قسط نمبر - 20

319 30 15
                                    

کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا، سیدھا چہرے پر پڑنے کی وجہ سے وہ کانپتے ہوئے بستر سے نکلی۔ کچھ منمناتے ہوئے کھڑکی بند کرنے لگی، تو یاد آیا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ خضدار کے بعد کالات اور پھر وہاں سے کوئٹہ، آج ان کا یہاں آخری دن تھا، پھر کل زیارت کے لیے نکلنا تھا اور دو دن بعد وہاں سے واپسی۔ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے وہ فریش ہونے کے لیے اٹھی تو فون پر نظر پڑتے ہی جھٹکے سے سیدھا ہوئی۔ آج تو انوشہ کی برتھڈے ہے! اس نے خود کو کوستے ہوئے سر پر ہاتھ مارا۔ کل رات دیر سے فارغ ہونے کی وجہ سے وہ آتے ہی سو گئی تھی، اور اب چھ بجے اس کی سردی سے آنکھ کھلی تھی۔
"ابھی وش کر دوں تو شاید مشکل سے ہی صحیح، معافی تو مل ہی جائے گی" سوچتے ہوئے وہ فوراً فون اٹھائے باہر نکلی تھی۔
"ہیلو، السلام و علیکم" فون ریسیو ہوتے ہی وہ فوراً بولی۔
"وعلیکم السلام" اور چونکہ انوشہ اور رمشا کے فائنل امتحان شروع ہو چکے تھے سو وہ ابھی تک الّوؤں کی طرح جاگ رہی تھیں، اور یہی وجہ تھی کہ فون بھی فوراً اٹھا لیا گیا تھا۔
"میں ویڈیو کال کر رہی ہوں، اپنا آلو جیسا چہرہ دکھاؤ مجھے جلدی سے" ماہ نور نے کہتے ہوئے فوراً ہی اپنی بات پر عمل بھی کیا تھا۔ اس کا چہرہ سامنے آتے ہی اس نے اپنی سریلی آواز میں اسے وش کیا تھا، آواز اتنی سریلی ہو رہی تھی کہ انوشہ نے درد سے آنکھیں بھینچ لی تھیں۔
"آپ کس کو وش کر رہی ہیں بھئی؟ یہ ہوتی ہیں بہنیں؟ جو ایک نہیں، دو نہیں، پورے پانچ گھنٹے بعد مجھے وش کر رہی ہیں؟" فوراً اس کا شکوہ بھی سن لیا تھا۔
"اچھا نا، آئی ایم سوری، تمہیں پتا ہے نا کتنی بزی ہو گئی ہوں میں یہاں؟" وہ معصومیت سے بولی۔
"میرا دل توڑا ہے آپ نے، اتنی آسانی سے معاف کر دوں میں آپ کو؟" اس نے منہ بسور کر کہا۔
"اچھا اچھا، میری اماں، بولو، کیا چاہیے؟" ماہ نور نے بھی اس کی بات سمجھتے ہوئے فوراً ہی ہتھیار ڈال دیے۔
"مجھے وہاں سے کوئی اچھا سا، شو پیس لا کر دیں، اور مہنگا ہو! کنجوسی نہیں دکھائیے گا!" اس نے جلدی سے فرمائش سنا بھی دی، تکلف تو غیروں میں ہوتا ہے، ماہ نور پر تو اس کا حق تھا بھئی!
"اچھا؟ کہتی ہو تو گھر خرید لوں تمہارے لیے یہیں؟" موسم بدلنے کی وجہ سے اس کو بھی فلو ہو گیا تھا سو آواز کافی بیٹھی ہوئی تھی۔
"نہیں نہیں، میں غریبوں سے اتنی بڑی بڑی فرمائشیں نہیں کرتی" بال جھٹکتے ہوئے بولی ایسی تھی جیسے بہت بڑا احسان کیا ہو۔
"بہت شکریہ آپ کا" ماہ نور نے افسوس سے سر ہلایا کہ یکدم انوشہ چونکی۔ اسے پیچھے کوئی سایہ سا نظر آیا تھا۔
"یہ، یہ کون ہے پیچھے؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔ ماہ نور نے مڑ کر دیکھا تو حمزہ ایک کونے میں فون کان سے لگائے کھڑا تھا۔ چونکہ ماہ نور ہال میں ہی تھی لہٰذا حمزہ کا یہاں نمودار ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی اس کے لیے۔ البتہ ان کے علاوہ اتنی صبح صبح وہاں کوئی اور تھا بھی نہیں۔
