قسط نمبر - 7

820 47 12
                                    

دھندلی آنکھیں اور گھومتے ہوئے سر کے ساتھ وہ ایک بار پھر ہوش میں آئے مگر اس دفعہ ان کی آنکھوں کے سامنے منظر کچھ الگ تھا۔ ان کو اپنے ارد گرد ڈبے نظر نہیں آ رہے تھے اور سامنے والی کرسی پر اب ایک شخص اپنے ہاتھ میں کوئی چیز پکڑے بیٹھا تھا، چکراتے سر کی وجہ سے انہیں کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا گویا آنکھوں کے سامنے دھند کا پردہ سا موجود ہو۔ انہیں اس شخص کے سرہانے دو اور لوگ کھڑے محسوس ہوئے تھے۔
"اوئے! اُٹھا اسے" کرسی پر بیٹھے شخص نے اپنے بائیں ہاتھ پر کھڑے آدمی کو ہاتھ میں پکڑی ہوئی شہ سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، شاید وہ کوئی ڈنڈا یا بڑی سی لکڑی تھی۔
"اچھا باس!" وہ سر اثبات میں ہلاتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ ابھی وہ سب کچھ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ اپنے دائیں گال پر انہیں ایک زناٹے دار طمانچہ پڑتا محسوس ہوا تو وہ جھٹکے سے ہوش میں آئے۔ ان کے ہاتھوں کو کھول دیا گیا تھا البتہ ہونٹوں کو اب بھی کسی کپڑے سے قید کر رکھا تھا۔
"بول؟ بڑی دھمکیاں دے رہا تھا نا تو؟" کرسی پر بیٹھے شخص نے انہیں زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔ جب کہ اب تک وہ اپنے منہ سے کپڑا ہٹا چکے تھے۔
"تم لوگ کون ہو اور مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے آخر؟" وہ غصے میں غراتے ہوئے بولے۔ ان کے سر کے پچھلے حصے میں ابھی بھی شدید درد تھا جو غالباً دو بار سر پر وہ بھاری ڈنڈا لگنے کی وجہ سے ہی شروع ہوا تھا۔
"یہ جان کر تو کیا کرے گا؟ پولیس کو بتائے گا؟ جیل کروائے گا ہمیں؟" اس نے اپنی بانچھیں کھول کر ایک زور دار قہقہہ لگایا تھا جس سے اس کے زہریلے پیلے دانت واضح ہوئے تھے اور انہوں نے کراہیت سے آنکھیں میچی تھیں۔
"اس ہی شاہ نے بھیجا ہے نا تم لوگوں کو؟ بتا دو اس کو، میں نہیں ڈرتا، میرے جیسے اور کتنے وقار تم مارو گے؟ ایک کی جان لو گے تو چار اور نکل کر آئیں گے" انہوں نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔
"اچھا بس! زیادہ بکواس نہیں کر! تجھے مارنے لائے ہیں، تیرے فلسفے سننے نہیں!" اس نے ہاتھ اٹھا کر ایک اور زور دار تھپڑ لگاتے ہوئے طیش میں آتے ہوئے کہا۔
"اس کتے کو بھی نمٹاؤ یار" وہ اپنے سرہانے کھڑے دونوں آدمیوں کو بے زاری حکم دیتا ہوا بولا۔
"جی استاد" وہ دونوں ان کی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔ ان کو اپنی طرف آتا دیکھ، انہوں نے قرب سے اپنی آنکھیں میچے اپنی پہلی اور آخری امید، اللّٰہ کو پکارنا شروع کیا تھا۔ بے شک وہ اس کام میں اللّٰہ کا نام لے کر ہی آگے بڑھے تھے۔
