۔ اس کو وہ پھر یاد آگئی۔
"حلیے پر تو میں نے غور نہیں کیا" حمزہ صاحب کا انکشاف جنہوں نے کبھی لڑکیوں کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
"اور کچھ؟ نیم پلیٹ وغیرہ؟" طلحہ تو حمزہ کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔
"ہاں نیم پلیٹ پڑھی تھیں میں نے، ایک کا نام ماہنور طارق تھا اور ایک کا نام ماہم راشد"
"ماہم! ماہم راشد! وہی تو ہے حمزہ!" طلحہٰ کا شک صحیح نکلا۔
"Really?!"
حمزہ بھی حیران رہ گیا۔💞
Author's note:
Here comes the second episode💫. Hope you enjoyed this one as well.
The story is just getting started, what do you guys think Talhah is talking about in the last scene?😏 akhir in dono ko Maham se milne pr itni hairat kyun? Apne guess neechey comment section main mujhe btayen🙈 also write down your thoughts about this episode in the comments below.
Please do vote and share your feedbacks, will be waiting! until then,
Khuda Hafiz 💖
YOU ARE READING
یا قمر/Ya Amar
Adventure"تمہیں پتا ہے تم میرے لیے کیا ہو؟" "کیا؟" "یا قمر" "مطلب؟" "میری زندگی کا سب سے خوبصورت چاند"