اب کیا ہوگا؟ انابیہ کی آنکھوں میں ڈر تھا
کچھ نہیں اب کل صبح تک ویٹ کرنا پڑے گا" زوریز نے کہا
پر گھر والے ان کا کیا؟ وہ جو پریشان ہوںگے۔ انابیہ کو پریشانی ہونے لگی
کیا کرسکتے ہیں؟ زوریز نے ہارتے ہوئے کہا
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا انابیہ کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ پھر مکمل اندھیرا
ہوگیا زوریز کو اچانک سسکیوں کی آواز سنائی دی۔
انابیہ تم رو رہی؟ ہو اسنے پوچھا
اسنے پاکٹ کو ٹٹولا اور اس میں سے لائٹر نکالا وہ اسموکنگ نہیں کرتا تھا احد کا لائٹر اس کے پاس رہ گیا تھا۔
اسنے لائٹر جلایا اور چاروں طرف دیکھا انابیہ کمرے کے ایک کونے میں گھٹنوں میں چہرہ چھپاۓ رو رہی تھی_
انابیہ! وہ اسکے قریب گھٹنے کے بل بیٹھا اسے پکارا انابیہ نے اپنا چہرہ اوپر کیا
زوریز نے لائٹر اس کے چہرے کے قریب کیا اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ایسا لگ رہا تھا جیسا چاند پر بارش ہورہی ہو اس کی آنکھوں میں آنسو ایسے لگ رہے تھے جیسے جھیل میں موتی ہوں زوریز کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ وہ دونوں کچھ دیر یونہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر زوریز سنبھلا اسنے اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹائیں
کتنے ہی لمحے زوریز کو سنبھلنے میں لگے۔ "کیا ہوا؟ اسنے سنبھلتے ہوۓ انابیہ سے پوچھا
" مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے " اسنے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا۔
"اس کا مطلب انابیہ رضا بھی کسی چیز سے ڈرتی ہے" زوریز نے اس کا ڈر کا ختم کرنے کےلیے شرارتی لہجے میں کہا
"میں بھی تو انسان ہو مجھے بھی تو کسی چیز سے ڈر لگ سکتا ہے کیا آپ کسی چیز سے نہیں ڈرتے؟ اسنے خفگی سے پوچھا
"ڈرتا ہونا جنگلی بلیوں سے" اسنے انابیہ کو چھیڑا
انابیہ نے اسے دیکھا اور مسکرادی زوریز لائٹر جلاتے ہوئے تھک گیا تو اسنے بند کرنے کے بعد اپنی پاکٹ میں واپس رکھا۔ اور اس سے زرا فاصلے پر زمین پر ٹک کر بیٹھ گیا
زوریز! انابیہ نے پکارا
ہمم! وہ بولا
" آپ نے روشنی کیوں ختم کردی؟ انابیہ نے پوچھا
"وہ اس لیے کہ اگر میں تھوڑی دیر اور جلاۓ رکھتا تو میرے ہاتھ نے مجھ سے معافی مانگ لینی تھی کہ مجھے بخش دو" زوریز نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا
اور ساری رات تو میں جلاۓ نہیں رکھ سکتا تھا تم فکر نہیں کرو میں تمہارے پاس بیٹھا ہوں " اسنے اسے تسلی دی__
اچانک سے بلی کی آواز آئی تو انابیہ نے پاس زوریز کا بازو زور سے پکڑ لیا
" اب کیا ہوا؟ زوریز نے پوچھا
و... وہ مجھے ڈر لگ رہا ہے " اسنے جھجکتے ہوۓ کہا
ریلیکس انابیہ! اسنے اپنے بازو پر رکھے انابیہ کے ہاتھ کو تھپکتے ہوۓ تسلی دی_
ہمم! وہ اس کا بازو پکڑے ہوۓ تھی اچانک اسنے اپنا سر زوریز کے کندھے پر رکھا اور نیند کی وادی میں کھو گئی__
انابیہ! زوریز نے اسے پکارا
کوئی جواب نہ پاکر اپنے پاکٹ سے لائٹر نکال کر جلایا اور اس کے چہرے کے قریب
کر کے اسے دیکھا وہ آنکھیں موندے سو رہی تھی سوتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک معصومیت تھی اس کے چہرے پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے زوریز کی نظریں اس کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری ہوگئں۔ کتنے لمحے اسے دیکھتے ہوئے گزرے کب صبح ہوئ اسے پتا بھی نہ چلا