"یا اللّٰہ! تُو تو مدد کرنے والا ہے، تو رحمان و رحیم ہے۔ تو ظالموں کو ختم کرنے والی ذات ہے۔ تو مظلوموں کو حق دلانے والی ذات ہے۔ میرے اللّٰہ! میں ان ظالموں کو سزا دلوانا چاہتا ہوں، تُو میری مدد کر۔ یا اللّٰہ مجھے اس گناہ کو اور گناہگار کو ختم کروانے کا ذریعہ بنا دے۔ تُو تو سب سے بڑا انصاف کرنے والا بادشاہ ہے، ان جیسے حیوانات کی نا انصافی کو ختم کرنے میں میری مدد کر۔۔" بے اختیار ان کے دل نے اللّٰہ کو پکارا تھا۔ کیونکہ وہ اللّٰہ پر بھروسہ رکھنے والے تھے، وہ اللّٰہ سے دعاؤں پر یقین رکھتے تھے، وہ اللّٰہ کے با وقار بندے تھے۔ وہ وقار چوہدری تھے۔ اور جب مومن قرب سے اپنے رب کو پکارتا ہے تو وہ خالق ذات مسکرا کر اس پر کن کہتی ہے۔ اچانک کرسی پر بیٹھے شخص کا فون بجا۔
"جی سر" وہ فون اٹھاتا ہوا بولا۔
"کیا؟! ہم آ رہے ہیں" وہ مخالف طرف سے کچھ سننے کے بعد حیرت سے بولا اور فون بند کیا۔
"جلدی چلو، باس کو ہماری ضرورت ہے" اس نے اپنے لڑکوں کو اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"استاد اس کا کیا کرنا ہے؟" ان میں سے ایک نے وقار صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"اس کو باندھ اور جلدی نکل!" وہ جلدی میں حکم دیتا ہوا دوسرے آدمی کو اپنے ساتھ لیے باہر کی طرف نکلا جب کہ وہ تیسرا انہیں ایک بار پھر رسیوں سے باندھنا شروع ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس سے جان چھڑوانے کی کافی کوشش کی مگر وہ ناکام ہی ہوئے تھے۔ وہ عجلت میں ان کی رسیاں باندھ رہا تھا کہ انہوں نے اپنا پیر اس کے ایک گھٹنے کے پیچھے مارا جس سے وہ بے ساختہ زمین پر گرا۔ وہ فوری طور پر اٹھے اور رفتا رفتا دروازے کی طرف بڑھے جو سیدھے ہاتھ پر کونے میں ہی تھا، کہ اچانک پیچھے سے اس لڑکے نے ان کو گردن سے اپنی گرفت میں کیا۔ انہوں نے نظریں گھما کر اپنی دفاع کے۔لیے کوئی چیز ڈھوننڈنی جاہی جو انہیں فوراً ہی مل گئی۔ انہوں نے قریب پڑا وہی بھاری ڈنڈا اس کے سر پر دے مارا جس سے اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔ وہ بھاگتے ہوئے دروازہ عبور کرتے سڑک پر نکلے جو بہت سنسان لگتی تھی۔ انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت کس جگہ پر ہیں۔ ابھی وہ راستہ پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ایک بار پھر انہیں پیچھے سے اس کے پیروں کی چاپ سنائی دی۔ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے سڑک کے درمیان بھاگتے ہوئے آگے بڑھے۔ وہ اپنے وجود میں اٹھتے درد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پوری رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک پیچھے سے انہیں کسی گاڑی کے ہارن دینے کی آواز آئی، انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، اس کی لائٹس ان کی آنکھوں کو اندھا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر پڑیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتے یا سمجھتے، جب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ گاڑی ان کو گھسیٹتے ہوئے آگے تک لے گئی، وہ سڑک کے ایک طرف جا گرے۔ انہیں ایک بار پھر درد کی شدت سے اپنا ذہن ہوش کھوتا محسوس ہوا تو انہوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے بس اپنا سانس بحال کرنا چاہا مگر تکلیف کے باعث وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے اور ان کا سر پوری شدت سے نیچے موجود زمین پر جا لگا۔ اس کے بعد ان کی آنکھ ہاسپٹل کے بیڈ پر کھلی تھی۔ یہ تمام مناظر وہ اس کو بیان کر رہے تھے جنہیں وہ کافی غور سے سنتے ہوئے ریکارڈ کر رہا تھا۔ ابھی ہی تو وہ ڈاکٹر ماہم سے وقار صاحب سے ملنے کی اجازت لے کر آیا تھا۔
