"ہیلو؟۔۔ طلحہٰ۔۔" اس نے بہت مشکل سے اپنی آواز سنبھالتے ہوئے فون کے ریسیو ہوتے ہی کہا تھا۔
"ہیلو؟ ماہم؟" وہ پھر بھی اس کی ایسی آواز سن کر حیران و پریشان ہو گیا تھا۔ وہ گاڑی چلاتے ہوئے، اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا جب اسے ماہم کا فون آیا تھا اور فون اٹھاتے ہی اسے اس کی لرزتی ہوئی آواز سن کر فکر ہوئی تھی۔
"طلحہٰ۔۔ کیا۔۔ آپ ابھی ملنے آ سکتے ہیں؟" اس نے اپنے آپ کو قابو کرتے ہوئے بڑی مشکل سے الفاظ ادا کیے تھے۔
"کیا ہوا ہے ماہم؟ آپ ٹھیک ہیں؟" اس نے پریشان ہوتے ہوئے فوراً ہی گاڑی اس کے گھر کی طرف موڑی تھی۔
"Talha, I am so tensed"
(طلحہٰ، میں بہت پریشان ہوں)
اس نے سنبھلتے ہوئے اصل بات بتائی تھی اور اسے آنے کا بول کر فون رکھ دیا تھا۔"ماہم، باہر آ جائیں، I am here" طلحہٰ نے اس کے گھر پہنچ کر اسے فون کیا تھا۔
"ٹھیک ہے، میں آتی ہوں" اس نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے نیچے کی راہ لی۔ اب کی بار آواز کافی سنبھلی ہوئی تھی۔
"چلیں؟" وہ ہلکی سی لپ اسٹک لگائے، سادہ حلیے میں، سوجی ہوئی آنکھیں لیے اس کے برابر میں بیٹھی تھی جب کہ طلحہٰ نے اسے قدرے توقف سے دیکھتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی تھی۔ اس کے پوچھنے پر اب وہ تفصیلاً سب بتانے لگی تھی۔ البتہ لہجہ کسی بھی وقت رو دینے کی مانند لگتا تھا۔ اس نے دو، تین مرتبہ وقفہ لیے اپنی سانس بحال کرتے ہوئے آنسوؤں کا ریلا روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔
"آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ بے گناہ ہیں؟" اس کے مسئلے کی مکمل تفصیل سننے کے بعد اس کی وہ حالت اور تاثرات کو جانچتے ہوئے وہ ذرا توقف سے بولا تھا۔
"کیا مطلب؟" ماہم نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا گویا اس نے بات نہیں کوئی بمب پھوڑا ہو۔
"اس بات کا تو کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آپ نے خود ان کو غائب نہیں کروایا، آئی مین، کڈ نیپ نہیں کروایا؟ میں کیسے یقین کر لوں؟" وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ لہجہ کافی سرد تھا۔
"آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟" اب وہ نا گواری سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"یہی کہ، آپ بے گناہ ہیں، اس بات کی گواہی تو میں بھی نہیں دے سکتا، کیوں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ مجھے خود اس بات پر یقین نہیں ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ آپ کی ڈیوٹی، آپ کی نگرانی میں تھے، اور اتنے بڑے کیس میں ملوث بھی تھے، کوئی بھی بغیر کسی شک کے، اس بات پر یقین کر سکتا ہے، کہ آپ ہی مجرم ہیں۔ آئی ایم سوری، لیکن میں تو پھر خود پچھلے ایک ہفتے سے آپ کو ان کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ کوئی بعید نہیں کہ آپ کا ڈفینس کافی کمزور ہے" وہ بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے سرد مہری میں بولا تھا۔
