قسط نمبر - 14

722 54 56
                                    

"آپ اس کو راستے سے کیوں ہٹانا چاہتے ہیں؟ ڈائریکٹ اس سے جان ہی کیوں نہیں چھڑوا لیتے؟۔۔۔" مخالف سمت سے فرقان کی آواز آنے پر طلحہٰ کے آبرو سمٹے۔ پھر کچھ وقفے سے ایک بار پھر وہ معنیٰ خیزی سے بولا۔
"بلکہ، آپ کیوں؟ یہ نیک کام میں خود کرنا چاہتا ہوں" اس کے کہنے پر اب طلحہٰ ایک لمحے کے لیے چونکا تھا۔ وجہ، فرقان کے ارادے بھانپ لینا نہیں، بلکہ وہ تو اصل میں اس بات پر چونکا تھا کہ فرقان اتنا آرام سے اس کے جال میں پھنس جائے گا اور اتنا بڑا قدم بھی اٹھانے کو تیار ہو جائے گا۔ دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی تھی، طلحہٰ فون سامنے کرتے ہوئے مزاحیہ خیز انداز میں ہنسا۔ دو لمحے لگے تھے فرقان کو اب اس کے اپنے نمبر پر کال کرنے میں۔ طلحہٰ نے سر جھٹکتے ہوئے کال اٹھائی۔
"میں تمہیں ایڈریس بھیج رہا ہوں، فوراً وہاں پہنچو" فون اٹھاتے ہی دوسری طرف سے فرقان جلد بازی میں بولا۔
"ارے- مگر-" طلحہٰ نے کچھ اداکاری کرنا اپنا فرض سمجھا تھا۔
"ورنہ میں خود تمہارے گھر آ جاؤں گا" فرقان نے اسے دھمکاتے ہوئے ایک بار پھر کال کاٹ دی تھی۔ اب کے طلحہٰ اور دو منٹ پہلے آئے حمزہ، دونوں نے ایک جاندار قہقہہ لگایا تھا۔ آخر کار مقصد پورا ہونے والا تھا۔ طلحہٰ نے ہاتھ اٹھا کر گھڑی دیکھی، دو بجنے میں آدھا گھنٹہ تھا۔ وہ سکھ کا سانس لیتے ہوئے حمزہ کے ہمراہ، گاڑی کی طرف بڑھا۔

پندرہ منٹ میں وہ وہاں پہنچے تھے۔ دور سے آتی ہوئی فرقان کی گاڑی کو دیکھ کر طلحہٰ نے قدرے فکرمند بیٹھے حمزہ کو باور کرواتے ہوئے دروازہ کھولنا چاہا تھا جب حمزہ کی آواز پر ٹھٹکا۔
"پکا، کوئی خطرے والی بات نہیں ہے؟ تو کر لے گا نا؟" حمزہ نے بھنویں سمیٹے پریشانی سے پوچھا تھا۔ طلحہٰ نے محض اپنے جیکٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی اور باہر نکلا۔ اب کے فرقان وہاں پہنچ چکا تھا۔ طلحہٰ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے فون نکال کر اس کا انتظار کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے اس کو کال ملائی جو کہ ظاہر ہے ریسیو نہیں کی گئی تھی۔
"ٹھا! ٹھا! ٹھا!" بس، دو منٹ کا کھیل تھا اور طلحہٰ زمین پر چت ہو چکا تھا۔ فرقان کے جاتے ہی حمزہ دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔
"تو ٹھیک ہے؟!" اس نے جھنجوڑا۔ طلحہٰ نے ایک آنکھ کھول کر اس کی طرف دیکھا، پھر ہنستے ہوئے سیدھا ہو کر بیٹھا۔
