"ممّا!!" ماہم اور ماہ نور خوشی سے اچھلتے ہوئے سیڑھیوں کو پھلانگ کر نیچے آئی تھیں۔
"کیا ہوا؟" عاصمہ بیگم نے اس کی اچانک آواز پر دل پکڑ لیا۔
"ہم سیلیکٹ ہو گئے ہیں!!" وہ فون لیے پورے گھر میں اچھل اچھل کر اعلان کر رہی تھی۔
"توبہ ہے! مجھے لگا کوئی خاص بات ہے" انہوں نے منہ بنا کر کہا۔ دیسی مائیں اور ان کی خاص باتیں۔
"ہاں تو خاص بات ہی تو ہے! خالہ جان مبارکباد ہی دے دیں یار؟" ماہ نور نے معصوم شکل نکال کر بولا۔
"مبارک ہو بھئی" انہوں بھی لگی لپٹی لگائے بغیر فوراً دے بھی دی۔
"یہ کونسی مبارکباد ہے بھئی؟ میری مٹھائی نکالیں؟" انوشہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
"جی ہاں، اور اس کے بعد آپ دونوں ہمیں ٹریٹ بھی دے رہی ہیں" ضحیٰ نے بھی اپنا حصّہ ڈالا۔
"استغفرُللّٰہ! بھوکوں! ابھی تو رمشا سے ٹریٹ لی تھی؟" ماہ نور نے ان کی اس منطق پر اپنا سر پکڑ لیا۔
"ہاں تو وہ میں نے دی تھی، اب آپ کی باری بہنوں" رمشہ نے "بہنوں" پر زور دیتے ہوئے ایک شرارت سے بھری مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی۔
"غلطی ہوگئی ہم سے کہ ہم بے چارے جا رہے ہیں، یہ تو ہمارے جانے تک ہم سے ٹریٹ لے لے کر ہمیں کنگلا کر ہی دیں گے" ماہم نے ماہ نور کی طرف بے چارگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"اچھا نا، سیلیکشن کہاں ہوئی؟ کوریا یا نیو یارک؟" انوشہ نے پوچھا۔
"ہم لوگ نیو یارک جا رہے ہیں" ماہم نے بتایا۔
"مطلب کہ دو ہفتے میں آپ لوگ جا رہے ہیں؟" راشد صاحب نے بھی ٹی وی سے نظریں ہٹا کر پوچھا کم بلکہ بتایا زیادہ تھا۔
"جی ہاں، اگلے چھ مہینے تک، ہمیں دیکھنے کے لیے ترسو گے تم سارے!" ماہم ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے ان تینوں لڑکیوں کو جتا کر بولی۔
"اہوں! ایسے نہیں بولتے! دوبارہ ایسی بات کی تو ایک لگا کر یہیں بٹھا دوں گی!" عاصمہ بیگم نے اس کا کان پکڑتے ہوئے اسے ٹوکا۔
ماہم اور ماہ نور ہاسپٹل والوں کی طرف سے انٹرنشپ کے لیے نیو یارک جا رہی تھیں۔ ان کے ہاسپٹل والے اپنے قابل ڈاکٹرز کو ہر چھ مہینے بعد کسی ملک بھیجا کرتے تھے جہاں وہ مزید ٹریننگ اور ایکسپیرینس کے لیے انٹرنشپ کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے بھی اس دفعہ کوریا اور نیو یارک کے لیے اپلائی کیا تھا اور اتفاق سے وہ نیویارک کے لیے سلیکٹ بھی ہو گئی تھیں، لیکن ابھی ان کے جانے میں دو ہفتے تھے۔ ماہم کے مطابق، وہ اگلی دفعہ کوریا جانے کا بھی فُل پروگرام بنائے بیٹھی تھی۔
•••
"توبہ کرو لڑکی! میں کیا کروں گا؟" مہد نے اس کو دیکھتے ہوئے معصوم شکل بنا کر، اسے ذرا سی شرم دلانے کی ناکام کوشش کی۔
"آپ اپنا کھانا خود بنائیں گے" رمشا نے شرارت سے آنکھیں گھماتے ہوئے اسے کہا۔
"بلکہ میرے لیے بھی بنائیں گے" مگر اپنا مکمل فیصلہ سنانا نہیں بھولی تھی۔
"جی، ہونے والی بھابھی جی، کوئی اور فرمائش بھی ہو تو وہ بھی بتا دیں" وہ دونوں گارڈن میں بینچ پر بیٹھے تھے جب پیچھے سے ضحیٰ کی آواز آنے پر دونوں اچھل گئے۔
"ہاں، ابھی ہی بتا دو یار تاکہ ہم اپنے معصوم بھائی کے لیے کوئی اور ہی ڈھونڈ لیں؟" ضحیٰ کے ساتھ انوشہ بھی کھڑی تھی، وہ دونوں ان کو تنگ کرنے کے فل موڈ میں تھیں۔
"ہاں، ویسے مجھے تو خود مہد بھائی پر ترس ہی آرہا ہے، پتا نہیں میری بہن ان کا کیا حال کرے گی" معیز بھی ان کے ساتھ مل گیا۔