"گاڑی روکیں" اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر گرا تھا جسے اس نے جھٹ سے ہاتھ کی پشت کے ذریعے صاف کیا تھا کیوں کہ وہ کسی کے سامنے رویا نہیں کرتی تھی اور اب خاص طور پر اس شخص کے سامنے تو بالکل نہیں۔ کیسے اس نے اتنی آسانی سے اس پر الزام لگایا تھا۔ ایک، ڈیڑھ ہفتے سے تو وہ مستقل ساتھ تھے، کیا وہ اسے اتنا بھی نہیں جان پایا تھا؟ کیا وہ اس پر اتنا بھی یقین نہیں رکھتا تھا؟ وہ انسان جس پر وہ تھوڑا یقین کرنے لگی تھی، جس کی موجودگی کی اسے عادت سی ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ نئے دوست بنانے پر یقین کرنے لگی تھی۔ جو اسے ساتھ دینے والا، بھروسہ کرنے والا، ذمہ دار دوست لگنے لگا تھا۔ لیکن ایک بار پھر ماہم کو اس کی زندگی نے اسٹیج ون پر لا کھڑا کیا تھا، جہاں اسے کسی سے بھی سہارا لینے پر یقین نہیں تھا۔ وہ کیسے بھول گئی تھی کہ طلحہٰ تو دو ہفتے پہلے تک اس کے لیے ایک انجان آدمی ہی تھا۔ پھر اس نے یوں اس پر بھروسہ کر کے کیسے ٹھوکر کھا لی۔
"کیا؟" طلحہٰ شاید اس کی آواز سن نہیں سکا تھا۔
"میں نے کہا گاڑی روکیں" اس نے ضبط سے اپنا جملہ دہرایا۔
"کیوں؟" طلحہٰ نے اچھنبے سے اس کی طرف دیکھا۔ لہجے میں البتہ اب بھی کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا۔
"آپ ایک مجرم کے ساتھ کیوں بیٹھے ہیں؟ روکیں ابھی گاڑی اور یہیں اتاریں مجھے!" وہ کافی دیر برداشت کے بعد طنز کرتے ہوئے دبا دبا چلائی تھی۔ اصل میں تو وہ خود اب ایسے انسان کے ساتھ ایک لمحہ بھی اور بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔
"اتر جائیں پھر" دو منٹ خاموشی سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھنے کے بعد طلحہٰ نے اپنی گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ ماہم نے جھٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر رکشہ ڈھونڈنا چاہا۔ وہ کن اکھیوں سے طلحہٰ کی گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے گاڑی سے نکال کر اس ہی پر گاڑی چلا دے۔
"جی باجی؟ کہاں جانا ہے؟" ایک رکشے والا اس کے پاس رکتے ہوئے بولا۔
طلحہٰ اب بھی اپنی گاڑی لیے وہیں کھڑا تھا۔ اس نے ایک نظر کوفت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے، رکشے والے کو گھر کا راستہ بتایا مگر وہ منع کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ ایسا ہی اگلے دو رکشوں کے ساتھ ہوا، کوئی بھی اس سے راستہ پوچھتا اور طلحہٰ کی گاڑی کی طرف دیکھ کر اسے منع کرتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ دراصل وہ خود نہیں جا رہے تھے، بلکہ یہ طلحہٰ کی کارستانی تھی، وہ گاڑی سے جھانکتے ہوئے خود انہیں منع کرتا اور جانے کا اشارہ کر دیتا۔ لیکن ماہم اس بات سے انجان تھی۔ وہ اپنے غصے کی شدت پر تھی اور اب مزید برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ یک دم طلحہٰ گاڑی سے اتر کر اسے ایک لمحہ دیکھتے ہوئے بولا۔
"ہو گیا شوق پورا؟ بیٹھیں اب!" اس نے اس کی طرف کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا تھا۔ ماہم نے ایک نظر اسے گھورا اور بے بسی سے پیر پٹختی اندر بیٹھی۔ آگے پورے راستے گاڑی میں خاموشی رہی تھی۔ وہ ڈرائیو کرتا رہا اور وہ پورا وقت رخ موڑے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی تھی، البتہ غصہ اپنی جگہ قائم تھا۔گھر پہنچتے ہی وہ گاڑی سے اتری تھی مگر جب تک وہ گھر کے اندر داخل نہیں ہو گئی، وہ وہیں کھڑا، اسے دیکھتا رہا تھا۔ پتا نہیں وہ شخص کیا چاہتا تھا اس سے۔ نا گواری سے ایک نظر اس پر اچھالتے ہوئے وہ اب دروازے سے اندر ہو لی تھی۔
•••