"توبہ، ایک تو مجرموں کو پکڑوانے کے لیے بھی کیا کیا کرنا پڑتا ہے" وہ اپنا سر افسوس سے ہلاتے ہوئے اپنی جیکٹ اتار کر اندر اپنی "بلٹ پروف" جیکٹ پر لگے تمام فیک بلڈ پیچس (blood patches) نکالنے لگا۔ حمزہ نے بھی سکھ کا سانس لیتے ہوئے اس کی مدد کی۔ سارے بلڈ پیچس پھٹ جانے کی وجہ سے ہی لال مائع، خون کی طرح سڑک پر بہہ رہا تھا۔ فارغ ہو کر احساس ہوا کہ وقت کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ دو بجنے میں پانچ منٹ رہ گئے تھے اور ماہم کا ہسپتال یہاں سے دس منٹ کے راستے پر تھا۔
"اوہ نو! مجھے جانا ہو گا یار، ورنہ وہ ڈاکٹر صاحبہ اس بار تو میری اچھی خاصی عزت افزائی کر دیں گی!" طلحہٰ نے ماہم کا کل والا "حکم" یاد کرتے ہوئے سر پر ہاتھ مارا تھا۔
"ہاہاہا! کہاں پھنسا ہے تو بھی!" حمزہ نے اس کا مزاق اڑایا تھا۔
"اچھا نا! میں جا رہا ہوں، تو یہ سب دیکھ لے گا نا؟" طلحہٰ اسے گھورتے ہوئے پھر سڑک کو دیکھتے ہوئے بے چارگی سے بولا۔ حمزہ نے سر اثبات میں ہلا کر اسے تسلی دی تھی۔ اور وہ اپنی جیکٹ اتارے خود پر لگی ان نقلی خون کی چھینٹوں کو صاف کرنے کے لیے جا چکا تھا۔
•••
"اوئے! کیا ہو رہا ہے؟" ماہ نور نے کیفیٹیریا میں گم سم سی بیٹھی ماہم کے سامنے چھٹکی بجاتے ہوئے کہا تو وہ ہوش میں آئی۔
"سوچ رہی ہوں کہ میں یہ سب کر بھی لوں گی یا نہیں؟" ماہم نے فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری تھی۔ ماہ نور سر افسوس سے ہلایا۔
"اوں ہوں، ڈونٹ وری میری جان، وہ پولیس والی بات صرف ایک حادثہ تھا جو کہ اب سنبھل چکا ہے۔ ہاں البتہ اگر تم نے اب ہمت کھوئی تو شاید وہ حادثہ مستقبل میں بدل جائے" وہ اس کو تسلی دے رہی تھی جیسے گزرے چند دنوں میں مستقل دیتی آئی تھی۔ پولیس والی بات ماہم نے آتے ہی اسے بتا دی تھی سو اب وہ فکر مند سی ہو گئی تھی۔ پچھلے تین دن بھی ماہم کی جگہ ڈیوٹی اس ہی نے دی تھی۔ وہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے نبھا رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے ماہم کے چہرے پر ایک مبہوم سی مسکراہٹ آئی تھی۔
"اللّٰہ نہ کرے، نور یہ بتاؤ کہ-" اب کے ماہم قدرے سنبھل کر بولی کہ ماہ نور کے اچانک کھڑے ہو جانے پر اس بات ادھوری رہ گئی۔
"السلام و علیکم ڈاکٹر ماہم" طلحہٰ اس کے پیچھے سے آتے ہوئے بولا تھا۔
"میں اندر تمہارا ویٹ کر رہی ہوں، کم ٹو می وین یو آر ڈن" ماہ نور اسے دیکھ مکمل سرد مہری اختیار کرتے ہوئے ماہم کو کہتی باہر جا چکی تھی۔
"وعلیکم السلام" ماہم نے آنکھیں چڑھاتے ہوئے دو ٹوک جواب دیا۔ طلحہٰ بے نیازی سے اس کے سامنے آ کر بیٹھا تو اس نے سیدھا ہوتے ہوئے بھنویں سکیڑے اسے دیکھا۔
"آپ میرے سامنے مت آیا کریں، مجھے ڈر ہے کہ آپ کا بھی ایک قتل کرنے پر جیل چلی جاؤں گی" وہ طنزیہ بولی تو طلحہٰ فوراً بے حد تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے پیچھے والی کرسی پر جا بیٹھا۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف اپنی اپنی پشت کیے بیٹھے تھے۔