"تم سچ میں ایسا کرو گے؟ کوئی اور ڈھونڈ لو گے؟" رمشا نے بےچارگی سے مہد کی طرف دیکھا جو انوشہ کی بات کو سن کر پہلے تو چونکا تھا مگر پھر رمشا کو دیکھ کر کافی محظوظ ہوا تھا۔
"سوچ تو یہی رہا ہوں، لیکن اگر کھانا بنا ہوا مل جائے تو سوچ بدلی بھی جا سکتی ہے" اس نے آنکھیں گھما کر رمشا کی طرف دیکھا۔
"اچھا؟ پھر اس ہی سے بنوا لینا کھانا، میں جا رہی ہوں" رمشا نے تپ کر کہا اور اٹھ کر چلی گئی۔
"ارے رمشا! رکو تو سہی یار مزاق کر رہا تھا" مہد بھی ہنستے ہوئے اس کے پیچھے بھاگا تھا اور وہاں وہ تینوں ان کا ابھی سے یہ حال دیکھ کر، دل کھول کر ہنسے تھے۔
•••
"یہ تو ہمارا پلان خراب کریں گی، تو نے کچھ سوچا ہے اب؟" اس نے فکرمندی سے اپنے سامنے بیٹھے طلحہٰ سے پوچھا جو کسی گہری سوچ میں ڈوبا نظر آرہا تھا۔
"سوچ تو رہا ہوں لیکن۔۔۔" وہ کافی الجھا ہوا لگ رہا تھا۔
"کیا لیکن؟" حمزہ نے بھی الجھ کر پوچھا۔
"دعا کرنا میں زندہ بچ جاؤں کیونکہ وہ تو پہلے بھی مجھے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ابھی کھا جائے گی اور یہ تو پھر میں سچ میں اپنی موت کو خود دعوت دے رہا ہوں" طلحہٰ پہلے بھی اسے دیکھ کر جھجھک گیا تھا کیونکہ ماہم اس کو کافی ڈراؤنی لگی تھی۔
"توبہ کر، بے چاری چھوٹی سی تو ہے تجھے کیوں اتنا ڈر لگ رہا ہے؟" حمزہ کو اس کے اس طرح کہنے پر ہنسی آئی تھی۔
"مجھے تو پورا توپ کا گولا لگتی ہے، باتیں نہیں سنی تو نے اس کی؟" طلحہٰ سچ میں ماہم کی پچھلے تین دن سے جاسوسی ہی تو کر رہا تھا کیونکہ یہ سب ان کے کام کے لیے ضروری تھا۔ اور ماننا پڑے گا کہ اس نے اب تک ہماری ماہم کو صحیح ہی پہچانا تھا۔
"جا بیٹا، اللّٰہ تیری حفاظت کرے گا" حمزہ نے ہنستے ہوئے اسے تنگ کرنے کے لیے اس کا کندھا تھپکا تھا۔
"میری سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ والا کام مجھے ہی کیوں کرنا ہے؟ تو کیوں نہیں کر رہا؟" طلحہٰ نے شکایتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"کیوں کہ جناب، پہلے بھی تو آپ ہی ملے ہیں نا ڈاکٹر صاحبہ سے" حمزہ نے اسے کُہنی مارتے ہوئے چھیڑا۔
"ایک تو تیری یہ بے کار باتیں ختم نہیں ہوتیں، یا اللّٰہ تو نے یہ مخلوق میرے ہی گلے کیوں ڈال دی؟" طلحہٰ نے پہلے حمزہ کو اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دعا کی طرح اٹھا کر، بے چارگی سے کہا۔
"کونسی مخلوق؟ میں، یا ڈاکٹر صاحبہ؟" حمزہ کو بھی کہاں باز آنا تھا؟ وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر کی طرف نکل لیا۔
•••
"تم کیوں آئے ہو آج؟" ضحیٰ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس سے سوال کیا۔
"بس قسمت ہی اتنی خراب ہے کہ بس تم جیسی چڑیلوں کی ذمّہ داریاں ہی ملا کرتی ہیں" اس نے ضحیٰ کی طرف دیکھ کر ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"تم زیادہ اوور مت ہو، گاڑی چلاؤ" ضحیٰ بےچاری، وہ اس کو چڑیل کیسے کہہ سکتا ہے؟
"تم روزانہ ایسے ہی ماسی بن کر کالج جاتی ہو؟" معیز نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ وہ تو اس دنیا میں پیدا ہی یہ عزم لے کر ہوا تھا کہ ضحیٰ کو آرام سے جینے نہیں دینا ہے، اسے اس کو تنگ کرنے میں دنیا جہاں کا سکون ملتا تھا۔