"تم لوگوں کو شرم نہیں آتی، بہن کتنی پریشان حال ہے اور یہاں تمہارا ٹھونسنا ہی ختم نہیں ہوتا" غزالہ بیگم مہد سے لے کر ضحیٰ تک، سارے بندروں کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولیں جو ٹی وی پر، 'منی ہائسٹ' لگائے، اسکرین کے سامنے بیٹھے تھے۔ البتہ "ٹھونسنے" والا طعنہ محض رمشا کے لیے تھا جس کے دانت حقیقت میں کسی گائے کی طرح مستقل کچھ نا کچھ چبا ہی رہے تھے۔
"امی! آپ کو پتا ہے نا مجھے اسٹریس میں بہت بھوک لگتی ہے!" وہ منہ بسورتے ہوئے رخ موڑ گئی تھی۔
"رہنے دو تم، لوگ یہاں جینے کے لیے کھاتے ہیں، لیکن تم تو کھانے کے لیے ہی جی رہی ہو!" انہوں نے اسے گھورتے ہوئے سر افسوس سے ہلایا تھا جیسے کہہ رہی ہوں کہ تم نا قابلِ علاج ہو۔ برابر بیٹھے ضحیٰ اور معیز کی "کھی کھی" سب کو ہی سنائی دی تھی۔
"خالہ، آپ ادھر بیٹھیں، آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں؟ آپ کو پتا ہے نا ہماری ماہا آپی کتنی اسٹرونگ ہے؟ وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کی وجہ سے ہم میں سے کوئی بھی پریشان ہو۔ آپ فکر نہیں کریں نا" انوشہ نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انہیں صوفے پر بٹھایا۔ اصل میں وہ سب ہی بہت پریشان تھے اور ان کا کسی چیز میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا مگر وہ پانچوں بھی خود کو پریشان ظاہر کر کے، اپنی بہن کو کمزور پڑنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ مستقل اس کے ساتھ ہنسی مذاق ہی کرتے تھے تاکہ وہ ڈپریشن سے نکل کر، مضبوطی سے اس سب کا سامنا کر سکے۔ اور یہ سب شاید اثر بھی کر رہا تھا کیوں کہ ابھی وہ ان ہی کے ساتھ بیٹھی سیریل دیکھ رہی تھی، بس باتھ روم کا کہہ کر لاؤنج سے باہر نکلی تھی تو غزالہ بیگم آگئی تھیں۔
"جی ہاں امّی، اب ہم ہی ماہا آپی کے سامنے روتی شکلیں لے کر بیٹھ جائیں گے تو وقار صاحب کا تو پتا نہیں، لیکن وہ ہمیں ضرور غائب کروا دیں گی!" معیز نے ماحول کو تھوڑا ہلکا کرنے کے لیے مزاق کیا جس سے سب جو کہ انوشہ کی بات سن کر کچھ اداس ہوئے تھے، ان کے چہروں پر مبہم سی مسکراہٹیں آئی تھیں اور غزالہ بیگم سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئی تھیں جب کہ وہ سب ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اب ماہم کا انتظار کر رہے تھے۔
•••
"جس پراپرٹی کے پیچھے آپ قتل و غارت تک جا رہے ہیں، اسے میں منٹوں میں آپ کے پاس لا سکتا ہوں" اس نے آنکھیں چڑھاتے ہوئے فون کو دیکھا، پھر مسکرا کر بولا۔
"کیسے؟" فرقان کی البتہ پر جوش آواز آئی تھی۔
"وہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ڈیل کے مطابق، اس پراپرٹی کا ٪25 شئیر میرا ہو گا" وہ بولا تھا۔
"ہاں ہاں، پتا ہے" اس کا گویا تپا ہوا جواب آیا تھا۔
"اور، آپ کے سوتیلے بھائی کا بندوبست بھی کروا دیا جائے گا کل تک" اس نے کہتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"یہ تو بہترین کام ہو گیا ہے سر! لیکن۔۔ آپ یہ سب میرے لیے کیوں کر رہے ہیں؟ اور پولیس آفسر ہوتے ہوئے بھی ایک مجرم کو بچانا۔۔ کچھ سمجھ نہیں آیا میرے" فرقان نے تشویش کرتے ہوئے آخر میں طنز کیا تھا۔
"مجھے اپنا کام کیسے کرنا ہے، مجھے مت سکھاؤ! اور تم شاید بھول رہے ہو کہ شئیر مجھے بھی مل رہا ہے، اس لیے میں یہاں تمہاری مدد نہیں کر رہا ہوں، آئی سمجھ؟" اس نے تپ کر دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔
