قسط نمبر - 16

499 41 47
                                    

ابھی وہ لان میں ٹہلتے خود سے اس کو کال کرنے یا نہ کرنے کی جنگ لڑ ہی رہی تھی کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا فون بجا۔ اس نے جھٹ سے اسکرین دیکھی۔
"Birthday thief calling.."
(سال گرہ چور کالنگ۔۔)
لکھا آ رہا تھا۔ اس نے مہد کا نمبر دیکھ کر اچھنبے سے فون اٹھایا کہ رات کے اس پہر اس کو کیسے بہن یاد آ گئی؟ اصولاً تو منگنی شدہ محبوبہ یاد آنی چاہیے تھی۔
"ہیلو؟ تم ٹھیک ہو؟" ماہم نے مکمل پریشانی سے پوچھا۔ اور اگر بھائی سامنے ہوتا تو بے چاری ماتھے پر ہاتھ رکھنے کی بھی زحمت کر چکی ہوتی۔
"نہیں یار، اب کہاں چین آئے گا؟!" وہ گویا اپنی قسمت کو روتے ہوئے بولا تھا۔
"ہیں؟ کیوں بھئی کیا ہوا؟" ماہم نے حیرت سے پوچھا۔
"یار، میری رمشا سے بات کروا دو پلیز؟ پتا نہیں یہ موٹی کہاں ہے پورے چوبیس گھنٹے سے، مجھ سے بات ہی نہیں کر رہی" وہ تو بس رونے ہی والا تھا۔
"پاگل واگل تو نہیں ہو گئے ہو کہیں؟ یہ کونسا وقت ہے؟ اور وہ بے چاری تو نو بجے سے سو رہی ہے۔ تم ہی نے اس کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں! جب سے گئے ہو، مستقل اس مظلوم کو کال کر کر کے تنگ ہی کرتے رہتے ہو بس۔ کوئی کام وام نہیں ہے تمہیں؟" ماہم نے اس کی اچھی خاصی کلاس لے لی تھی۔ اپنے ایک ہفتے اندر رکھی بھڑاس وہ اس بے چارے پر نکال گئی تھی۔
"اچھا نا! کل ملو تو اس کو کہنا مجھے کال کرے ضرور!" مہد حسین کے کان پر کوئی جوں رینگ ہی نہ جائے۔ تقریباً حکم دیتے ہوئے اس نے کال بند کر دی تھی۔
ماہم نے فون کو دیکھ کر اپنے دانت پیسے تھے۔ بد تمیز لڑکا! خود کو چین نہیں آ رہا تو اس کو کیوں تنگ کرنے آ گیا تھا؟! امیدوں پر پانی پھرنے کا غصہ بھی تو نکالنا تھا نا۔
ابھی وہ اپنے فون کو تکتے ہوئے ٹہلتے ٹہلتے دل ہی دل میں اس کو باتیں ہی سنا رہی تھی، جب گیٹ کے پاس پہنچ کر ایک بار پھر اس کا فون بجا۔ نام پڑھ کر وہ یقیناً زمین سے پورے چار انچ اونچا تو ضرور اچھلی تھی۔ کیوں کہ آخر کار، "جاسوس کالنگ۔۔" جو لکھا آگیا تھا۔
"ہیلو، السلام و علیکم" اس نے جھجھکتے ہوئے کال اٹھائی تھی لیکن اپنی آواز سے بالکل ایسا ظاہر ہونے نہیں دیا تھا۔
"وعلیکم السلام، ڈاکٹر صاحبہ، آپ دروازہ کھولیں گی یا مجھے پھیلانگ کر آنا پڑے گا؟" وہی شوخ انداز۔ مگر اس سے پہلے کہ ماہم اس انداز پر غور کرتی، محض اس کی بات ہی اس کو دھچکا دینے کے لیے کافی رہی تھی۔
"جی؟؟!" اب حیرت تو اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی۔ بولتے ہی وہ تیزی سے دروازے کی طرف آئی تھی اور اس کو کھولا تھا۔
"جی! پورے۔۔ دس منٹ تو ہو گئے ہیں مجھے یہاں کھڑے کھڑے۔ سوچ رہا تھا، کہ شاید بالی وڈ کا کوئی سین ہی یہاں ہو جائے" دروازہ کھولتے ہی اس کا وجیہہ چہرہ دیکھ ماہم کے دل کو کچھ کچھ ہوا تھا۔ وہ سامنے کھڑے پہلے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی اور پھر چہرہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا۔
"آ۔۔ آپ؟ اس وقت؟ یہاں؟ م۔۔ مطلب، کیوں؟" ماہم اسے دیکھ کر اپنے دل کی بڑھتی دھڑکن کو سنبھالتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی ادا کر پائی تھی۔
"ارے، ابھی تو میں نے کچھ بولا ہی نہیں، اور آپ کا ابھی سے یہ حال ہے؟" طلحہٰ نے اس کو دیکھ کر کافی محظوظ ہوتے ہوئے اپنا نچلا لب دبا کر مسکراہٹ کو روکا تھا۔ گزرے چار دن میں کتنا کچھ بدل گیا تھا۔
