"کیا؟!" طلحہٰ کو اپنی روح، جسم سے نکلتی محسوس ہوئی۔ اس نے فون رکھا اور ماہم کی طرف مڑا۔
"کیا ہو-" ماہم ابھی پوچھنے ہی لگی تھی کہ طلحہٰ نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھڑا کیا۔
"جلدی چلو گولی لگی ہے" وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ باہر کی طرف لے جاتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ سکا۔
"کس کو؟ کیا ہوا ہے طلحہٰ؟" ماہم بھی پریشان ہوئی تھی۔
"ایک منٹ" طلحہٰ کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ اس کے ساتھ چلتے چلتے رکی اور اپنا ہاتھ چھڑوا کر دوبارا ہاسپٹل کے اندر بھاگی۔
"اب چلیں" مشکل سے آدھے منٹ میں وہ دوڑتی ہوئی ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس پکڑے واپس آئی تھی۔ وہ دونوں جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھے۔
ماہم کو کوئی اندازا نہیں تھا کہ کس کو گولی لگی ہے اور وہ اسے کہاں لے کر جا رہا تھا مگر اس کو شدید پریشان دیکھ کر ماہم کو بھی فکر ہوئی تھی لیکن وہ اس سے فی الحال سوالات کرنے سے گریز کر رہی تھی۔ وہ جواب دینے کی کیفیت میں نہیں تھا۔ اس کے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی اور وہ دونوں ہاتھ سے ڈرائیو کرتا جتنا ریز ہو سکتا تھا اتنی تیز گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کر وہاں پہنچ جائے۔ اس نے گاڑی تقریباً بھگاتے ہوئے ایک بڑے سے گھر کے سامنے روکی تھی۔ گھر کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا اس لیے وہ بھاگتا ہوا اندر کی طرف بڑھا تھا اور ماہم بھی اس کے پیچھے گئی تھی۔ گھر کے مین گیٹ کو عبور کرتے ہی ایک چھوٹی سی راہداری موجود تھی اور اس کے آخر میں ایک بڑا سا ٹی وی لاؤنج بنا ہوا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی سامنے کا منظر دیکھ، طلحہٰ کے ساتھ ساتھ ماہم کو بھی ایک لمحے کے لیے دھچکا لگا تھا۔ لاؤنج میں سیدھے ہاتھ پر رکھے صوفوں میں سے ایک کے آخر میں، زمین پر ذرا ضعیف شخص شدید زخمی ہوئے گرے تھے۔ طلحہٰ بڑھ کر ان کے سرہانے بیٹھتے ہوئے اپنا سر پکڑا تھا۔ وہ ان کو دیکھ کر اپنے آنسو روک نہیں پایا تھا۔ ارشد صاحب کے سینے سے تھوڑا نیچے خون بہہ رہا تھا اور وہ اپنی آنکھوں کو کافی مشکل سے کھولے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ماہم تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔ اس نے طلحہٰ کو ہلا کر سائڈ میں ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ اٹھا اور تھوڑا دور کمرے کے کونے میں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے اور اس کا ذہن ماؤف ہوتا جا رہا تھا۔ آج اس کی یہ حالت دیکھنے کے بعد اگر کوئی بھی اسے یہ کہتے سنتا کہ اسے ارشد صاحب سے محبت نہیں تو کبھی اس کا یقین نہ کرتا۔ مگر اب اس کا خود بھی ایسا کچھ کہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اسے ارشد صاحب سے بہت گلے، شکایتیں تھیں، مگر وہ پھر بھی اس کے والد ہی تھے۔ وہ صرف پندرہ سال کا تھا جب ایک دن پنجاب سے واپسی پر ارشد صاحب اپنے گھر لوٹے تھے۔ ان کے ساتھ ایک سادہ سی خاتون اور طلحہٰ سے کچھ سال چھوٹا ایک لڑکا بھی تھا۔ ان کے بتانے پر اسے پتہ چلا تھا کہ وہ ارشد صاحب کی دوسری بیوی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بس، اس کے آگے ان کی بتائی کوئی بھی بات سنے بغیر وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ ابھی اس کے لیے اتنا ہی صدمہ کافی تھا۔ اسے اکثر اپنے امّی، ابو کے کمرے سے لڑائیوں کی آوازیں آتی تھیں، ارشد صاحب کے چیخنے کی آوازیں، شائستہ بیگم کے رونے کی آوازیں۔ مگر کچھ دن بعد وہ سب بھی ٹھیک ہو گیا تھا۔ ان کی دوسری بیوی اور بیٹا ان کے ساتھ دوسرے گھر میں رہتے تھے۔ اس ہی دن طلحہٰ نے یہ بات ٹھان لی تھی کہ وہ اب اپنی امّی اور ربیعہ آپی کی ذمّہ داری خود ہی اٹھائے گا اور ارشد صاحب کا کوئی احسان اپنے سر نہیں لے گا۔ احسان تو دور کی بات، اس نے جب سے انہیں ابو کہنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ جب سے ہی ارشد صاحب کے ساتھ اس کا رویہ سرد رہا تھا اور وہ ان کی طرف سے کافی بد گمان ہو چکا تھا۔ کیا انہیں امّی سے محبت نہیں تھی جو وہ ان کی جگہ ایک اور بیوی کو لے آئے تھے؟ کیا انہیں طلحہٰ سے محبت نہیں تھی جو وہ اس کی جگہ ایک اور بیٹا لے آئے تھے؟ ہمیشہ سے وہ ان ہی باتوں کا شکار رہا تھا اور کبھی اس نے ارشد صاحب سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی کہ ان کی کہانی کا پہلو کیا تھا؟ اسے پہلی نظر میں جو سمجھ آیا تھا، وہ بس آج تک اس ہی کو لے کر بد گمان بیٹھا تھا۔ یہاں تک کہ اگر کبھی امی بھی ان کا ذکر کرتیں تو وہ غصے میں گھر سے نکل جایا کرتا تھا، تاکہ امی آئندہ یہ بات کرنے سے گریز کریں۔ اس ہی لیے اتنی بار ناکام ہونے کے بعد شائستہ بیگم نے بھی اب کوشش کرنا چھوڑ دی تھی۔ اور اب اسے سب سے زیادہ احساس اس بات کا ہو رہا تھا کہ اسے ایک بار تو ان کی بات سن لینی چاہیے تھی۔ اس کے دماغ میں ابھی بہت سی ایسی ہی باتیں چل رہی تھیں۔ اسے پچھتاوا ہو رہا تھا، ارشد صاحب کو گھر سے نکال دینے پر، ان سے بد گمان رہنے پر، ان سے بد تمیزیاں کرنے پر، ایک طرف کی کہانی پر یقین کر لینے پر اور کبھی دوسری طرف کی کہانی جاننے کی کوشش ہی نہ کرنے پر۔ شاید وہ انہیں کھونا نہیں چاہتا تھا، اور اب اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اللّٰہ اس سے بھی سارے موقعے نہ چھین لے، کہیں اسے کبھی ارشد صاحب کو اپنے والد کا رتبہ اور عزت دینے کا موقع ہی نہ ملے۔ اے اللّٰہ، میرے ابو کو بچا لے۔ میں ان کو اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ پل پل اس کے دل سے بس یہی دعا نکل رہی تھی۔ وہ تڑپ رہا تھا، وہ اللّٰہ کے سامنے اپنی بے بسی لیے بیٹھا تھا۔ ہر لمحہ اس کے لیے کٹھن ہوتا جا رہا تھا اور وہ بے بسی کے عالم میں بیٹھا صرف اللّٰہ سے دعائیں کر رہا تھا۔ ماہم نے آ کر اس کا کندھا ہلایا تو اس نے آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی بے جان آنکھیں دیکھ کر ماہم کو تکلیف ہوئی تھی۔