"جی سر، اب آگئی سمجھ" وہاں فرقان نے تابعداری سے سمجھتے ہوئے کہا تھا۔
"اب سنو، کل رات سات بجے اسٹیشن آ کر مجھے ملو اور اپنا جھوٹا بیان ریکارڈ کرواؤ تاکہ تمہارے کیس کو ختم کروں میں" وہ اسے مطلوبہ جگہ بتاتے ہوئے بے نیازی سے حکم دیتے ہوئے بولا۔
"اوکے سر" فرمانبرداری سے کہا گیا۔
یہی تو پیسے کی بھوک انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اگر ایسی ہی فرمانبرداری اپنے اللّٰہ کے سامنے دکھا دی جائے تو آج وہی انسان سادہ ہی صحیح، مگر اپنی زندگی میں بھی کسی بادشاہ کی طرح رہے اور اسے یوں اپنی ہی جیسی مخلوق کے آگے ایسے جکھنا نہ پڑے۔ لیکن یہ بات جانتے ہوئے بھی اس پر عمل نہ کرنا بھی اس کی کتنی بڑی خطا ہے۔ اور افسوس کہ وہ اسے جانتے ہوئے بھی نظر انداز کرتا رہا ہے۔ جب اللّٰہ کی سیدھی اور بے حد آسان رہنمائی بالکل سامنے موجود ہے تو بے کار کی مشقت کرتے ہوئے غلط راہ پر چلنے کا کیا فایدہ۔ یہ انسان۔
"اور کوئی ہوشیاری کرنے کا تو سوچنا بھی مت۔ تمہاری ساری کالز کا ریکارڈ ہے میرے پاس" آخر میں اسے دھمکاتے ہوئے اس نے فون بند کر کے پٹخا تھا۔
•••
وہ کھڑکی سے سر لگائے، سینے پر اپنے ہاتھ باندھے، بظاہر غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ آج اس کی فلائٹ کا دن تھا مگر وہ تو یہاں اتنے بڑے طوفان سے لڑ رہی تھی۔ ان حالات کی وجہ سے، ماہم تو جا نہیں رہی تھی مگر ماہ نور نے بھی ضد کر کے اپنی فلائٹ کینسل کروا دی تھی کیوں کہ وہ ماہم کو اس طرح چھوڑ کر چلی جاتی؟ ایسا تو ہزار سالوں میں بھی نہیں ہو سکتا تھا! ماہم نے سیدھا ہوتے ہوئے اپنی انگلیوں کی پوروں سے اپنی آنکھیں مسلیں۔
"اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ بے گناہ ہیں؟"
"آپ بے گناہ ہیں، اس بات کی گواہی تو میں بھی نہیں دے سکتا"
"آپ کا ڈیفینس کافی کمزور ہے"
اسے طلحہٰ سے ملے ہوئے دو دن ہو گئے تھے مگر اس کی یہ باتیں اس کے دماغ میں مستقل گونج رہی تھیں اور اب اس سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے زہر کا ایک گھونٹ اپنے اندر لیتے ہوئے اس کا نمبر ڈائل کیا۔
"السلام و علیکم" فون کی دوسری طرف سے اس کی آواز آئی اور ماہم کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
"وعلیکم السلام، مسٹر طلحہٰ، مجھے اپنا پاسپورٹ لینا ہے، آپ کل دو بجے ہاسپٹل میں مجھے آ کر دے جائیں، شکریہ، خدا حافظ" اس نے سرد مہری سے ایک ہی سانس میں کہتے ہوئے، جواب سنے بغیر فون کان سے ہٹا کر جھٹکے سے بند کیا تھا اور بیڈ پر بیٹھی تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ایک بار پھر موبائل اٹھایا اور نمبر ملا کر کان سے لگایا۔
"السلام و علیکم ڈاکٹر ماہم" انہوں نے اپنے نرم لہجے میں فون اٹھا کر اسے سلام کیا تھا۔
"وعلیکم السلام سر" ان کی آواز سن کر، آنسوؤں کا ریلا تھا جو اس نے دوبارہ ضبط کیا تھا۔ اب وہ ذرا بھی کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
"آپ کیسے ہیں سر؟" اس نے تمام سوچوں کو سر سے جھٹکتے ہوئے ان سے پوچھا۔
"میں تو بالکل ٹھیک ہوں الحمدللّٰہ، آپ کو کوئی کام تھا؟" انہوں نے جواب دیا۔ پتا نہیں کس طرح وہ اتنے پر سکون تھے؟ حالانکہ ان کی تو کوئی غلطی بھی نہیں تھی اور پھر بھی وہ کورٹ کے چکر لگا رہے تھے اور اتنی ہمت سے اس سب کا سامنا کر رہے تھے۔