"میری بات سنو، تمہیں میں اس گاڑی سے اٹھا کر نیچے پھینک دوں گی" ضحیٰ نے حالانکہ کالج کا یونیفارم پہن رکھا تھا اور بالوں کو پونی میں باندھا ہوا تھا مگر اس کے چہرے کے سادہ نقوش اس حلیے میں بھی خوبصورت لگ رہے تھے۔ وہ کہیں سے بھی ماسی یا بھنگن نہیں لگ رہی تھی اور معیز یہ کافی اچھے سے دیکھ سکتا تھا مگر تنگ کرنے کے فوراً بعد جو غصہ اس کی پکوڑی ناک پر واضح ہوتا تھا اسے دیکھ کر اسے جیسے راحت ملتی تھی۔
"یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم انّو اور رومی آپی کو لینے نہیں جا رہے؟ وہ کس کے ساتھ آئینگی؟ تم نے ان کو بتا دیا ہے؟ تم کیوں آئے تھے مجھے لینے؟" مشکل سے دو منٹ چپ کر کے بیٹھنے کے بعد، ضحیٰ نے اسے یونیورسٹی کے بجائے کسی اور راستے پر گاڑی موڑتے ہوئے دیکھ کر اس کے اوپر سوالوں کا ایک پہاڑ توڑا تھا جن کو وہ شاید سن بھی نہیں رہا تھا جس سے ضحیٰ کو اور تپ چڑھ رہی تھی۔
"تم سن رہے ہو؟!" وہ اس کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے بولی تو معیز نے کوفت سے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
"یار!! تھوڑی دیر تو سکون سے بیٹھ جاؤ، دو منٹ چپ کر کے نہیں بیٹھ سکتیں؟" اس نے تنگ آ کر کہا تھا۔ پہلے ہی وہ عاصمہ بیگم کے کہنے پر اپنی کلاس چھوڑ کر اسے لینے آیا تھا لیکن یہ میڈم تو ان کو بخشنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
"بے فکر رہو کڈنیپ نہیں کر رہا ہوں تمہیں، ویسے بھی تمہیں کڈنیپ کر کے خود کو ٹورچر تھوڑی کرنا ہے" اس نے ضحیٰ کو چپ بیٹھے دیکھ ایک بار پھر اس کو تنگ کر دیا۔
"اب میں کیا کروں، تمہاری شکل دیکھ کر کوئی بھی یہی سمجھے گا" ضحیٰ بھی کوئی کم تھی کیا؟ وہ اپنے کندھے اچکاتے ہوئے بے نیازی سے بولی۔
"اب دیکھ لو، تم خود شکل پر جا رہی ہو پھر میں کچھ بولوں گا تو تمہیں برا لگ جائے گا" وہ اس کے تبصرے پر تپ کر اسے وارن کرتا ہوا بولا تھا۔
"اُف اللّٰہ!۔۔ جنابِ معیز عالی، اگر آپ کی ذات کو چوٹ نہ پہنچے تو آپ فرمانا پسند کریں گے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟" ضحیٰ نے اپنا سر پکڑتے ہوئے، معیز کو طنزیہ طور پر عزت دے کر، اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا۔
"ایسے بات کرو گی تو اب میں تمہیں گاڑی سے پھینک دوں گا، قسم سے زہر لگ رہی ہو" معیز نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے با مشکل اپنی ہنسی روکی تھی۔
"یار تمہیں مسئلہ کیا ہے مجھ سے؟ آخر میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟" ضحیٰ کی سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیوں ہر وقت اس کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔ ایک وہی تھا جو اس شیطان کو تنگ کر سکتا تھا، دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کے دشمن تھے۔
"میرا سر نہیں کھاؤ اب، کھانا لینا ہے تمہارے لیے، امّی اور خالہ جان کسی دوست کے گھر گئے ہیں، ماہا اور نور آپی کی آج ڈیوٹی ہے اور انّو اور رومی کو آج ایکسٹرا کلاس لینی تھی اس لیے خالہ جان نے بولا تھا تمہیں پک کر کے کھانا دلواتا ہوا جاؤں" معیز نے اس کو پوری بات بتاتے ہوئے احسان جتایا۔
"ہاں تو اتنی دیر سے انسانوں کی طرح یہ بولا نہیں جا رہا تھا؟ لمبی کرنا ضروری تھا؟" ضحیٰ نے اسے کندھے پر مارتے ہوئے گھورا۔
"تمہارا منہ بند ہو تو میں کچھ بتاؤں نا! تمہیں ہر وقت چپڑ چپڑ کیوں کرنی ہوتی ہے؟" وہ بھی اسے بازو پر مارتے ہوئے بولا۔
"تم مجھ سے پنگے نہیں لو میں بتا رہی ہوں تمہیں بہت پچھتاؤ گے تم" ضحیٰ نے اپنے بازو کو بے یقینی سے دیکھتے ہوئے، ایک انگلی اٹھا کر خوف ناک غنڈوں کی طرح اسے دھمکی دی تھی۔