باہر سے سوءیپر کی آواز آئی کھٹکے پر وہ کسمسائ اور اس کے کندھے سے سر اٹھا کر زوریز کو دیکھا وہ بھی اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا
انابیہ کو سیچوءیشن کا احساس ہوا وہ اس کے بہت قریب تھی اور اس کا بازو پکڑا ہوا تھا اس نے ہڑبڑا کر اس کا بازو چھوڑا اور اس سے تھوڑے فاصلے پر ہوئ خفت کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا
ایم سوری! مجھے پتہ نہیں چلا کب نیند آگئ اس نے اپنا چہرہ جھکاۓ ہوئے شرمندگی سے کہا
"اٹس اوکے" وہ بولا۔ وہ اس کے خفت بھرے سرخ چہرے کو دیکھ کر مسکرادیا۔
ساری رات وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا رہا کہیں اس کی نیند نہ خراب ہو جائے جس کی وجہ سے اس کے پاؤں سن ہوگئے اسے اٹھنے میں تھوڑی تکلیف ہورہی تھی۔ وہ کوشش کرکے اٹھا اور دروازہ بجایا
کوئی ہے؟ وہ چلایا
سوءیپر مین کو اس کی آواز سنائی دی اور اسنے آکر دروازہ کھولا انابیہ بھی اٹھ کر آگئی سوءیپر نے دونوں کو مشکوک نظر سے دیکھا تو انابیہ گھبرا گئ۔
"کل ہمیں یہاں کسی نے بلایا اور دروازہ بند کر دیا" وہ مطمئن ہوا کہ نہیں زوریز کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ زوریز نے وضاحت دی اور آگے بڑھ گیا۔ انابیہ بھی اس کے پیچھے چل دی
"افف زوریز کیا سوچ رہے ہوگے میرے بارے میں" وہ اس کے اتنے قریب تھی یہ سوچ کر اسے شرمندگی ہو رہی تھی۔ زوریز نے چلتے چلتے مڑ کر اسے دیکھا جو سر جھکاۓ اس کے پیچھے چل رہی تھی پھر وہ بھی آگے چلنے لگا_____
وہ جیسے ہی اسے ڈراپ کرنے اس کے گھر کے قریب پہنچا تو باہر ساری میڈیا کھڑی تھی
"پاپا نے پولیس کو خبر کردی ہوگی" وہ پریشان ہوگئ۔ جب گاڑی انابیہ کے گھر کے سامنے رکی تو کیمراہ مین نے ان کے کہیں فوٹو لے لیں زوریز اسے ڈراپ کرتا آگے بڑھ گیا۔ نیوز رپوٹر نے اسے گھیر لیا
"مس انابیہ کیا آپ بتائیں گی کہ کل صبح سے رات بھر آپ کا تھی؟ کیا آپ کا کڈنیپ ہوا تھا؟ جس نے آپ کو ڈراپ کیا' کیا یہی کڈنیپر ہے؟ وہ ان کے سوالوں پر حیران تھی۔
" کیا آپ اپنی مرضی سے اس شخص کے ساتھ تھیں؟ ایک اور رپورٹر نے پوچھا۔ وہ ان کو سائڈ پر کرتی گھر کے اندر داخل ہوئ_
سامنے رابیل رضا' رضا حیات اور کچھ پولیس کے لوگ وہاں موجود تھے سب سے پہلے رابیل رضا کی نظر اس پر پڑی۔
انابیہ! وہ دوڑتی ہوئ اس کے پاس آئیں
تم ٹھیک ہو کیا ہوا تھا؟ انہوں نے اس کے چہرے کو ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا
"جی ماما ایم ایبسو لیو ٹیلی فاءئن" اسنے ماں کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا
"بیٹا گھبرانے کی بات نہیں ہیں جو بھی بات ہے کھل کر بتایں" ایک انسپکٹر نے اسے کہا
ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس کسی کی شرارت کی وجہ سے میں یونیورسٹی کے روم میں لاک ہوگئ تھی" اسنے ان کو تسلی دی
"اوکے رضا صاحب آپ کل پولیس سٹیشن آکر اپنی اف آئی آر واپس لے لیجئے گا" انسپکٹر نے ان سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور چلے گئے
وہ اپنے روم میں بیٹھی تھی جب ماما اندر آئی۔
"انابیہ مجھے صحیح بتاؤ کیا ہوا تھا" انہوں نے پوچھا
پھر اسنے زوریز اور اپنے لیبارٹری میں لاک ہونے کا قصہ بتایا
"اور ماما زوریز ہی مجھے ڈراپ کر کے گیا ہے" اسنے کہا
"اوکے بیٹا ناؤ یو شڈ ٹیک ریسٹ" اس کی ماں اسے نصیحت کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلیں گئں