"سوری؟ آپ نے کچھ کہا؟" وہ تو اس کو دیکھنے میں ہی اتنا مگن تھی کہ اس کی بات سننا تو پھر نا کام ہی رہا تھا۔
"نہیں، کچھ نہیں، اندر آ جاؤں؟" اس نے بات پلٹنی چاہی۔ صاحب اپنی پوری اسپیچ تیار کر کے لائے تھے۔
"جی، آئیں نا" ماہم نے احساس ہونے پر شرمندگی سے دروازہ بند کرتے ہوئے اسے پاس بنی بینچ کی طرف چلنے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ نروس ہو رہی تھی، اس بات کا اندازہ سب ہی لگا سکتے تھے بس ایک وہ خود ہی اس سے انجان تھی۔
"اہمم" طلحہٰ نے گلا کھنکارتے ہوئے بات شروع کرنے کی کوشش کی۔
"آپ کو پانی چاہیے؟ رکیں میں لے کر آتی ہوں" اپنی عجیب ہوتی حالت کو چھپانے کا بہانا مل جانے پر وہ فوراً اٹھ کر وہاں سے جانے لگی تھی کہ
"ڈاکٹر ماہم راشد، ادھر بیٹھیں" طلحہٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بینچ پر بٹھایا۔ اس کے اچانک ہاتھ پکڑنے پر اس کو اپنے دل کی دھڑکن کانوں تک سنائی دی تھی۔
"آپ مجھے اجازت دیں تو میں اپنی بات شروع کروں؟" اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے طنزیہ کہا تھا۔
"جی، آپ کو اجازت ہے" اس نے مزاق کرتے ہوئے ماحول ٹھنڈا کرنا چاہا۔ اسے گرمی لگ رہی تھی، یا شاید صرف گھبراہٹ تھی جسے وہ چاہ کر بھی ختم نہیں جر پا رہی تھی۔
"ڈاکٹر ماہم، مجھے ہفتہ پہلے پتا چلا کہ مجھے ایک سنگین بیماری ہو گئی ہے-" اس نے کہنا شروع کیا کہ ماہم پھر سے بیچ میں کود گئی۔
"کیا؟ کون سی بیماری؟ یا اللّٰہ!" اس نے سر پکڑا تھا جب کہ طلحہٰ نے اپنا سر پیٹا تھا، یہ کہاں پھنس گیا تھا وہ؟
"ماہم، میں کچھ بولوں؟"
"ج۔۔جی، آئی ایم سوری" وہ ایک بار پھر سٹپٹاتے ہوئے چپ ہو کر بیٹھی۔
"مجھے ایک سنگین بیماری ہے، جس کا علاج صرف آپ کے پاس ہے" اس نے اپنی بات دوبارہ شروع کی۔ بظاہر وہ بہت مزے میں لگ رہا تھا لیکن اندر اس کے بھی چھکے چھوٹ رہے تھے۔
"کیسی بیماری؟" اب کے ماہم نے سنبھل کر پوچھا۔
"محبت!" کہنے سے پہلے اس کی گردن میں ایک گلٹی سی ڈوب کر ابھری۔ جب کہ ماہم سکتے میں جا چکی تھی۔
"میں آپ کو پسند کرنے لگا ہوں" حالات تو اس طرف بھی کچھ ایسے ہی تھے، مگر اس اچانک اظہار نے گویا اسے لا جواب کر دیا تھا۔ وہ اسے حیران سی اسے گھور رہی تھی۔
"مجھے آپ سے محبت ہونے لگی ہے ماہم" اس نے بات مکمل کر کے ایک گہرا سانس اندر کھینچا اور پھر چہرہ اٹھا کر ڈرتے ہوئے ماہم کی طرف دیکھا۔ وہ جتنی شدت سے اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا، اتنا ہی اس کی خاموشی اسے تنگ کر رہی تھی۔
"مجھے پتا ہے یہ بہت اچانک ہوا، کیسے ہوا؟ یہ میں خود نہیں جانتا، لیکن اب بس اتنا جانتا ہوں کہ میری زندگی کے جس سفر میں تم میری ہمسفر ہو گی وہ میرے لیے اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت سفر ہو گا" اس نے ایک بار پھر ماہم کے چہرے کے نقوش اپنے دل میں اتارتے ہوئے کہا۔
"اور اب میں اپنے ہر سفر کو سب سے خوبصورت بنانا چاہتا ہوں" کہتے ہوئے آخر میں نچلا لب دبایا تھا۔
"کیا میں تمہیں اپنی زندگی کا شریکِ حیات چن سکتا ہوں؟" دنیا جہان کے خواب آنکھوں میں سموئے اس نے وہ بات کہہ دی تھی۔
"ماہم؟"
جواب ندارت۔
"ماہم؟!" اس نے اس کے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ ہلایا تو وہ دوبارہ حقیقت میں لوٹی۔