•••
"کیسی ہیں ڈاکٹر صاحبہ؟" وہ دو انگلیوں سے اس کی ٹیبل بجاتا ہوا بولا جو کیفیٹیریا میں اکیلے بیٹھی کافی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی لگتی تھی۔ وہ پیچھے سے آتا ہوا اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا۔
"بالکل موڈ ٹھیک نہیں ہے، آپ مجھے تنگ نہیں کیے گا آپ کی صحت کے لیے بالکل اچھا نہیں ہوگا!" وہ اس کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہوئے اسے دھمکانے والے انداز میں بولی۔
"اور اگر میں کہوں کہ میں نے سب کنفرمیشن کروا لی ہے اور آپ کا پاسپورٹ ڈیڑھ ہفتے میں آپ کے پاس ہو گا، تو کیا آپ کا موڈ ٹھیک ہوگا؟" اس نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
"ریئلی؟" اس کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر آئی تھی۔ طلحہٰ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"ہائے اللّٰہ! تیرا شکر!" اس نے تشکر سے آنکھیں موندے، ہاتھ باہم باندھتے ہوئے کہا۔
"لیکن آپ کو میری ایک شرط ماننی پڑے گی" وہ کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے سینے پر ہاتھ باندھ کر بولا۔
"کیسی شرط؟" وہ یک دم سیدھی ہوئی، اور اس کے آبرو تنے۔
"شرط یہ کہ، یہ جو آپ کی چھوٹی سی ناک پر ہر وقت غصہ بیٹھا رہتا ہے، آج سے آپ اس کو مجھ پر نہیں نکالیں گی" وہ اس کی ناک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جو اس کی بات سن کر پھر لال ہوئی تھی۔
"جی یہی والا" اس نے اس کی لال ہوتی ناک کو دیکھ کر کہا۔
"واہ! بڑا فرمائشی پروگرام چل رہا ہے نا یہاں؟" وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔
"ٹھیک ہے، چلتا ہوں پھر میں" وہ کندھے اچکاتا اٹھنے لگا۔
"آپ کو پتا ہے نا، یہ آپ کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے آتا ہے!" ماہم نے آنکھیں سکیڑے اسے ڈپٹہ۔
"جی ہاں، اس ہی لیے کہہ رہا ہوں۔ کیوں کہ میری تو یہی حرکتیں رہیں گی ہمیشہ" وہ سینہ تانے بولا تھا جیسے بڑے فخر کی بات ہو۔
"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟" وہ تنگ آ کر بولی۔
"ارے واہ! بڑی بے تابی ہے آپ کو میرے بارے میں جاننے کی؟" اس نے آنکھوں میں شرارت لیے کہا۔
"خوش فہمی ہے آپ کی، مجھے بس میرا پاسپورٹ بنوا دیں، مہربانی ہوگی" اس کے چہرے پر اس کی مجبوری صاف نمایاں تھی۔
"وہی کر رہے ہیں، بس آپ کو دو، تین دفعہ ایجنسی چلنا پڑے گا، ڈاکیومنٹس وغیرہ جمع کروانے کے لیے؟" اس نے پروفیشنل انداز میں بتاتے ہوئے کہا۔
"اچھا؟ اور کب جانا ہے؟" ماہم نے پوچھا۔ اسے اپنی ڈیوٹی کے مطابق چلنا ضروری تھا۔
"یہ تو مجھے پوچھ کر بتانا پڑے گا" وہ سوچتے ہوئے بولا، جس کا اصل مطلب تھا کہ "آپ کے پورے شیڈیول پر تحقیق کرنے کے بعد اپائنٹمنٹ لے کر بتاؤں گا" یہ لڑکا اور اس کی جاسوسیاں!