"تم اپنی دھمکیاں اپنے پاس رکھو میں نہیں ڈرتا ان سے" اور بالکل اس ہی طرح، سارا وقت بحث کرتے ہوئے وہ دونوں کھانا لے کر، گھر پہنچے تھے۔
•••
جنوری کے آخری دن چل رہے تھے اور دن جلدی ڈھل۔جانے کی وجہ سے شام کے ساڑھے سات بجے بھی گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ وہ ہاسپٹل کے پیچھے والے دروازے سے تھوڑا دور کچرے کے ڈھیر سے تھوڑا فاصلے پر سگریٹ جلائے کھڑا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ہاسپٹل کے ڈاکٹرز اپنے آنے جانے کے لیے یہی راستہ استعمال کرتے تھے۔ سگریٹ کے اڑتے دھوئیں کی وجہ سے اس کے لیے سانس لینا آہستہ آہستہ دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر گھڑی دیکھی، بس دو منٹ رہ گئے تھے، اس نے جلتا ہوا سگریٹ تھوڑا دور کچرے کے ڈھیر میں پھینکا جس نے گرتے ہی کچرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کچرے بڑے ڈھیر کے اس چھوٹے سے حصے میں آگ بھڑکنا شروع ہو گئی جہاں وہ لگانا چاہتا تھا۔ اس نے افسوس سے جلتے ہوئے کچرے کی طرف دیکھا اور سر جھٹک کر دروازے کو تکنے لگا تب ہی اسے وہ نکلتی ہوئی نظر آئی۔
"یا اللّٰہ مجھے معاف کرنا لیکن مجھے یہ کرنا پڑے گا" وہ آسمان کی طرف دیکھے زیرِ لب کہہ کر اپنا ہُڈ سر پر ڈالتے ہوئے، دو قدم پیچھے ہوا۔"اللّٰہ جی، پلیز یہ کام آج ہی ختم کروا دیں" اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پاسپورٹ کو دیکھتے ہوئے سوچا اور دروازے سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔ ابھی وہ اپنے خیالوں میں گُم گاڑی سے تھوڑا دور جلتے ہوئے کچرے کے قریب ہی پہنچی تھی کہ اچانک کوئی اس کے کندھے سے ٹکرایا۔ پاسپورٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور وہ لڑکھڑا کر گرنے ہی لگی تھی کہ کسی نے بے ساختہ اسے کمر سے پکڑ کر اپنی بانہوں میں لیا مگر اس کا دھیان کہیں اور ہی تھا۔ وہ بس اپنے ہاتھ سے چھوٹے اس پاسپورٹ کو دیکھ رہی تھی جو اب کچرے کے اس ڈھیر کے ساتھ تقریباً آدھا جل چکا تھا۔
اس نے جھٹ سے اس شخص پر ایک نظر ڈالی جو اسے ابھی تک اس ہی طرح پکڑے ہوئے تھا۔ وہ اپنا پاسپورٹ جلتے ہوئے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گئی تھی۔ اس کے سامنے کھڑے شخص نے ہُڈ کو سر سے نیچے اپنے چہرے تک ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھی۔
"میرا پاسپورٹ!" وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔💞
Author's note:
Assalamualaikum my beautiful people. Aap sb ko Ramadan bht bht Mubarak ho💫. May ALLAH all of us with His blessings and His beautiful presence in our hearts❤️. Have a blessful Ramadan and do take care of yourself as well!
Coming back to the novel, I am really sorry for the short episode but, due to some circumstances, I wasn't able to write much, hope you all understand. And IN SHA ALLAH, hopefully, the next episode will be lengthier than this.
Do vote! And tell me all your thoughts in the comments below about the episode and everything. I am desperately waiting for your response.
Khuda Hafiz❤️
VOCÊ ESTÁ LENDO
یا قمر/Ya Amar
Aventura"تمہیں پتا ہے تم میرے لیے کیا ہو؟" "کیا؟" "یا قمر" "مطلب؟" "میری زندگی کا سب سے خوبصورت چاند"