قسط نمبر - 10

892 39 38
                                    

"ڈاکٹر، ڈاکٹر!" نرس بھاگتی ہوئی ماہ نور کے پاس آئی تھی۔
"کیا ہوا ہے سسٹر؟"
"وہ۔۔۔ روم نمبر 613 کے پیشنٹ اپنے روم میں نہیں ہیں" نرس نے ہانپتے کانپتے ہوئے اسے بتایا تھا۔
"ارے، آپ اتنی ٹینشن کیوں لے رہی ہیں؟ واشروم میں ہوں گے؟" اس نے نرس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے برابر میں رکھے، صوفے پر بٹھایا تھا۔
"نہیں ہیں، میں ان کو میڈیسن دینے ان کے روم میں گئی تھی تو، روم کی لائٹس بھی بند تھیں" نرس اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے پریشانی سے بولی تھی۔
"کوئی مسئلہ نہیں ہیں، ڈس چارج ہو گئے ہوں گے؟ آپ نے ڈاکٹر ماہم سے پوچھا ہے؟ ان کی ڈیوٹی میں تھے نا وہ؟" ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے اس نے نرس کی گھبراہٹ دور کرنے کی کوشش کی تھی، جو شاید بہت مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھی۔ اس کی ابھی نئی نئی ہی نوکری لگی تھی اس لیے ماہ نور کو لگا کہ وہ یہ سب کچھ پہلی دفعہ دیکھنے کی وجہ سے اتنا پریشان ہو رہی ہے۔
"ڈاکٹر ماہم تو یہاں ہیں ہی نہیں۔ وہ شاید کسی ایمرجنسی میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسپتال سے نکلی ہیں" نرس ماہ نور کے پاس آنے سے پہلے اس ہی کو ڈھونڈتی رہی تھی اس لیے اسے رسیپشنسٹ نے کچھ دیر پہلے کا دیکھا ہوا منظر بتا دیا تھا، جہاں ماہم کسی لڑکے کے ساتھ کافی جلدی میں باہر نکلی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا فرسٹ ایڈ باکس دیکھ چکی تھی اس ہی لیے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئی تھی۔ نرس نے ماہ نور کو پورا معاملہ تفصیلی بتایا تھا۔
"اچھا، آپ فکر نہیں کریں، وہ آتی ہی ہوگی، ہم پھر پوچھ لیں گے؟" ماہ نور نے اسے پر سکون ہو جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ جب کہ وہ خود کشمکش کا شکار ہو گئی تھی۔
نرس کے باہر جاتے ہی اس نے اپنا فون نکال کر، ماہم کا نمبر ملایا تھا، جو بند جا رہا تھا۔ اس نے تھوڑی دیر انتظار کرنے کا سوچ کر کال بند کر دی تھی۔
•••
"السلام و علیکم" ضحیٰ نے گلا پھاڑ کر اپنے گھر میں داخل ہونے کا اعلان کیا تھا اور، رات کے ساڑھے بارہ بجے اس لڑکی کو ایک بار پھر اس قسم کا دورا پڑ چکا تھا۔
"وعلیکم السلام، کیا ہو گیا ہے؟ نیند میں ہو؟" معیز سب سے پہلے اپنا کان مسلتا ہوا کمرے سے نکلا تھا۔ وہ شاید سونے لگا تھا۔
"بیٹا سب خیریت ہے؟" طارق صاحب بھی اسٹڈی روم سے باہر نکلتے ہوئے بولے تھے۔ ویسے تو ضحیٰ کی شکل سے اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ کچھ ہوا نہیں ہے لیکن انہوں نے پھر بھی احتیاطاً پوچھ لیا تھا۔
"وہ۔۔ میں آج آپ کے گھر رک جاؤں؟" وہ اٹکتے ہوئے بولی۔