زوریز جیسے ہی گھر پہنچا اس کے والد سامنے بیٹھے تھے اور ماں پریشانی سے ایک طرف ٹہل رہی تھی_
"آگۓ برخوردار" نظام آفندی نے اسے اندر داخل ہوتے دیکھا تو پوچھا۔
"جی بابا" اسنے کہا
"کہاں تھے رات بھر" انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا۔ نادرہ آفندی نے انہیں دیکھا اور پھر زوریز کو۔
زوریز نے انہیں سارا واقعہ بتایا تو وہ خاموش ہوگۓ
نظام آفندی شہر کے نامور وکیل تھے اور نادرہ آفندی ایک ہاؤس وائف_
ہمم! انہوں نے پر سوچ انداز میں کہا
"بابا میں روم میں جاؤں؟ اسنے پوچھا
"ہاں تم جاسکتے ہو پر آیندہ خیال رکھنا" انہوں نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا
وہ روم میں آیا اسنے اپنا موبائل چارجنگ پر لگا کر آن کیا تو احد کی کئی مسڈ کالز آئی ہوئ تھی اسنے احد کو کال ملائ جو اسنے فوراً ریسیو کرلی_
یار تم کہاں تھے؟ ھم تمہیں اور انابیہ کو یونیورسٹی میں ڈھونڈتے رہیں اور سوچا شاید تم دونوں یونیورسٹی سے واپس چلے گئے یہ تو مجھ پھر انکل کی کال آئی تمہارے لیے اور ادھر سے حنا کو انابیہ کی مدر کی تب ہمیں پتا چلا کہ تم دونوں تو گھر ہی نہیں پہنچے۔ احد نے وضاحت کی_
پھر زوریز نے اسے سارا واقعہ تفصیل سے بتایا
او! یار کس کی حرکت ہوگی یہ؟ اور کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ احد نے تشویش سے پوچھا_
"پتا نہیں فی الحال تو میں تھکا ہوا ہوں سر میں بھی شدید درد ہے مجھے کچھ نہیں سوچنا" زوریز نے اپنے سر کو دباتے ہوۓ کہا
"چل ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں" احد نے کہا اور کال کاٹ دی_____
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ نامور وکیل نظام آفندی کے بیٹے زوریز آفندی اور انڈسٹریلیسٹ رضا حیات کی بیٹی انابیہ رضا کا افیر چل رہا ہے اور ماں باپ کو بتاۓ بغیر ایک رات پہلے اپنے گھر نہیں تھے اور اگلی صبح اکھٹے واپس آۓ ساتھ میں زوریز اور اس کی فوٹو تھی جو کسی نے زوریز کو اس کے گھر ڈراپ کرتے وقت گاڑی میں دونوں کی ایک ساتھ لی گئی تھی__
نظام آفندی نے اسے ہال میں بلایا اور یہ خبر سنائی اس کی ماں بھی موجود تھی
"یہ سب کیا ہے؟ انہوں نے غصے سے پوچھا
"یہ سب جھوٹ ہے بابا ایسا کچھ بھی نہیں ہے" اسنے بات کی نفی کرتے ہوئے کہا
"کچھ تو ہوگا میڈیا والے خودبخود ایسا نہیں کرسکتے" انہوں نے کہا
"بابا آپ کو اپنے زوریز پر یقین نہیں ہے" زوریز ان کے قدموں کے پاس بیٹھ کر ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ اس کی ماں کا دل کانپا
انہوں نے اسے دیکھا اور کہا "اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے تمہیں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں لینا ہوگا۔
اور اسنے حیرانگی سے باپ کو دیکھا۔
"کیا آپ کو اپنی تربیت پر شک ہے بابا" اسنے پھر پوچھا۔
اب تم دونوں کا ایک ساتھ نام لیا جارہا ہے جس میں دونوں خاندانوں کی رسوائی ہورہی ہے اسلئے یہی بہتر حل ہے اور میڈیا بھی چپ ہوجاۓ گی۔ انہوں نے کہا
نظام صاحب یہ آپ کیا کہ رہے ہیں؟ نادرہ آفندی نے اچھنبے سے پوچھا
پر بابا۔ زوریز نے بے بسی سے کہا۔
بس میں نے کہہ دیا ہے سادگی سے نکاح کرکے ولیمہ کرلیں گے میں ابھی رضا حیات سے بات کرتا ہوں۔ انہوں نے حکم صادر کیا__