"آپ کا پاسپورٹ" طلحہٰ نے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے اسے پاسپورٹ پکڑانا چاہا۔
"شکریہ کون بولے گا؟" پھر اس کے خاموشی سے پاسپورٹ پکڑ لینے پر حیرت سے کہا۔
"میرے ساتھ زیادہ فری نہ ہوں، غلطی آپ کی تھی، آپ کا بنوا کر دینا فرض تھا اس لیے، نو تھینک یوز ریکوائرڈ!" اس نے اپنا منہ ترچھا کرتے ہوئے ایک انگلی سے اسے دھمکانا چاہا۔
"ہیں؟ اب یہ کہاں کا انصاف ہے؟" وہ اس کی ایسی تجویز پر مزید حیران ہوا تھا جو اسے کافی ویلڈ بھی لگی تھی۔
"میری دنیا کا انصاف ہے" ماہم اپنا سر حتمی انداز میں ہلاتے ہوئے بولی۔
"اچھا؟ اور کیا کیا اصول ہیں آپ کی دنیا کے؟" طلحہٰ نے اسے تپا ہوا دیکھ کر، اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے مزید تپانے کی کوشش کی۔
"بہت ہیں، اور فی الحال سب سے اہم یہ ہے کہ کل کے بعد سے آپ مجھے اپنا چہرہ نہ دکھائیں" وہ اب مکمل طور پر اس کی طرف رخ کیے بولی۔
"کل کے بعد کیوں؟ آج کے بعد ہی کیوں نہیں؟" وہ بھی اس کی طرف مڑتے ہوئے کھڑا ہو کر نا سمجھی سے بولا جو ماہم کو طنز لگا تھا۔
"کیوں کہ، مسٹر طلحہٰ مجھے آپ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بد قسمتی سے آپ کی شکل دیکھنا ضروری ہے" ماہم نے گہرے افسوس سےاپنا سر ہلایا۔
"اور انشاء اللّٰہ یہ کل کی تاریخ میں ہو جائے گا" وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے، سر جھٹک کر آگے کی طرف بڑھی۔ ایک بار پھر وہ اسے اپنی باتوں سے حیرت زدہ چھوڑ گئی تھی۔
•••
"چشمش! چشمش!" وہ تقریباً چلاتے ہوئے اس کے گھر میں داخل ہوئی تھی۔
"کیا ہوا؟ سب خیریت؟" وہ اس کی آواز پر حیران و پریشان ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا۔
"اوئے ہوئے، ماشاء اللّٰہ بڑی جلدی اپنے نام کی عادت پڑ گئی ہے یار؟" اس نے شرارتاً اسے چھیڑا۔
"کوئی اور کام نہیں ہے آپ کو مس انوشہ؟ کیوں میرے سر پر ٹپک جاتی ہیں ہر وقت؟" اس نے مصنوعی ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا جب کہ نہ تو انوشہ کو فرق پڑنا تھا اور دراصل اب تو اسے بھی اس کی ان حرکتوں کی عادت پڑ چکی تھی۔
"کیوں؟۔۔ اپنی ہونے والی دلہن سے بات کر رہے تھے؟" وہ اسے مزید چھیڑنے کے موڈ میں تھی۔
"استغفرُللّٰہ! میں ایسی حرکتیں بالکل نہیں کرتا۔ ہاں البتہ آپ کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے" اس نے آنکھیں سکیڑے اس کی جانچ پڑتال کرنا چاہی۔
"آپ کے اندازے ہر دفعہ ٹھیک نہیں ہوتے، اس بات کا اندازہ نہیں ہوا آپ کو اب تک؟" اس نے تپ کر جواب دیا۔
"میں تو ویسے بہت کچھ اندازہ لگا لیتا ہوں، لیکن بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کا آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیئے" وہ کندھے اچکاتا ہوا بے نیازی سے بولا۔