"ٹھیک ہے، آپ پوچھ کر، مجھے میسج کر دیے گا" وہ بھی کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔ دماغ چلانا اس کے حصے کا کام نہیں تھا۔
"چلیں پھر ڈن" طلحہٰ نے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
"ویسے آپ روزانہ یہاں ہاسپٹل میں کیا کرنے آتے ہیں؟ میں صحیح کہہ رہی تھی نا؟ کرتے ہیں نا آپ میری جاسوسی؟" کچھ دیر گزر جانے کے بعد، خیال آنے پر، ماہم نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی طرف جھک کر تفتیشی انداز میں پوچھا۔ وہ اس کو سنانے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے جانے کہاں دیتی تھی؟
"بڑی خوش فہمیاں ہیں آپ کو اپنے بارے میں، اتنا فارغ بھی نہیں ہوں اب، دوست یہاں ایڈمٹ ہے بس اس کی وجہ سے آتا ہوں" اس نے بھی اس ہی کے انداز میں ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی طرف جھک کر بڑی صفائی سے جھوٹ بولا تھا۔
"اوہ، چلیں، آپ پوچھیں جا کر اپنے دوست کو، مجھے بھی ڈیوٹی پر جانا ہے" اس نے ٹیبل پر سے اپنا سامان اٹھاتے ہوئے کھڑے ہو کر کہا اور باہر کی طرف بڑھی۔
"جی، پوچھتا ہوں اپنے دوست کو بھی ذرا" اس نے ہنس کر سر جھٹکا تھا اور کھڑے ہوتے ہوئے حمزہ کو کال لگائی تھی۔
•••
"آپ؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟" ماہ نور نے اچھنبے سے اسے دیکھا جسے نرس اس کے پاس لے کر آئی تھی۔
"آپ؟ یہاں؟" حمزہ کے منہ سے بھی بے اختیار نکلا تھا۔
"ظاہر ہے، میں ڈاکٹر ہوں! آپ یہ اپنا بازو دکھائیں مجھے، سسٹر، کیا ہوا ہے ان کو؟" اس نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے، جو شدید زخمی لگتا تھا، نرس کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا۔
"گولی لگی ہے انہیں، ڈاکٹر ادریس نے کہا آپ کے پاس لے جاؤں" اس نے بتایا۔
"اچھا ٹھیک ہے، میں دیکھتی ہوں، آپ جائیں" وہ فرسٹ ایڈ باکس نکالتے ہوئے بولی۔ جب کہ حمزہ کچھ نہیں بول رہا تھا، وہ اپنے درد کو ظاہر نہیں کرتا تھا مگر اس کے بازو کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ شدید تکلیف میں تھا۔ وہ اس وقت وقار صاحب سے مل کر گھر کی طرف ہی جا رہا تھا جب اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، وہ پہلے بھی کافی دفعہ اس سب کا سامنا کر چکا تھا۔ پہلے بھی اسے کافی دفعہ دھمکیاں مل چکی تھیں اس لیے وہ اس سب سے خوف زدہ تو بالکل نہیں ہوا تھا۔ ہاں البتہ، وقار صاحب کی فکر تھی، اسے ابھی فی الحال ہر طرح سے ان کی حفاظت کرنی تھی کیونکہ ایک وہی ان کی اس کیس میں مدد کر سکتے تھے۔ وہ چونکہ اس وقت ہاسپٹل سے زیادہ دور نہیں گیا تھا، اس لیے خود کو سنبھالتا ہوا، فوراً ٹریٹمنٹ کے لیے یہیں آ گیا تھا۔
"کیسے لگی آپ کو یہ گولی؟" ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ ماہ نور کی آواز پر وہ چونکا جو اسے پین کلر دینے کے بعد اب اس کے زخم پر بینڈج کر رہی تھی۔
"ایکس کیوز می؟ کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟" وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا سرد لہجے میں بولا۔
"روڈ" اس نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا۔
"اور کسی کے پرسنل میٹر کے بارے میں پوچھنا روڈ نہیں ہے؟" وہ طنزیہ بولا تھا۔