اور پھر سب کچھ اناً فاناً طے پایا نکاح والے دن زوریز نے تھری پیس سوٹ پہنا تھا جو اس کی وجاہت کو اور بڑھا رہا تھا جبکہ انابیہ آف واءئٹ انگر کھا کے ساتھ آف پلازو اور ہم رنگ ڈوپٹہ سر پر اوڑھے ہوئے تھی اسے حنا نے تیار کیا تھا ریڈ لپ اسٹک لگاۓ بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا اور ماتھے پر روایتی گول ٹیکا تھا اس پر بہت روپ آیا تھا۔
ماشاءاللہ چشم بدور! حنا نے کہا
اور وہ مسکرا بھی نہ سکی اس وقت اس کی ملی جلی کیفیت تھی ایک طرف خوشی کہ اسے زوریز کا ساتھ مل رہا ہے اور دوسری طرف یہ ڈر کہ زوریز اسے قبول کرے گا یا نہیں وہ کسی کہ پریشر میں آکر تو یہ شادی نہیں کررہا۔
"کہاں گم ہو انابیہ؟ حنا نے پوچھا
کہیں نہیں! وہ بولی
پھر نکاح کے بعد اسے رخصت کردیا گیا۔
گاڑی زوریز ڈرائیو کررہا تھا ساتھ اس کے نظام آفندی بیھٹے تھے اور پیچھے انابیہ کے ساتھ نادرہ آفندی بیھٹی تھیں۔ جس وقت وہ گھر پہنچے زوریز کے بہن اور کزنز نے اسے راستے میں گھیر لیا
"واؤ بھابھی آپ کتنی پیاری ہیں" رانیہ نے کہا جو زوریز کی چچا زاد تھی انابیہ اس کی تعریف کرنے پر جھینپ گئی
"کیوں نہ ہو آخر بھابھی کس کی ہے" زوریز کی بہن عشنا نے گردن کڑائ
"چلو اب بس کرو! بھابھی کو بھائی کے روم میں لے جاؤ" زوریز کی چچی نے کہا۔
" آیں بھابھی" پھر عشنا اور رانیہ اسے زوریز کے روم میں چھوڑ گئ۔ اسنے روم کا جائزہ لیا پورا روم ویل ڈیکورٹیڈ تھا ایک ایک چیز اس شخص کی اعلیٰ چوائس کو ظاہر کررہی تھی۔ وہ بیڈ پر آ بیٹھی اور اس کا ویٹ کرنے لگی دل عجیب لے میں دھڑک رہا تھا۔
کیا زوریز خوش ہیں شادی سے؟ اسنے سوچا
جب وہ اندر داخل ہوا انابیہ کی نظریں خودبخود جھک گئ
انابیہ! زوریز نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اسے پکارا۔ انابیہ نے نظریں اٹھائی۔
وہ انابیہ کو دیکھ رہا تھا وہ بلاشبہ بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
ایک لمحے کے لیے وہ بھول گیا کیا بات کرنی ہے۔ انابیہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکی اور نظریں جھکا گئ
اور اپنی چوڑیوں پر ہاتھ پھیرا چوڑیوں کی کھنک سے زوریز کا ارتکاز ٹوٹا_
"تم جانتی ہو انابیہ جس سچوشئن میں یہ شادی ہوئی ہے جتنا مشکل تمہارے لیے یہ ایکسپٹ کرنا ہے اتنا ہی مشکل میرے لیے بھی ہے" زوریز نے ٹھہر ٹھہر کر تمہید باندھی وہ نظریں جھکاۓ بات کررہا تھا اور انابیہ اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اسنے نظریں اٹھائیں۔
"اب جبکہ اللہ نے ہمارا ساتھ لکھ دیا ہے تو میں اس زمہ داری کو نبھانے کی پوری کوشش کروں گا اور کوشش کروں گا کہ تمہیں یہاں کسی چیز کی کمی نہ ہو" اسنے کہا_
"چلو اب تم ریسٹ کرو میں اسٹڈی روم میں سو جاؤں گا" وہ بولا اور روم کے ساتھ ملحقہ اسٹڈی روم میں چلا گیا۔ انابیہ کو اداسی نے گھیرا
"میں جانتی ہوں زوریز میں شاید کبھی بھی آپ کہ آئڈیل نہ بن سکوں" اسنے افسوس سے سوچا اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ پر نیند شاید دونوں سے روٹھ گئ تھی۔
ادھر زوریز اسٹڈی روم میں ٹوسیٹر پر آبیٹھا۔ " یہ مجھے کیا ہو گیا تھا اس کو دیکھ کر میں کیوں بھول گیا سب" اسنے حیرانگی سے سوچا
اور کچھ دیر وہ ایسے بیٹھا رہا پھر اپنا بازو سر کے نیچے رکھ کر چت لیٹ گیاگیا_
"کبھی کبھی زندگی میں کچھ لمحات آپ کو خوشی دے جاتے ہیں اور کچھ اداسی اور کچھ واقعات بعض اوقات ایسے رونما ہوتے ہیں کہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا نہ خوشی ہوتی ہے نہ اداسی بس عجیب سی کیفیت ہوتی ہے جس کو کوئ نام نہیں دیا جاسکتا" _______
جاری ہے