"مجھے نہیں سکھائیں! یہ دیکھیں، ونڈوز کے لیے ان میں سے کون سا ڈیزائین سلیکٹ کروں؟" اس نے اس کو ڈپٹتے ہوئے، اپنے ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک دکھائی۔ سلیکشن وغیرہ تو سب بہانہ تھا، انوشہ کو بھی بس تنگ کرنے کے لیے ایک اور انسان چاہیے تھا۔ اور فی الحال زاویار قربانی کا بکرا بن چکا تھا۔
"مس انوشہ، یہ سلیکٹ تو کروا رہی ہیں آپ، لیکن ابھی تک گھر میں تو مجھے ان میں سے کوئی بھی چیز نظر نہیں آ رہی" وہ ہر دفعہ اس کے پوچھنے پر یہی طعنہ دیتا تھا۔ انوشہ نے برا سا منہ بنا کر اس کی طرف دیکھا۔
"ہاں، میں نے اپنے گھر بھجوا دیا سب کچھ"
"ہیں؟ پھر مجھ سے پیسے کس خوشی میں لے رہی ہیں؟" زاویار کے تو جیسے دل میں درد ہوا تھا۔
"ایگزیکٹلی، جب پیسے دیں گے، تب ہی آئیں گی" وہ سینہ تان کر بولی، جیسے اس سے زبردستی کام کروایا جا رہا ہو، جب کہ کون زبردستی کام کر رہا تھا اس سے تو سب ہی واقف ہیں۔ اس ہی نوک جھوک میں ہمیشہ کی طرح اب کھڑکیوں کا بھی انتخاب کر لیا گیا تھا۔ جاتے جاتے بھی وہ اسے یاد کروانا نہیں بھولی تھی کہ اب وہ اس کا کلائنٹ بن چکا ہے، اور وہ یہ کام کرنے کے لیے پیسوں کے ساتھ ساتھ، کھانے کی صورت میں ایک شکریہ بھی قبول کر لے گی۔ بہت مہربان طبیعت کا مظاہرہ کیا ہو جیسے۔ زاویار بس اپنا سر پکڑ کر ہی رہ گیا تھا۔
•••
شام کے سات بج چکے تھے اور سورج کب کا اپنی روشنیوں کو لیے نیچے اتر چکا تھا جب کہ چاند اپنی جگہ پر پورا کھڑا روشنیاں برسا رہا تھا۔ اس کی گاڑی پولیس اسٹیشن کے سامنے آ کر رکی اور وہ ایک شان سے گاڑی سے نکلا۔
اب منظر کچھ یوں تھا کہ انٹیروگیشن روم میں ایک پولیس افسر تفتیشی کرسی پر بیٹھا بظاہر غور سے سامنے بیٹھے فرقان کا بیان سن اور ریکارڈ کر رہا تھا جب کہ باہر طلحہٰ اور حمزہ تیار کھڑے تھے۔
"تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گولی آپ نے نہیں چلوائی تھی بلکہ آپ کے ایک بندے نے اپنی خود کی دشمنی کی بنا پر ارشد صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا تھا؟" وہ افسر اس کی بات سن کر حکم کے مطابق اپنی اداکاری جاری رکھتے ہوئے بولا۔
"جی، بلکہ مجھے تو خود بھی نہیں پتا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے، وہ تو ایف آئی آر کٹنے کے بعد مجھے پتا چلا ہے" وہ بھی اپنی رٹی ہوئی کہانی فر فر سناتا جا رہا تھا۔
"اچھا۔۔ لیکن، اس ویڈیو کے مطابق تو کچھ اور ہی سمجھ آ رہا ہے۔۔۔" وہ افسر اب اپنے اصل مقصد پر آیا تھا۔ "ویڈیو" کا نام سن کر اب فرقان کا حلق خشک ہوا تھا۔
"کونسی ویڈیو؟ وہاں کوئی کیمرا بھی تھا کیا؟" اس نے بظاہر سنبھل کر پوچھا۔
"یہ ویڈیو" اس نے اب دروازے سے داخل ہوتے ہوئے طلحہٰ کی طرف اشارہ کیا۔ فرقان اسے دیکھ، فوراً کھڑا ہوا تھا جو اپنے ہاتھ میں موبائل پکڑے آج دوپہر ریکارڈ کی جانے والی ویڈیو چلائے کھڑا تھا۔