"He is out of danger now"
(وہ اب خطرے سے باہر ہیں) یہ کہتے ہوئے ماہم نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور اپنا باکس ہاتھ میں لیے کمرے سے باہر چلی گئی جب کہ پیچھے وہ اب تک بے یقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ اللّٰہ کا لاکھ شکر ادا کرتے آہستہ سے اٹھا اور ارشد صاحب کے قریب جا کر بیٹھا۔ وہ شاید اتنی دیر تک اپنے آپ کو ہوش میں نہیں رکھ سکے تھے۔ اس نے آرام سے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور انہیں اپنے ہونٹوں سے لگایا۔ ایسا کرتے ہوئے بے اختیار اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر اس کے کالر میں جذب ہوئے تھے۔
"مجھے معاف کر دیں، میں ہمیشہ آپ سے بد گمان رہا، میں نے ہمیشہ آپ سے اکھڑے لہجے میں بات کی، کبھی آپ کو باپ سمجھ کر عزت نہیں دی، میں آپ سے بے حد شرمندہ ہوں، میں آپ کو دوبارہ کھونا نہیں چاہتا" وہ زمین پر ان کے پاس بیٹھا رو رہا تھا۔ ارشد صاحب نے اپنا دوسرا ہاتھ اٹھا کر شفقت سے اس کے سر پر رکھا۔
"ابو..." طلحہٰ نے چونک کر اپنا سر اٹھایا، بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تھا۔
"نہیں۔۔۔ غلطی میری-" وہ ابھی کچھ بولنے لگے تھے کہ طلحہٰ نے ان کی بات کو بیچ میں کاٹا۔
"بس ابو، آپ آرام کریں، میں تھوڑی دیر میں آپ کے پاس آؤں گا" وہ ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بند کرتے ہوئے بولا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس حالت میں بھی اس کو سمجھانے بیٹھ جائیں۔ طلحہٰ نے تھوڑا جھک کر ان کے ماتھے کو چوما اور باہر کی طرف چلا گیا۔
•••
اس نے آج نیلے رنگ کی لمبی، گھٹنوں سے تھوڑا نیچے تک آتی فراک پہن رکھی تھی جس کے ساتھ ہلکے، لال رنگ کا ٹراؤزر اور ہم رنگ لمبا سا دوپٹہ ایک کندھے پر ڈالا ہوا تھا۔ سیدھے لمبے بالوں کو پونی میں باندھا ہوا تھا۔ وہ بہت سادہ مگر پیاری لگ رہی تھی۔ وہ راہداری عبور کرتے ہوئے ان کے لاؤنج میں پہنچی تو سامنے ہی صوفے پر اسے وہ بیٹھا ملا تھا۔ وہ اپنے لیپ ٹاپ میں کافی مصروف لگ رہا تھا اس ہی لیے شاید بد قسمتی سے اس کو دیکھ نہیں سکا اور موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بھی شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجائے آہستہ آہستہ چلتی صوفے کے پیچھے اس کے سرہانے کھڑے ہوتے ہوئے گلا پھاڑ کر بولی تھی۔
"کیسے ہو چشمش؟" اس کے کہتے ہی وہ اچھلا تھا۔ مشن ایکومپلشڈ!