"کاش میں بھی اتنی مضبوط ہوتی" وہ زیرِ لب بڑبڑائی، پھر بولی
"سر، آپ کے پاس ٹائم ہے تو میں آپ سے ملنے آ سکتی ہوں؟ مجھے آپ کی مدد چاہیے" وہ فون کرنے کی اصل وجہ کی طرف آئی۔ میڈیکل میں آنے کے بعد سے اس کے ہر امتحان میں سر ادریس نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا۔ اس امتحان میں بھی وہ ان ہی کے پاس جانا چاہتی تھی۔
"ضرور ماہم، ابھی تو میں فارغ نہیں ہوں، آپ کل بارہ بجے تک میرے آفس آ جائیے گا" انہوں نے جواب دیتے ہوئے فون کاٹا۔ وہ چار دن سے ڈیوٹی پر نہیں جا رہی تھی۔ اس دن کے بعد سے وہ ڈپریشن کا شکار ہونے لگی تھی اور اپنی خراب ہوتی طبیعت کی وجہ سے اس نے ڈاکٹر ادریس سے ایک ہفتہ چھٹی کی اجازت لے لی تھی۔ مگر اب چار دن میں ہی وہ خود واپس اسپتال جانا چاہتی تھی اور اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ، ڈاکٹر ادریس کی بھی اس کیس میں مدد کرنا چاہتی تھی۔ ڈر تو اسے ابھی بھی لگ رہا تھا مگر وہ ہمت کرنا چاہتی تھی۔ وہ تھوڑی کم ہمت ضرور تھی مگر سرے سے ہمت نہ کرنے والے لوگوں میں سے ہرگز نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہر مشکل کا سامنا خود ہی کرتی آئی تھی تو اب ہار ماننے کا کیا بہانا تھا؟
("ممّا مجھے نہیں لگتا میں کر سکوں گی، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے" ماہم نے گیلی سانس اندر کھینچتے ہوئے، عاصمہ بیگم سے کہا۔
"ماہم، تمہیں پتا ہے نا مایوسی شرک ہے؟ تم اللّٰہ پر بھروسہ رکھو مگر اپنی طرف سے بھی پوری محنت کرو۔ تم دیکھنا، وہ تمہاری محنت کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم صرف اللّٰہ پر بھروسہ کر کے ہاتھ پیر ہلانا ہی چھوڑ دو۔ محنت کرو، تمہاری محنت اللّٰہ دیکھ رہا ہے اور بے شک، اللّٰہ محنت کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ اگر زیادہ ڈر لگ رہا ہے تو یہ دعا پڑھتی رہو:
"ﻧَﺼْﺮٌ ﻣِّﻦ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﻓَﺘْﺢٌ ﻗَﺮِﻳﺐٌ"
(اللّٰہ کی طرف سے مدد اور فتح عنقریب ہو گی)۔
انشاء اللّٰہ تم ضرور کامیاب ہو گی" وہ ماہم کو دعا بتاتے ہوئے بولیں۔ راشد صاحب اور عاصمہ بیگم نے کبھی اپنے بچوں کو کمزور پڑنا نہیں سکھایا تھا اور ہمیشہ سے انہیں اس ہی طرح ہمت دلاتے رہے تھے)
ماہم بہت سال پہلے بتائی گئی عاصمہ بیگم کی ان باتوں کو یاد کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھی اور اس دعا کو دہرایا۔ عاصمہ بیگم نے تو اسے یہ دعا اسکول کے دنوں میں سکھائی تھی، لیکن وہ اس دن کے بعد سے یہ دعا ہر امتحان میں پڑھا کرتی تھی۔ اور آج ایک بار پھر اس نے یہ دعا پڑھتے ہوئے، کل اسپتال جانے کے لیے تیاری کرنی شروع کر دی تھی۔ اس نے اپنے کپڑے استری کر کے لٹکائے اور دوبارہ ان سب کے ساتھ ٹی وی دیکھنے باہر چلی گئی تھی۔ پہلے تو وہ اس لیے وہاں سے اٹھ کر آئی تھی کیوں کہ اس کو بار بار طلحہٰ کی ان باتوں کا خیال آ رہا تھا اور وہ پریشان ہو رہی تھی، مگر اس دفعہ باہر جاتے ہوئے وہ پہلے سے زیادہ بہتر لگ رہی تھی۔
•••
"ہیلو؟ مسٹر طلحہٰ خان؟" مہد نے پرچی پر لکھے نمبر کو ملا کر، فون کان سے لگاتے ہوئے سرد لہجے میں مخالف طرف سے بات کرنے والے کی تصدیق چاہی۔
"Hello? Assalamualaikum. Yes, Talha Khan here. Who is this?"