"طلحہٰ میں-" اس نے کچھ کہنا چاہا۔
"نہیں! مجھے ابھی جواب نہیں چاہیے! آرام سے بیٹھو، غور کرو، سوچو، اور پھر مجھے جواب دینا۔ میں اس خوبصورت احساس کو کچھ دن اور جینا چاہتا ہوں" طلحہٰ اس کے جواب سے اس طرح خوف زدہ تھا جیسے بارھویں جماعت کے طلباء اپنے بورڈ کے رزلٹ سے ہوتے ہیں۔
"طلحہٰ لیکن-" اس نے ایک بار پھر کہا۔
"نہیں ماہم، میں اس وقت انکار سننے کی ہمت نہیں رکھتا، پلیز، میں چلتا ہوں" وہ کہہ کر، کھڑا ہوتے ہوئے آگے بڑھا تھا جب ماہم کی آواز پر اس کے پیر زنجیر ہوئے۔
"لیکن میں نے انکار کب کیا؟" وہ اس کی پشت کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔
"پھر؟" وہ جھٹ سے پلٹا۔
"آئی تھینک(I think)، میں بھی۔۔ آپ کو۔۔" اس کے گالوں پر سرخی چھائی تھی۔ طلحہٰ کو لگا جیسے اس نے ساری دنیا فتح کر لی ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنی دنیا تلاش رہے تھے۔ اب انہیں مزید کسی الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے اپنی جیب سے ایک مخملی ڈبیا نکال کر اس کے سامنے کی۔
"May I?"
(اجازت ہے؟)
ماہم نے اس کے ہاتھ میں پکڑی ڈبیا سے انگوٹھی نکالی اور مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔
"نہیں، ابھی نہیں" اس نے طلحہٰ کی معصومیت اور جلد بازی پر مسکراتے ہوئے سر ہلا کر انگوٹھی واپس رکھ دی۔
"کیوں؟" وہ الجھتے ہوئے بولا۔
"پہلے آپ انسانوں کی طرح میرے گھر آئیں، اور میرے بابا اور ممّا سے اجازت لیں" اس کو یوں، مما، بابا کی مرضی کے بغیر انگوٹھی پہننا بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ طلحہٰ کو احساس ہوا تو اس نے سر اثبات میں ہلایا۔
"چلیں، یہ بھی جلد ہی ہو جائے گا" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے ڈبیا دوبارہ اندر رکھی۔ ظاہر ہے، وہ مکمل طور پر رشتہ لے کر اس کے گھر آنے اور عزت سے اس کے والدین سے اس کا ہاتھ مانگنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ بس یہاں صرف اسے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ انگوٹھی (promise ring) پہنانا چاہتا تھا۔
"لیکن میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی" ماہم نے یاد آنے پر سر جھٹک کر اپنی ناراضگی ظاہر کی۔
"اب وہ کیوں؟" اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"اس دن وہ کیا طریقہ تھا بات کرنے کا؟ ایسے بات کرتے ہیں کسی سے؟ اور باتیں کر رہے ہیں محبت کی" اس نے سر جھٹکتے ہوئے اپنی شکایت سامنے رکھی۔ طلحہٰ کے نا سمجھی سے ابرو تنے تھے۔
"میں نے اتنے خیال سے آپ کو کال کی تھی کہ چلو حال احوال پوچھ لوں، کوئی مدد چاہیے ہو تو وہ بھی دے دوں، لیکن نہیں! صاحب کے تو نخرے ہی نہیں مل رہے تھے" وہ آج اس سے سارا حساب لینے کے موڈ میں ہی تھی۔ کال کا سن کر طلحہٰ کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے۔
"اوہ!! اس دن؟" اس نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
دو روز قبل
("مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے تیرے ساتھ۔ پہلے تو کام کا بہانا بنا دیتا تھا، لیکن اب کام ہو جانے پر بھی بار بار اس کے پاس پہنچ جاتا ہے، اس پر اتنا بھروسہ کر کے اسے ابو کے پاس بھی لے گیا اور پھر اپنی جاب کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اس کے لیے عدالت بھی پہنچ گیا! اس سب کا کیا مطلب ہے بیٹا؟" حمزہ اس کے حالات جاننے کے بعد مسکراتے ہوئے فون کے ذریعے اس سے گویا ہوا تھا۔