"کوئی نہیں، تم بتاؤ؟ پیپر کی کیسی تیاری ہے؟" ہینڈز فری کا مائک قریب کرتے ہوئے اب وہ تھوڑا دھیما بول رہی تھی کہ پیچھے حمزہ کال پر ڈسٹرب نہ ہو جائے اس کی وجہ سے۔ البتہ، حمزہ کو اس نے اتنا ضروری نہ سمجھا تھا کہ اس وقت کال پر اس کا ذکر کر کے اپنا موڈ خراب کرتی۔
"اللّٰہ ایسی قسمت کسی کو نہ دیں! آج میری برتھڈے ہے اور میں یہاں بیٹھے پڑھ رہی ہوں، آپ کو پتا ہے؟ کل ٹھیک سے سیلیبریٹ بھی نہیں کر سکے، بس کیک کھایا اور مما اور خالہ نے بریانی اور کڑھائی بنائی تھی اور مہد بھائی نے کے ایف سی سے بس کچھ سامان منگوا لیا تھا۔ بس، بھلا بتائیں؟ یہ کیسی برتھڈے ہوئی؟" ماہ نور کے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ اپنا دُکھڑا لیے شروع ہو گئی۔ ماہ نور نے پوچھنے پر خود ہی کو کوسا تھا۔ پیچھے کھڑے حمزہ کی اب یکدم اس پر نظر پڑی تو وہ دو لمحے کے لیے ساکت سا ہو گیا۔ ماہ نور اس کے سامنے کھڑے کسی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔
"میں آپ سے تھوڑی دیر میں بات کرتا ہوں سر" اس نے نظریں جمائے کہا اور فون بند کر دیا، اتنی دیر میں ماہ نور بھی فارغ ہو چکی تھی۔ البتہ اب کراچی میں بیٹھی انوشہ ضرور تجسس کا شکار ہو چکی تھی کہ اسے پیچھے دکھی ہلکی سی جھلک کافی جانی پہچانی لگی تھی۔ حمزہ اب ماہ نور کے پاس آ چکا تھا۔ گزرے دنوں حمزہ کو بخار ہونے پر ماہ نور نے بار بار اپنا فرض اور ڈیوٹی جتاتے ہوئے بڑی سختی سے اسے آرام کروایا تھا البتہ حمزہ کافی تنگ آ چکا تھا۔
"ناشتہ کر لیا؟" حمزہ اسے مخاطب کرتے ہوئے بولا۔
"نہیں، جا رہی تھی بس" ماہ نور نے عام سا جواب دیا تھا جب کہ حمزہ نے اسے غور سے دیکھا۔
"آپ کا گلا خراب ہے؟" وہ تشویشی انداز میں بولا۔
"آ-۔۔۔ جی؟" ماہ نور پہلے کچھ ہچکچائی پھر احساس ہونے پر نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
"دوا لے لی؟" وہ ایک بار پھر حتمی انداز میں بولا۔ اب ماہ نور کو غصہ آیا تھا کہ وہ گزرے دنوں اس پر دواؤں کا جو پہاڑ توڑ چکی تھی، وہ اس کا بدلہ چکانا چاہ رہا تھا؟
"میں ڈاکٹر ہوں، میں خود دیکھ لوں گی" اس نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔ پانچ دن میں بس ان کی اتنی ہی دوستی ہوئی تھی کہ دو منٹ سکون سے بات کر لیا کرتے تھے، اور پھر کسی بات پر انا بیچ میں آ جایا کرتی تھی۔
"مجھے بالکل یقین ہے آپ کے دعوے پر، اس لیے بار بار بول کر مجھے یقین دلانے کی ضرورت نہیں۔ ہم پہلے ناشتہ کریں گے اس کے بعد اس بحث کو کنٹینیو کر لیں گے" وہ تقریباً حکم دیتے ہوئے اب نیچے بنے ریسٹورانٹ کی طرف چل دیا تھا جب کہ ماہ نور غصے اور حیرانگی کے ملے جلے تاثرات لیے اس کی پشت کو گھورتی رہی، پھر آخر کار پیر پٹختے اس کے پیچھے ہو لی کہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا، ناشتہ تو اسے کرنا ہی تھا۔

یا قمر/Ya AmarWhere stories live. Discover now