"تو! تو یہاں کیا کر رہا ہے؟! تیری وجہ سے ہی مجھے یہ سب کرنا پڑا تھا! اور تو بھی اپنے باپ کی طرح موٹی کھال ہی نکلا! پہلے اس کو گولی ماری، وہ بھی نہیں مرا اور اب تجھ پر اپنی گولیاں ضائع کیں لیکن تو بھی تو اس ہی کی ڈھیٹ اولاد-" اپنی بوکھلاہٹ میں وہ یکدم آپے سے باہر ہوا تھا اور اس سے پہلے کے وہ تیش میں ایک لفظ بھی اور بولتا، طلحہٰ نے ارشد صاحب کے بارے میں اس کے الفاظ سن کر ایک مکا اس کی ناک پر دے مارا۔ وہ پیچھے گرا تھا۔ طلحہٰ اسے سنبھلنے کا موقع ملنے سے پہلے ہی مزید دو چار اور لگا چکا تھا۔ اس کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا اور اب بھی طلحہٰ اسے مزید زخمی کرنے کے ارادے سے آگے بڑھ رہا تھا کہ حمزہ اور پولیس کی وردی میں ان کے دوست کاشف، دونوں نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ کاشف نے فرقان کے جذبات میں آنے کے بعد بھی ریکارڈنگ کا بٹن آف نہیں کیا تھا سو فرقان کے لیے اب بھاگنے کا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ اب کے دروازے سے اصل پولیس افسران بھی اندر آ چکے تھے اور مجرم کو ہتھ کڑیاں لگا دی گئی تھیں۔ اس دو منٹ کے کام میں طلحہٰ کے ایک ہفتے کی محنت تھی۔ اس ہی تحقیق میں اسے فرقان کی ڈرگ اہڈکشن ہسٹری بھی مل چکی تھی اور تین، چار بار اسلحہ کی سمگلنگ میں بھی اس کی شرکت کے ثبوت مل چکے تھے۔ اور آخر کار اس کی ان تھک محنت کے بدلے ہی پچھلے تمام مجرموں کی طرح، فرقان بھی اپنی اصل جگہ پہنچ چکا تھا۔
•••
ساڑھے نو بج چکے تھے اور وہ ریسٹورنٹ میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ آج کا دن طلحہٰ کے لیے بہت تھکاوٹ زدہ ثابت ہوا تھا۔ مگر یہ اب آج کا آخری کام رہ گیا تھا۔ اور طلحہٰ کے لیے سب سے مشکل والا بھی۔ مہد کے مطابق، اس کے اور ارشد صاحب کے بارے میں سننے کے بعد راشد صاحب نے طلحہٰ اور اس کے ابو سے ملنے کی درخواست کی تھی۔ البتہ ارشد صاحب اب تک مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے تھے سو طلحہٰ کو انہیں یہاں لانا مناسب نہیں لگا تھا۔ وہاں بیٹھے وہ گھبرا رہا تھا، وجہ؟ اس سے وہ خود بھی واقف نہ تھا۔ ماہم کے ابو سے ملنے کا خیال خود ہی کافی خوفناک تھا۔ اس نے مہد سے بھی کہا تھا کہ ان کے ساتھ آ جائے لیکن وہ کسی مصروفیت کے تحت نہ آ سکا۔ سامنے سے آتے راشد صاحب کو دیکھ وہ پسینے صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"السلام و علیکم سر" اس نے فوراً ہاتھ بڑھایا جسے انہوں نے بھی سر ہلاتے ہوئے قبول کیا تھا۔
"بیٹھو" انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے خود بھی اپنی کرسی سنبھالی۔
"How are you doing?"