"مجھے کیا پتا آپ کا پرسنل میٹر تھا؟ میں نے تو بس، ہمدردی میں پوچھ لیا!" وہ اس کی بات پر ناراض ہوئی تھی۔ وہ اپنے تمام پیشنٹس کے ساتھ یوں ہی گھل مل جایا کرتی تھی۔ اب اسے کیا لتا تھا کہ یہ اتنا سڑا ہوا نکلے گا؟
"مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں دکھائیں پلیز" ایک بار پھر سرد لہجے میں بولا گیا۔
"اوکے" ماہ نور نے تھوڑی زور سے اس کا بینڈج کھینچا تھا۔
"آآآہ-- آرام سے یار!" اس نے اپنا بازو سہلایا۔
"کیوں؟ اب کیوں دکھاؤں میں آپ کے لیے ہمدردی؟" اس نے بینڈج پوری کرتے ہوئے طنزیہ کہا اور اپنا فرسٹ ایڈ باکس اٹھا کر باہر چلی گئی جب کہ حمزہ سن رہ گیا تھا، پتا نہیں اس کی بات سے یا زور سے کھینچنے پر درد سے؟
•••
"ضحیٰ! میری بات کان کھول کر سن لو! کوئی فضول حرکت نہیں کرنی ہے ان کے سامنے! ہماری کافی اچھی جان پہچان ہے ان سے، بے عزتی نہ کروانا ان کے سامنے! سمجھ آئی؟" عاصمہ بیگم اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولیں جس پر اس نے منہ بنایا۔ زاہد صاحب ان ہی کے سامنے والے گھر میں رہتے تھے۔ ان کی بیگم کا انتقال چھ سے سات سال پہلے ہوگیا تھا اس لیے اب ان کے ساتھ صرف ان کا ایک بیٹا زاویار تھا، جو مہد کی عمر کا ہی تھا۔ زاہد صاحب نے آج سے پانچ سال پہلے اسے پڑھائی کے سلسلے میں برمنگھم بھیج دیا تھا۔ وہ پاکستان آیا نہیں کرتا تھا۔ راشد صاحب اور طارق صاحب، زاہد صاحب کے ہمراہ دو، تین دفعہ کام کے سلسلے میں برمنگھم آتے جاتے رہے تھے تو اس سے بھی ان کی ملاقات ہوتی رہی تھی۔ البتہ بچے اسے یاد نہیں رکھ سکے تھے۔ راشد صاحب اور طارق صاحب، زاہد صاحب کے پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ بزنس پارٹنرز بھی تھے اس لیے ان کی دوستی کافی گہری تھی۔ زاہد صاحب کا تو ان کے گھر آنا جانا لگا ہی رہتا تھا لیکن آج پانچ سال بعد زاویار اپنی پڑھائی مکمل کر کے واپس پاکستان آ رہا تھا۔ عاصمہ بیگم نے اس کے آنے کی خوشی میں ہی آج انہیں رات کے کھانے پر بلا لیا تھا اس لیے اب بس ان ہی کا انتظار ہو رہا تھا۔
"اچھا نا! مجھے سب کے سامنے فلائنگ چپل کھانے کا بھی کوئی شوق نہیں ہے، آج کل ویسے ہی آپ کے نشانے بہت پکے ہو رہے ہیں، مجھے تو لگ رہا ہے مجھے مار مار کر ہی سیکھی ہیں آپ!" وہ منہ بناتے ہوئے بولی جس پر عاصمہ بیگم کا ہاتھ بے ساختہ دوبارہ اپنی چپل کی طرف گیا اور انوشہ نے اسے منہ چڑاتے ہوئے اس کا مزاق اڑایا تھا۔
"ان کو بھی تو کچھ کہیں! یہ کونسا کوئی فرشتی ہیں!" ضحیٰ نے تپ کر عاصمہ بیگم سے اس کی بھی جعلی معصومیت پر تنقید کی تھی۔
"اپنی مصیبت میرے سر نہ ڈالو" انوشہ نے اسے کھینچ کر اسے ایک کشن مارا جس سے ضحیٰ تو جھک کر بچ گئی تھی مگر وہ پیچھے کھڑے شخص کے سیدھا منہ پر لگا اور اس کا چشما زمین پر جا گرا تھا۔
"اوہ مائی گاڈ!!" انوشہ کی حیرت سے آنکھیں پھٹی تھیں اور اس نے اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھے تھے جب کہ ضحیٰ نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی روکی تھی۔
"آ-- آپ، ٹھیک۔۔ ہیں؟" اس نے جھجھکتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وہ عاصمہ بیگم کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ اسے پہلے ہی گھور رہی ہوں گی بلکہ اب تک تو اس کے ذبح ہونے کا انتظام بھی ہو چکا ہوگا۔