"لو، اس لڑکی کو پھر گھر سے باہر نکال دیا" غزالہ بیگم نے اس کے اس وقت ایسے انکشاف پر اپنی ہنسی دباتے ہوئے سر پیٹا تھا۔ ایسا ایک دفعہ پہلے بھی ہو چکا تھا، جب اس شیطان نے اپنے اعظیم تجربات کے دوران عاصمہ بیگم کے "جہیز" کے برتن کے سیٹ کی ایک پلیٹ توڑ دی تھی اور وہ اپنی فلائنگ چپل ہاتھ میں لیے اس کی تاک میں بیٹھی تھیں، اور وہ ان سے بچتے بچاتے ہوئے طارق صاحب کے گھر میں روٹیاں توڑتی نظر آئی تھی۔ سائنسدان آج بھی اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ وہ سچ میں کسی چیز کا تجربہ کرنا چاہ رہی تھی یا "امّی کے جہیز کے برتن ٹوڑنے کے نتیجے کا تجربہ"۔
"جی۔۔ ویسے تو میں عاصمہ بیگم کو سنبھال لیتی، لیکن مجھے پتا چل گیا تھا کہ آپ اپنی ںیٹی کو یاد کر رہی ہیں، تو بس میں نے سوچا کہ میں آپ کے پاس ہی آ جاؤں۔ آپ کو پتا ہے نا، کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے؟" وہ اپنی آنکھیں گھماتے ہوئے کافی ڈرامائی انداز میں بولی تھی جس پر غزالہ بیگم اور طارق صاحب کی ہنسی چھوٹی تھی اور رمشا بھی ہاتھ میں فروٹ کی پیالی لیے اس کی بات پر ہنستی ہوئی سیڑھیوں سے اتری تھی۔
"جی بالکل" غزالہ بیگم سر جھٹکتے ہوئے، طارق صاحب کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دی تھیں اور اب لاؤنج میں صرف وہی تینوں بچے تھے۔
"تم اپنا ناکارہ دل اپنے پاس رکھو اور یہ بتاؤ کہ اب کیا کارنامہ انجام دیا ہے تم نے چڑیل؟" معیز نے آنکھیں سُکیڑتے ہوئے تفتیش کرنی چاہی تھی۔
"تم جیسے بھوتوں کے مقابلے میں تو بہت ہی چھوٹا سا کارنامہ ہی تھا" وہ اس کو گھوری سے نوازتے ہوئے بولی۔
"اچھا، میڈم؟ پھوٹو جلدی سے؟" رمشا نے اس کا کان پکڑتے ہوئے اس سے اگلوانے کی کوشش کی۔
"اچھا اچھا، باجی، جذباتی کیوں ہو جاتی ہیں؟ بتا دیتی ہوں نا، آپ انگور کھائیں" ضحیٰ نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے مصنوعی میزبانی دکھاتے ہوئے کہا تھا اور اس کے ہاتھ سے پیالی چھینی تھی جس پر رمشا نے اسے سر پر ایک چپت لگائی تھی۔
"زیادہ کچھ نہیں، بس بابا کی رنگ ٹون پر "بے بی شارک ڈو ڈڈو ڈڈو" والی پوئم لگا دی تھی" اس نے شرماتے ہوئے پلکھیں جھپکائیں جیسے بہت ماہان کارنامہ انجام دیا ہو۔ اس کے رکنے پر رمشا اور معیز نے اسے ایک ایک ابرو اچکاتے ہوئے دیکھا تھا کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہے۔
"اور۔۔۔ وہ۔۔۔ ان کی میٹنگ کے دوران کچھ کلائنٹس کے سامنے بج گئی۔۔۔" اس نے ان دونوں کے اس طرح دیکھنے پر آنکھیں اور لب بھینچتے ہوئے اصل بات بتائی۔
"ضحیٰ! گدھی! سدھر جاؤ!" رمشا کا تو منہ ہی کھل گیا تھا جب کہ معیز کا بے اختیار قہقہہ نکلا تھا جس پر ضحیٰ بس اسے گھور کر رہ گئی تھی۔
"رہنے دو رومی، گدھوں کی بے عزّتی نہیں کرو" معیز نے اپنی ہنسی کو سنبھالتے ہوئے کہا تھا۔
"بتا دی میڈم نے اپنی کاروائی؟" پیچھے سے انوشہ بھی ہنستے ہوئے ان ہی کی طرف آئی تھی۔
"ہاں، انّو ایک دن مل کر پیٹیں گے اسے" رمشا نے اس کو اپنا منصوبہ بتاتے ہوئے کہا۔
"کہیں ہم ہی نہ پٹ جائیں اس کے مریدوں سے" انوشہ نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔
"کونسے مرید؟" رمشا اور معیز نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
