ہاہاہا! اسنے قہقہہ لگایا تو اس کے گال کا ڈمپل اور واضح ہوا جو اس کے چہرے کو اور حسین بنارہا تھا احد اسے دیکھتا رہا۔ پھر بولا
"اب مجھے سمجھ آئی تو اتنا کم کیوں ہنستا ہے"
"یار میں لڑکا ہوکر تیرے ہنسنے پر فدا ہوگیا ہوں تو لڑکیوں کا کیا حال ہوتا ہوگا" احد نے شرارتی لہجے میں کہا_
اور زوریز مسکرا دیا___
اسی دن انابیہ نے یونیورسٹی سے جاتے ہی شاپنگ کی اور بہت سے شلوار سوٹ لیے۔ جب آپ محبت میں ہوتو آپ ویسا دکھنا چاہتے ہیں جیسا وہ شخص چاہتا ہو جس سے آپ کو محبت ہوتی ہے۔
"محبت بھی عجیب ہے نہ جس میں آپ خود کو کسی کی خاطر تبدیل کر دیتے ہیں تاکہ اسے اچھا لگے۔ آپ میں'میں' ختم ہوجاتی ہے بس 'وہی' ہوتا ہے"
اگلے دن اسنے پستہ رنگ کی گھیردار فراک کے ساتھ وائٹ پاجامہ زیب تن کیا بالوں کی فرنچ ٹیل بنائ اور کچھ لٹیں کھلی چھوڑ دیں پاؤں میں اسنے کولہا پوری چپل پہنی اور فراک کے ہم رنگ دوپٹے کو شانوں پر فرنٹ پر پھیلایا پھر آءینے میں خود کو دیکھا اپنا جائزہ لینے کے بعد وہ یونیورسٹی روانہ ہوئ_
جب وہ یونیورسٹی میں اپنی گاڑی سے باہر نکلی تو کچھ لوگوں نے اسے ستائشی نظروں سے دیکھا اور جو اسے جانتے تھے وہ اسے حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔
جیسے ہی وہ کینٹن میں ان کی ٹیبل کے نزدیک آئی۔
پہلے تو حنا اور ایان نے اسے حیرانی سے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کوکو دیکھا۔
"اسلام و علیکم! انابیہ نے دھیمے لہجے میں سلام کیا۔
"پھرررر" ایان جو بوتل سے پانی پی رہا تھا اس کے منہ سے پانی نکلا۔ اور حنا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی___
"وعلیکم اسلام" احد اور زوریز نے ایک ساتھ جواب دیا۔ زوریز کی آنکھوں میں حیرانی تھی
"جی آپ کون محترمہ؟ احد نے شرارت سے لہجے میں پوچھا
تو انابیہ مسکرادی اور زوریز بھی مسکرا اٹھا
انابیہ نے زوریز کو دیکھا جو اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنے کام میں مصروف ہوگیا انابیہ کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔ جس کے خاطر اس نے یہ سب کیا اسنے نظر بھر کر بھی اسے نہیں دیکھا
"مجھے کچھ ہورہا ہے" حنا نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"ہسپتال چلے؟ احد نے پریشانی سے کہا اور انجانے میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا
حنا نے غصے سے اسے گھورا اور اپنا ہاتھ چھڑایا اور وہ خجالت کے مارے اپنا سر کھجانے لگا_
"نہیں میں ٹھیک ہوں" اسنے خفگی سے کہا
"آپ اپنا خیال رکھا کریں میرے خاطر" اس کے منہ سے پھسلا
سب نے حیرانی سے اسے دیکھا انابیہ مسکرا رہی تھی
"واٹ ڈو یو مین باۓ میری خاطر؟ حنا نے دانت پیستے ہوئے کہا
" آئ مین اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو میں کسے تنگ کروں گا؟ اسنے معصومیت سے کہتے ہوئے بات سنبھالی۔