"بیٹا آپ ٹھیک ہیں نا؟" انہوں نے فکرمندی سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس سے پوچھا۔ اگر ابھی زاویار وہاں نہ کھڑا ہوتا تو وہ انوشہ کے گناہگار ہاتھ تو اب تک توڑ ہی چکی ہوتیں۔
"جی جی آنٹی، میں ٹھیک ہوں، آپ فکر نہیں کریں، کوئی بات نہیں" اس نے اپنا چشما لگاتے ہوئے عاصمہ بیگم کو مسکراتے ہوئے کہہ کر، انوشہ کو ایک تلخ نگاہ سے بخشا تھا۔
"آئی ایم ریئلی سوری، میں نے دیکھا نہیں آپ کو، میں تو بندر کو مار رہی تھی-"
"بندر؟؟!" زاویار کا یہ سن کر منہ کھل گیا تھا۔
"نہیں نہیں آپ نہیں! یہ بندر!" انوشہ نے بوکھلاتے ہوئے ضحیٰ کی طرف اشارہ کر کے اس کی غلط فہمی دور کی۔ کشن مارنے پر عاصمہ بیگم اس کی کوئی کم کلاس لیں گی جو اب وہ اس کی وجہ سے بندر بھی بن گیا؟
"غلطی سے آپ کو لگ گیا" اس نے معصومیت سے کہتے ہوئے اپنا جملا مکمل کیا۔
"ارے! یو مسٹ بھی ضحیٰ رائٹ؟ کیسی ہو؟" وہ اس کی بات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ضحیٰ کو مخاطب کرتا ہوا بولا تھا جس پر انوشہ نے مزید اداسی اور ناراضگی سے آبرو سمیٹے تھے۔ وہ اسے کن اکھیوں سے دیکھ سکتا تھا، اور دیکھ کر محظوظ بھی ہوا تھا۔
"ارے واہ! ماہان ضحیٰ کو پہچان کر تو آپ نے اس کا دل ہی خوش کر دیا ہے۔ ویسے، آپ کون؟" ضحیٰ نے خوش ہوتے ہوئے اپنے فرضی کالر جھٹکے اور پھر معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
"زاویار" اس نے سر کو خم دے کر اپنا نام بتایا۔
"جی۔۔ وہی، وہی، یاد تھا مجھے۔۔" ضحیٰ نے بھی مصنوعی انداز میں ہنستے ہوئے اسے اپنے دانت دکھائے تھے۔
"کیسے یاد ہو گا جب آپ کبھی مجھ سے ملی ہی نہیں ہیں؟" اس نے بھی ہنس کر سر جھٹکا تھا۔ جس پر ضحیٰ نے "اوہ" والے تاثرات دیتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"میں بہت معذرت چاہتی ہوں بیٹا، یہ جو کچھ بھی ہوا" عاصمہ بیگم انوشہ کو سخت گھوری سے نوازتے ہوئے زاویار سے کہا۔ پھر خود ہی بولیں۔
"اچھا زاہد بھائی کہاں ہیں؟ وہ کیوں نہیں آئے آپ کے ساتھ؟"
"آنٹی ابو لان میں ہی ہیں، بس ایک کال سن کر آ رہے ہیں" اس نے بتایا۔
"السلام و علیکم بھابھی!" اتنی دیر میں زاہد صاحب اندر آ گئے تھے۔
"وعلیکم السلام زاہد بھائی، کیسے ہیں آپ؟ بیٹھیں نا" وہ سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے، انوشہ اور ضحیٰ نے بھی ان کو سلام کیا۔
"بیٹھو بیٹا۔ انوشہ! جگہ دو بھائی کو" انہوں نے زاویار کو بولتے ہوئے انوشہ کو گھور کر اٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔ جس پر وہ منہ بناتے ہوئے ان سے بہت فاصلے پر جا کھڑی ہوئی تھی، ان کا کوئی بھروسہ نہیں، وہیں ایک لگا دیتیں۔
"کیسی ہیں میری پیاری بیٹیاں؟ اور ماہم نظر نہیں آ رہی؟" انہوں نے ان دونوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ عاصمہ بیگم تو کچن کی راہ لے چکی تھیں۔
"انکل ان کی تو ڈیوٹی تھی آج ہاسپٹل میں، وہ بس آتی ہی ہوں گی ابھی" انوشہ نے انہیں بتایا۔
"السلام و علیکم زاہد صاحب، سب کا پوچھ لیا، ایک دوست کو ہی بھول گئے" راشد صاحب جو کہ ان کی گفتگو سن چکے تھے، پیچھے سے آتے ہوئے بولے۔