"اس ہی لیے تو میں پریشان ہوں! افف! حد ہے! آخر وہ کیا لگتی ہے میری؟" وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے، اپنا سر پکڑے بیٹھا تھا۔ دو دن سے تو ماہم سے بات بھی کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی، جب بھی اس کے سامنے جاتا، اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں، اس لیے اسے اگنور کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا تھا۔ آج اس نے تنگ آ کر حمزہ کو فون پر سب کچھ بتا دیا تھا۔
"ارے؟ اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟ اتنی چھوٹی سی تو بات ہے، پیار ہو گیا ہے مسٹر طلحہٰ خان کو" حمزہ اس کی باتوں کا مزہ لیتے ہوئے بے نیازی سے بولا۔
"تجھ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے" طلحہٰ نے منہ بناتے ہوئے فون بند کر کے بیڈ پر پٹخا۔ حمزہ کو تو چپ کروانا آسان تھا لیکن، اپنے دل کا کیا کرتا؟ ابھی وہ یہی سب سوچ رہا تھا کہ فون کی وائبریشن سے چونکا۔
"ڈاکٹر ماہم کالنگ۔۔"
"اوہ نو! اب کیا کروں؟ اگر حمزہ کی بات سچ ہوئی تو۔۔۔" اس نے اپنے خیالات جھٹکتے ہوئے فون ہاتھ میں لیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ماہم کو اس کی یوں بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں پتا چلے۔ جھٹ سے وہ کھڑا ہوا اور کال اٹھائی۔
"ہیلو، السلام و علیکم" اس کے فون اٹھاتے ہی دوسری طرف سے ماہم کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔ دل کو پھر کچھ ہوا تھا۔
"وعلیکم السلام، کون؟" ہڑبڑاتے ہوئے خود کو ظاہر کرنے کی کوشش میں بے اختیار اس کے منہ سے یہ نکلا تھا۔ اس نے اپنا سر پیٹا۔
"میں، ماہم بات کر رہی ہوں، ماہم راشد" ماہم کی متذبذب سی آواز آئی۔
"اوہ، اچھا، ڈاکٹر ماہم، بولیں؟ کیا بات کرنی ہے؟" اب اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا تھا۔
"نہیں، کچھ خاص نہیں۔ میں نے سوچا آپ کی خیریت معلوم کر لوں" ماہم کے کہنے پر وہ بے اختیار مسکرایا تھا لیکن اس نے فوراً خود کو ڈپٹا۔
"جی، میں ٹھیک ہوں" ایک اور مصروف سا جواب دیتے ہوئے اس نے لب بھینچے۔ پتا نہیں وہ کیا سوچ رہی ہو گی اس کے بارے میں۔
"اچھا۔۔ ٹھیک ہے پھر، خدا حافظ" اب کے اس کی ناراض سی آواز کانوں میں گونجی تھی۔ طلحہٰ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے روک لے۔ آج پھر سے اس کی آواز سننا اچھا لگ رہا تھا۔ لیکن پھر بہت مشکل سے ضبط کر کے سر جھٹکتے ہوئے سیدھا ہوا۔
"خدا حافظ" اس نے بات کے نہ بگڑنے کے خوف سے فوراً ہی فون بند بھی کر دیا۔ اب اس کا دل، ذہن پر قابو پانے لگا تھا۔ سوچ کر اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے نچلا لب دانتوں تلے دبایا تھا اور نا محسوس انداز میں اپنے بال سنوارتے ہوئے لیپ ٹاپ کھولا تھا۔)
"وہ۔۔ میں بیمار تھا!" اس سے نظریں ملائے بغیر، شرمندگی سے جو اس کو صحیح لگا، وہ بول دیا۔
"اچھا؟ یہ کون سی بیماری تھی جس سے آپ کی یاد داشت ہی خراب ہو گئی تھی؟" ماہم کو سب سے زیادہ یہی بات تو دل پر لگی تھی۔