انابیہ کھلکھلا کر ہنس دی زوریز نے ایک نظر اسے دیکھا جو اپنے چہرے پر آئ آوارہ لٹوں کو ہٹا رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے چاند سے کالے بادلوں کی آنکھ مچولی چل رہی ہو زوریز نے سر جھٹکا اور ان کی باتیں سننے لگا_
"آپ کسی دن پٹیں گے میرے ہاتھوں" حنا نے اسے دھمکا یا۔
ہاۓ آپ کے ہاتھوں ہم مار بھی انعام سمجھ کر کھالیں گے" احد نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہ بھری۔
"آپ پیدائشی چھچھورے تھے یا اب جاکر کوئی کورس کیا ہے" حنا نے طنز کیا
" جی بس اپنے ٹیلنٹ پر کبھی غرور نہیں کیا" احد نے سر کو خم کرتے ہوئے فخر سے کہا_
"ہنہ" حنا نے منہ موڑا اس سے بحث کرنا ہی فضول ہے حنا نے سوچا___
یونیورسٹی کے بعد حنا انابیہ کے ساتھ اس کے گھر گئی جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے سامنے ہی رابیل رضا نک سک سے تیار سن گلاسز لگاۓ کہیں جانے کے لیے کھڑی تھی۔
ھیلو آنٹی! حنا نے انہیں گریٹ کیا۔
"ھیلو بیٹا کیسی ہو آپ " انہوں نے پوچھا۔
"ایم ویل ہاؤ اباؤٹ یو" حنا نے کہا
"As usual busy"
انہوں نے کہا۔ وہ ایک سوشل ورکر تھیں۔
"اوکے بیٹا آئ ھیو ٹو لیو انابیہ حنا کی اچھی خاطر مدارات کرنا
ٹیک کئر " انہوں نے جاتے ہوئے انابیہ کے گال پر تھپکی دی
"جی ماما! انابیہ نے مسکرا کر کہا
وہ روم میں بیٹھی تھی جب حنا نے پوچھا
یہ اتنا چینج تم میں کیسے آیا؟
" محبت " انابیہ نے مسکرا کر کہا_
واٹ؟ واٹ ڈِڈ یو سے؟ حنا نے حیرانگی سے پوچھا
"آئ سیڈ محبت کی وجہ سے" انابیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"اچھا اور کون ہے وہ؟ اسنے ابرو اچکا کر پوچھا
زوریز! انابیہ نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا
"اپنا زوریز آئ مین زوریز آفندی؟ اسنے حیرانگی سے پوچھا
آر یو شیور انابیہ اٹس لو؟ اسنے تجسس سے پوچھا
محبت میں بھی شیورٹی چاہیے ہوتی ہے؟ محبت بھی شیورٹی مانگتی ہے؟ اسنے پوچھا
" آئ مین مے بی اٹِس جسٹ اٹریکشن" اسنے وضاحت دی_
یو نو واٹ حنا! وہ جب میرے سامنے ہوتا ہے مجھے اس کے علاوہ کچھ اور دیکھائ نہیں دیتا' جب وہ بولتا ہے تو مجھے اس کے علاوہ کچھ اور سنائی نہیں دیتا' میں اس سے نظریں ملا کر بات نہیں کرتی کہیں اسے میری آنکھوں میں اپنا عکس نہ نظر آجاۓ' جب وہ میری طرف دیکھتا ہے تو مجھے اپنا آپ معتبر لگنے لگتا ہے' جب وہ میرا نام پکارتا ہے تو مجھے اپنا نام اچھا لگنے لگتا ہے' وہ زوریز کے خیالوں کھوٸ ھوٸ تھی ۔
"بٹ ناؤ دا کوءسچن از کہ زوریز کیا سوچتا ہے تمہارے بارے میں؟ اسنے پر سوچ انداز میں کہا
" آئ ڈونٹ نو پر اتنا جانتی ہوں جیسی میں ہوں ایسی لڑکی اس کی آءئڈیل نہیں ہے " اسنے افسوس سے کہا
"ہمم چلو پتا لگا لیں گے اچھا کچھ دن میں انیول فنکشن ہے اس کی تیاری کی تم نے" حنا نے پوچھا
"تیاری کیا کرنی ہے میں کونسا پارٹیسپیٹ کررہی ہوں" انابیہ نے اکتاۓ ہوئے کہا
"ہاہا! ھاں یہ بھی ہے چلو شاپنگ پر اکھٹے چلیں گے" حنا نے انابیہ سے کہا۔
اوکے! وہ بولی___