"کیوں کہ ہمیں پتا تھا ہمارے دوست اپنی محبت میں، خود ہی بھاگتے ہوئے ہم سے ملنے آ جائیں گے" وہ ان سے گلے ملتے ہوئے شوخی سے بولے۔
"بس ہو گئیں خوش فہمیاں؟" راشد صاحب ہنستے بولے۔
"السلام و علیکم راشد انکل" زاویار بھی ان سے گلے ملتے ہوئے خوش اخلاقی سے بولا۔
"وعلیکم السلام، اور بیٹا ختم ہو گئی پڑھائی؟" انہوں نے پوچھا۔ جس پر اس نے سر کو خم دیتے ہوئے ان کو جواب دیا تھا۔ وہ بھی بزنس ہی پڑھنے گیا تھا۔
"اور آگے کا کیا ارادہ ہے؟"
"بس اب بزنس جوائن کروں گا بہت جلد"
ان کی اس ہی طرح کی باتیں کافی دیر چلتی رہی تھیں۔ انوشہ اتنی دیر میں ان کے لیے چائے لے آئی تھی۔
"آپ چائے لیں گے؟ ممم، مسٹر چشمش؟" انوشہ اس کے برابر والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
"ایکس کیوز می؟ میں آپ کو پہچانا نہیں؟" وہ اس کے "چشمش" بولنے پر چڑا تھا مگر اس نے بھی انوشہ کو تنگ کرنے کا موقع نہیں چھوڑا تھا۔
"ہاں مجھے بھی آپ کا نام یاد نہیں تھا اس ہی لیے جو سب سے زیادہ مناسب لگا۔۔" اس نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔
"دیکھیں مس-" وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ۔۔
"چائے آپ کی!" انوشہ فوراً اس کی بات کاٹ کر چائے کا کپ تھماتے ہوئے کھڑی ہوئی۔
"دیکھیں زاویار بھائی، آپ کو پری کاشنز (precautions) دینا میرا فرض ہے۔ میری بہن خوف ناک چائے بناتی ہے" ضحیٰ مکمل سنجیدگی کے ساتھ بولی تھی جب کہ آنکھوں میں صاف شرارت جھلک رہی تھی۔
"زیادہ زبان نہیں چل رہی تمہاری، اندر ملو ذرا" انوشہ نے اسے گھوری سے نوازا تھا۔
"اور آپ چائے پیئں!" زاویار کو اپنی ہنسی دباتے ہوئے دیکھ اس نے اسے بھی ڈپٹ دیا تھا۔
وہ سب لوگ رات دیر تک پوری محفل جمائے بیٹھے تھے۔ طارق صاحب کے گھر سے بھی سب آ گئے تھے، یہ تینوں گھرانے آپس میں ایک خاندان کی طرح ہی تھے۔ خوب شغل اور خوش گپیوں کے بعد کافی رات تک سب نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی تھی۔
•••
"لالہ آپ کے لیے پارسل آیا ہے" چوکیدار نے اسے ایک پیک ہوا ڈبہ لا کر پکڑایا تھا۔
"شکریہ" اس نے اسے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ چوکیدار سر اثبات میں ہلاتا ہوا باہر نکلا تھا۔ اس نے ڈبے کو غور سے دیکھا تھا، یہی ڈبہ اس کو پہلے بھی تین دفعہ موصول ہو چکا تھا اور وہ اچھے سے جانتا تھا کہ یہ گھٹیا حرکات کس کی تھیں۔ وہ ابھی اس کو بھی پھینکنے ہی جا رہا تھا لیکن کسی خیال کی وجہ سے وہ یک دم رُکا۔ اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ایسی بے کار چیزوں میں مگر اب اس کے ذہن میں اس ہی "تحفے" کو اس گھٹیا شخص کے خلاف استعمال کرنے کا خیال آیا تھا۔ اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس ڈبے کو کھولا مگر اندر رکھی چیز اس کو دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا تھا۔ یہ شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔

💞

Author's note:

Assalamualaikum everyone! Umeed hai aap sb khair kheriyat se hongey. I tried my best to update as soon as possible. Please, DO VOTE AND COMMENT! Please, I am waiting..😔

یا قمر/Ya AmarWhere stories live. Discover now