"آ۔۔ بخار تھا نا، اس لیے دماغ کام نہیں کر رہا تھا" اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے، آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں" ماہم نے اس کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کندھے اچکا کر، کوئی بھی دلچسپی نہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ فی الحال ماہم کو بتا کر وہ اس کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔
"وہ اس دن۔۔ اس دن میری مدد کرنے کے لیے شکریہ" کچھ دیر خاموشی کے بعد طلحہٰ بولا تو ماہم نے نا سمجھی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جن کو تم نے ٹریٹ کیا تھا، وہ میرے ابو ہیں" اس نے بتانا ضروری سمجھا تھا۔ اب وہ ماہم کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا چاہتا تھا۔ آپ سے تم تک کا وہ سفر ایسے حالات میں ہوا کہ ماہم اسے ٹوک بھی نہ سکی۔
"اگر تم نہ ہوتیں تو پتا نہیں میں کیا کرتا" وہ اب تک اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکا تھا۔
"اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے طلحہٰ، میرا فرض تھا کہ میں آپ کی مدد کروں" اس نے طلحہٰ کے بازو کو ہلکا سا دباتے ہوئے اسے یقین دلانا چاہا۔
"میں پندرہ سال کا تھا جب میرے ابو اپنی دوسری بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہمارے گھر آئے تھے" اس نے بتانا شروع کیا۔
"میں اس وقت کافی چھوٹا تھا لیکن اپنے ابو کو کسی اور عورت کے ساتھ دیکھ کر تو کسی آٹھ سال کے بچے کو بھی صدمہ لگ جاتا ہے۔ میں ان کو دیکھ کر بہت ٹوٹ گیا تھا، اس سب سے میری ذہن پر بہت اثر پڑ گیا تھا ماہم، کہ مجھے خود کو دوبارہ سنبھالنے میں ایک سال لگا تھا۔ اور اس ایک سال میں، میں نے ایک فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب کبھی ابو کو معاف نہیں کروں گا اور نہ اب ان کا بیٹا بن کر رہوں گا، اس کے لیے ان کے پاس پہلے سے ایک بیٹا ہے۔ لیکن، یو نو واٹ ماہم؟ ہمیں اللّٰہ نے کوئی حق نہیں دیا کہ ہم کسی کو بھی جج کریں، اور یہاں تو پھر میرے ابو تھے۔ میری غلطی یہ تھی کہ میں نے کبھی اس معاملے میں ان کا پہلو جاننے کی کوشش نہیں کی، اور جب جب انہوں نے خود مجھے بتانا چاہا، میں نے ان کی بھی نہیں سنی، بلکہ الٹا ان سے سارا وقت شکواہ، شکایتیں ہی کیں۔ ان کی غلطی نہیں تھی ماہم"
"میں نے ابو کے ساتھ بہت غلط کیا۔ وہ۔۔۔" اس نے پوری بات بتاتے ہوئے آخر میں افسوس سے سر جھٹکا۔
"نہیں طلحہٰ، آپ کی غلطی نہیں تھی، بعض اوقات کسی سچویشن کو سمجھنے میں کچھ ٹائم لگتا ہے، چاہے وہ سات دن ہوں یا سات سال" ماہم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
"مجھے لگا تمہیں پتا ہونا چاہیے، اس دن بھی تم بغیر کوئی سوال کیے واپس چلی گئی تھیں" اس نے جیسے تصدیق کرنی چاہی تھی۔
"ہمم۔۔ میں نے سوچا آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور مجھے ایک ڈاکٹر کی طرح ہی صرف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے؟" وہ بولی تو طلحہٰ مسکرایا تھا۔ اس بات کا اندازہ تو اسے پہلے ہی ہو گیا تھا کہ وہ اس کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہوئے کسی بھی سوال سے گریز کر رہی تھی۔
"میں کل ہی ابو اور امی کو لے کر تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں" وہ جوش میں آتے ہوئے بولا۔ اس کی بات سن کر ماہم کے چہرے پر حیا کی لالی چھائی تھی۔