(ہیلو، السلام و علیکم۔ جی، میں طلحہٰ خان، آپ کون؟)
اس نے فون اٹھا کر، چہرے پر مسکراہٹ لیے، جواب دیا، حالانکہ، وہ آواز پہچانتا بھی تھا اور ساتھ میں اس کے پاس اس کا نمبر بھی محفوظ تھا اس لیے اسے، اس کو پہچاننے میں ذرا دیر نہیں لگی تھی۔
"ایک منٹ ایک منٹ۔۔ آپ۔۔ طلحہٰ ارشد ہیں؟ طلحہٰ بھائی؟" مہد اس کی آواز سن کر چونکا تھا اور یک دم جوش میں آیا تھا۔
"جی مسٹر مہد حسین، یاد آ گئی بھائی کی؟" طلحہٰ نے اس سے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا۔
"اچھا، جیسے، آپ تو میری یاد میں فنا ہو رہے تھے نا طلحہٰ صاحب؟ اتنا ہی انتظار تھا تو خود ہی کال کر لیتے!" مہد دو منٹ کے لیے کال کرنے کا اصل مقصد بھول کر، پورے جوش اور محبت کے ساتھ طلحہٰ سے بات کر رہا تھا۔ طلحہٰ ہمیشہ سے اس کے بڑے بھائیوں کی طرح رہا تھا۔ کچھ بھی مشکل ہوتی تھی تو مہد ہمیشہ اس ہی سے رابطہ کرتا تھا۔ اور طلحہٰ بھی ہمیشہ چھوٹے بھائیوں کی طرح اس سے سب شئیر کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ارشد صاحب والی بات بھی حمزہ کے علاوہ صرف مہد کو پتا تھی۔ طلحہٰ اپنے کام کے سلسلے میں ہر ایک، دو مہینے بعد نمبر تبدیل کرتا رہتا تھا اس ہی لیے مہد کو اس نے اپنے ماموں کے گھر کا نمبر دیا تھا اور اب اس ہی وجہ سے مہد اس کا نمبر پہچان نہیں سکا تھا مگر آواز سن کر اس کو ایک لمحہ نہیں لگا تھا۔
"اور سناؤ بیٹا؟ آج کیسے یاد کیا؟" دونوں کے کافی دیر گپ شپ کرنے کے بعد اور ایک دوسرے کی زندگیوں کی تازہ ترین خبریں لینے کے بعد، طلحہٰ نے اس سے پوچھا۔
"ہاں، بھائی، مجھے آپ کی مدد چاہیے تھی، در اصل۔۔۔" مہد نے اس کو ساری بات تفصیلاً بیان کرتے ہوئے اس سے اس رات کے بارے میں پوچھا تھا۔
"ایسی بات نہیں ہے مہد، تم کل فری ہو؟ میں تمہیں پوری بات تفصیل سے سمجھانا چاہتا ہوں" طلحہٰ نے اس کا شک دور کرنا چاہا جب کہ مہد نے اس طرح کی کسی بات کا اظہار نہیں ہونے دیا تھا اور نہ ہی اسے طلحہٰ پر کسی قسم کا شک تھا، طلحہٰ ماہم تو کیا، کسی لڑکی کو اس طرح نہیں پھنسا سکتا، اتنا تو مہد اسے جانتا تھا۔
"جی بالکل فری ہوں، آپ بلکہ ایک کام کریں، کل دوپہر بارہ بجے آپ ریسٹورنٹ آجائیں، میں وہیں آپ کا ویٹ کروں گا، پھر لنچ بھی کر لیں گے" مہد نے مطلوبہ جگہ کا نام بتاتے ہوئے اس کو پورا پلان بتایا تھا۔
"چلو ڈن! پھر لنچ تم کروا رہے ہو؟" وہ اس کے پلان کو منظور کرتے ہوئے شرارت سے بولا۔
"اور کوئی آپشن ہے کیا میرے پاس؟" مہد نے پہلے تپ کر کہا اور پھر ہنستے ہوئے الوداعی کلمات بول کر فون رکھا اور کرسی پر بیٹھا۔ وہ طلحہٰ اور یونیورسٹی میں گزارے گئے دنوں کی یادوں میں کھو گیا تھا۔ کتنے خوبصورت دن ہوا کرتے تھے وہ، زندگی کی فکر، نہ ذمہ داریوں کی۔
•••
وہ داخلی دروازے کی چوکھٹ پر سر ٹکائے، اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی کہ فون کی آواز نے مداخلت کی۔