(کیسے ہو؟)
"الحمدللّٰہ، آپ سنائیں؟" طلحہٰ کا حلق خشک ہو رہا تھا۔
"اللّٰہ کا شکر، آپ کے فادر نہیں آئے؟" انہیں فوراً تشویش ہوئی۔
"جی، وہ ابھی بھی انڈر ریکوری ہیں، اس لیے۔۔" اب کے وہ قدرے سنبھل چکا تھا۔
"اوہ۔۔ اللّٰہ انہیں صحت دے" وہ سر ہلاتے ہوئے بولے، طلحہٰ نے بھی "آمین" کہا۔
"مہد نے بتایا تھا کہ آپ پولیس میں ہیں" انہوں نے تصدیق کرنا چاہی۔ مہد کے سرسری سا بتانے پر وہ یہی سمجھے تھے۔
"آ- جی انکل، میں ایکچوالی، کرائم ڈیپارٹمنٹ میں ہوں۔۔" اب کے تفصیل بتاتے ہوئے وہ مکمل طور پر پر سکون ہو چکا تھا۔ راشد صاحب بھی کافی خوش اخلاقی سے ملے تھے۔ البتہ اصل بات پر وہ اب پہنچے تھے۔
"تو، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وقار صاحب۔۔؟" راشد صاحب نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"جی سر، میری ٹیم ہی ان کا کیس ہینڈل کر رہی ہے" اس نے سر اثبات میں ہلایا۔ اب چھپانے کا کوئی بہانا بھی نہ تھا۔
"آئی ایم سو سوری سر، میری ہی وجہ سے ڈاکٹر ماہم اس مشکل میں پھنسی ہیں۔ لیکن ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، ہم انہیں پہلے ہی سب بتا دینا چاہتے تھے، مگر شاید حالات ہی ہمارے حق میں نہ تھے۔۔" وہ شرمندہ تھا۔
"نہیں، آپ کی مجبوری بھی اپنی جگہ ٹھیک تھی" انہوں نے اسے باور کروانا چاہا۔
"لیکن میں آپ لوگوں کی بھرپور مدد کروں گا، اور انشاء اللّٰہ ڈاکٹر ماہم کو بھی ان ثبوتوں کی مدد سے، ضرور اس کیس سے نکال لوں گا، آپ فکر نہیں کریں" وہ سامنے رکھے، ڈی وی ڈیز اور چند تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرجوش سا ہو کر بولا تو راشد صاحب اسے دیکھ، سکھ کا سانس لیے، ہنس دیے۔ چیزیں سنبھل چکی تھیں، اور وہ سب بھی اپنے آپ کو سنبھال چکے تھے۔ ان کے اس طرح ہنسنے پر طلحہٰ شرمندہ سا، محض مسکرا کر ہی رہ گیا۔
•••
راشد صاحب کے گھر کے لان کی روشنیاں بھی جل اٹھی تھیں، اور وہ سب لان میں کرسیاں لگائے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔
"مہد کیا یہ سچ ہے؟" ماہم نے فکر مند سا ہو کر پوچھا۔
"بیٹا، تم پریشان نہ ہو، وہ وقار صاحب کا بیٹا نہیں ہے، یہ بھی ایک طرح سے ہمارے لیے اچھی بات ہے نا؟" طارق صاحب نے اسے تسلی دینی چاہی۔
"ہاں!۔۔ لیکن کیسے؟" ماہ نور نے آخری بات ماہم کو پریشان نہ کرنے کے لیے، آہستہ سے طارق صاحب کی طرف جھک کر کی تھی۔
"یہ بات ابھی کورٹ کو نہیں پتا۔ ہم کل اس ہی بات پر اس پر الزام لگا سکتے ہیں کہ وہ وقار صاحب کا کون لگتا ہے اور کورٹ سے جھوٹ بولنے کی سزا ویسے بھی بہت بڑی ہے" جواب زاہد صاحب کی طرف سے آیا تھا۔
"نہیں زاہد انکل! میں کل خود کورٹ جاؤں گی!" اس نے سیدھے ہوتے ہوئے انہیں اپنا صبح کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔ آپ کیا کریں گی وہاں جا کر؟" اب طارق صاحب نے اس کو حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں اپنی بے گناہی خود ثابت کرنا چاہتی ہوں طارق انکل!" وہ انہیں بتاتے ہوئے پر عزم لگی تھی۔
"ماشاء اللّٰہ! یہ تو بہت اچھی بات ہے بھئی! ہماری بیٹی تو بہت بہادر ہو گئی ہے؟" زاہد صاحب نے اس کا یہ انداز دیکھ کر بے حد خوش ہوتے ہوئے کہا تھا۔ لان میں دونوں امیوں کے سوا سب ہی بیٹھے تھے جو بڑھ چڑھ کر آج اس مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ دونوں عورتیں گھر کے اندر اپنی اپنی جائے نماز اور وظیفے لیے بیٹھ چکی تھیں۔ انوشہ، ضحیٰ، زاویار اور معیز اپنے ہی مطلب کے حل نکالنے میں مشغول تھے جب کہ رمشا وہاں چپس، بسکٹس، اور باقی تمام چیزیں لیے بیٹھی تھی اور سب کو بانٹ کم، خود زیادہ ٹھونس رہی تھی۔ اس کے مطابق اسے پریشانی میں زیادہ بھوک لگتی تھی جب کہ، معیز اور ماہ نور تو اس کے کئی مرتبہ نیند میں اٹھ کر کھانے بیٹھ جانے کی گواہی بھی دے چکے تھے اور باقی سب اس بات پر اختلاف بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کی جیتا جاگتا ثبوت وہ انہیں خود وہاں بیٹھے دے رہی تھی۔