"طلحہٰ صاحب، اتنا جذباتی نہ ہوں، ابھی تو مہد اور زاویار، بھی آؤٹ آف سٹی ہیں، کل تو وہ آئیں گے، پھر رات میں پارٹی بھی ہے، اس کے بعد ہی سکون سے بات کریں گے نا" اس نے طلحہٰ کا پر عزم چہرہ دیکھتے ہوئے مسکراہٹ دبائی۔
"جذبات ہی تو مات دے گئے یہاں" اس نے شکست خور انداز میں کہا جب کہ شرارت کی لہر اس کی آنکھوں میں واضح تھی کہا۔ ماہم اس کی بات سن کر شرم سے سر جھکا گئی تھی۔ اس کا یہ روپ اس کے دل میں اتر رہا تھا۔
•••
اگلی صبح ایک نیا خوبصورت احساس لے کر اتری تھی۔ ہر طرف خاموشی تھی مگر پر سکون ماحول تھا۔ دور کہیں پرندوں کی خوبصورت چہچہاہٹ بھی سنائی دیتی تھی۔ بہت سکون تھا زندگی میں۔
جی ہاں، اتنی سکون والی زندگی کے تو ماہم بیچاری محض خواب ہی دیکھ سکتی ہے، کیوں کہ اصل میں تو اس وقت انوشہ، رمشا اور ضحیٰ اس کے سر پر کھڑی کسی میوزک شو میں پہلی پوزیشن لینے کے لیے تیار لگتی تھیں۔ تینوں اس کی سہانی نیند کو بے دردی سے شہید کرتے ہوئے، اس کے کمرے کا ٹی وی کھولے، تیز آواز میں گانے سن رہی تھیں، اور ساتھ میں اپنے سُر ملا کر گانے کی دھجیاں اڑانے میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن، ماہم پھر بھی پوری مد ہوشی میں سوئی پڑی تھی جب تک انوشہ کے ہاتھ میں پکڑا ریموٹ چھوٹ کر بیچاری کے سر پر لگا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ انوشہ نے فوراً اپنی آنکھیں میچی جب کہ اس کے دونوں طرف کھڑی ضحیٰ اور رمشا اپنے لب بھینچے بہت مشکل سے ہنسی ضبط کیے ہوئے تھیں۔
"گدھوں! بندروں! چڑیلوں! سکون سے سوتے نہیں دیکھ سکتیں ایک انسان کو۔ اتنی صبح صبح میرا سر کھانے آگئی ہو! اللّٰہ پوچھے گا تم لوگوں سے!" ماہم نے پہلے ایک، دو، تین اور ایک ایک کر کے بستر پر پڑے تمام تکیے ان کے اوپر اچھالنے شروع کیے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان کو خود جہنم میں چھوڑ کر آئے۔
"آپی، خدا کا خوف کرو، دوپہر کا ایک بج رہا ہے، کون سی؟ اور کہاں کی صبح؟" انوشہ نے اس کے سارے تکیے کیچ کرنے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس کو شرم دلانی چاہی، جیسے وہ خود تو بڑی عبادتیں کر رہی تھی وہاں کھڑے۔
ماہم نے کھڑکی کے باہر ایک نظر ڈالی جہاں سورج سوا نیزے پر تھا۔ اس نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے مگر پھر دانت پیستے ہوئے ان سب کو بھاڑ میں بھیجتی باتھروم کی طرف بڑھی۔ آج مہد اور زاویار واپس آنے والے تھے اور رات میں ان کے گھر پارٹی بھی تھی۔ وہ تینوں اپنے کندھے اچکاتی دوبارہ اپنا شو شروع کر چکی تھیں۔ ماہم بھی منہ، ہاتھ دھو کر باہر آئی تو ان ہی کے ساتھ مل گئی تھی۔ کچھ دیر بعد عاصمہ بیگم کی آواز پر چاروں دوڑتے ہوئے نیچے آئی تھیں۔ ماہ نور ان کے ساتھ کچن میں تھی۔ ان تین لکیر کے فقیروں کے ہوتے ہوئے وہ ماہم سے کل رات کی تفصیلات پوچھ کر اپنی اور اس کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اس لیے وہ عاصمہ بیگم اور غزالہ بیگم کے پاس نیچے ہی رک گئی تھی۔ اس کا ذرا فرصت سے ایک ایک ڈیٹیل پوچھنے کا ارادہ تھا۔ مہد اور زاویار آ چکے تھے۔ اور دونوں لاؤنج میں بیٹھے ابھی بھی کوئی میٹنگ ڈسکس کر رہے تھے۔ جب کہ معیز برابر میں ٹی وی کھولے بیٹھا تھا۔
"خدا کا شکر ہے یہ سست اولاد بھی اٹھی ہے میری!" عاصمہ نے ماہم کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے منہ بسورا۔