"انوشہ، مجھے اس قسم کے مزاق بالکل نہیں پسند" وہ اس کو دھمکانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
"اچھا پھر بتائیں کہ آپ کو پسند کیا ہے؟" وہ ہتھیلی پر تھوڑی جمائے، شرارتی انداز میں بولی۔
"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟" وہ لیپ ٹاپ سائڈ میں کرتے ہوئے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔
"سب آئے ہیں تو کیا میں گھر پر مکھیاں مارتی؟" اس نے تنگ آ کر کہا۔
"ویسے کام آپ کے مطلب کا تھا" وہ سر اثبات میں ہلاتا ہوا اپنی مسکراہٹ دبا کر بولا۔ انوشہ اس کی ان باتوں پر ذرا کان نہیں دھر رہی تھی۔
"ویسے کیا آپ کو کوئی کام کی بات کرنی نہیں آتی؟" وہ مزید اس کو زچ کرنے کے موڈ میں لگتا تھا۔
"چلیں کر لیتے ہیں کام کی بات، یہ بتائیں کہ اب پاکستان آنے کے بعد آپ کے کوئی بڑا کام کرنے کے ارادے نہیں ہیں؟ یہ کیا ہر وقت گھر میں پڑے رہتے ہیں؟" اس نے سمجھداری سے سر ہلاتے ہوئے ہلکا سا مسکرا کر پوچھا جیسے بڑا کوئی فلسفانہ سوال کیا ہو۔
"شادی کرنی ہے" زاویار نے بھی اس کے سوال جیسا ہی جواب دیتے ہوئے گردن اکڑا کر کہا۔ کن اکھیوں سے اس کا رد عمل بھی دیکھنا چاہا تھا۔
"اوہ مائی گاڈ! دیکھا! تبھی میں کہوں کہ مجھے آپ اپنے مطلب کے آدمی کیوں لگتے ہیں!" اس نے ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے اس کے بازو پر مارا تھا۔
"کیوں؟" وہ ایک دم چونکا۔ اب یہ کیسا رد عمل ہے؟! لیکن بظاہر اس نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے عام سے انداز میں ہی پوچھا تھا۔
"کیوں کہ میں ایک انٹیریئر ڈیکوریٹر ہوں!" وہ خوشی سے اس کی طرف مڑی تھی۔
"تو؟"
"تو یہ کہ آپ شادی کرنے لگے ہیں!" زاویار کو ایک بار پھر لگا تھا کہ شاید وہ کافی کم عقل ہے۔ لیکن اس نے ابرو اچکانے پر ہی اکتفا کیا۔
"آپ کا یہ گھر! اس کو میں ڈیکوریٹ کروں گی نا!" اس نے خوشی سے دونوں ہاتھ پھیلا کر گھر کی طرف دیکھتے ہوئے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی۔ جب کہ زاویار اپنی ہنسی دبائے کافی مشکل سے بیٹھا تھا، وہ اتنی عقلمند ہو گی اس بات کا اندازہ نہیں تھا اسے۔
"کیا مطلب؟ اس گھر کو ڈیکوریشن کی کیا ضرورت ہے؟" بظاہر اس نے ایک ابرو اچکا کر سنجیدگی سے کہا تھا۔
"حالت دیکھی ہے آپ نے اس گھر کی؟ یہ پرانے صوفے، یہ 1954 کی ٹیبل، اور یہ پردے تو دوسری جنگ عظیم کے بچے کچے سامان میں سے لیے ہوئے لگ رہے ہیں۔ اور اس گھر کو ڈیکوریشن کی نہیں اس کو تو "رینوویشن" کی ضرورت ہے!" اس نے ہاتھ چلا چلا کر لاؤنج میں رکھی ایک ایک چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر اس کے جملے کی تصحیح کرتے ہوئے "رینوویشن" پر زور دیتے ہوئے بولی۔ اس کے کہنے پر زاویار نے پورے کمرے کا جائزہ لیا تھا، اب اتنا بھی پرانا نہیں لگ رہا تھا سب۔
"ہاں تو؟ ویسے بھی پہلے ابو اکیلے رہتے تھے، اب میں آ گیا ہوں تو رینوویشن بھی خود دیکھ لوں گا" اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