•••
"اللّٰہ جی، میں کیا کروں اب؟" ماہم نے اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین کھولتے ہوئے پریشانی سے برابر بیٹھی ماہ نور کو دیکھا۔
"باہر سب کو بول تو آئی ہوں، لیکن کورٹ میں جا کر صرف شکل تو نہیں دکھانی نا؟" اس نے خود کو کوستے ہوئے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ ڈالا جب سامنے موجود فائل کو دیکھ کر اس کو جھٹکا لگا۔
"Records of Waqar Chaudhary"
"یہ کون سی فائل ہے؟" اس نے حیرت سے اس فائل کو دیکھا پھر ماہ نور کو۔ وہ بھی بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئی اور اس کا جائزہ لیا۔ اب تک ایک مرتبہ بھی اس کے لیپ ٹاپ پر اس کیس کے بارے میں کچھ بھی نہیں ڈالا گیا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ اس فائل کے اچانک نمودار ہو جانے پر وہ حیران و پریشان ہوئی تھیں۔ اس نے فائل پر ڈبل کلک کرتے ہوئے اسے کھولنا چاہا۔
"اوہ مائی گاڈ!!" اس فائل کے کھلتے ہی ان دونوں کو جھٹکا لگا تھا۔ کیوں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے جو کچھ چل رہا تھا وہ بہت نا ممکن سا لگ رہا تھا مگر حیرت انگیز طور پر وہی تو سب کچھ تھا جو وہ دیکھنا چاہتی تھیں۔
("وقار صاحب تو خود ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہیں!" فون کے دوسری طرف سے حمزہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
"واہ! یہ تو اور بھی اچھی بات ہے یار!" اس نے بھی خوش ہوتے ہوئے جواب دیا۔ اس سے کچھ دیر پہلے تک ان کا یہی ارادہ تھا کہ وقار صاحب کو بے ہوش کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے، لیکن ان کے خود مدد کرنے سے ان کا کام آسان ہو گیا تھا۔
"بس اب ڈاکٹر ماہم کو بتا کر ڈسچارج سرٹیفیکیٹ بنوانا ہے" وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔
"بالکل! پے منٹ تو میں نے کر دی تھی۔تو اب بس یہی کام رہتا ہے۔ اسے بھی ہم کل ہی کر لیتے ہیں نا؟" حمزہ اس وقت وقار صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں ہی بیٹھا تھا اور فون اسپیکر پر ہونے کی وجہ سے وہ بھی سب کچھ سن رہے تھے۔
"ہاں، کل ویسے بھی مجھے اس کے ساتھ ایجنسی جانا ہے، اور اس کے بعد وہ ڈیوٹی سے رات کے ساڑھے بارہ بجے فارغ ہو گی" طلحہٰ نے اس کا پورا شیڈیول ایسے بتاتے ہوئے کہا جیسے اسے یاد ہو۔) سن کر ماہم اور ماہ نور دونوں نے ہی اپنے سر پکڑے تھے۔ تو یہ چل رہا تھا ان کے پیچھے؟
("بس پھر، اسی وقت کر لیں گے یہ کام؟" حمزہ نے کہا۔
"ہاں، تو ایک بجے ہاسپٹل کے پیچھے والے دروزے پر تیار رہنا، پھر میرے سگنل ملنے پر اندر آ کر انہیں کے جانا، باقی میں سنبھال لوں گا" طلحہٰ نے اسے آگے کا پلان بتاتے ہوئے کہا۔ ان جاسوس لوگوں کی بھی اپنی ہی زبان تھی۔
"ڈن ہے۔" حمزہ نے اس کے منصوبے پر خوش ہوتے ہوئے فون بند کیا جب کہ وقار صاحب بس خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سنتے رہے) اوڈیو ختم ہو چکا تھا۔ ماہم نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اگلی ویڈیو کھولنی چاہی جو کہ اس رات ان کے ہاسپٹل روم کی ریکارڈنگ تھی۔

یا قمر/Ya AmarDove le storie prendono vita. Scoprilo ora