اینول فنکشن والے دن سفید کلیوں اور چوڑی دار سلیوز والی فراک زیب تن کیے جس کی لمبائی اس کے پاؤں سے زرا اونچی تھی اس کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ تھا اور سفید رنگ کا ڈوپٹہ شانوں، پر سلیقے سے سیٹ کیا ہوا تھا پاؤں میں کھسہ پہنا تھا کانوں میں سلور کلر کی چاند بالیاں بال کھولے لائٹ میک اپ کے ساتھ وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ کوریڈور میں آئ اسے احد اور زوریز کھڑے دکھے وہ ڈوپٹہ سنبھالتی ان کے پاس آرہی تھی جب زوریز کی نظر اس پر پڑی ایک پل کے لیے زوریز کی نظریں انابیہ کے حسن سراپے پر ٹھری گئیں_
ایک لمحے کی دیر تھی زوریز نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔
اسلام علیکم! انابیہ نے ان کے نزدیک آکر سلام کیا
وعلیکم اسلام! احد اور زوریز نے جواب دیا
انابیہ نے زوریز کو دیکھا جو آج بلیک تھری پیس میں پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔
وہ بار بار اپنا ڈوپٹہ سنبھال رہی تھی زوریز نے دیکھا تو مسکرا دیا
"جب تمہیں ایسی ڈریسینگ کی عادت نہیں ہے تو کیوں خود کو ہلکا کررہی ہو" زوریز نے اسے شرارتی لہجے میں کہا
احد کو ایان نے بلایا تو وہ چلا گیا حنا ابھی تک نہیں آئ تھی وہ دونوں اکیلے کھڑے تھے زوریز کے پوچھنے پر وہ چونکی۔
آپ کے لیے زوریز! اسنے دل میں کہا۔
"وہ یہ ڈریس ماما لے آئیں تھیں اور انہوں نے کہا کہ آج یہی پہنوں" اسنے نظریں چراتے ہوۓ جھوٹ بولا
ہمم گڈ! زوریز نے کہا
جبکہ دور کھڑی عنایہ ان دونوں کو حسد بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اس کے زہن میں ایک شاطرانہ چال آئ اور وہ مسکرادی۔
"زوریز انابیہ آپ دونوں کو احد اور حنا لیبارٹری میں بلا رہے ہیں" ماریہ جو ان کی جونیئر تھی اس نے آکر انہیں بتایا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور لیبارٹری کی طرف چل دئیے
لیبارٹری science ڈیپارٹمنٹ کی طرف تھی جو یونیورسٹی کا پچھلا حصہ تھا اور آج کل وہاں کے سٹوڈنٹ کو فری کردیا گیا تھا وہاں سٹوڈنٹ نہ ہونے کے برابر تھے۔ جب وہ دونوں لیبارٹری میں داخل ہوۓ اندر کوئی نہیں تھا اور اچانک سے دروازہ باہر سے کسی نے لاک کردیا دونوں نے کھٹکے پر مڑ کر دیکھا۔
زوریز دروازے کے نزدیک گیا اور کھولا پر نہیں کھلا پھر اسنے زور سے دروازہ بجایا۔
"کوئی ہے؟ اوپن دا ڈور! وہ چلایا پر سب بے سود اسنے مڑ کر کر انابیہ کو دیکھا جس کے چہرے پر واضح گھبراہٹ تھی۔
" اٹس اوکے انابیہ میں ابھی احد کو کال کرتا ہوں " اسنے اسے تسلی دیتے ہوئے کال ملائ پر وہ کال پک نہیں کر رہا تھا اور اچانک اس کے سیل کی بیٹری ختم ہوگئی
"او نو! اسنے افسوس سے کہا۔
"انابیہ اپنا سیل دینا میرے سیل کی بیٹری ختم ہوگئی ہے" اسنے کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا
"میں اپنا سیل گھر بھول آئ ہوں " اسنے ڈرتے ہوئے بتایا
اب کیا ہوگا؟ انابیہ کی آنکھوں میں ڈر تھا ۔۔۔۔۔۔
جاری ھے