"ہاں! اور اس ہی کے لیے تو آپ نے مجھے ہائر کیا ہے۔ مبارک ہو! آپ میرے پہلے خود سے کمائے گئے کلائنٹ ہیں" وہ اس کو تنگ کرنے کے لیے مغرور انداز میں اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولی۔ ویسے تو پہلے بھی یونیورسٹی کی طرف سے ان لوگوں کو ڈیکوریشن کے لیے عمارات اور گھر دے دیے جاتے تھے لیکن اس زبردستی کے کلائنٹ پر اب اس کو بہت خوشی ہو رہی تھی جو اس کے حساب سے اس کا "خود سے کمایا ہوا کلائنٹ" تھا۔
"جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے، میں نے تو آپ سے ابھی تک کوئی ایسی ڈیل نہیں کی" وہ دوبارہ سنجیدہ ہوتے ہوئے اس کی طرف مڑا۔
"کیا مطلب ہے؟ آپ میری ملین ڈالر آفر ریجیکٹ کر رہے ہیں؟" وہ کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے اس کو آنکھیں دکھا کر بولی۔
"نہیں نہیں انوشہ صاحبہ، میری اتنی جرأت کہاں کہ میں اپنے ہی گھر کے لیے آپ کو ہائر نہ کروں" وہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر طنزیہ بولا تھا۔
"جی، گُڈ!" وہ اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی اور وہ بھی سر پکڑتا ہوا اس کے پیچھے ڈرائینگ روم گیا تھا جہاں باقی سارے گھر والے بیٹھے تھے۔ سوائے ماہم اور ماہ نور کے، وہاں سب ہی موجود تھے۔
"کیا بات ہے بھئی؟ بڑی دوستیاں ہو رہی ہیں گوروں سے؟" رمشا، انوشہ کے کان میں کھسر پھسر کرتے ہوئے بولی تھی جو زاویار کے ساتھ چلتے ہوئے صوفے پر اس کے برابر میں ہی آ کر بیٹھی تھی۔
"وہ گورا تھوڑی ہے! پاکستانی ہی ہے!" انوشہ نے اس کو عقل دلائی۔ پانچ سال پہلے بھی زاویار سے ان سب ہی کی بات چیت تھی البتہ، طارق صاحب کے بچوں کی طرح زیادہ کلوز نہیں تھا۔ اور انوشہ اور اس کی تو پہلے بھی کم بنتی تھی تو نہ ہونے کے برابر ہی بات چیت تھی۔اور یہی وجہ تھی کہ اور بچوں کے ساتھ اس نے بھی اس کو یاد رکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
"ارے واہ! دوستی ہو گئی ہے تم لوگوں کی؟" رمشا نے اس کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
"ہاں بلکہ میں نے تو یہ بھی پتہ کر لیا ہے کہ وہ یہاں واپس کیوں آیا ہے!" وہ اس کی بات میں شرارت کو نوٹس کیے بغیر، ایک بار پھر ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے بولی تھی۔
"کیوں؟" رمشا نے نا سمجھی سے پوچھا۔
"میرے مقصد سے ہی!" وہ اپنے دونوں ہاتھ باہم باندھتے ہوئے بولی۔
"کیا؟!" اس بار رمشا نے حیرت سے تقریباً چیختے ہوئے پوچھا تھا جس سے ارد گرد بیٹھے دو تین لوگوں نے اسے گھورا بھی تھا لیکن وہ ابھی صدمے میں تھی کیوں کہ وہ اتنا تو جانتی تھی کہ وہ پاکستان آ کر جلد شادی کرنے کے ارادے رکھتا تھا لیکن یہ یہاں کیا ہو رہا ہے بھئی؟
"ہاں، وہ شادی کرنے آیا ہے اور میں ایک انٹیریئر ڈیکوریٹر ہوں، مطلب میں اس کا گھر ڈیزائن کرنے والی ہوں!" وہ اس کو سمجھاتے ہوئے بولی جو شاید ابھی حیرت سے مرنے والی تھی اگر انوشہ اس کو پوری بات نہ بتاتی تو۔ فی الحال تو ایک ہی دن میں انوشہ اپنے پیشے کا اعلان پچاس دفعہ کر چکی تھی، اور پاس بیٹھے زاویار نے ایک بار پھر اس کے منہ سے یہ بات سننے کے بعد کہیں ڈوب کر مر جانے کی خواہش کی تھی۔
"توبہ ہے انوشہ! تم نے تو ڈرا ہی دیا!" رمشا نے اپنا دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے فلمی انداز میں کہا۔
"کیوں؟" اس نے نا سمجھی سے پوچھا۔