"رہنے دیں خالہ جان، کافی دیر سے سوئی ہو گی بے چاری، اچھا ہے نیند پوری ہو گئی" ماہ نور نے بظاہر ان کو جواب دیتے ہوئے گہری مسکراہٹ کے ساتھ ماہم کو دیکھا تھا۔ جس پر وہ صرف اس کو گھور کر ہی رہ گئی تھی۔ عاصمہ بیگم نے تو نہیں دیکھا تھا، البتہ وہ تین چڑیلیں ضرور دیکھ چکی تھیں، اور معنیٰ خیز نظریں ایک دوسرے کی طرف اچھالی تھیں۔
"ہاں تو کس نے کہا ہے کہ رات رات بھر ان کوریئن لڑکوں کو دیکھتی رہے بیٹھ کر؟ اس کے تو لیپ ٹاپ کو آگ لگاؤں گی میں!" وہ جوش میں آتے ہوئے بولیں تو ماہم کی جان حلق میں آگئی، ویسے ہی اس کی ہاؤس جاب کم ہے جو وہ بھی اب اس کو اس کے کوریئن ڈراموں اور "BTS" سے جدا کرنے پر تل گئی تھیں؟
"اچھا نا، ممّا! ناشتہ دے دیں پلیز؟ اتنی بھوک لگی ہے اور آپ کو مجھے ڈانٹنے سے ہی فرصت نہیں ہے" اس نے بے چارگی سے ان کی طرف دیکھا تو وہ اسے گھورتے ہوئے اس کا ناشتہ بنانے کے لیے بڑھیں جب کہ غزالہ بیگم نے ہنستے ہوئے سالن سنبھالا۔ اور ماہ نور، ماہم کو کندھے سے پکڑتے ہوئے باہر لاؤنج میں لائی۔ سب وہاں بیٹھ کر رات کی پارٹی کے بارے میں ڈسکس کرنے لگے۔ کافی عرصے بعد ان کے گھر میں کوئی اتنی بڑی دعوت ہونے لگی تھی اس لیے وہ سارے ہی پر جوش تھے۔
•••
ساڑھے چھ بجے تھے اور وہ دونوں لان میں کھڑی، ڈیکوریشن دیکھنے میں مصروف تھیں۔ زیادہ خاص سجاوٹ نہیں کی گئی تھی۔ دونوں طرف دیواروں پر سفید پھول کی لڑیاں لٹکائی گئی تھیں۔ بلب کی جگہ، چھوٹی چھوٹی فیری لائٹس کو لان میں سجایا گیا تھا۔ شروع سے لے کر آخر تک میز اور کرسیاں لگا دی گئی تھیں، اور ایک طرف بڑی سی ٹیبل پر کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ سب کچھ سادہ مگر خوبصورت لگ رہا تھا۔ رمشا اور انوشہ بس آخر کے ہلکے پھلکے انتظام دیکھ کر فارغ ہونے والی تھیں۔ اندر ماہم اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑی پریشان لگ رہی تھی۔ تین دفعہ وہ کپڑے بدل بدل کر دیکھ چکی تھی مگر اس کے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ آخر کار سب کچھ پرے ڈالتے ہوئے وہ سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھی۔ دروازہ دھاڑ سے کھول کر نکھ سکھ سی تیار ماہ نور جوشیلے انداز میں اندر آئی۔
"ہیں؟ تمہیں کیا ہوا ہے اب؟" اس نے اچھنبے سے ماہم کو دیکھا۔
"میرے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، کوئی بھی کپڑے اچھے نہیں لگ رہے، میں نہیں آ رہی نیچے" اس نے اپنا فیصلہ سنایا تو ماہ نور نے اسے بازو پر ایک رسید کرتے ہوئے سیدھا کیا۔
"زیادہ اوور نہیں ہو، پارٹی تمہارے لیے رکھی ہے، اور تم ہی اندر بیٹھ کر مکھیاں مارو گی؟" وہ غصے میں آتے ہوئے بولی تھی۔
"تو تو چپ کر! ویسے ہی ممّا کم ہیں جو تم چاروں بھی شروع ہو جاتی ہو مجھ پر؟" وہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے بولی۔
"اچھا یہ والا دیکھو، یہ اچھا لگ رہا ہے" ماہ نور نے اس کی شکایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ایک ہلکے نیلے کلر کی لمبی فراک دکھائی جس کے ساتھ سنہری دوپٹہ تھا۔
"یہ اچھی لگے گی؟" اس نے معصومیت سے اس کی طرف دیکھا۔
"ہاں نا، تمہیں کونسا تمہارے رشتے والے دیکھنے آ رہے ہیں جو اتنا سوچ رہی ہو؟" ماہ نور نے بے نیازی سے کہا۔ ماہم کو کبھی تیاری میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔
"آ رہے ہیں نا! تبھی تو!" ماہم اب تو بس رونے کو تھی، جب کہ ماہ نور کے ہاتھ میں پکڑی فراک زمین بوس ہوئی اور اس کا منہ کھلا۔
"منہ تو بند کرو، مکھی چلی جائے گی" ماہم نے اسے کہتے ہوئے اپنے کپڑے اٹھائے۔
"یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ وہ سب آ رہے ہیں؟" ماہ نور کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
"ہاں، بابا نے مہد سے کہہ کر بلوا لیا سب کو، اس دن طلحہٰ سے مل کر بہت ہی امپریس ہو گئے ہیں وہ" وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔
"یہ مہد کو بولو خود منہ دکھا دے اپنا! وہ سب ایسے تمہیں دیکھیں گے تو نیندے اڑ جائیں گی بے چاروں کی"
ماہ نور مکمل سنجیدگی سے بولی تھی۔ "منہ کا رنگ اڑا ہوا ہے، آنکھوں کے نیچے ہلکے ہیں، بالوں کا حشر ہوا ہے، آخری دفعہ کب نہائی تھی تو؟" اب کے اس کے انداز میں شرارت تھی، لیکن ماہم اسے جانچ نہ سکی تھی، سو شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا چہرہ غور سے دیکھا۔
"دو گھنٹے پہلے ہی نہائی تھی، کیا اتنی بری لگ رہی ہوں؟" اس کے گلے میں گلٹی سے ابھر کر معدوم ہوئی۔
"نہیں، چلو گزارا ہو جائے گا، ویسے بھی پیار اندھا ہوتا ہے" ماہم اس کو پہلے ہی کل والی ساری باتیں بتا چکی تھی، اور اب وہ اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی تھی۔
"زیادہ فری نہ ہو اب۔۔ حمزہ بھی آ رہا ہے ویسے اس کے ساتھ۔۔" ماہم نے اس کو گھرکتے ہوئے کہا پھر کچھ سوچ کر، معنی خیز انداز میں بولی۔
"اچھا؟ تو آ جائے؟" اس نے عام سا رد عمل دیا تھا، جب کہ اندر ہی اندر پچھلی دفعہ ملنے والا سارا واقعہ یاد آنے پر حلق تک کڑوا ہو چکا تھا۔
•••
"السلام و علیکم طلحہٰ بھائی! کتنی دیر لگا دی آپ نے آنے میں! کچھ لوگ کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔۔" اس بے چارے کے اندر داخل ہوتے ہی وہ تینوں اسے گھیر چکی تھیں۔ انوشہ پہل کرتے ہوئے آخر میں تھوڑے فاصلے پر کھڑی ماہم کو دیکھ کر بولی۔ مجال ہے جو کوئی بات ان فسادیوں سے چھپی رہ جائے!
"مہد بھائی! آف کورس، کب سے بے چارے آپ کا ویٹ کر رہے ہیں" اور ضحیٰ نے بھی طلحہٰ کے جگمگاتے تاثرات دیکھ کر اس کے جذبات کو بے دردی سے قتل کرنے میں بھی ذرا دیر نہیں لگائی تھی۔
"طلحہٰ بھائی، آپ ان دونوں چڑیلوں کو چھوڑیں، یہ بتائیں آپ کی فیملی کہاں ہے؟" رمشا، ان کو گھوری سے نوازتے ہوئے مسکراتے ہوئے طلحہٰ کو مخاطب کیا، جو بے چارہ ان تین شیطانوں کو ایک ساتھ دیکھ کر گڑبڑا گیا تھا۔
"ابو تو راشد انکل اور باقی سب کے ساتھ ہیں، اور امی اور ربیعہ آپی آپ کی امی کے ساتھ ہیں" اس نے ایک کونے میں کھڑے ارشد صاحب اور دوسری طرف شائستہ بیگم اور ربیعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تفصیلی جواب دیا تھا۔
"چلیں، پھر ہم ان سے بھی مل کر آتے ہیں" اس نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے انوشہ کو گھسیٹا۔ جب کہ پیچھے کھڑی ضحیٰ نے جھک کر ذرا سرگوشی کی تھی۔
"ماہا آپی وہاں کھڑی ہیں، اپنی حفاظت کے لیے آیت الکرسی پڑھ لیے گا، یو نو؟ جسٹ اِن کیس؟" ماہم کا نظارہ کرواتے ہوئے اس نے عام سے انداز میں کندھے اچکائے تھے جیسے ماہم کے لیے لوگوں کی کُٹائی کرنا بہت عام سی بات ہو۔ رمشا نے انوشہ کو تو سنبھال لیا تھا مگر بد قسمتی سے اس بندریا کے خطرناک ارادے نہ دیکھ سکی تھی۔

یا قمر/Ya AmarDonde viven las historias. Descúbrelo ahora