"السلام و علیکم مس انوشہ، کیا کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے؟" فون اٹھاتے ہی زاویار کی آواز اس کے کانوں میں گونجی جو محض صرف اسے تنگ کر رہا تھا۔ پچھلے دو دن سے تو وہ ویسے بھی اپنی عادت کے مطابق اس کے سر پر سوار ہونے نہیں آئی تھی، اس لیے شاید وہ پریشان ہو گیا تھا۔
"وعلیکم السلام" وہ گیلی سانس اندر کھینچتے ہوئے، بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
"انوشہ؟ آپ رو رہی ہیں؟" وہ بے شک حیران ہوا تھا۔ ایسی مخلوقات بھی رویا کرتی ہیں کیا؟
"نہیں۔۔۔ آپ بولیں، کیا کہہ رہے تھے؟" اس نے "نہیں" کے بعد ایک لمبی سانس لی اور جھوٹ بولنے کی ناکام کوشش کی۔
"آپ کس کو جھوٹ بول کر تسلی دینا چاہ رہی ہیں؟ مجھے یا اپنے آپ کو؟" زاویار کو اب فکر ہو رہی تھی۔
"آپ کو پتا ہے زاویار؟ میں ہمیشہ اتنا ہنسی مزاق کیوں کرتی ہوں؟ اس لیے کیوں کہ میں چاہتی ہوں، اگر میرے بہن بھائی کسی مشکل وقت سے گزر بھی رہے ہوں تو کم از کم میری باتیں سن کر، اور میری حرکتیں دیکھ کر انہیں تھوڑی ہمت مل سکے" وہ ہار مان کر، اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی تھی۔
"لیکن اب تو میں خود بھی تھک گئی ہوں۔ مجھے ماہا آپی کا اس طرح اداس رہنا اچھا نہیں لگ رہا زاویار، وہ مشکل میں ہے اور میں اس کی مدد بھی نہیں کر پا رہی۔ وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ رہی ہے، ہر قدم پر اس نے میری مدد کی ہے اور آج جب اس کو ضرورت پڑ رہی ہے تو میں کچھ نہیں کر پا رہی اپنی بہن کے لیے" پہلے ایک اور پھر باری باری بہت سے آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر گرے تھے۔
"اور؟" اس نے سر ہلاتے ہوئے مزید سننا چاہا۔ اسے اس کا رونا برا لگ رہا تھا مگر وہ اس کو روکنا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ انسان کے آنسو ہی اس کا پہلا امتحان ہوتے ہیں، اگر وہ ان پر قابو پا لیتا ہے تو آگے کا راستہ بھی آسان لگنے لگتا ہے۔ اس لیے روتے ہوئے انسان کو خود اپنے آپ کو سنبھالنے دینا چاہیے تاکہ وہ آگے کی بہت سی مشکلات کو سنبھالنے کے بھی قابل ہو سکے۔ اور وہ چاہتا تھا کہ انوشہ بھی اتنی اسٹرونگ بنے۔
"وہ ہمیں دکھاتی نہیں ہے مگر مجھے پتا ہے کہ وہ اس وقت کس مشکل سے گزر رہی ہے۔ میری سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اس کی مدد کیسے کروں" کچھ لمحے خاموشی سے سر ہو جانے کے بعد وہ بولی تو اس جی آواز قدرے بہتر تھی۔ وہ اب اپنے آنسو سنبھال چکی تھی مگر اب بھی اس کے لہجے میں بے بسی کو ظاہر تھی۔
"کیا آپ نے اپنی بہن کو یہ بتایا ہے کہ آپ ان کی مدد کرنا چاہتی ہیں؟" وہ نرم لہجے میں گویا ہوا۔
"نہیں، میرے بتانے سے کیا ہو گا؟" اس نے ایک بار پھر گیلی سانس اندر کھینچتے ہوئے پوچھا۔
"شاید وہ آپ کو بتا دیں کہ آپ کس طرح ان کی مدد کر سکتی ہیں؟" زاویار نے اسے سمجھانا چاہا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہو چکا تھا۔