"رہنے دو تم!" رمشا اس کو طعنہ دیتے ہوئے بولی جس کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے انوشہ اپنے کندھے اچکا کر معیز کے ساتھ باتوں میں مگن ہو گئی تھی۔
•••
رات کے ڈھائی بج رہے تھے اور طلحہٰ اب ماہم کو دوبارہ ہاسپٹل چھوڑ کر واپس ارشد صاحب کے پاس ان کے گھر جا رہا تھا۔ ارشد صاحب کو اکیلا چھوڑنے کا خطرہ اب تو وہ ہرگز مول نہیں لے سکتا تھا اس لیے حمزہ کو ان کے پاس چھوڑ کر آیا تھا۔ لیکن جلد بازی میں اس سے کوئی بھی تفصیلی بات نہیں ہو سکی تھی۔ اور فی الحال تو وہ سارے راستے اس ہی سوچ میں مبتلا رہا تھا کہ وہ ماہم کو ارشد صاحب کے پاس کیسے لے گیا؟ کب اسے ماہم پر اتنا بھروسہ ہوگیا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے ماہم کو ان کے پاس لے آیا تھا جن کے بارے میں تو اس نے کبھی اپنے قریبی دوستوں سے بھی ذکر نہیں کیا تھا۔ کیوں ماہم اس کو اس وقت اتنی قابلِ اعتماد لگی تھی؟ اسے واپس چھوڑتے وقت سارے راستے گاڑی میں خاموشی رہی۔ وہ ماہم کو اپنی فیملی کے بارے میں ابھی کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں تھا اور نہ ہی ماہم نے اس سے ارشد صاحب یا ان کے گھر یا کسی کے بارے میں بھی کوئی سوال کیا تھا۔ وہ بھی شاید اس کی پرائیویسی کا احترام کرتی رہی تھی۔ لیکن گاڑی سے اترتے ہوئے وہ اسے ایک منٹ رکنے کا کہہ کر اندر گئی تھی۔
"یہ کچھ میڈیسنز ہیں، اور یہ پین کلرز، روزانہ یاد سے ان کو دینی ہیں" جب وہ واپس آئی تھی تو اس کے ہاتھ میں دوائیوں اور انجکشنس کا ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا جسے اس نے طلحہٰ کو دیتے ہوئے کچھ اہم ہدایات دی تھی۔ ابھی وہ انہیں رکھ کر گاڑی چلانے ہی والا تھا کہ اس نے ایک بار پھر اسے روکا۔
"ایک منٹ!" وہ یک دم بولی تو طلحہٰ نے ابرو کے اشارے سے سوال کیا۔
"آپ زیادہ فکر نہ کریں، میں کچھ دیر میں ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نرس گھر بھجوا دوں گی" وہ جھجھکتے ہوئے بولی تھی کیوں کہ اسے طلحہٰ کی حالت بھی اس وقت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، شاید تھوڑی دیر پہلے والے اسٹریس کا نتیجہ تھا۔
"نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے" کہتے ہوئے اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی مگر نا کام ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ گاڑی نکال کر لے گیا تھا۔
اس نے ان کے گھر کے سامنے گاڑی روکی اور گاڑی سے اترا۔ اندر ہی جانے سے پہلے کچھ سوچتے ہوئے وہ رکا اور چوکیدار کو آواز دی۔ حمزہ بھی اس کی آواز سنتے ہوئے گھر سے نکل کر ان کی طرف آیا تھا۔
"آخری دفعہ گھر کون آیا تھا؟"
"چھوٹے صاحب آئے تھے ایک ہفتہ پہلے"
"اور بیگم صاحبہ کہاں ہیں؟"
"صاحب وہ تو یہاں نہیں آتیں" چوکیدار کے بتانے پر اس کے ابرو تنے تھے مگر وہ اپنے گھر کے معاملات پر کسی ملازم سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"ٹھیک ہے تم جاؤ" وہ چوکیدار کو واپس بھیجتے ہوئے حمزہ کی طرف مڑا جس نے محض کندھے اچکا کر اسے اندر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اندر کی طرف بڑھا۔
BINABASA MO ANG
یا قمر/Ya Amar
Adventure"تمہیں پتا ہے تم میرے لیے کیا ہو؟" "کیا؟" "یا قمر" "مطلب؟" "میری زندگی کا سب سے خوبصورت چاند"