"وہی، بیچارے شیطان کے چیلے جو اس کی حرکتیں دیکھ کر اس ہی کی شاگردگی میں آ گئے ہوں گے" انوشہ نے ان کو بات سمجھاتے ہوئے رمشا کو تالی ماری تھی جس پر ان سب کا ہی قہقہہ لاؤنج میں گونجا تھا۔
"چلو انّو تم بھی آج یہیں رک جاؤ" رمشا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"چلو، ٹھیک، میں ذرا اپنا نائٹ ڈریس لے کر آ جاؤں" انوشہ اس کو کہتے ہوئے دوبارہ دروازے سے نکل کر اپنے گھر کی طرف بڑھی تھی جب کہ پیچھے رمشا کو ضحیٰ نے بازو پر مکا مارتے ہوئے اوپر چلنے کا اشارہ کیا تھا۔
"آجاؤ پھر تم میرے کمرے میں" رمشا اس کو آنے کا اشارہ کرتے ہوئے سیڑھیوں پر چڑھنے لگی تھی۔
"جی، ویسے بھی، خالہ جان کا تو بہانہ تھا، مجھے پتا ہے آپ کے کمرے میں چھپے ہوئے چیز کے پیکٹس مجھے پکار رہے تھے کافی دنوں سے" ضحیٰ اپنا فرضی کالر اکڑاتے ہوۓ اس کے پیچھے ہو لی۔
"تم، یہاں، اس صوفے پر سو آج!" رمشا نے اپنے کھانے کی حفاظت کے لیے رک کر اسے لاؤنج میں پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
"آپ کو اتنا اچھا لگ رہا ہے تو آپ یہاں رکیں، میں چلتی ہوں کمرے میں" ضحیٰ اسے ہاتھ ہلاتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئی، جب کہ رمشا اور پیچھے سے آتی ہوی انوشہ، دونوں بھی اپنا سر جھٹکتے ہوئے سیڑھیوں پر اس کے پیچھے ہو لیں۔
•••
"ماہم؟" ماہ نور کے پکارنے پر ماہم کا سوچ میں ڈوبا وجود دوبارہ حقیقت میں واپس آیا تھا۔ وہ آن-کال روم میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ یہ ماہ نور کی تیسری پکار تھی۔ اسے لگا تھا شاید ماہم سو چکی ہے۔
"ہاں؟ ہاں؟" وہ ہربڑاتے ہوئے آنکھیں کھول کر سیدھی ہوئی تھی۔ کچھ دیر پہلے کا منظر اس کے ذہن میں مستقل گھوم رہا تھا اور طلحہٰ کا اس طرح پریشان چہرا بھی اسے بھولا نہیں جا رہا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ تم ٹھیک ہو؟" ماہ نور نے فکر مندی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے پر سکون کرنا چاہا تھا جو کافی پریشان لگ رہی تھی۔
"نہیں، ہاں میں ٹھیک ہوں" ماہم اپنی پیشانی پر آئے پسینے کو پونچھتے ہوئے بولی۔
"اچھا چلو، تم ریسٹ کر لو، میں تمہاری ڈیوٹی سنبھال لیتی ہوں تھوڑی دیر" ماہ نور وہاں اس سے وقار صاحب کے بارے میں پوچھنے آئی تھی لیکن اسے اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے وہ اسے وہاں آرام کرنے کا کہہ کر باہر نکلنے لگی تھی جب اچانک ایک نرس اندر آئی تھی۔
"ڈاکٹر ماہم، آپ کو ڈاکٹر ادریس بُلا رہے ہیں" نرس اسے کہہ کر باہر چلی گئی تھی، جب کہ ماہ نور نے پریشانی سے اپنا نچلا لب دبایا تھا کیوں کہ اسے اندازہ تھا کہ اسے کیوں بلوایا جا رہا ہے۔
"چلو، میں آتی ہوں پھر" ماہم اب تک اپنے آپ کو کافی حد تک سنبھال چکی تھی اس لیے وہ اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے باہر کی طرف بڑھی اور ماہ نور بھی اس کے پیچھے ہی ڈاکٹر ادریس کے کیبن تک چل دی۔

یا قمر/Ya AmarWhere stories live. Discover now