Ep 9

650 36 28
                                    


قسط ۹

نئے موڑ


"جی؟" اس نے حیرت سے انھیں دیکھا جیسے بات نہ سمجھے آئ ہو پھر یکایک چہرے پہ بے یقینی کے آثار نمایاں ہوئے "آپ ہوش میں تو ہیں؟" بے یقینی کی جگہ فورا ناگواری نے لی تھی

"دیکھو حنان ہماری مجبوری ہے تیمور ہمیں تباہ کر دے گا اور اس تباہی سے بچنے کا واحد رستہ تم ہو صرف تم ہی ہمیں۔۔۔۔" حنان ان کی بات کے بیچ میں بول اٹھی

"ہمیں آہ کٹ دا کریپ یہ سب صرف آپ کے لیے ہے صرف آپ کی حفاظت کے لیے صرف آپ کی زندگی کے لیے آپ کی بلیک منی بچانے کے لیے؟" وہ پھٹ پڑی تھی

"حنان تمہیں میں نے ہی پالا ہے تم آج جس عیش و آرام میں پل رہی ہو یہیں بلیک منی ہے تو اس کو ادھار سمجھ لو جو تم پہ میں نے خرچ کیا وہ لوٹا دو۔۔۔ دیکھو حنان میری زندگی میں صرف تم ہو اور اب مجھے تمہاری ضرورت ہے ،سنگ دل مت بنو" وہ ناگواریت و بےبسی کی ملی جلی کیفیت میں بولے تھے "اور بات محض شادی کی ہے وہ بھی تم پیپر کنٹریکٹ سمجھ لینا جیسے ثبوت ہمارے ہاتھ لگ جائیں گیں تو تم آزاد"

"پیپر میرج، چلیں ایک پل کے لیے میں مان بھی جاتی ہوں تو کیا تیمور مانے گا وہ بھی اس سو کوڑ 'پیپر میرج' کے لیے" اس نے فورا سے بیشتر پینترا بدلہ، وہ محض ان کا یقین اس لمحے نہیں کھو سکتی تھی جبکہ اس کا مقصد اپنے اختتام کے بہت قریب تھا۔ (یا اللہ مجھے ہمت دینا کہ میں اپنا ٹیمپر لوس نہ کردوں) اس نے ایک ہاتھ کے ناخن دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی میں بری طرح کھبوئے ہوئے تھے (حنان بی بی کی غصہ ضبط کرنے کی کوشش)

"اس (گالی) کی فکر مت کرو انور کی پارٹی میں ہی اسکی آنکھوں میں پسندیدگی کے رنگ دیکھ لیے تھے میں نے ، وہ پولیس والا ہے حسن پہ یا پیسے پہ مرتا ہے (گالی) اور یہاں تو اسے دونوں ہی ملیں گیں" لہجے میں نفرت و حقارت لیے انھوں نے جیسے اس کی اوقات باور کروائ ہو ، اور حنان نے محض تاسف سے انھیں دیکھا ایک شخص جس کو قریبا مفلوج کیا جا چکا ہو اس کے گرد کا دائرہ تنگ کردیا گیا ہو وفادار ملازم ختم ہو رہے ہوں دوستوں میں کوئ نہ بچا ہو ، ہسپتال کے بستر پہ ابھی زندگی موت سے لڑ کے آیا ہو وہ اٹھتے ہی کس قدر دماغ اور کس انداز میں چلا رہا تھا

"دیکھو حنان بات سمجھو میں مجبور ہوں میں تمہارا باپ ہوں اور وہ مجھے مار دے گا جیسے وہ سب کو مار رہا ہے یہ پولیس قانون کی ہے میں اسے مروا دیتا مگر اس طرف سے بھی میں مجبور ہوں ناجانے کتنوں کو میرے خلاف ثبوت دیے ہوں گے اس نے ، تم سمجھ سکتی ہونا" انھوں نے لہجے کو بہت حد تک مجبور و لاچار کرلیا تھا ، حنان نے ان کے تاثرات کو بغور دیکھا اور نفرت سے سر جھٹکتے خاموش ہو گئ گویا رضامندی دے دی ہو، غضنفر صاحب نے آرام دہ ہو کے آنکھیں موند کے تکیے پہ سر رکھ لیا۔اب انھیں آگے کی پلیننگ کرنی تھی

۔۔۔۔۔۔۔

رافعہ صبح اٹھی تو برآمدے سے بہت سی آوازیں آر ہیں تھیں، پیروں میں چپل اڑستے اس نے اپنے گھونسلہ بنے بالوں کو جوڑے میں باندھا اور باہر نکل کے برآمدے میں موجود "شخصیات" کا ملاحظہ فرمانے لگی۔ باہر صوفے میں میڈم اقصی کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھیں تھیں جن میں دو پروقار بڑی عمر کی عورتیں اور ساتھ چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ لیے ستائیس سے اٹھائیس سالہ لڑکا۔ رافعہ نے میڈم اقصی کے اشارے پہ سب کو سلام کیا

بس ایک پل زندگی ....《completed》Donde viven las historias. Descúbrelo ahora