"ہاں، لیکن اس طرح وہ اور اداس ہو جائے گی نا، کہ میں اس کی وجہ سے پریشان ہوں" وہ ایک اور خدشہ سامنے رکھتے ہوئے بولی۔
"تو آپ ان کو تسلی دے دیے گا؟ جب تک ان سے بات نہیں کریں گی تو کوئی حل کیسے نکلے گا؟ ہو سکتا ہے آپ کے یوں خیال کرنے سے وہ خوش ہو جائیں؟" وہ بھی ایک اور حل اس کے سامنے رکھتا ہوا سکون سے بولا۔
"اچھا؟۔۔ میں کوشش کروں گی" وہ کچھ سوچتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
"بالکل، ضرور کیے گا" اس نے بھی اس ہی کے انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"تھینک یو" انوشہ نے دل سے کہا۔
"کس لیے؟" زاویار نے نا سمجھی سے سوال کیا۔
"میری مدد کرنے کے لیے۔ پتا نہیں میں نے کیسے آپ سے سب کچھ ڈسکس کر لیا؟ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بیچ میں کوئی بہت قریبی تعلق ہے، کوئی عجیب سا رشتہ۔۔" وہ سوچتے ہوئے بولی۔ جس پر زاویار بے اختیار مسکرایا تھا۔
"ہاں! آ گیا سمجھ! بہن بھائی کا رشتہ!" وہ چٹکی بجاتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں بولی۔
"بہن بھائی کا رشتہ؟" وہ بے یقینی سے زیرِ لب بڑبڑایا۔
"اچھا چلیں میں رکھتی ہوں، اللّٰہ حافظ" اس نے جلدی سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے فون بند کیا۔
"ا- انوشہ! سنیں!" اور وہ بے چارہ ہکا بکا اپنے فون کو تکتا رہ گیا تھا۔ پتا نہیں اتنا دماغ کیسے چلا لیتی ہے وہ؟
•••
دو پہر کے بارہ بج رہے تھے اور وہ اپنا بیگ اور گاڑی کی چابیاں اٹھائے، بھاگتے ہوئے باہر، پورچ میں کھڑی گاڑی کے پاس آئی تھی اور جلدی سے اس کا دروازہ کھول کر بیٹھی تھی۔ اس نے پرپل رنگ کا پرنٹڈ سوٹ پہنا ہوا تھا اور دوپٹہ سر پر لیا ہوا تھا۔ گھر سے وہ ہمیشہ سر پر دوپٹہ لے کر ہی نکلتی تھی۔
اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے گھر کے دروازے سے باہر نکالی مگر سامنے کا منظر دیکھ کر محاورتاً نہیں، بلکہ حقیقتاً اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔
"Dr. Maham, you are under arrest"
ایک پولیس افسر نے اس کی کھڑکی پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔💞
Author's note:
Assalamualaikum people! Hope you are doing amazing and having a great day! Jee, aj apki khidmat mein ek aur episode hazir hai! Umeed hai apko achi lagey gi. And, IN SHA ALLAH ab se we are starting the weekly updates again! There will be a new episode every weekend IN SHA ALLAH.
For more updates, follow me up on my Instagram account: @_allbooked_
And don't forget to VOTE and COMMENT DOWN your reviews! I am waiting...
And till next time, ALLAH HAFIZ!❤️

ESTÁS LEYENDO
یا قمر/Ya Amar
Aventura"تمہیں پتا ہے تم میرے لیے کیا ہو؟" "کیا؟" "یا قمر" "مطلب؟" "میری زندگی کا سب سے خوبصورت چاند"