"طلحہٰ، میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی" اس نے جواب سن کر فوراً ہی کہہ دیا تھا کہ اب وہ اسے اور خود کو مزید تکلیف نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔ اس کی بات سن کر وہ آہستگی سے، دقت کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھا۔
"میں بھی آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتا" اس نے کھرا کھرا جواب دیا تھا۔
ماہم نے اس کا جواب سن کر ایک گہرا سانس لیا، اور چند لمحے اس کے مزید کچھ بولنے کا انتظار کیا مگر جواب ندارد۔ دوسری طرف بالکل خاموشی ہو چکی تھی، بارش کے بعد کا سنّاٹا ہو جیسے۔
"پھر ہم شادی نہیں کر رہے؟" ماہم نے تصدیق چاہی۔
"نہیں، ہم شادی کر رہے ہیں، اگلے ایک ہفتے میں!" وہاں وہ نہایت سنجیدگی سے بولا۔ یہاں ماہم دنگ رہ گئی تھی۔
"کیا مطلب؟ کیوں؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔
"کیوں کہ نیگیٹو ان ٹو نیگیٹو، پوزیٹو ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے دو یہ دو منفی ارادے ملانے پر، مثبت نتیجہ نکلتا ہے، جو کہ جلد از جلد نکاح کر لینا ہے" طلحہٰ نے ریاضی کے مشہور فارمولے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا مکمل منصوبہ بتایا تھا۔ البتہ اس پوری گفتگو میں وہ بے حد سنجیدہ تھا۔ ماہم نے اپنا سر جھٹکا۔
"اف طلحہٰ! جائیں آرام کریں آپ کو فی الحال اس کی بہت ضرورت ہے" وہ بولتے ہوئے ہنس دی تھی۔ ان کی تمام لڑائیاں ایک طرف، وہ ہر دفعہ اس کا موڈ اچھا کرنے میں کامیاب ہو جایا کرتا تھا۔
"میں سیریس ہوں ماہم" وہ بولا۔
"اور وہ فریحہ؟" وہ بھی اب آنکھیں چڑھا کر بولی تھی۔
"خدا کو مانو ماہم، میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا۔ اور کل بھی تم اتنا ہائپر ہو گئی تھیں کہ میں وضاحت دے کر تمہیں مزید غصہ نہیں دلانا چاہتا تھا" وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔ لیکن ماہم کو اس کے ادا کیے الفاظوں پر اور غصہ آیا تھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی، طلحہٰ نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا۔
"نہیں، میں تمہیں بالکل الزام نہیں دے رہا۔ فریحہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں ایک لیڈی آفیسر ہیں، اور دو دن پہلے ہی ہماری ٹیم کو ان کے ساتھ ایک ٹاسک دیا گیا ہے۔ بس اس ہی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے انہوں نے کال کی ہو گی جو تم نے دیکھ لی۔ وہ میرڈ ہیں، اور ان کے دو بچے بھی ہیں ماہم" اس کے آخری الفاظ ادا ہونے سے پہلے ماہم نے اپنا منہ کھولا تھا، لیکن پھر وہ بھی بند ہو گیا۔ اب کے دونوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
"ہاں تو پھر، میں کل ہی امی، ابو کو تمہارے گھر بھیج دوں گا، تاکہ وہ ہمارے نکاح والی بات کو آگے بڑھائیں" اس نے واپس اپنے مقصد پر آتے ہوئے کہا۔
"کیا مطلب؟ آپ واقعی سیریس تھے؟" ماہم کی آنکھیں پھٹی تھیں۔
"جی ماہم۔۔۔ بس بہت ہو گیا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے بیچ مزید کوئی غلط فہمیاں پیدا ہوں، اور میں تمہیں کھو دوں۔ پلیز" وہ بے بسی سے بولا۔
"میں بھی نہیں چاہتی طلحہٰ" اس نے بھی کرب سے کہا۔ اور کچھ دیر اسے آرام کرنے کی سخت ہدایات دینے کے بعد کال بند کر دی۔ وہ دونوں خوش تھے۔ اور دونوں ہی اس خوشی کو چاہ کر بھی اپنے چہرے سے نہیں چھپا سکتے تھے۔
•••
"طبیعت کیسی ہے اب آپ کی؟" حمزہ دستک دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ ماہ نور نے اپنے کھلے بالوں کو ہلکے سے جوڑے میں لپیٹا تھا۔
"ٹھیک ہے۔ وہ دونوں لڑکے کیسے ہیں؟ ان کے زخموں کو کچھ فرق پڑا کہ نہیں؟" وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اب اس کی طرف دیکھتے ہوئے فکر مند سا بولی۔
"جی، اب کافی بہتر ہیں، اللّٰہ کا شکر کہ اس نے کسی بڑے حادثے سے بچا لیا" وہ تھک کر اس کے برابر رکھی کرسی پر بیٹھا تو وہ چونکی۔ آج ان کی کمپین کا آخری دن تھا۔ وہ زیارت کے تمام اہم علاقوں کا ملاحظہ کر چکے تھے اور کل صبح ہی ان کی واپسی تھی۔ البتہ آج توقع کے برعکس وہ پانچ بجے کے قریب ہی فارغ ہو گئے تھے۔ اور باقی بچے چند گھنٹے وہ سب بالکل آزاد تھے۔
"بیٹھ کیوں رہے ہیں؟ اٹھیں چلیں" اس نے خود کھڑے ہوتے ہوئے، حمزہ کو حتمی انداز میں کھڑے ہونے کا حکم دیتے ہوئے سر پر ہیٹ پہنا تھا۔
"کہاں چلیں؟" وہ معصومیت سے بولا۔
"کیا مطلب کہاں چلیں؟ آپ نے کل مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں آج ٹھیک ہو گئی تو آپ مجھے قائد اعظم ریزیڈنسی لے کر چلیں گے، اور واپسی پر لنچ بھی کروائیں گے" ماہ نور اس کو کل والی باتیں یاد کرواتے ہوئے ہلکی سی لپ اسٹک لگا کر تیار ہو چکی تھی۔ حمزہ نے یاد آنے پر سر ہلایا، پھر تفتیشی نگاہوں سے اسے گھورا۔
"آپ ٹھیک ہوئی بھی ہیں؟ یا صرف مجھے پاگل بنا رہی ہیں؟"
"نہیں نہیں، میں بنے بنائے پاگلوں پر محنت نہیں کرتی" اس نے عام سے انداز میں کہا تو حمزہ اسے گھورتے ہوئے گاڑی میں آنے کا کہہ کر نیچے چلا گیا۔
"آفیسر صاحب، آپ کو ایک ایک بات پر تنگ کر کے اپنا بدلہ بھی تو چکانا ہے مجھے" اب کے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے وہ اسے مخاطب کر شرارت سے بولی تھی۔
"دیکھ لیں ڈاکٹر صاحبہ، یہ پنگا کہیں بھاری نہ پڑ جائے" وہ بھی اس کو للکارتے ہوئے بولا۔
"آپ اپنی خیر منائیں" اس نے ہنستے ہوئے اس کو وارن کیا تھا۔ حمزہ نے مسکراتے ہوئے ایک نظر اسے دیکھا تھا جبکہ وہ سامنے شیشے سے باہر جھانکنے میں مصروف تھی۔
BẠN ĐANG ĐỌC
یا قمر/Ya Amar
Phiêu lưu"تمہیں پتا ہے تم میرے لیے کیا ہو؟" "کیا؟" "یا قمر" "مطلب؟" "میری زندگی کا سب سے خوبصورت چاند"